ھمگام آرٹیکل

تحریر: عمر بلوچ

انقلاب روس، (روسی زبان) اکتیا برساکایا ( یوولیوشیا ) بالشویک انقلاب، اکتوبر انقلاب یا جسے سوویت انقلاب بھی کہا جاسکتا ہے عالمی تاریخ کا پہلا کامیاب سوشلسٹ انقلاب تھا جو کلاسیکی مارکسسٹ سطور پر استوار هوا. اسے روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے برپا کیا جس کے نتیجے میں یونائیٹڈ سوشلسٹ سوویت یونین (USSR) کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت زار شاهی روس میں نافذ پرانے کیلنڈر کے مطابق انقلابی سرکشی کا آغاز 25 اکتوبر نئے کیلنڈر کے مطابق 7 نومبر کی شام کو ہوا اور بالشویکوں کا اقتدار پر قبضہ 25 اور 26 اکتوبر کے درمیانی رات کو ہوا اس انقلاب کے نتیجے میں پہلی مرتبہ محنت کشوں اور مظلوموں کی حکومت قائم ہوئی اور اس انقلاب، نے پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان واقعات کا براہ راست مشاہده کرنے والے امریکہ صحافی جان ریڑ نے اپنی تصنیف میں انقلاب کے بارے میں لکھا کہ ” کوئی بالشویزم کے بارے میں کچھ بھی سوچے، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انقلاب روس انسانیت کی تاریخ میں عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویکوں کا اقتدار عالمگیر اہمیت کا حامل ہے زار کا روس ایک پسماندہ اور جاگیردارانہ معاشرہ تھا جو جنگ و جدل کے باعث زوال اور انحاط کا شکار تھا اور روس کے سیاه و سفید کے مالک تھے وہ افسرشاہی کے ذریعئے زراعت، تجارت اور ہر قسم کے زرائع کا مختار کل تھے۔ اس جگہ تجارت اور صنعت کا بہت زیادہ ذکر کرنے کی شاید ضرورت نہیں کیونکہ سن 1900 میں روس میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ صنعتی ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے تھے در حقیقت تمام کا تمام ملک زراعت پیشه تھا۔ چند ایک جگہوں پر فیکٹریاں لگ چکی تھیں اور صنعت پیشه مزدوروں کا استحصال بھی ملک کی زرعی زمینوں پر کام کرنے والے کسانوں کی طرح شروع ہوچکا تھا۔روس میں زرعی بیگار یا ” سرفڈم ” کو 1649 میں قانونی تحفظ ملا۔ کسانوں کے لیے جانے کا عمل تو پہلے سے رائج تھا اب اسے قانون کی سرپرستی بھی حاصل ہوگی۔ اگرچه 1861 میں بیگار زرعی مزدوری کا نظام قانونی طور پر منسوخ کردیا گیا تھا مگر اس کے باوجود مزدوروں کے حالات زندگی میں کوئی قابل ذکر بہتری نہ ہوئی انیسویں صدی کے وسط میں ماسکو میں صنعت کاری کا آغاز ہوا۔ وسط ایشیاء کی پیدا کرده کپاس سے ماسکو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا لیڈر بن گیا۔

1900ء تک ماسکو دس لاکھ نفوس کاشہر بن چکا تھا۔ دیہاتی علاقوں سے روزانه لاکھوں مزدور فیکٹریوں میں کام کرنے آتے تھے۔ پیڑز برگ سے انہیں روزی بھی ملی اور حقوق کا احساس اور شعور بھی۔ 1894ء میں آہنی اعصاب کے مالک الیگزینڈر سوم کی اچانک وفات نے اس کے بیٹے نکولس دوم کو روس کا بادشاہ (زار) بنادیا جو ایک کمزور منتظم تھا 1905ء میں مزدوروں کے ایک گروپ نے بادشاہ کو عرض گزاشت پیش کی که ہم سینٹ پیڑز برگ کے باشندے ہمارے بیوی، بچے اور بوڑھے والدین آپ کے حضور انصاف اور تحفظ مانگنے کے لیے آئے ہیں ” اس پرامن ریلی سے سیاسی سرگرمیوں کی ابتداء ہوگئی اور احتجاجی جلسوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 22 جنوری 1905ء کے ایک یخ بستہ اتوار کے روز شهر میں بجلی بند ہوگئی Civic Facilities ختم ہوگئیں ایک لاکھ مزدور ہڑتال پر چلے گئے معروف مسیحی پادری فادر جورتی گیپن جو پادری ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کا ایجنٹ بھی تھا) نے شاہی محل کے سامنے ایک پرامن مظاہرے کا اہتمام کیا۔ جس میں مزدوروں اور ان کے اہل خانہ نے حصہ لیا۔ مظاہرین 8 گھنٹے ڈیوٹی اور مزدوری میں اضافے کا مطالبہ کررہےتھے مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زده ہوگئے۔ انہوں نے خوف زده ہوکر فائرنگ کردی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے” خونیں اتوار “نے بادشاہت کو نفرت کی علامت کے طور پر بنادیا۔ چند سالوں بعد پہلی عالمی جنگ چھڑگئی اور روس بھی جرمنی اور آسٹریا کے خلاف جنگ میں شریک ہوگیا۔ جس نے روس کی معشیت کو مزید برباد اور قوم کو بدحال کردیا۔