جمعه, سپتمبر 27, 2024
Homeآرٹیکلزاگر ”وہ“ نوجوان ہوتے تو وہ بھی حملہ آوروں میں شامل ہوتے

اگر ”وہ“ نوجوان ہوتے تو وہ بھی حملہ آوروں میں شامل ہوتے

تحریر: بصیر نوید

           ہمگام آرٹیکل          

 

آج کی حکومت میں کور کمانڈر ہاؤس بالمعروف جناح ہاؤس اور ملٹری تنصیبات بہ فضل تعالیٰ مقدس درجات پر فائز ہو گئے ہیں روزانہ نوجوانوں کی ان مقدس مقامات کی بے حرمتی میں گرفتاریوں کی خبریں ملتی ہیں۔ ایک تماشا سا لگایا ہوا ہے۔ ایک سیاسی جماعت سے تعلق کے باعث نوجوان خوف کے عالم میں چھپتے پھر رہے ہیں۔ گرفتاریوں اور عقوبت خانوں میں لاپتہ کر دیے جانے کے خوف سے نوجوان تو اب ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں غرق آب ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

 

عالم تو یہ ہے کہ نوجوانوں کی شبیہ اگر کسی طور سی سی ٹی وی کیمرے میں آ جائے تو فیصلہ کر لیا جاتا ہے بلکہ سرکاری سطح سے سنایا بھی جاتا ہے کہ اس نے ملک کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا اور سازشی بن گیا/بن گئی ہے۔ اسے یہ بھی خوف کہ اگر وہ گرفتاری نہیں دے گا یا گرفتاری نہیں دے گی تو اس کے ماں باپ یا بھائیوں کو اٹھا لیا جائے گا۔ اس لئے وہ سمندر کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

 

ریٹائرڈ فوجیوں کی بیگمات اور ان کی بیٹیوں کے خلاف کارروائیوں پر زیادہ اعتراض اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ ریٹائرڈ فوجیوں کے ہاں خواتین انتہائی بد مزاج اور اکھڑ ہونے کے ساتھ فوجیوں کے قابو سے باہر ہوتی ہیں لہذا یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے وہ جانیں اور حاضر سروس فوجی۔ ہماری تشویش خواتین سیاسی کارکنوں کے ساتھ ملٹری والوں کے رویہ سے ہے۔ فٹبال کی گول کیپر لڑکی سے پتہ نہیں کون سی دشمنی تھی کہ اسے بھی کور کمانڈر ہاؤس پر حملے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

 

اس عمل سے فٹبال کے شائقین و شوقین مرد و خواتین کے دلوں سے خاکیوں سمیت حکمراں اتر چکے ہیں۔ پاکستان جیسے دقیانوسی معاشرہ میں جہاں ہر معاملے میں چھ سات جماعت پاس مولوی کا ہمہ وقت دخل ہوتا ہے بچیوں کا اسپورٹس میں آنا ایک تو بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے وہاں اب ایک بچی کو ملک دشمنی میں گرفتار کر لیا گیا۔ اب بتائیے کیا بچیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے؟ اس کے لئے تو یہ مظاہرہ ایک ایڈوینچر سے زیادہ نہیں تھا۔ لیکن اب اس کے سارے خوابوں کو ہاون دستے سے کچل دیا گیا۔ فٹبالر کے خاندان، دوست و سہیلیاں زندگی بھر کے لئے سیاست کے ساتھ ساتھ کھیلوں سے بھی توبہ کر لیں گے۔

 

اگر کسی لڑکے یا لڑکی نے حملے کے دوران حصہ لیا تو اس میں کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں یہ ان کی فطرت کا نتیجہ ہے۔ نوجوانوں کی زندگی میں thrill، adventurism وغیرہ تو لازم ہوتا ہے اگر جنرل عاصم، شہباز شریف یا رانا ثنا اللہ بھی اس عمر میں ہوتے تو یقینی طور پر وہ بھی حملہ آوروں میں شامل ہوتے۔ اس قسم کے ایڈونچر نوجوانی کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں اپنے بچے سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ کم از کم میں اپنے بارے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں بیس بائیس سال کا ہوتا تو یقینی طور پر حملوں میں حصہ لیتا کہ اپنی طاقت سے بڑی طاقت رکھنے والوں کو بھاگتے دیکھتا۔ بلکہ اوروں کو بھی اکساتا۔

 

‏دوسری جانب چھوٹے قد کے لوگوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اپنی خامیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لئے فوج کو چڑھا دیا کہ 9 مئی کے واقعات امریکہ کے جڑواں ٹاورز کے عین طرز پر ہے جس کا مقصد فوج کی تباہی تھا لہٰذا ان واقعات کو بالکل اسی طرح نمٹا جائے جیسا امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد اختیار کیا تھا۔ ہمارے نصیب دیکھئے کہ عقل و خرد سے عاری عمران خان ہی جو خود تو ڈر کر چھپتا پھرتا ہے مگر لوگوں کو لڑنے پر مکمل آمادہ کیا ہوا ہے، اسے کسی کے مرنے اور جینے سے کوئی تعلق نہیں، اس نے بھی نوجوانوں کو آگے لگایا ہوا ہے۔

 

ایسے مرحلے میں فوج اور حکومت اپنی کپکپاتی ٹانگوں کے سہارے سارا انتقام نوجوانوں سے لے رہی ہے۔ اپنی بہادری کا اظہار نوجوانوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں فوجیوں نے اپنے کئی جوان شہید کرا دیے، ہر چند دن بعد سرحدوں سے خبریں آتی ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں پاک فوج کے کچھ نوجوان شہید اور ایک یا دو دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ یعنی ہماری کارکردگی یہ ہے کہ جب چاہے دہشت گرد ہمارے جوانوں کو شہید کر کے اپنے ایک یا دو کو ہلاک کروا کر بخیریت اپنی کمین گاہوں میں چلے جاتے ہیں اور ہم تین چار دن تک شہید ہونے والوں کا ذکر کر کے پھر نئے شہدا کے ساتھ ایسی ہی روایت نبھاتے ہیں۔ ساری پریشانی اور خوف نوجوانوں سے ہے جو کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو نوجوان مزے لینے کے لئے ایسے ہنگاموں میں گرفتار ہوئے ہیں انہیں چھوڑ دینا چاہیے ورنہ جو تم سمجھ رہے ہو کہ معاملات سختیوں سے درست ہو جائیں گے تو تمہیں اپنی طاقت کے نشے میں نہیں پتہ کہ کیا ہو گا۔

 

جن لوگوں کا کام سرحدوں کی رکھوالی ہے اور جس کا مہنگا ترین معاوضہ بھی لیتے ہیں ان کی مہربانی ہوگی کہ وہ سرحدوں پر ہی رہیں یہ کام سویلینز پر چھوڑ دیں۔ کون سی بری بات یا کون سی سازش؟ لڑکے لڑکیوں کی جاں بخشی کیجئے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز