Thursday, July 4, 2024
HomeHyrbyair Marriافغانستان کے حوالے قابض پاکستانی ریاست ابھی تک اپنے اسٹراٹیجیک ڈیپتھ کی...

افغانستان کے حوالے قابض پاکستانی ریاست ابھی تک اپنے اسٹراٹیجیک ڈیپتھ کی پالیسی سراب سے نہیں نکلا ہے۔ حیربیار مری

لندن (ہمگام نیوز ) بلوچ آزادی پسند رہنما اور فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیارمری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے سرزمین پر حالیہ پاکستانی فضائی حملوں کے بعد اب غیر فطری پاکستانی ریاست افغانستان کو مزید معاشی مشکلات میں ڈالنے اور دباؤ میں رکھنے کے لئے آئے روز افغانستان جانے والی گزرگاہوں کو بند کررہا ہے تاکہ دونوں اطراف رہنے والے افغانوں کی آپسی تجارت اور آمد و رفت کو بند کرکے انہیں مزید مشکلات و دباؤ کا شکار بنایا جائے، افغانستان پر یہ فضائی حملے شاید نئی بات ہو لیکن 1973 میں بھٹو حکومت اور پاکستانی فوج نے چمالنگ اور گردونواح میں فضائی حملہ کرکے ہزاروں بلوچوں کو شہید کیا تھا، ہمارے لیئے یہ نئی بات نہیں ہے، پھر مشرف کے دور میں بھی بلوچ قوم کے خلاف وسیع پیمانے پر سینکڑوں کی تعداد میں فضائی بمباری کی گئی، ابھی حالیہ دنوں ایران اور پاکستان نے دونوں اطرف کے مقبوضہ بلوچستان پر فضائی بمباری کرتے ہوئے بلوچ خواتین و بچوں کو شہید کیا گیا۔

 

افغانستان و بلوچستان پر قابض پاکستانی بمارمنٹ پاکستانی توسیع پسندانہ عزائم کا مظہر ہیں۔

اپنے بیان میں بلوچ قومی رہنما نے مزید کہا کہ نام نہاد ڈیورنڈلائن پر 1600 میل غیر قانونی باڑ لگا کرپاکستان نے دنوں اطراف رہنے والے افغان خاندانوں کو ایک دوسرے سے عملا دور رکھنے کے بعد اب پاکستان کی جانب سے آئے روز افغانستان جانے والی گزرگاہوں کو بند کرکے افغان قوم کی آمد و رفت کو مسدود کرنے کا مطلب معاشی مشکلات کا شکار افغان قوم کو سیاسی و عسکری بنیادوں پر بلیک میل کرکے ان پر مزید دباؤ بڑھانا ہے، ہم دنیا اور اپنے ہمسایوں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مستقبل کے آزاد بلوچستان کے ریاستی خارجہ پالیسی میں ایسی کسی انسان دشمن بلیک میلینگ کی حکمت عملی نہیں اپنائی جائیگی ۔

 

یاد رہے کہ ایسے حربے نئے نہیں ہیں بلکہ ماضی میں غیر فطری پاکستانی ریاست افغان قوم کے ساتھ ساتھ عالمی قوتوں کو بلیک میل کرنے لئے بھی یہ طریقہ کار استعمال کر چکے ہیں جہاں ایک طرف عالمی قوتوں سے اتحادی کے نام پر اربوں ڈالرز اینٹتے رہے اور دوسری طرف انکے خلاف کام کرتے ہوئے ڈبل کراس کی پالیسی اپنائی، پاکستان نے ہمیشہ افغان قوم کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرکے ناقابل تلافی نقصان پہچایا ۔

 

فری بلوچستان موومنٹ کے رہنما نے مزید کہا کہ پاکستان نے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیئے ہزاروں کی تعداد میں افغان لوگوں کو استعمال کرنے کے بعد اب پاکستانی ریاست ڈیورنڈ لائن کے اس پار پشتونستان میں آباد افغانوں کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھ رہی ہے، پاکستان کے زیر تسلط رہنے والے پشتونوں نے ہمیشہ پاکستان کے لیئے اپنا سب کچھ قربان کیا لیکن پشتونوں کے اوپر ریاستی جبر و استبداد، پاکستانی مذموم سیاسی عزائم اور افغانوں کی قومی بنیادوں پر نسل کشی و ٹارگٹ کلنگ کے بعد جب پشتون اسکے خلاف اور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے لگے ہیں تو اب پاکستانی ریاست ڈیورنڈ لائن کے اس پار بسنے والے پشتونستان کے افغانوں کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے ادارہ جاتی پالیسی کی بنیاد پر ان تمام لوگوں کو اہم سول و عسسکری اداروں سے فارغ کررہی ہے جو اپنے آپ کو افغان کہتے ہیں۔

 

اس سے یہی ظاہر ہوتا کہ پاکستان پشتونوں کی افغان شناخت کے ساتھ جڑے رہنے سے کافی خوفزدہ ہے، نام نہاد پاکستانی انتظامیہ کے وزیردفاع خواجہ آصف خود تسلیم کرچکے ہیں کہ انہوں نے اس بات کی منظوری دی ہے کہ تمام افغانوں کو مقتدرہ و سول سمیت تمام اہم عہدوں سے ہٹایا جائے، چونکہ پشتون ڈیورنڈ لائن کے کسی بھی جانب رہتے ہیں وہ بنیادی طور پر افغان ہیں اس بیانیئے سے یہی ظاہر ہوتا ہے ۔

 

پاکستانی پالیسی کلی طور پر افغان دشمنی پر مبنی ہے اور وہ تمام افغان شناخت کے حامل لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، افغان قوم کو اپنی ریاستی مفاد کی خاطر دہائیوں استعمال کرنے کے بعد اب انہیں بلوچ قوم کی طرح مشکوک انداز سے دیکھا جاتا ہے، پاکستانی ریاست چاہتی ہے کہ ایک ایسی فوج کی تشکیل کی جائے جو پالیسی سازی میں خالصتا پنجابی سنٹرک ہو اور اس میں بڑے اور اہم اسٹریٹیجک عہدوں پر تعینات تمام لوگ صرف پنجابی ہوں۔

 

 

قومی رہنما نے حیربیار مری نے مزید کہا کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے روز اول سے بلوچوں نے کبھی بھی پاکستان سے مفاہمت نہیں کی اسی لیئے بلوچ ہمیشہ پاکستان کے لیئے مشکوک رہے ہیں اورپاکستانی مقتدرہ نے بلوچ قومی غلامی کو قائم رکھنے کے لیئے غیر محسوس اور غیر اعلانیہ پالیسی کے طور پر بلوچ قوم کے اوپر پروفیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم کے دروازے بند کردیئے، گو کہ بلوچ قوم کبھی بھی پاکستانی ترقی و تعلیم کا خواہاں نہیں رہی ہے لیکن پاکستان نے بلوچ قوم کو غلام رکھنے کے لیئے بلوچوں کو ایوی ایشن سمیت اہم پروفیشنز پر کبھی بھی آگے آنے نہیں دیا کیونکہ پاکستان کو ہمیشہ یہ ڈر رہا ہے کہ بلوچ اگر اہم ٹیکنیکل پرفیشنز میں مہارت حاصل کرکے ایوی ایشن جیسے ٹیکنیکل عہدوں پر براجمان ہوگئے تو پھر بلوچوں کی ٹیکنیکل بنیادوں پر تربیت و قابلیت قومی تحریک آزادی کے لیئے بہتر راہیں ہموا کرسکتا ہے ۔

 

 

حیربیار مری نے مزید کہا یہ پنجابی ریاست کا خاصہ ہے کہ ہر کسی سے اپنا مفاد نکالو اور اسے ردی کی طرح ٹوکری میں پھینک دو اور ہمسایہ قوموں کو دباؤ میں رکھنے کے لئے بلیک میلینگ کے حربے استعمال کرو، لیکن بلوچ اپنی ریاست کے خود مالک بننے کے بعد ہمسایوں کے ساتھ بقائے باہمی کی بنیاد پر عزت و احترام کا رشتہ برقرار رکھتے ہوئے کبھی بھی ایسے ہتکھنڈوں کا سہارا نہیں لے گی ۔

 

قابض پاکستان کی طرح جس نے ایک طرف بلوچ قوم کے سرزمین کے ایک حصے پر قبضہ کیا ہے اور دوسری طرف افغانستان کو تاراج کرنے لئے ہمیشہ سیاسی و عسکری ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے ہیں ماضی میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا برملا یہ اظہاریہ ہے کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے اس سے یہی حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ قبضہ گیر پاکستان ابھی تک افغانستان کے حوالے سے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور ماضی کی اسٹراٹیجک ڈیپتھ جیسی پالیسیوں سے باہر نہیں نکلا ہے ۔

 

پاکستان کو جب بھی موقع ملا وہ ہمیشہ افغانستان اور بلوچستان پر اپنی سیاسی و عسکری چیرہ دستیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے دونوں قوموں کی قومی طاقت اور اجتماعیت کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہیگی ۔

 

بلوچ سیاسی کارکنوں کو چاہئے کہ بلوچستان اور اسکے ہمسایوں کے بارے علمی بنیادوں پر اپنے آپکو باخبر رکھیں تاکہ انکے لئے یہ تمیز کرنا آسان ہو کہ ماضی سے لیکر ابتک کون سے ہمسائے بلوچ نسل کشی کے بابت ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے ہیں اور کونسے ہمسایوں نے بلوچوں کا مشکل وقت میں ہاتھ تھاما اور انکی قومی حوالے سے سیاسی بنیادوں پر مدد کی۔

 

یاد رہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے تسلسل کے سفر میں ماضی کے تمام مزاحمتی و سیاسی ادوار میں ایران جیسے ملک نے نہ صرف خود مقبوضہ بلوچستان کے اندر بلوچوں کی ثقافتی اقدار پر قدغنیں لگائی اور بلوچوں کا باقاعدہ نسل کشی کرتے رہے جو تاحال جاری ہے بلکہ انہوں نے پاکستانی ریاست کو بھی بلوچ نسل کشی میں معاشی و عسکری بنیادوں پر بھرپور مدد دی لیکن دوسری طرف افغانستان نے ہمیشہ مشکلات میں گری بلوچ قوم کو اپنی کمزور معاشی و عسکری حیثیت کے باوجود بھر پور مدد دی اور ماضی میں بھی نوری نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان نہ صرف امن کے معاہدے ہوئے تھے بلکہ دونوں اقوام بقائے باہمی کے تحت ایک دوسرے کی ہمیشہ مدد کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز