شنبه, اکتوبر 5, 2024
Homeآرٹیکلزایرانی بلوچستان میں جبر جاری ہے۔ جنوری میں اب تک 185 سنی...

ایرانی بلوچستان میں جبر جاری ہے۔ جنوری میں اب تک 185 سنی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، امیرہ الشریف

تحریر: امیرہ الشریف

ترجمہ: آرچن بلوچ

مصری میڈیا کے کالم نگار محترمہ امیرہ الشریف نے ایرانی زیر قبضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے ایرانی ملا رجیم کی جبر اور استبداد  اور بلوچ جھد کے بارے اخبار البوابة نيوز میں  لکھی ہے کہ ’’انسانی حقوق کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی حکام نے سنی اکثریتی صوبے بلوچستان سے گزشتہ جنوری میں کم از کم 185 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔

بلوچ نیوز ویب سائٹ ہال واش نے کہا کہ ممکن ہے کہ زاہدان میں نئے گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد 185 سے بھی زائد ہوں، اس کی وجہ سخت سیکیورٹی ماحول، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مہم اور انٹرنیٹ کی بندش ہے۔

“بلوچی ایکٹوسٹ کمپین” اور “رصد بلوچستان” چینل نے حالیہ دنوں میں شہریوں کی گرفتاریوں میں اضافے کی اطلاع دی ہے، اور شہر کی فضا سوگوار ہے، زاہدان میں  جمعہ نماز کی سنی خطیب کے مشیر کی مسلسل نظربندی کا حوالہ دیا گیا ہے۔

بلوچستان ایران کے جنوب اور جنوب مشرق میں، مشرق میں پاکستان اورشمال میں افغانستان کی سرحدوں پر اور جنوب میں امارات اور عمان کی سرحدوں پر واقع ہے۔ موجودہ دور میں یہ اب ایران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقسیم ہے، لیکن پچھلی صدی کی پہلی تہائی میں ایران نے اس پر قبضہ کیا تھا۔ ۔

بلوچستان ایک وسیع خطہ ہے جس کا رقبہ 780,000 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی ساحلی پٹی آبنائے باب السلام “ہرمز” سے پاکستان کے شہر کراچی تک پھیلی ہوئی ہے جس کی لمبائی 1,600 کلومیٹر ہے۔ اس خطے کی آبادی 20 ملین افراد پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ تقریباً 700,000 بلوچ اس سے باہر رہتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچ عوام اپنے ملک پر ایرانی قبضے کے سامنے خاموش نہیں کھڑے رہے بلکہ بلوچستان کا محاذ سب سے ذیادہ جلتا ہوا محاذ ہے اور ایرانی افواج نے بہت جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔

 بلوچستان کے کچھ لوگوں نے حزب اختلاف میں پرامن رویہ اپنایا ہوا ہے، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ ملاؤں کی حکومت کا ارادہ اچھا نہیں ہے۔ ایران حکمرانوں کا جبر کا راج اور تشدد کا راستہ اس بات کا بہترین گواہ ہے۔

انسانی حقوق کی ویب سائٹ Hengaw کے مطابق، ایرانی حکام نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایران کے مختلف کرد شہروں سے کم از کم 182 کرد شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔

ایران کے متعدد شہروں میں رات کو بھی حکومت کے خلاف مظاہرے دیکھنے میں آئے، جیسا کہ مغربی ایران کے صوبہ الہام کا شہر عابدان کے لوگوں نے یکم فروری 2023 کو سجاد مرادی اور نادان کے اغوا کے خلاف احتجاج کے لیے ایک احتجاجی اجتماع کا اہتمام کیا۔ 31 جنوری کو جب سیکیورٹی فورسز نے سلیمان مسجد میں اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو اسے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔

سیکورٹی فورسز نے سنیوں کے امام مولوی عبدالحمید کے مشیر عبدالمجید مرادزی کو گرفتار کیا اور پھر انہیں مشہد کی جیل منتقل کر دیا۔ زاہدان میں اہل السنہ گروپ کے امام مولوی عبد الحمید نے حالیہ ہفتوں میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی جمہوریہ کی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔ گزشتہ جمعہ کی نماز کے دوران، انہوں نے خواتین قیدیوں کی رہائی، اور مظاہرین بالخصوص بچوں کو دبانے کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایران انٹرنیشنل کے مطابق مظاہرین نے یورپ، یورپ یا تو پاسداران انقلاب کے ساتھ ہے یا ہمارے ساتھ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایرانی پاسداران انقلاب کو یورپی یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ چند ہفتوں میں ایرانی پاسداران انقلاب کے قدس ہیڈ کوارٹر کے سینئر کمانڈر محمد کرمی کی بلوچستان کے گورنر کے طور پر تقرری کے بعد اس صوبے کے عوام پر دباؤ زیادہ  بڑھ گیا ہے۔

انسانی حقوق کی ویب سائٹ “حرانہ” کے مطابق 17 ستمبر 2022 سے 31 جنوری 2023 تک ایران میں “خواتین، زندگی، آزادی” کے مظاہروں کے آغاز سے اب تک 71 بچوں سمیت 527 سے زائد مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور 19,600 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اس تناظر میں برطانوی میڈیا نے اعلان کیا کہ ایرانی پاسداران انقلاب ملیشیا کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا منصوبہ روک دیا گیا ہے۔ برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے اس فیصلے پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے اور برطانوی وزیر داخلہ کی منظوری کے باوجود تہران کے ساتھ مواصلاتی راستے کھلے رکھنے کی خواہش کے بعد سامنے آیا۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین ایرانی پاسداران انقلاب ملیشیا کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے قانونی آپشنز کا مطالعہ کر رہی ہے۔ یہ قدم ایران کی جانب سے روس کو یوکرین کے خلاف جنگ میں استعمال کے لیے ڈرون فراہم کرنے اور مقامی مظاہروں پر ایرانی حکام کے پرتشدد کریک ڈاؤن کے جواب میں سامنے آیا ہے۔

بات چیت سے واقف چار عہدیداروں نے اخبار کو بتایا  کہ فرانس اور جرمنی نے گزشتہ ہفتے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے دوران اس فیصلے کی حمایت کی۔ یورپی یونین کا قانونی شعبہ اگلے تین ہفتوں میں اس اقدام کی قانونی حیثیت پر 27 رکن ممالک کی رائے مرتب کرے گا۔ اور جرمن وزیر خارجہ اینالینا بربوک نے انکشاف کیا کہ جرمنی اور یورپی یونین ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالعہ کر رہے ہیں، جب کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے خبردار کیا کہ ان کا ملک “دشمنوں” کو اسے کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کے بعد یہ ایک نیا قدم ہے۔

https://www.albawabhnews.com/4397807

یہ بھی پڑھیں

فیچرز