Homeآرٹیکلزانقلابی عمل سے جنگ کی شفافیت تک تحریر : منجرو گٹ

انقلابی عمل سے جنگ کی شفافیت تک تحریر : منجرو گٹ

شروع کے دنوں میں جب BLF کے والی وارثوں کے انقلابی دور کے دنوں میں جب ان کی بندوق کی گولی کارخ صرف اور صرف بلوچ دشمنوں کے سینے کی جانب تھا تو بلوچ قومی تحریک آذادی دن دگنی رات چوگنی حیران کن کامیابی کے منازل طے کیئے ،یہ وہ دن تھے جب BLFاور BLA کے ذمہ داران دونوں ایک ساتھ آن بورڈ تھے ،ان دنوں BLF کے جہد کار سرمچار تھے،نہ کہ تربت واقع سے پہلے تک ہچ مچار.BLFکے جہد کاروں کے سرمچاری سے لے کر ہچ مچاری تک سلسلہ چلتا رہا آخر ایک مرحلہ ایسا آیا جب قوم کے حقیقی انقلابیوں نے BLF کے ہچ مچاری پر سوال اٹھانے شروع کیئے کہ کیا وجہ ہے پہلے آپ کی گولی دشمن کے سینے کوچیرتا تھا اور آج اس کا رخ بزگ بلوچ پر کیوں؟ بجائے یہ کہ انقلابی ساتھیوں کوجوابدہ ہونے اور ڈسپلن کا پابند رہنے،ہوایہ کہ ضدو منفی اناپرستی گروہی مفادات کو غلط اور ناجائز طریقے سے دفاع کرنا شروع کیا گیا،اپنے اس ناجائز ردانقلابی دفاع میں انھوں نے نہ تو شہیدوں کے خون کی برم رکھی، جہدکار سنگتوں کی ماں بہن کی پرواہ کی نہ قوم دوست سنگت حیر بیار کو بخشا،اور نہ بلوچ قوم کی تقدیر کے ضامن عبوری آئین بلوچستان لبریشن چارٹر کو معاف کیاافسوس صد افسوس ان کی انقلابی سوچ سے ردانقلابی عمل تک کی سفر!
بالآخر قوم کے عزت ننگ نا موس کے محافظ BLA کے جہدکار، ہم خیال اور ہمدردوں نے مجبور ہوکر قوم کی عظیم تر مفاد کیلئے جدید دنیا کے سوشل میڈیا کے زریعے قوم کو باخبر رکھنا شروع کیا تاکہ وہ انقلابی BLFجو شروع میں ٹریک پر تھا آج وہ BLA کی تعین کردہ قومی پروگرام کے ٹریک سے نیچے اتر کر یہ ضدی غیر انقلابی ڈرائیور قومی گاڑی کی ٹائر کو غیر ہموار زمین پر دوڑاکر جس سے پتھر اڑ کر مکران کے عام بزگ بلوچ تک کو خون میں نہلادیا ،نوبت یہاں تک پہنچاکہ ان کے اپنے حلقے کے جوان تک محفوظ نہ رہ سکے ،اس ضدی ڈرائیور اور نالائق گنجے لنگڑے کنڈکٹر موالی منشی کے خوشامدی واہ واہ نے ضدی ڈرائیور کی اتنی تعریف کی کہ وہ بالآخر اندھا ہوگیا،اس اندھے پن کے علاج کے کیلئے ان نادان گنجے لنگڑے بونے کنڈیکٹروں اور موالی منشی نے بجائے نظر والی عینک کے سیاہ ڈارک عینک استعمال کرنے کا مشورہ دیاکل تک ہرکوئی اسے اس ڈارک عینک کے ساتھ تصویر لیتا ہوا دیکھا ہوگا،اب اس حالات میں یہ اندھا ضدی ڈرائیور راستے میں لوگوں کو کچلے گا نہیں تو کیا سواریوں کومنزل تک پہنچائے گا.؟ کیا دنیا میں اندھے ڈرائیونگ کی کوئی اورمثال بھی ہے،یا یہ اعزاز صرف بلوچ قوم کو نصیب ہوا، بلوچ کی خوش قسمتی دیکھیں کہ اسے ایک قابل آنکھوں کا سرجن نصیب ہوا،جس نے ہنگامی طور پر فورا ہم خیال رضاکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی .جن کے ہاتھ میں ایک ایسا آدینک اور عینک تمادیا جس سے پوری قوم اپنی عقل کی بینائی کی چیک اپ اور علاج کرواسکے ، جب ان رضاکاروں نے پوری قوم مجھ سمیت کو آدینک دکھانا شروع کیا تو سب کے سب سٹپٹا گئے،آدینک کے دکھانے پر اندھے ڈرائیور کے بونے لنگڑے گنجے کنڈیکٹروں اور موالی منشی سمیت کا کاروبار خطرے میں پڑ گیا،انھوں نے منافع بخش کاروبار کو بچانے کیلئے ہرگر کا سہارا لیا،سرجن کی ذاتی زندگی اور بچپن کو بدنیتی سے چھیڑا کمپنی مالکان کی ذات کو بھی نہ چھوڑا،لیکن مرض کی شدت اور اساسیت کو دیکھ کر سرجن نے مسلسل قومی رضاکاروں کویہ ہدایات دیتے رہے کہ کسی کی خاطر نہ رکھنا ،اپنے اعصاب کو مضبوط رکھنا،اندھے ڈرائیور بمعہ ٹیم کے تم رضاکاروں کے اعصاب کاسخت امتحان ہے،سرجن نے کہا کہ یہاں مجھ سمیت کوئی اہم نہیں،اگر اہمیت ہے تو صرف گاڑی اور سواریوں کے مستقبل کااور قومی کاروبار کے شفافیت کا،ماہر سرجن کے تجویز کردہ اس آدینک نے اندھوں کو روشنی کی ایک کرن دکھائی ،اور آج
بلوچ قوم کو یہ کامیابی مبارک ہو،کہ اندھے ڈرائیور نے ڈارک عینک میں سے معمولی بینائی نصیب ہوا کل جب اس نے گاڑی ڈرائیو کیا تو اس کے پہیوں کے نیچے بلوچ کے20دشمن پنجابی روندہ دیئے گئے.بزگ ٹپی بلوچ سابقہ سواری راستے میں کھڑے خوشی اور خوف دونوں کیفیت میں اندھے ڈرائیور کو ہاتھ ہلاکر واہ واہ کرکے خوب داد دے رہے تھے.کہ شکر ہے اس دفعہ ہم پرمخبری کے قومی تحمت کیساتھ ہماری جان بچ گئی.اور بلوچ کا اصلی دشمن اس کی زد میں آگیا.اس کارنامے کا سہرااور کریڈٹ اندھے ڈرائیورکی ٹیم سے زیادہ قومی سرجن اوررضاکارٹیم کو جاتا ہیں.جس نے ان کی آنکھوں کا آپریشن کیا. اس اہم کامیابی پر قومی رضاکاروں کو بلوچ قوم کو مبارک بادی دینیے میں کنجوسی اور حسد نہیں کرنا چائیے کیونکہ یہ ان کی اپنی محنت کا ثمر ہیں.
آبادکار پنجابی ریاست پاکستان کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہیں.چائیے وہ جس شکل میں بھی ہو.مزدور ڈاکٹر دکاندار حجام وہ صرف اور صرف اپنے زات اور قابض ریاست کے ایجنڈے کا ایک خطرناک اور مضبوط مہرہ ہوتے ہیں.قابض پاکستان آج بلوچ گل زمین پر جتنے بھی میگا استحصالی منصوبے بنا رہا ہے. وہ سب کے سب بلوچ قوم کو دائمی غلامی میں رکھنے اس کی جگہ پنجابی اور ہندوستانی محاجروں کو لاکر ان کی آبادکاری کرنا.اورعیش وحشرت کرنا بلوچ دربدر. آبادکار پنجابی کے برگر بچے پرایویٹ سکول کے بینچ اور سرسبز شاداب ہنستے کھیل کے میدانوں میں. پنجابی دفتروں میں صاحب اختیارداربن کر اور بلوچ پھسگ چوکیدار اور چپڑاسی، پنجابی اچھے بنگلوں میں بلوچ بزگ اپنی پرانی جونپھڑی یا کچے کوٹھی میں.پنجابی نئی ماڈل کے لمبی کاروں میں ہم پرانے بائیسکل میں پنجابی تعلیم یافتہ اور ہم ان پڑھ جاہل،ان کا بینک بیلینس ڈالروں و دینار میں ہم مہینہ کے ختم ہونے پہلے سیٹھ کاقرضدار ارے نا بابا نا. تو بکان قہر او منا مہر بی بیت چوش نہ بیت.
اس 3 سال کے تلخ بحث و مباحثہ کو دیکھ کر وقت و حالات کا انقلابی تقاضہ ہے کہ میں اپنی منفی ضدوانا کی خول سے نکل کر اس انقلابی عمل کی داد دئیے بغیر رہ نہیں رہ سکتا. کیونکہ کل تک ہم ایک تھے آج کے تربت واقعے کی انقلابی عمل کی طرح اگر وہ اپنے اندر انقلابی تبدیلی اسی طرح لاتے رہے اور واپس صحیع ٹریک پر آئے تو کوئی وجہ باقی نہیں رہے گا اس دیوار برلن کو باقی رکھنے کا.

Exit mobile version