تحریر ـ بہرام بلوچ
دل میں ہمیشہ سے لکھنے کی خواہش تھی مگر ہمت نہیں ہوئی، شاید اس ڈر سے کہ کہیں موضوع کے قدرتی تقاضوں میں کوئی اونچ نیچ نہ کردوں یا شاید اس حقیقت سے کہ پڑھنے والوں میں کچھ ایسے حضرات بھی ہوتے ہیں جو تحریر سے قبل لکھاری کا نام یا قد و اختیار دیکھ کر اسی حساب سے تجزیہ کرتے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے، اب اصل موضوع کے اوپر آتے ہیں۔ کچھ دن پہلے میرے دوست کا لکھا ایک کُھلا خط میرے نظروں کے سامنے سے گزرا جسے نہ چاہتے ہوئے بھی پڑھنے لگا۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ ہر کسی کے خیالات الگ ہوتے ہیں، دیکھنے اور پرکھنے کا نظر ہر ایک کا اپنا ہوتا ہے۔ دو انسان ہمیشہ ایک مخصوص چیز کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور نتیجتاً دو بلکل ہی مختلف یا متضاد مفروضے سامنے آتے ہیں، جبکہ اس بیچ میں کبھی کبھار حقیقت کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
میرے دوست نے لکھا ہے کہ ان سات سالوں میں بہت کچھ بدلا ہے، اس سے انکار نہیں کہ بہت کچھ بدلا ہے، سفر بھی بہت طویل طے کی ہے۔ اس دوران دوست بھی اچھے ملے ہیں۔ نئے دوست جنگ کو کمانڈ بھی کررہے ہیں۔ مگر! دوست سے کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں تیزی سے گردش کررہے ہیں کہ دراصل بدلا کیا ہے؟ دشمن کے ظلم و ستم میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے، روزانہ کی بنیاد پر طالب علم، بزگر، چرواہے لاپتہ ہورہے ہیں لیکن ہمارا رویہ ہماری سوچ ابھی تک نہیں بدل سکا۔ بدقسمتی سے ہم نے تاحال وہی رویہ اپنایا ہوا ہے جس رویے کے خلاف اکثر بحث کرتے اور قومی مفاد کیلئے نقصان دہ قرار دیتے.
دوست نئے ملے ہیں پر عزم بھی ہیں لیکن تربیت دینے میں ہم ناکام رہے ہیں۔ ان کو تربیت دیا بھی تو گروہی, باقی اجتماعی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کو گروہی تربیت اتنا دیتے ہیں کہ یہ اجتماعی اور قومی مفاد کیلئے بھی ایک ہونے کو تیار نہیں ہوتے۔
آگے جاکر صحت کے حوالے سے میرے دوست نے لکھا ہے۔ اس حوالے سے اپنے دوست کو بتاتا چلوں کہ بلاشبہ ایک انسان کی صحت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ وقت و بڑھتے عمر کے ساتھ ساتھ کچھ بیماریاں ہمیشہ کیلئے ہمسفر بن جاتی ہیں۔ استاد اسلم دل کے مرض میں مبتلا اور کمزور صحت کے باوجود شہادت تک میدان و عملی جدوجہد سے کنارہ کش نہیں ہوا۔ دلجان بھی صحت کے حوالے سے اسی طرح تھا۔ اس کے ساتھ رہنے والے دوست اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ کمر کی تکلیف کے باعث رات کو سو نہیں سکتا تھا۔ مگر اس کے باوجود دلجان شہادت تک میدان جنگ میں رہا اور اپنی بے لوث قومی خدمات کی وجہ سے سب ساتھیوں کے آنکھوں کا تارا بن گیا۔ اس کا انتظار میرے اور میرے دوست کے علاوہ اور بھی دوستوں کو رہے گا۔ ساتھ ساتھ یہ خیال بھی ہمیشہ سب کے دلوں کو رنجیدہ کرتا ہے اور کرتا رہے گا کہ آخری وقت مڑ کر کس ارمان سے دیکھا ہوگا کیا گزرا ہوگا اس پر جب کوئی بھی لیجانے والے سے یہ تک پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ بھائی اسے کہاں لے جارہے ہو۔
شہری کارروائیوں کے حوالے سے میرے دوست نے لکھا ہے کہ پہلے جیسے تیزی نہیں رہی لیکن شدت ہے۔ محترم دوست کو بتانا چاہوں گا کہ پہلے شہری کارروائیوں میں تیزی کے علاوہ ایک منظم منصوبہ بندی بھی تھا کہ کیسے اور کس طرح اپنا حدف حاصل کرنا ہے۔ اور ان سب کے پیچھے تجربہ کار عملی دوست ہمیشہ رہنمائی کیلئے موجود ہوتے۔ لیکن آج شہری کارروائیوں کی نگرانی وہ سپہ سالار کررہے ہیں جنہوں نے کبھی شہر میں کاروائی تو دور کی بات ہے ویسے چکر تک نہیں لگایا ہے۔ اس وجہ سے شہری کاروائی ہونے کے بعد ہی اس یونٹ کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ان تمام خامیوں کو میرے دوست نے شاید نظر انداز کیا ہے یا اسے یہ سب نظر ہی نہیں آئے ہیں۔
میرے دوست نے یہ بھی لکھا ہے کہ آج راستے کے سمت کا تعین ہوگیا ہے، تو گستاخی معاف کل آپ کس سمت میں سفر کررہے تھے؟ جو آج جاکر آپ نے اپنے سمت کا تعین کیا ہے۔ آج سے چھ سال پہلے میرے دوست کی باتیں کچھ اور تھے بالکل اسی طرح تھے جس طرح آج کا مطمئن کن تحریر دوست نے لکھا ہے۔ لہذا اگلے ایک دو سال بعد جب میرے دوست کا تیسرا خط آئے گا تو وہ بھی اسی طرح ہوگا لیکن تینوں خط ایک دوسرے سے متضاد ہوں گے، کل ان حالات کو کس طرح پیش کرے گا۔
بات اختیار اور لیڈر شپ کی ہو تو دوست کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کل یہ اختیار کسی اور کے ہاتھ میں تھا تو وہ اختیارات پر قابض اور ڈکٹیٹر تھا مگر آج وہی اختیار وہی وسائل سب کچھ جب آپ کے ہاتھ میں آئے ہیں تو آپ اصول پرست اور بااختیار لیڈر شپ ٹہرے ہیں ہیں۔ حالانکہ موجودہ رویہ پچھلے دور سے زیادہ خراب, خطرناک اور ڈکٹیٹروں والا ہے۔ جس مجید برگیڈ کا ذکر میرا دوست کررہا ہے وہ بہت پہلے بنا ہے، شاید اس وقت میرا دوست دور کہیں اپنے کاروبار میں مصروف تھا۔ کریڈٹ لینے کیلئے عملی طور پر بہت کچھ کرنا ہوتا ہے یہ نہیں کہ آپ اپنے ہی اتحادیوں کی پیٹھ میں چرا گھونپ لیں اور خود کو اپنی ہی کہانی میں ہیرو بنالیں۔
میرا دوست اب کنفیوژن کا شکار نہیں ہے وہ اب الجھن میں نہیں ہے اس کا دعویٰ ہے کہ ہر چیز اب واضح ہے۔ اس کے مطابق آج کام بوجھ نہیں ہے، تو ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ پہلے کیا بوجھ سمجھ کر جدوجہد کررہے تھے؟ پہلے کیا ہر قدم منزل کی جانب نہیں تھا؟ آج کام کیسے تقسیم ہیں کیا وہی پرانا طریقہ ہے صرف چہرے بدل گئے ہیں یا کل اختیار کسی اور کے ہاتھ میں تھا اور آج ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ باقی سب کچھ اسی طرح ہیں یا اس سے بھی خراب شکل میں ہیں دوست کل بھی ایک دوسرے کے کمک کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ اگر حافظہ کمزور نہ ہو تو چھ سال پہلے کی یادیں ٹٹول لیں، یہ باتیں چھ سال پہلے بھی میرا دوست کہا کرتا تھا تو کیا میرے دوست کی آج کی باتیں صحیح ہیں یا چھ سال پہلے کی؟ اور اگر زندہ رہیں تو چھ سال بعد واپس میرے دوست کی باتیں بدل نہیں جائیں گے۔
میرے دوست نے کام کا لفظ اسطرح استعمال کیا ہے جیسے وہ کسی مزدور سے مخاطب ہو۔ ایک قومی جہد کار کیلئے ضروری ہے کہ الفاظ کے چناؤ کا خاص خیال رکھا جائے۔ آپ اسطرح کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جس طرح کی آپ کی سوچ ہے۔ لہذا میرے دوست کی سوچ ہی کچھ اسی طرح تھا۔ اکثر دوست ان کے الفاظ کو یاد کرتے ہیں کہ جب میرے دوست کو اختلاف تھا اور اختیارات یا زمہ داری اس کے ہاتھ میں نہیں تھا تو اکثر کہتا تھا کہ ہم کرایہ کے سپاہی ہوتے تو پھر بھی اچھا تھا، ہم مفت کے سپاہی ہیں۔ میرا دوست شاید بھول گیا تھا کہ ہم رضاکارانہ طور پر اس جہد میں شامل ہوئے ہیں کسی کو کوئی غرض نہیں ہے۔ سب اپنا سب کچھ چھوڑ کر بے غرض ہوکر اس جدوجہد کا حصہ بنے ہیں شاید اب میرے دوست کا نظریہ بدل گیا ہے جو قومی جہد کو مزدوری کی نظر میں دیکھتا ہے کہ جو جتنا کام کرتا ہے اسے اجرت بھی انتی ہی ملتی ہے۔ اب کچھ اختیارات ہاتھ میں آنے کے بعد میرے دوست اور اس کے دوستوں نے وہی رویہ اپنایا ہوا ہے جن رویوں کے خلاف اکثر گھنٹوں باتیں کرتے تھے۔
میرے دوست جہد کے حوالے سے کام کے موضوع کو لیکر جن باتوں اور مسئلوں کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے اکثر یا تو ان کے خود کے پیدا کردہ ہیں یا ابھی بھی پیدا کررہے ہیں۔ اکثر ہمارے کچھ دوست لکھاری اپنی ہی نفسیاتی بیماریوں کمزوریوں کا ذکر کرکے کسی دوسرے کو فوکس کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنی سوچ، نیت اور ارادوں کو لیکر لکھتا ہے۔ خود جس طرح ہے وہی دوسروں پر لکھتا ہے، کہ فلانی کا رویہ ایسا ہے، اس طرح خود غرض ہے، جہد کو بدنام کررہا ہے، ذاتی خواہشات کو لگام نہیں دے سکتا وغیرہ وغیرہ۔ اب میرے دوست کا بھی کچھ اسی طرح کا حال ہے۔
بنیاد چاہے کسی بھی چیز کی ہو اس کو سیدھا اور مضبوط بنانا پڑتا ہے کہ آگے چل کر وہ دیرپا اور پائیدار ہو، کاروبار ہو یا تنظیم ہو یا سنگتی ہو اگر بنیاد مجبوری اور کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر ہو تو آگے چل کر مسائل اور بھی پیچیدہ ہوکر آپ کے سامنے آئیں گے۔ ایک دوسرے کے لابی کو کمزور کرنا سازشیں کرنا اور جب حالات کچھ زیادہ ہی بگڑ جائیں تو کردار کشی تک اتر آنا، یہاں تک کہ کسی کی بیوی بچوں تک کو نہ بخشنا۔ اس طرح کی مثالیں بہت ہیں، اگر میرا دوست اپنے حافظہ پر ذرا سا زور دے تو سب کچھ یاد آجائے گا۔
دوسرے تنظیموں کے سربراہوں کے فوٹو کو اپنے بچوں کے ہاتھ میں دے کر واجب القتل قرار دینے والے بھی میرے دوست کے اخلاقی معیاری وژنری دوست ہیں۔ میرے دوست نے بات متوقع اور غیر متوقع کی تھی تو میرا دوست خود اس کیفیت کا شکار ہے وہ اپنے سربراہ تک متوقع اور غیر متوقع رویہ، سازش سے ہر وقت محتاط رہتا ہے کہ کب کہاں سے سازش ہو اور آپ کو کمزور کرنے کیلئے پرانے حربے استعمال ہوں۔ جب خود چار گھنٹے دے کر دو گھنٹہ عملی جہد کیلئے اور دو گنھٹہ اپنے آپ کو سازشوں اور اندرونی بدنیتوں اور بدگمانیوں سے بچانے کیلئے صرف ہوں تو کسی دوسرے کو کیا درس دینا۔ بات گھوم پھر کر وہی آتی ہے کہ پہلے خود کو تھوڑا بہت تیار کرلیں، اپنے اندرونی معاملات بدگمانیوں، بدنیتیوں اور محدود اور آمرانہ سوچ کو تبدیل نہیں کرتے تو دوسرے کو درس دینا بھی میرے دوست کا حق نہیں بنتا۔
موقع پرست، غیر یقینی، چنچل، ناقابل اعتبار ان تمام الفاظ کے معنی سے شاید میرا دوست انجان ہے۔ اگر اسے پتہ ہوتا تو خود یوں انکا تذکرہ نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کے آس پاس جتنے بھی ہیں (کچھ بڑے نام بھی ہیں) ان کا فطرت ہی اسی طرح ہے کہ آپ ان پر کبھی بھی یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ایک موقع پرست نہیں ہے۔ یا آپ کو پیچھے سے دھکہ نہیں دے گا یا بندوق آپ کے کندھے پر رکھ پیچھے کھڑا نہیں ہوتا۔ مخلصی کی آڑ میں کب آپ کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرکے تعلق ختم کریں۔ میرے دوست کی آنکھوں کی روشنی واقعی میں کمزور ہے اگر دیکھ سکتا تو اپنے موجودہ سینیئر دوستوں کی حالت دیکھ سکتا، شاید وہ خود بھی ان کو اس حال میں لانے کی زمہدار ہے کہ ان کو کس طرح کس انداز میں کنارہ کرکے ان کی کردار کشی کی جارہی ہے۔
میرے دوست جہد کار جتنے بھی ہمارے ساتھ آئے ہیں وہ سب ایک مخلص سوچ، محنت، حالات کی سختی، زندگی و موت کو زہن میں رکھ کر آتے ہیں۔ عمل کے جذبے سے سرشار اپنا سب کچھ چھوڑ کر آتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ بعد میں بقول آپ کے غیر زمہدار یا ان کا جذبہ سست پڑ جاتا ہے۔ ہمیں ان کو نصیحت دینے کے بجائے خود کے اوپر بھی ذرا غور کرنا چاہیے کہ وہ کونسی کمیاں ہیں جن کی وجہ سے وہ غیر زمہدار یا آج کا کام کل پر چھوڑتے ہیں، آخرکار سیکھتے تو وہ ہم سے ہی ہیں۔ کہیں ہم ان کی تربیت گروہی اور سطحی بنیادوں پر تو نہیں کررہے ہیں، وہ بھی کہیں اس ڈر سے تو نہیں کہ وہ کل کو سوال اٹھانا شروع کریں گے۔ لہذا اسلیے انہیں گروہی بندھن میں باندھ کر اختلافی تربیت دیں کہ اسے آگے پیچھے کچھ نظر نہ آئے اور ہمیں ہی سب کچھ سمجھ کر ہاں میں ہاں ملائے اور باقی سب کو بغیر سمجھے غلط کہہ مان لے۔
میرے دوست اگر ہم ایک قومی اور اجتماعی جنگ کے دعویدار ہیں تو ہمیں اپنی سوچ بھی وسیع رکھنی چاہیے۔ خود کو اور خود کی سوچ کو بدل دینی چاہیے۔ خود اگر ہم اپنے اختیارات کھو دینے کا یا اپنی شان میں کمی کی ڈر سے آنے والوں کا تربیت نفرت کی بنیاد پر کریں گے تو ہمیں میرے دوست میرے دوست والے شاید چار چھ لمبا چوڑا داستان اور بھی لکھنے پڑیں گے، جن میں خود کو مکمل اور دوسروں پر انگلی اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ خود کو بدلنے اور خود کی سوچ کو بدلنے کے علاوہ ہمیں ایمانداری سے خود کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ کہیں ان دانشوروں کی طرح خود کی کمیوں کوتاہیوں کو مخلصی کا تڑکہ لگاکر دوسروں پر نہیں لگانا چاہیے۔ خود احتسابی کے عمل سے خود کو گزارنا چاہیے۔ خود کو کچھ تبدیل کریں گے تب دوسرے بھی تبدیل ہوجائیں گے۔