رپورٹ ــ آرچن بلوچ زاھدان (ھمگام رپورٹ) حکمرانوں کے سخت دھمکیوں کے باوجود ایران میں ملا رجیم کے خلاف طلباء اور عام عوام کا حتجاج بدستور جاری ہے۔ طلبا اورعوامی مظاہروں پر پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے خونی حملوں کے باجود ایران میں مظاہرے تمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، سوشل میڈیا پرشائع ہونے والے آج کے ویڈیوز اور رپورٹوں کے مطابق استبدادی نظام سے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصادق طلبہ نے تبریز یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز آزاد سنندج یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف بلوچستان سمیت درجنوں یونیورسٹیوں میں احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ جندیشاپور یونیورسٹی، تہران پولی ٹیکنیک، نیشنل یونیورسٹی آف ایران اور رشت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے طلباء نے بھی رجیم کے سرنگونی کے مطالبے کرتے ہوئے احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ ایران کی بیشتر یونیورسٹیز میں یہ نعرہ لگایا گیا کہ ’’ہمیں بچہ کش حکومت نہیں چاہیے‘‘ـ جبکہ دوسری طرف امریکہ اور عرب اتحاد مٰیں شامل ایران کے ہمسایہ ممالک خاص کرخلیجی ممالک ایران کی صورتحال پرخاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ بلوچستان کو فوکس کرتے ہوئے سعودی عرب کی میڈیا نے بلوچ اکٹیسوسٹ کمپین کے حوالے رپورٹ دی ہے کہ بلوچستان کے انسان حقوق کے تنظیموں نے کہا ہے کہ قابض ایرانی فورسس نے پروین اعتصامی سیکنڈری اسکول کی ۱۴ سالہ بلوچ لڑکی پارمیس ہمنوا پر تشدد کرتے ہوئے اسے اس لیے قتل کیا کیوںکہ انکی کتابوں سے خامنئی کی پوٹوکا ایک ٹکرا ملا تھا جسے احتجاج کے دوران پھاڑ دیا گیا تھا۔ ناک میں زیادہ خون بہنے کی وجہ سے وہ ایرانشھر کی اسپٹال میں دم توڑ گئی۔ ایرانی رجیم کی سفاکیت حوالے امنسٹی انٹرنشنل نے جمعہ کے دن اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایران پر فیصلہ کن ایکشن لیا جائے۔ الجیریا میں حالیہ ہونے والے عرب یونین کے سربراہی اجلاس میں یونین کے اسسٹنٹ سکریٹری جرنل نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور ترکی عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں اپنا مداخلت بند کردیں۔ عرب میدیا نے خبردی ہے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنت میں ایران کے لیے امریکہ کی خصوصی ایلچی رابرٹ میلے نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو جو بائڈن عسکری قوت استعمال کرنے کی اپشن پر غور کریگی۔ یاد رہے عالمی پیمانے پر ایران کے خلاف احتجاج جاری ہیں، ان احتجاجوں میں عرب کرد اور بلوچ بھی شامل ہیں جوکہ علیحدہ طور پر اپنی آزادی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ بلوچ عوام نے دوسرے محکوم اقوام کے ساتھ بھرپور پرامن اندازمیں ایرانی استبدادی ملا رجیم کے خلاف احتجاج کیا جس کے نتیجے میں سو سے زیادہ بلوچ شھید ہوئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان احتجاجوں کے پیچھے ایرانی استبدادی قوت کو بلوچستان سے بے دخل کرنے کیلئے بلوچستان آجوئی اور بلوچ اکٹیوسٹ کمپین نامی تنطیمیں پھرپور کردار ادا کررہی ہیں۔