ایرانشہر (ہمگام نیوز) اطلاع کے مطابق سودابہ ایرندگانی نامی ایک بلوچ خاتون، جس کی عمر 34 سال ہے، شادی شدہ اور 6 بچوں کی ماں ہے ، جسے 28 اکتوبر 2022 کو قابض ایرانی فورسز کے اہلکاروں نے قتل کے الزام میں گرفتار کر کے ایرانشہر جیل میں رکھا ، اور اسے عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی ، جلد یا بدیر ان کی پھانسی کا خطرہ ہے ۔
” کمپین فعالین بلوچ” کی رپورٹ کے مطابق، بانک سودابہ ایرندگانی کا ایک دوسری خاتون سے زبانی جھگڑا ہوا، جس کے بچے کو ایک اور شخص نے قتل کر دیا تھا تاہم انہوں نے اپنے بچے کو بچانے کی خاطر اس الزام کو اپنے سر لے لیا تھا جس کے بچے پر قتل کا الزام لگایا گیا تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ مقتول بچے کے اہل خانہ نے اب دو ارب ایرانی تمن تاوان کی درخواست کی ہے جس میں سے آٹھ سو ملین تمن اندرون اور بیرون بلوچستان کے شہریوں کے تعاون اور کمک سے ادا کر دیے گئے ہیں اور باقی تاوان کی ادائیگی کے لیے انہیں آٹھ نومبر تک کا وقت دیا گیا ہے۔ بصورت دیگر اس کی سزا نافذ ہو جائے گی۔
بانک سودابہ ایرندگانی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے جو جہیز ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اور ان کے خاندان کے بہت سے افراد اور رشتہ دار قابض ایرانی فوج اور دیگر فورسز کے ہاتھوں شہید اور زخمی ہوگئے ہیں یا حراست میں لیے گئے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ بانک سودابہ کی بہن 25 سالہ نازیلا ایرندگانی جو کہ 4 ماہ کی حاملہ تھیں، 7 اکتوبر 2024 خاش کے علاقے سہہ راہی میں قابض ایرانی فورسز کی فائرنگ سے نازیلا شہید ہوگئیں جس کے ساتھ ان کے دو چھوٹے بچے بھی اس فائرنگ سے زخمی ہوگئے تھے ۔ جبکہ ان کے خاندان کے دو افراد لاپتہ ہیں ، اس کے علاؤہ ان بانک سودابہ کے ایک کزن بھی اس فائرنگ سے شہید اور زخمی ہوگیا تھا ۔
مزید رپورٹس کے مطابق ان تمام بلوچ دردمندان او خیرخواہوں سے گزارش ہے جو اس خاندان کی مالی امداد کر سکتے ہیں وہ درج ذیل تفصیلات کو فالو کرکے ان کی مدد کریں تاکہ تاوان کی ادائیگی پورا ہو کر بانک سودابہ پھانسی بچ سکے ۔
کارڈ نمبر:
6037697999569152
شبا نمبر:
آئی آر 90190000000119707839007
بینک کا نام: صادرات
بنام محمد کریم ایرندگانی ، جو کہ بانک سودابہ کا بھائی ہے ۔
واضح رہے کہ 2023 سے لیکر اب تک قابض ایران کی 26 مختلف شہروں کے جیلوں میں 184 بلوچ قیدیوں کو مختلف الزامات کے تحت پھانسی دی گئی تھی جن میں زاہدان جیل میں 54 اور بیرجند جیل میں 31 پھانسی کے ساتھ غیر انسانی سزائے موت دی گئی تھی اور ان قیدیوں میں سے چار خواتین کو بھی پھانسی دی گئی۔