جذبات اور جذباتیت میں شاید اس باریک سی لکیر کاادراک کوئی اعلئ شعور انسان کرسکے۔ البتہ، اس کے پہلو سے خود کو کسی حد تک واقف کرنا اولین فریضہ ہے۔
بلوچ کاز پہ اگر بائبل لکھا جاہے بھی تو کم پڑجائے یا اتنے قربانیوں کا ذکر ہمارے اوقات سے باہر ہے خیر پھر بھی ایک حد تک جاتے ہیں وقت کی کیفیت کے ساتھ۔۔۔بات کرتے ہیں انسان کے چھپے پہچان کی۔۔۔پہچان جس کو انسان انفرادیت پہ اکثر لے کر نرگسیت پسندی یا آخری حد تک نرگسیت کم تری کا شکار لازم بن جاتا ہے۔۔۔شناخت انسان کی کمزوری میں شاید جسمانی ضرورت یا جنسی ضرورت سے زیادہ (خودی) کا پہلو رکھتا ہے۔۔۔اکثر (میں) کو (ہم) سے زیادہ فوقیت دینا نفسیاتی طور پہ لذت اور سکون کا حصول بن جاتا ہے۔ بلوچ معاشرہ اس باب میں شاید ہی کبھی پیچھے ہٹا ہو۔ جب بھی انفرادی سوچ کو اجتماعی شناخت پہ وزن دیا گیا ہو تو انفراد نے اپنے شخصی شناخت پہ اجتماعی اصولوں کا جنازہ نکالا ہے۔
سات ہزار سپاہیوں کے کہانیوں سے لے کر بلوچوں کے فدائیوں کی سوچ تک، ہر ایک حصے میں بلوچ کی سوچ کو نام اور نامی انداز میں ہیروازم کے ساتھ جھوڑا گیا۔
استاد اسلم جو 23 سال تک جنگ میں کامیاب رہے اور ایک گمنام سپاہی کے طور پہ لڑتے رہے اور مجال کے ان کا کوئی تصویر عام ہو پر ان کو بھی شہادت سے پہلے بخشا نہیں گیا۔۔۔خلیل جان (استاد کے بھائ کے بیٹے) کوئٹہ کے محاذوں پہ کامیاب حملے کرتے اور گم نام رہے اور امر ہوگے مگر اج تک خودی کے شکار نہیں ہوئے ۔۔۔زبیر جان جب بی ایس او کے کامیریڈز ان پہ فتوی لگاتے کہ بلوچ کے نام پہ دبہ ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئٹہ کا کماندان ہے تب جب سانس نکل جاتی ہے۔۔۔تو اب کیوں بلوچ میں نامی سیاست نے پروان چڑھا۔۔۔
نامی کماندان اور جذبات کے پہلو کہاں سے آگہے۔۔۔شاید جنگی تنظیم بھی سٹوڈنٹ تنظیم کی طرح طرز بنا چکے تھے۔۔۔اور اس طرز نے جنگی اصولوں کو بھی سطحی نظریات میں تبدیل کردیا۔۔۔اکثر جنگی لیڈرشپ کو نامعلوم ہونا پڑتا ہے تاکہ انفرادی نقصان کی صورت میں اجتماعی نقصان کم سے کم ہو اور فقط نقصان ہی نہ ہو۔۔۔پر خود کو ظاہر کرنا اور لیڈرشپ کی شکل میں انفرادی طور پہ چہرہ بن جانا( گ بلوچ )بن جاتا ہے اور مکمل طور پہ تنطیم کو اپنے ساتھ بہا لیجاتا ہے۔ ۔۔۔جو انفرادی قوت تو بن جاتا ہے پر اجتماعی ماتم نکالتا ہے۔۔۔۔ مجھے فقط ان کی قربانیاں کسی مومن کی ایمان سے کم نہیں لگتے البتہ ٹریڑیشنل وارفیر کے اصولوں کے خلاف ہے.
عوامی طور پہ چند تنظیموں کے مکمل کماندان عوام کے سامنے مشہور ہے ، کوئی شاعری کرکے، تو کوئی عوام میں identity and face revealing کرکے۔ مثال کے طور پر مستونگ میں کچھ نوک نوجوان کسی شادی کی تقریب میں بلا وجہ آہے، چہرے کھلے تھے اور ہیرو بن کے نکل گیے، دلہا اور ان کی فیملی بغیر بلاہے مہمان کے stunt کا شکار ہوگیے، اور social media platform میں وہ جزباتی پاو کم نیم اور superiority complexity فل ٹاہم بچے مشہوری پہ آ گئے.
اسی طرز پہ جب لیڈرشپ کے تنظیمی سٹریکچر میں آگر نام باہر اچل کے آنا شروع ہوجاہے تو ہر عام و خاص بندہ ان کے چہرے اور نکل حرکت سے باخبر رہتے ہے اور جان جاتے ہے کہ اصل اور پنام کون اور کہاں رہتا ہے، اس کی وجہ سے ریاستی ادارے پروپیگنڈا اور ان کو آرام سے ٹارگٹ کرسکتے ہیں۔
استاد اسلم کراچی میں کماندان ہوکے بھی سرعام گھما کرتے تھے مجال کے ریاست کو ذرہ سی بنک پڑتی مگر جب تنظیم کو دو لخت کرنے والے ان کے تصاویر شائع کرتے ہی استاد اسلم جیسا اعلی مہارت آفتہ کماندان بھی اس سے بچھ نہ سکا،عام لوگ کماندان کے face identity سے واقف ہوگیے تھے اور خطرات ان کے فیملی تک جاپہنچے۔
بلوچ کو چاہیے کہ سرپیس پولیٹکس میں اگر لیڈر ایک انارکیسٹ کریکٹر V for Vendetta مووی کا کردار ادا نہیں کرسکتا تو کم از کم اس کردار کو جنگی لیڈرشپ میں آپنایا جاہے، ایک کماندان اس وقت تک گمنام رہے جب تک تنظیم اسے میدان جنگ مین شہادت اور القاب سے نہ نوازے۔
اس وقت عام عوام دو تنظیم جو نمود و نماہش کے شوقن ہیں، کے ا ہر کماندان کو social media کے فلیٹ فارم سے جانتا ہے البتا (کوہی بلوچ) کا پروپیگنڈہ بھی ریاست کے اسی پہلوؤں کی ایک کڑی تھی۔ بلوچ کے تنظیمی معاملات شاید طریقہ کار کے بنا پہ مختلف ہو تو سمجھ آتی ہے مگر نظریات تو فقط ایک ہی ہے آزاد بلوچستان کا حصول، البتہ طریقہ کار پہ اعتراضات ایک اچھا پہلو ہے۔
آزاد بلوچ کون ہے یا اس کے جنگی سٹیکچر سے عام عوام واقف ہیں یا جنگی کماندان سے، تو جواب منفی میں آتا ہے البتہ سیاسی طور پہ سنگت حیربیار مری سے جھوڑتے ہیں ، اکثر اس طرز کے ازیمٹکرک وارفییر کے فلیٹ فارمز دوراندیشی کے حد تک چلتے ہیں۔ اور جنگی حوصلوں کے ساتھ سیف گارڈنگ کے پیمانے پہ اترتے ہیں۔ وگرنہ اصول صرف اور صرف نقصان دینا ہو چاہے اس میں اپنے لخت جگر درجن بھر فداہین شہید ہو صرف لاہور کے کچھ کالے پنجابی افواج کو مار کر تو بلوچ بظاہر تو خوف پھیلا رہے ہیں مگر جنگی اصول میں نقصان زیادہ اٹھا رہے ہیں ،
اگر بات بے رحم جنگ اور سب کچھ ایک وقت میں قربان کرکے ٹارگٹ کا حصول ہے تو Srilankan struggle سے زیادہ Lethal warfare شاید ہی اس خطے میں کسی نے کی ہو۔ ماڈرن وارفییر میں اسرائیل کے اوپر Unbalance non-state Brlitkriez warfare کی صورت میں حماس نے شاید عالمی سطح پہ شہرت حاصل کی مگر نقصان زیادہ تر پھر بھی انکی عوام نے اٹھائے۔۔۔ گوریلا وار میں فاہٹرز زیادہ سے زیادہ سٹیٹ ہیکٹرز کو نقصانات دینا اور کم سے کم نقصان اٹھانے کا پابند ہونا چاہیے جب تک وہ اس قابلیت پہ نہ اترے کہ کچھ علاقے ان کے کنٹرول میں نہ ہو یا کوئی Master state فل فلیج سپورٹ نہ دے اور عالمی طرز پہ جیوپولیٹیکل تبدیلیاں نہ آئے۔۔۔ دشمن پہ نفسیاتی ضرب دینا اور اس کی پوزیشن کو زمینی سطح پہ کمزور کرنا ہے۔۔۔
آزادی دو یا تین سالوں کا کھیل نہیں بلکہ نسل در نسل کو اچھے سے اچھے طرز کا سٹریکچر دینے کا نام ہے۔ شاید بابو شیرو سے لے کر استاد اسلم تک وہ سٹیکچر اپنے بہترین پوزیشن اور نظریاتی پختگی حاصل کرچکی ہے اور اب ایک اور wave 5th نے اپنی جگہ لی ہے مگر ہمیں کچھ regional strategies سے فائدہ اٹھا کر اس جنگی پختگی میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا چاہے۔۔۔نہ کہ ایک
پرانے دور کے جنگی اصولوں پہ قائم و داہم رینا چاہے۔۔(اور ان مٹیریل کو پاک اور پتھر کی لکیر سمھجنا چاہیے۔ٹیکنالوجی اور ڈارک ویب سے مفید ہونا چاہے۔۔۔اور generation of warfare and weapons سے اس جنگی ٹیکنالوجی پہ access حاصل کرنا ہوگا جو اس جدید دور کے ہتھیاروں کو مات دے سکے چاہے ڈرون اٹیکز کی حرکات کو جیمز کرنے سے لے کر anti-aircraft اور ساہبیر وارفیر کے حوصلوں کو سمجھنے اور سیکھنے کی حد تک ہو۔۔۔ آنے والے مرحلے میں شاید بلوچ کے پاس اس دور جدید وار فییرز کے weapons کو کاونٹر کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو بلوچ تحریک کافی نقصان سے دو چار ہوسکتی ہیں ۔
بلوچ کو hybrid warfare کے اصولوں پہ (نن ٹریڈیشنل وارفییر ) کے اصولوں کو اپنانا چاہیے، اور ان اُصولوں کے لیے ایک اجتماعی قوت کو مختلف اجتماعی قوتوں کے ساتھ مل کر احتجاج کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ اس عوامی سیول رسسٹینس کو Europe سے لے کر Americas تک مظلوم اقوام کو ایک آواز ہوکر ایک دوسرے کی کاز میں منظم ہونا پڑے گا۔۔۔اس کے لیے بلوچ، پختون، کرد، اور دیگر اقوام کو مبلازیشن کی طرف راغب کرنا ہوگا۔۔۔آس میں ماسٹر سٹیٹز (Master States) کی تعاون بھی لینے پڑے گی جن کی آبادی زیادہ ہو اور ہم درد ہو کر آپ کے تحریک کے ساتھ دے۔۔
البتہ بلوچ کو proxy بنے کے بجائے، ایک فل فلیج سٹیکچر کا ڈیمانڈ کرنا زیادہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ گروی سوچ اور کم ڈیمانڈز پہ زیادہ قربانی دینے کے بجائے، معاشی کمک، defacto embassies کا حصول، عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں میں لیکچر اور پروپیگنڈہ کے مواقع، جنگی اور ٹیکنیکل امداد، اعلئ administrative structure map کا ڈیمانڈ, all types of diplomatic tracks اور جدید آرمز کا حصول تک کا ادراک کرنا ہوگا۔۔۔بلوچ سے زیادہ بلوچ کا جنگ کا فائدہ regional powers کے انٹیریسٹ میں ہے۔۔۔یہ طاقتیں بحرہند کو کسی حال میں کمپرومائز نہیں کرنا چاہتے۔۔۔اگر بلوچ یہ بات سمجھ جاہے تو کوئی بھی طاقت کم قیمت پہ بلوچ کو استعمال کر نہیں پائے گا۔ اور بلوچ دس روپے کے ڈیمانڈز کو ہزار روپے تک پہنچا سکتا ہے، اگر صرف proxy اور violence ہی اصول ہے تو یہ far-sightedness نہیں بلکہ short-sightedness کی نشانی ہے جو صرف violence کو پروان اور آخر میں بلوچ کو شکست سے دوچار کرسکتے ہے۔
۔۔ فل فلیج سٹیرکچر کا ڈیمانڈ شاید دیر تک اصول ء آزادی کا خواب پورا کرے مگر آنے والے نسلوں کے لیے ایک تاریخی فیصلہ ہوگا جو خواب کو حقیقت میں بدلے گا۔۔۔ہم کرد قوم کے سٹریگل سے زیادہ مفید تحریکوں کا حصول کروانے میں بہترین حکمت عملی کرسکتے ہین۔ بلوچ کی زمین بلوچ کا بہترین آزادی کا ساتھی ہے جو دنیا کے بہترین لوکیشن پہ ہونے کی وجہ سے عالمی نظر میں geostrategic stance پہ قائم ہے۔ پر بلوچ کو اس سٹیرٹیجک طاقت کی اہمیت کو سمجھنا
ہوگا اور global and regional powers اقوام کو یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ ہم سے زیادہ اس جنگ کا رک ان کی طرف ہے چاہے وہ چین کے String of Pearl سے لیکر Indo-Pacific Startegy , B3W project اور AUKUS جیسے جنگی مشقیں شامل ہے ان سب کی ڈورے آخر میں آکر بلوچستان سے جوڑتی ہیں۔ بلوچ کو دوراندیشی کا عینک لگا کر ہر فیصلہ mutual benifit کے حوصلوں پہ زیادہ سے زیادہ اپنی سمت کرنا ہے۔ اس میں global یا regional powers کو باور کروانا ہے کہ ہم اس جنگ کے ہر پہلو سے واقف ہے اور اس جنگ کا اصول بلوچ کو صرف میدان تک محدود نہیں کرنا نہ ہی violence and disturbance تک کا entity تصور کرنا ہے بلکہ sum-sum game کا ایک اہم partner سمجھنا ہے اور ایک طرف سے اپنا strategic partner کے طور پہ اپنانا ہے۔۔۔اور ہر رخ سے چاہیے، diplomatic ,technical, diplomatic, defacto recognisation,
public support
think tanks یا
access to influential academia
کا پابند کرنا لازم ہے جو ہر فلیٹ فارم پہ بلوچ آزادی کو مضبوط اور عالمی سطح پہ اجاگر کرتا رہے
انقلاب ،جذباتیت اور نرگسیت پسندی کے اعوان کو پہچے رکھ کہ جنگی، ڈپلومیٹک اور ٹیکنیکل عقلیت پسندی کو جز بناکر پولیٹکل اور ملیٹری سٹریگل کا حصہ بنانا بلوچ تحریک کی روح کو پروان چڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں۔
نوٹ: لکھاری کے موقف کے ساتھ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے