ہمگام کالم : ستمبر 2018 سے جب طالبان بارے امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے اور امن مزاکرات شروع ہوئے ہیں آج تک اس بات کی کسی طرح وضاحت نہ ہو سکی کہ امریکہ نے طالبان بارے کیوں ایک سواَسی ڈگری ٹرن لے لیا ؟ اور جن عام افغانوں کیلئے امن لایا جارہا اُنھیں کیوں شامل نہیں کیا جاسکا یا اس پیش رفت سے کیوں اُنکے تشفی کا سبیل نہ ڈھونڈا جاسکا؟ گوکہ اب بہت دیر ہوچکا اور سب نے اپنی اپنی صف بندیاں کی ہیں اور تمام قوتیں کسی ایک نقطے پر متفق ہونے کے بجائے مزید تقسیم در تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں جو یقینا مستقبل میں ملک اور خطے میں نئی الجھنوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ گویا امریکہ کی یہاں آمدخونریز جنگیں اور بدترین تباہی و بربادی کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ جب امریکہ افغانستان میں آیا تو اس یقین کے ساتھ کہ امن لایاجائیگا لیکن اب جارہا ہے تو اس تذبذب کیساتھ کے میں نکلوں تو کس دروازے سے اور پھلانگوں تو کس کھڑکی سے کیونکہ امریکہ سمیت تمام ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکہ اپنے جانے کے سوچ میں اتنا مگن ہے کہ اُسے مستقبل کے خطرات یا تو نظر نہیں آرہے یا وہ اُنھیں جان بوجھ کر قابل توجہ نہیں سمجھ رہا جو افغان سمیت تمام ہمسایوں کیلئے قابل تشویش ہے۔ امریکہ طالبان متنازع گفتگواور خطے میں نئے مشکلات کے امکانات: دوحہ میں ہونے والے گفت و شنید سے اس لئے بھی خاص اُمید نہیں رکھی جاتی کیونکہ جو افغانوں کو امن کے یک نکاتی ایجنڈے پر یکجا نہ کرسکاجس سے افغانستان میں انارکی پھیلنے کیساتھ روس و بھارت جیسی علاقائی قوتوں کے تشویش میں اضافہ ہونا لازمی امر ہے اور اُنکے پاس اس سوال کا ممکنہ جواب بھی نہیں کہ طالبان کیساتھ بات چیت کامیاب ہونے کے بعد اُن باتوں پر کتنا عمل درآمد ہوسکے گا جن پر ابھی آمادگی ظاہر کی جارہی ہے اور اگر بات چیت ناکام ہوتے ہیں تو صورتحال مزید کس حد تک بگڑے گی؟ کیونکہ موجودہ افغان حکومت دونوں صورتوں میں کھیل سے باہر ہے اور جہاں تک مذکورہ گفت و شنید میں موجودہ حکومت کے اعتماد میں لینے کی باتیں ہیں اُن میں زرا بھی حقیقت نہیں۔اگر موجودہ حکومت کے رضامندی کی باتیں سچ ہوتیں تو وہ ماسکو،اسلام آباد و دوحہ گفت وشنید کے دؤراں یہاں کابل میں نئے جرگے کا انعقاد نہ کرتے۔ افغانستان میں امن کے بارے جن اہم نکات مثلاًافغانستان سے خارجی افواج کا انخلا پر سب کا اتفاق، طالبان افغان حکومت سے براہ راست بات کرنے کی ضرورت پر زور، ممکنہ افغان صدراتی انتخابات میں تاخیر،تمام شرکاء کا فوری جنگ بندی کو یقینی بنانا، افغان مسئلے پر تمام خطے کے قوتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا، افغان سرزمین سے داعش والقاعدہ کی بے دخلی اوردہشتگردی کی بیخ کنی، افغانستان سے ڈرگ ٹریفکنگ کا خاتمہ، افغانستان کی سالمیت کو برقرار رکھنے پر اتفاق جیسے نکات پر روس امریکہ و چین کا اتفاق بظاہر بہت بڑے بریک تروکے آثار کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، مگرافسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ مذکورہ بالا تمام نکات میں سے صرف دو نکات افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اور افغان صدارتی انتخابات میں تاخیر پر امریکہ کا مشروط اختیار ہے اور ایک نکتہ افغانستان کی جغرافیائی سالمیت کا سوال آج تک کبھی بھی شدت سے نہیں اُٹھا ہے باقی کسی ایک نکتے پر امریکہ سمیت کسی بھی فریق کے اثر انداز ہونے کے امکانات صفر کے برابر ہیں۔اول الذکر دونکات نہ صرف مسلے کا حل نہیں بلکہ خود نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب ہیں۔جبکہ دیگر نکات ڈرگ ٹریفکنگ پر کنٹرول، امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں داعش وغیرہ کا خاتمہ،خطے کے ممالک کے درمیان افغان امن بارے ہم آہنگی پراگر امریکہ اثرانداز ہوسکتا تھا تو آج اُسے طالبان سے بات چیت کرنے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔امریکہ 2001 سے آج تک اپنے تمام لاولشکر اور بین القوامی حمایت سے افغانستان میں موجود ہوتے ہوئے یہ کارنامہ خود انجام نہ دے سکا اب یہ تمنا اُس قوت سے رکھنا کہ جس نے انہی سے فاہدہ اُٹھا کر اُسے اپنے بارے میں رائے تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے دانشمندانہ پُراُمیدی معلوم نہیں ہوتا۔جبکہ امریکی افواج کیلئے حالات ساز گار کرنے کیلئے پہلے جنگ بندی اور افغان حکومت سے طالبان کی براہ راست بات چیت جیسے نکات امریکہ کا اپنے لئے خود جال ہے کیونکہ طالبان کیلئے امریکی افواج کے انخلا کیلئے ایک ڈگری نیچے آکر کچھ وقت کیلئے جنگ بندی کرنا اور حکومتی ارکان کیساتھ براہ راست بیٹھ کر بات کی یہ خانہ پُری بھی کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔مگرتادم تحریرطالبان امریکہ کایہ نمائشی و ہرلحاظ سے فقط اَنا کی تسکین کامطالبہ بھی قبول کرنے آمادہ نظر نہیں آتے۔ کمزور جرگہ: حکومت کی طرف سے بلایا گیالویہ جرگہ ہمیشہ اہمیت کا حامل رہاہے اور افغانوں نے اپنے تمام تر قومی معاملات جرگہ کے زریعے حل کئے ہیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر گذشتہ ایک سال سے اس کے انعقاد کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی مگر جب حکومت نے اس کا اعلان کیا تو وہی قوتیں اسکی مخالفت میں صف آراء ہوئے جوسب سے زیادہ اس کے انعقاد کو لازمی قرار دے رہے تھے۔حکومت مخالف اور حکومت میں شامل بعض قوتوں کی مخالفت نے یقیناًدشمن کا کام آسان کیا اور اُنھیں یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ افغان عوام کامشترکہ فیصلہ اس لویہ جرگہ کے فیصلوں کی توثیق نہیں کرتا۔وجہ کچھ بھی ہو وضاحتیں کیسی بھی ہوں لیکن ایک بات بالکل واضع ہوگیا کہ امریکہ کے اتحادی آپس میں ایک رائے نہیں رکھتے یاوہ اس ضمن میں اپنے صفوں میں اتحاد دکھانے کامیاب نہیں ہوئے جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستانی حمایت یافتہ اور امریکہ کو یہاں سے باہر نکالنے کی خواہشمند قوتیں طالبان کی شکل میں متحد اور اپنے فیصلوں میں یکسو دکھائی دئیے حالانکہ اُنکے درمیان زبردست اختلافات ہے اور وہ تین واضع گروپس میں تقسیم ہیں مگر وہ سب امریکہ کے انخلابارے متفق ہیں اس لئے اُنھوں نے اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر بڑے مقصد کیلئے یکجہتی کا اظہار کرکے اپنے سیاسی پختگی کااظہار کیا جو یقینا امریکہ اور اُنکے اقتدارمیں بیٹھے دوستوں کیلئے نیک شگوں نہیں۔ متنازعہ گفتگو: دوحہ میں امریکہ طالبان مزاکرات کے نتیجے میں یہاں پانچ متحارب گروپ امریکہ، طالبان،داعش،حکومت اور حکومت میں شامل کچھ عناصر اور اپوزیشن لیڈرشپ۔طالبان کے علاوہ جو اقتدار پر قبضہ کرنے کمربستہ نظر آتے ہیں باقی تمام اپنی بقا ء یا اَنا کی جنگ لڑنے کی سعی الاحاصل میں لگے تشکیل پاگئے۔ اُسکی وجہ اُنکی ناکامی نہیں بلکہ امریکہ کی نفسیاتی شکست کا اظہار اور ہرحال میں یہاں سے نکلنے میں عجلت کاتاثر ہے۔برسراقتدار حکمران جنہوں نے 3200مندوب کا لویہ جرگہ بلاکر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اُنکے پیچھے اقتدار میں شامل اکثریت اور سیکورٹی فورسز ہیں کیونکہ امریکہ کے یہاں سے جانے کے بعد غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہونے صورت میں سب سے زیادہ وہی متاثر ہوں گے۔انکے ساتھ خواتین اور نوجوان طبقہ بُری طرح متاثر ہوں گے جو امریکہ کے آنے کے بعد آزادی کا سانس لینے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے۔ دوسری طرف طالبان کا ایک بہت بڑا حصہ جوافغانستان میں پاکستانی مداخلت کے خلاف ہے اور اب وہ امریکہ کے انخلا میں رکاوٹ پیدا نہ ہونے کے مصلحت کے تحت خاموش ہیں بعد میں یا تو الگ اعلان جنگ کریں گے یا پہلے سے موجود داعش سمیت کسی دوسرے تنظیم کے چھتری تلے جمع ہوں گے جبکہ داعش پہلے سے کئی زیادہ مضبوط ہوکر سراُٹھائے گا کیونکہ اس وقت وہ ہزاروں کے حساب سے پاکستان کے راستے افغانستان داخل ہورہے ہیں جبکہ امریکہ اور بھارت طالبان کیساتھ ملکر یا کسی دوسرے کے ساتھ ملکر طالبان کے خلاف صف آراء ہوں گے کیونکہ یہاں نظام کی تبدیلی کیساتھ سب سے پہلے اُنہی کے سیاسی،اقتصادی اور اسٹرٹیجی مفادات کو کاری چوٹیں لگیں گی۔ جہاں تک افغانستان میں امن لانے اس ریجن میں تمام قوتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے،ڈرگ ٹریفکنگ کے کنٹرول اور افغانستان کو خطے کے ممالک خاص کر روس و سینٹرل ایشیئن ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کا سوال ہے وہ پوراہوتا ہوا نظر نہیں آتا بلکہ بادی النظر میں ایسے لگتا ہے کہ یہ ساری صف بندیاں افغانستان میں انارکی پھیلانے اور سینٹرل ایشیا سمیت روس تک آگ کے شعلوں کو ہوا دینا ہے۔ حرف آخر: جس طرح امریکہ کا عجلت میں افغانستان سے نکلنا مسلے کا حل نہیں عین اسی طرح یہاں مستقل رُکنا بھی مسلے کا حل نہیں لیکن دونوں صورتوں میں لازم ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔اور افغانستان میں امن اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک امریکہ و دنیا کی بڑی طاقتین پاکستان بارے دوہری سیاست ترک نہیں کرتے۔ امریکہ ایک سانس میں کہتا ہے کہ پاکستان افغانستان اور خطے میں دہشتگردی پھیلانے کا زمہ دار ہے اور ہمارے دئیے ہوئے وسائل سے ہی ہمارے سپاہیوں کو افغانستان میں مرواتا رہا ہے دوسری سانس میں اُسے اپنا اتحادی کہے۔ایک طرف قوموں کے آزادی و خودمختاری وسیکولر اقدار کا چمئین کہلائے دوسری طرف بلوچوں کے قومی حقوق کی جدوجہد میں اُنکے خلاف پاکستان کی بربریت و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چھپ سادھ لے کسی طرح بھی اُنکے اپنے حق میں نہیں جاتا۔ اُن کا یہی تذبذب اُن کے اتحادی افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف ٹھوس قدم اُٹھانے ہمیشہ مانع رہی ہے جوپاکستان جیسے شرانگیزریاست کو قابو کرنے میں مددگار بلوچ قوم کی مناسب مدد نہ کرسکے ہیں حالانکہ اس حقیقت کو جاننے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ اگر بلوچ قومی جہد کی مناسب سفارتی،اخلاقی اور مالی معاونت ہوتی تو آج نہ امریکہ پاکستانی حمایت یافتہ طالبان کے سامنے لاچار ہوتا اور نہ روس و بھارت اس شش و پنج میں مبتلا ہوتے کہ ایک ملا کو دوسرے ملا کے ہاتھوں مروانے کا تجربہ کہیں غلط ثابت نہ ہوجائے اور آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ کفر کے خلاف لڑنے برین واش طالب،داعشی،جیش محمدی وغیرہ متحد ہوکراپنے توپوں کا رُخ اُس طرف نہ کردیں جہاں امریکہ،روس،بھارت اور مہذب دنیا کیلئے کسی طرح قابل قبول نہیں۔