واشنگٹن( ہمگام نیوز )امریکی اور ایرانی حکام نے گزشتہ ماہ عمان میں بالواسطہ بات چیت کی تھی جہاں واشنگٹن نے تہران کو سخت وارننگ دی تھی کہ اگر اس نے یورینیم کو 90 فیصد خالصتا تک افزودہ کیا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایکسیز نے جمعہ کو نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے مشرق وسطیٰ کی پالیسی کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک، اور ایک ایرانی وفد جس میں ایران کے چیف جوہری مذاکرات کار علی باقری کانی بھی شامل تھے مئی کے اوائل میں عمان میں موجود تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ براہ راست ملاقات کرنے کے بجائے دونوں فریق الگ الگ مقامات پر رہے۔ اس دوران عمانی حکام پیغامات کے تبادلے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ثالث کے طور پر کام کر رہے تھے۔
امریکہ کی طرف سے ایرانیوں کے لیے ایک اہم پیغام ڈیٹرنس پر مرکوز تھا جس میں واشنگٹن نے واضح کیا کہ اگر ایران نے 90 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے کا انتخاب کیا تو اسے “بھاری قیمت” ادا کرنا پڑے گی۔ یاد رہے 90 فیصد یورینیم افزدوگی ایٹم بم بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان بالواسطہ بات چیت کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام، خطے میں ایران کے طرز عمل اور یوکرین کے تنازعے میں اس کی شمولیت کے متعلق “افہام و تفہیم” تک پہنچنا تھا۔
واضح رہے یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں گزشتہ سال سے تعطل کا شکار ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ایران کو اس کے جوہری پروگرام پر سخت مگر عارضی پابندیوں کے بدلے بین الاقوامی پابندیوں سے نجات کی پیشکش کی گئی تھی۔ 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔