غالباً “انتظار” صرف چھ حروف پر مشتمل ایک مختصر سا قافیہ ہے—محض ایک لفظ—جو زبان پر بلا جھجک مچلتا ہے اور قرطاس پر باآسانی رقم ہوسکتا ہے۔ نہ اسے سننے میں کوئی کلفت ہے، نہ ادا کرنے میں کوئی دقت۔ لیکن اس لفظ کے پیچھے چھپا درد کسی نے اس ماں سے پوچھا ہے جو برسوں، مہینوں، اور کئی دنوں سے ایک شکستہ دروازے پر کھڑے ہوکر کسی کی راہ تک رہی ہے؟ جس کی آنکھیں ایک ہی چہرے کی جستجو میں دن رات جاگتی ہیں؟ جو ایک سنسان راستے پر کسی کے لوٹ آنے کی منتظر ہے؟

کیا ہم نے کبھی اس لفظ کا مفہوم اُس ماں سے پوچھا جو برسوں سے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے دربدر ہے؟

کیا ہم نے کبھی زاکر مجید اور راشد حسین کی ماں سے دریافت کیا کہ “انتظار” کتنا کربناک ہوتا ہے؟

وہ درد، وہ اذیت جو وہ اپنی آنکھوں سے رواں اشکوں کے ذریعے بیان کرتی ہیں، ہم نے کبھی محسوس کیا؟

وہ داستانِ غم جو لاپتہ سعید اور نورالحق کی ماں اپنی لرزتی زبان اور بےربط فریادوں سے سناتی ہے، ہم نے کبھی سنی؟

کبھی ہم نے اس ضعیف ماں کی طرف نظر اُٹھا کر اس پر بیتنے والے ظلم کو محسوس کیا جو سرد راتوں میں ایک لاپتہ بیٹے کی تصویر لیے سڑکوں پر بس ایک صدا لگا رہی ہوتی ہے: “میرے بیٹے کو لوٹا دو، میرے شاہنواز کو لوٹا دو!” کیا ہم نے شاہنواز کی ضعیف ماں سے پوچھا کہ “انتظار” ہوتا کیا ہے؟

کبھی شبیر بلوچ کی ماں سے ہم نے دریافت کیا کہ آپ اندھیری رات کے پچھلے پہر دروازہ کھول کر کیوں دیکھتی ہیں؟ کیوں اپنی نیند قربان کر کے دروازے پر آنکھیں لگائے بیٹھی ہوتی ہیں؟

شاید ہم نے ان ضعیف والد کو دیکھا ہی نہیں جو اپنی بڑھاپے کی لاٹھی کے سہارے ظلمت کی رات میں اپنے بیٹے کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ہم نے فیروز کے والد سے کبھی نہیں پوچھا کہ آپ چار سال سے کس کی تصویر اٹھائے انصاف مانگ رہے ہیں؟ ہم نے بیاندر کے والد کو تو بے سہارا ہی چھوڑ دیا۔ ہم نے کبھی ان سے کچھ نہیں پوچھا جو مشکے سے اوتھل کسی کی تلاش میں آئے تھے۔ ہم نے تو بس ایک دل شکستہ باپ کو فریاد کرتے سنا، دیکھا کہ وہ کس کرب میں مبتلا، مایوسی سے ہاتھ زمین پر مار کر خدا سے کچھ مانگ رہا ہے۔ پر ہم نے یہ نہ پوچھا کہ اس کے بیٹے فتح میار کی گمشدگی کے بعد اس بوڑھے باپ کا ہر لمحہ کیسے گزرتا ہے؟

کیا انتظار واقعی دردناک ہے؟

ہم نے سائرہ کی آنکھوں میں وہ درد دیکھا، جو چھ سال سے دو لاپتہ و گمنام تصویریں لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ آخر وہ کس کا انتظار کر رہی ہے؟ کون سی امید اسے زندہ رکھے ہوئے ہے؟

سیما کس کے لیے اشک بہا رہی ہے؟ کس کی تلاش میں ہسپتالوں میں مسخ شدہ لاشیں تک دیکھنے پر مجبور ہے؟

ہم نے رحیم الدین کی بہن سے یہ تک نہیں پوچھا کہ نو سال سے وہ کس کے لیے گھر کی چوکھٹ پر نظر جمائے بیٹھی ہے؟ وہ لمحہ کتنا بھاری گزرا ہوگا جب نو سال انتظار کے بعد بھی بھائی نہ ملا پر والد کی جدائی نے اُس کے دل کو اور توڑ دیا؟

حسیبہ قمبرانی کیوں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے؟ کس سے اور کیوں انصاف مانگ رہی ہے؟ کس کے لیے قلم قرطاس پر رکھ کر “انتظار” جیسے کربناک لفظ کو بار بار تحریر کرتی ہے؟

آخر اس لفظ کے پیچھے وہ کون سی داستان ہے جو ہر زبان پر، ہر تحریر میں، ہر آنسو میں، ہر فریاد میں، اور ہر صدا میں بازگشت بن کر سنائی دیتی ہے؟

ہم نے سمی دین کو پندرہ سال سے ظلم و بربریت کا شکار دیکھا، زندانوں کی تاریکیوں میں اس کے ہاتھوں میں زنجیریں اور ہتھکڑیاں دیکھی۔ ہم نے مہلب کی مغموم آنکھیں دیکھیں، لیکن کبھی یہ نہ پوچھا کہ باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی کیسی لگتی ہے؟ پندرہ سال کا انتظار کیسا ہوتا ہے؟

میں نے شاید حدیبہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو،

پر کیا میں نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ وہ اپنے والد ظہیر بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کیوں کرتی ہے ؟

کیا انتظار کرنا واقعی اتنا مشکل ہے؟

ہم نے صدف امیر سے نہیں پوچھا، نہ کمبر زاہد سے کہ “انتظار ہوتا کیا ہے؟

میں نے اس ننھے، معصوم بچے کو سنا جو اپنے بابا کو پکار رہا تھا اس کی آواز میں وہ درد محسوس کیا، جب وہ پہلی بار بول پڑا: “اے خدا، میرے بابا کو لوٹا دو۔” میں نے اس کی معصوم آنکھوں میں “انتظار” کے ٹوٹتے لمحے دیکھے، پھر اگلے ہی لمحے امید کے ساتھ کہہ دیا: “میرے بابا آئیں گے، ان شاء اللہ۔” پر میں نے ڈاکٹر عبدالحئی کے چھوٹے بیٹے یاگی سے نہیں پوچھا کہ “کیا تم نے کبھی اپنے بابا کو دیکھا ہے؟ کیا تم کبھی ان کی گود میں سوئے ہو؟ کبھی ان کی خوشبو محسوس کی؟” پر کیسے کرتا؟ اس کے بابا تو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی زندانوں کی نزر ہوگئے۔

میں نے گہرام اسحاق کی ماں کو دیکھا تک نہیں، اس کی بہنوں کی فریادیں سنی تک نہیں، جو پچھلے 19 دنوں سے ایک ہی راہ تک رہی ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہ پوچھا: “اے بے بس ماں، کیا آپ بھی ان راہ تکتے ماؤں میں شامل ہو چکی ہیں؟ کیا آپ بھی انتظار کے قافلے میں شامل ہو گئی ہیں؟

لیکن میں نے ایک ماں سے استفسار کیا۔

میں نے پوچھا:

انتظار کیا ہوتا ہے؟

تب اس ماں کے ٹپکتے آنسو اور بدلتی آواز نے سب کچھ ایک لمحے میں کہہ دیا، جیسے ایک چڑیا اپنے بچوں کو گھونسلے میں محفوظ رکھ کر خوراک کی تلاش میں جاتی ہے، تب وہ چھوٹی چڑیاں کس قدر بھوک کی حالت میں بلکتی اور چہچہاتی ہیں، پر ان کی ماں لوٹ کر نہیں آتی کیونکہ وہ کسی تیر کا شکار ہو چکی ہوتی ہے۔ تب ان چھوٹے پرندوں پر وہ لمحہ کیسا ہوتا ہوگا جب وہ بے سہارا ماں کی راہ تک رہے ہوتے ہیں، پر وہ لوٹتی نہیں؟ ان کا بلک بلک کر مر جانا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔

انتظار اس درد سے بھی زیادہ دردناک اور کربناک ہے، جب ایک ماں نو مہینے اپنے بچے کی پرورش اپنے بطن میں کرتی ہے کہ وہ ایک دن اپنی ماں کے نازک ہاتھوں میں ہوگا، پر پیدا ہوتے ہی بچے کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ تو وہ زخم کس قدر گہرا ہوتا ہوگا؟

اس ماں کے چند بکھرے الفاظ شاید سمیٹنے میں بہت مشکل ہوں، جب وہ لرزتی آواز سے ایک جملہ ادا کر رہی تھی: “میرا بیٹا کہاں ہے؟ میرا جاوید کہاں ہے؟”

جی ہاں! وہ جاوید جو تعلیم کے حصول کی خاطر اپنے علاقے، ماں، بہن اور بھائیوں کو خیر آباد کہہ گیا۔ وہی جاوید جو کتابوں سے عشق کی پاداش میں آج زندانوں میں مقید ہے۔ وہی جاوید جو قلم سے عشق کر بیٹھا۔ وہی جاوید جو مظلوموں کی آواز بنا۔ ایک رہبر و رہنما بنا۔ ظلم کے سائے تلے تربیت پائی۔ جو ہر طالب علم کے لیے مشعل راہ تھا۔ وہی جاوید زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ وہی جاوید آج تاریکی میں قید ہے۔

اے ظالمو! کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ قلمکار کو تم زیادہ دیر تک کوٹھڑیوں اور زندانوں میں قید نہیں رکھ سکتے؟ کیونکہ کتابوں کے شیدائی کو قلم کی جنبش اور کتاب کی اہمیت ہی واپس لاتی ہے۔ ان کی دھول اور دھویں سے لپٹی ہوئی کتاب اور اس کی تحریر، الفاظ ہی ان کی آواز ہوتے ہیں۔ کیونکہ نہ تو کتاب اور نہ ہی قلم اس قدر کمزور ہیں کہ اپنے شیدائیوں کو آزاد نہ کر سکیں۔

چیئرمین جاوید بلوچ کی کھلی کتاب خود ایک مزاحمت کی صدا ہے۔ وہ قلم، جسے ظالموں نے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا، وہی قلم ہر ظلم کا حساب لے گا۔ چیئرمین جاوید پر ڈھائے گئے ہر ظلم اور ہر جبر کا حساب ضرور لیا جائے گا۔

کیونکہ چیئرمین جاوید مزاحمت کا مرکز ہیں۔

چیئرمین جاوید مزاحمت کا ایک رنگ، ایک جذبہ ہیں۔

چیئرمین جاوید ایک صدا ہیں، ایک پکار ہیں۔

وہ تاریکی میں جلتی ہوئی ایک روشن شمع ہیں۔

چیئرمین جاوید خود مزاحمت کی پہچان ہیں۔