ھمگام کالم

تحریر امینه سربازی اردو ترجمہ حمیرا رند

ایران بلوچوں کے وجود کو صفہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے ہر روز ایرانی پارلیمنٹ میں بلوچستان کی تقسیم کے لیئے مختلف قرار دادیں پیش کی جاتی ہیں جن میں ظاہر کیا جاتا ہے کہ مغربی مقبوضہ بلوچستان کو مزید کتنے حصوں میں تقسیم کیا جائے جن جن حصوں میں مغربی مقبوضہ بلوچستان کو تقسیم کیا جاتا ہے اور ان حصوں کے الگ الگ نام رکھے جاتے ہیں پھر بعد میں بلوچستان کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا کیونکہ جب نئے حصوں کے نام سامنے آجاتے ہیں تو پرانا نام بلوچستان باقی نہیں رہے گا ـ مکران جو کہ بلوچ قوم کا تاریخی پہچان ہے اور بلوچستان کا قدیم ترین نام ہے جسے بعد میں احمد شاہ ابدالی نے نوری نصیر خان کے زمانے میں بلوچوں کے تمام خطوں کے مشترکہ مکران کو بلوچستان کا نام رکھا جو کہ نوری نے تمام بلوچستان کو ایک وحدت میں لا کر عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی تھی ـ اب سوال ان تمام آزادی پسندوں سے ہے خاص کر مشرقی مقبوضہ بلوچستان جو کہ اس وقت پاکستان کے زیر قبضہ میں ہے کہ رہنماؤں سے خاص کر بی ایل ایف کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نزر، بی این ایم کے صدر خلیل بلوچ، بی ایس او آزاد کے نئے چیئرمین ابرم بلوچ اور بی آر پی کے صدر نوابزادہ براہمدغ بگٹی سے ہے کہ وہ اب بھی خاموش رہیں گے کہ صاحب ہم دو محاذ پر جنگ نہیں لڑ سکتے اور ایران سے ابھی جنگ کرنا ہماری بس کی بات نہیں جب کہ ادھر ایران بلوچوں کی نہ صرف نسل کشی کر رہا ہے بلکہ بلوچستان کا نام دنیا کے نقشے پر مٹانا چاہتا ہے ـ کیا بحیثیت ایک بلوچ خلیل بلوچ، اللہ نزر، ابرم بلوچ اور براہمدغ بگٹی ہمارے اس سوال کا جواب دینگے کہ جب بلوچستان مٹ جائے گا اور اب بھی آپ لوگ یہی کہیں گے جی ہم سے دو محاظ پر جنگ نہیں ہوتی اس لیئے بلوچستان مٹ گیا اور ہم کچھ نہیں کر سکے کیوں؟ اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے، جنگ کے قابل نہیں ہیں، آپ کمزور ہیں تو آپ کے منہ میں زبان ہے ہاتھوں میں قلم ہے کم از کم ایران کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی پر کچھ بول سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں ـ آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں ایران کی روزانہ بلوچ نسل کشی کی تفصیل

برائے راست فائرنگ بلوچستان معدنی و سمندری دولت سے مالا مال ایک ملک ہے لیکن بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوان ایک وقت کی روٹی کے محتاج ہیں مجبوری میں وہ ایرانی پیٹرول، ڈیزل اور آٹے کا کاروبار کررہے ہیں جو کہ ایران اسے بلوچوں کے لیئے غیر قانونی قرار دیا ہے خلاف ورزی کرنے پر ایرانی قانون ساز ادارے حراست میں لے کر سزا دینے کے بجائے پولیس اور سپاہ پاسداران کو حکم دیا کہ اگر کوئ بلوچ خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھا گیا تو اسے گرفتار کرنے بجائے فوراً گولی مار کر کام تمام کر دیا جائے ـ جس سے ہر ماہ 10 سے 15 بلوچوں قبضہ گیر ایرانی پولیس اور سپاہ کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں ـ

دوسرا اور اہم بات یہ ہے کہ ایران نے بلوچ قبائل کو آپس میں دست و گریبان کر رکھا ہے اور قبائل کے اندر اسلح تقسیم کرکے کسی کو کمزور بنایا ہے تو کسی کو طاقتور جبکہ طاقتور قبیلہ ہمیشہ کمزور گروہ سے آپس میں جنگ و جدل میں مصروف ہے جس کے سبب کئ بے گناہ بلوچ قبائلی جنگوں میں مارے گئے ہیں جس کی تازہ ترین مثال میرجاوہ سے تعلق رکھنے والے اکبر رحمتزھی ہیں جو کہ قبائلی جنگوں کی نذر ہوگئ ـ

ماھیگیروں پر فائرنگ اس وقت بلوچ انتہائ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے 90 فیصد بلوچ سمندر سے جڑے ہیں جو کہ ماھیگیری میں اپنی روزی روٹی تلاش کرتے ہیں جبکہ ایران کو یہاں پر بھی بلوچوں کا رزق تلاش کرنا بھی منظور نہیں اسی لیئے قبضہ گیر ایرانی نیوی بلوچ ماھگیروں کو کسی بھی بہانا پا کر قتل کر رہا ہے جس کی مثال بندرعباس کئ بلوچوں کی ہے نہ صرف نیوی نے انہیں مارا ہے بلکہ ان کی کشتیوں کو بھی ساحل سمندر پر کھڑے جلا دیا ہے ہر سال درجن بھر بلوچ ماھیگیر قابض ایرانی نیوی اور سپاہ کے ہاتھوں قتل کیئے جاتے ہیں پھانسیاں ایران دنیا میں پھانسی دینے کی رینک میں سر فہرست ہے مغربی مقبوضہ بلوچستان میں ایران نے سینکڑوں بلوچوں کی پھانسیوں پر سر عام بلکہ ان کے خاندان کو سامنے لا کر پھانسیاں دی ہیں کسی بھی چھوٹے موٹے کرائم پر قابض ایرانی عدالتیں بلوچوں کو پھانسی دینے حکم نامہ جاری کرتے ہیں جس کی تازین ترین اور واضح مثال گزشتہ روز علی رضا توتازھی کی ہے جو کہ ایرانی پولیس اور سپاہ پاسداران نے کسی صحرا میں لے جا کر گولی مار دی اور گزشتہ ماہ ایک بلوچ کو منشیات فروشی کے الزام میں جیل کے اندر پھانسی دی گئ تھی ـ ہر سال 15 سے 20 بلوچوں قبضہ گیر ایرانی عدالتیں پھانسی دے رہی ہیں ـ

ڈیتھ اسکواڈز کی ٹارگٹ کلنگ مغربی مقبوضہ بلوچستان میں قبضہ ایران نے بیسیویں ڈیتھ اسکواڈز بنائے ہیں ڈیتھ اسکواڈز گروہ نہ صرف معصوم بلوچوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں بلکہ اس حد تک جا چکے کہ گھروں میں گھس لوٹ مار اور قتل بھی کر رہے ہیں ہر ماہ درجن بھر معصوم بلوچ ان ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں

منشیات کی مار ایران نے بلوچستان بھر منشیات جیسے زھر کو اس قدر پھیلا دیا ہے کہ ہر گھر میں ایک نشہ کرنے والا بلوچ نکل جاتا ہے منشیات کی وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ ہوچکے ہیں کئ نشہی افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں

اب میں اس مضمون کے تحت ایک بار پھر اللہ نزر جو کہ ایک آزادی پسند ہیں اور بلوچستان کی آزادی میں سرگرم عمل ہیں سمیت خلیل بلوچ جو کہ سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں ابرم بلوچ جو طلبہ رہنما ہیں اور براہمدغ بگٹی جو ایک آزادی پسند سیاسی جماعت لیڈ کر رہے ہیں بی آر اے کے سربراہوں سے سوال کرتی ہوں کہ کیا آپ اب یہی رٹا لگاتے ہیں کہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں ہو سکتی جبکہ ایران ہم بلوچ قوم کی کھلے عام نسل کشی میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ انہیں ہر بلوچ دشمن نظر آتا ہے؟ اگر آپ جنگ نہیں کر سکتے تو کم از کم افسوس کرسکتے ہیں اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم دشمن ایران کی گودھ میں بیٹھنے کے بجائے اپنے گھر میں بیٹھ جائیں ـ اس وقت ایران نے باقاعدہ بلوچستان کی تقسیم کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے اور مزکورہ رہنماؤں سے اب یہ بات زیب نہیں دیتا جی ہم اگر ایران میں بیٹھے ہیں لیکن بلوچستان میں یعنی اپنے گھر میں بیٹھے ہیِں جبکہ ایران بلوچستان کا نام تو تقریبا سرکاری دستاویزات میں مٹا چکا ہے اب آپ بلوچستان کے بجائے ایران یعنی دشمن کی پناہ گاہ میں ہیں ـ آخر میں التجاہ ہے اگر آپ جنگ نہیں کر سکتے ہیں ایران کے ساتھ مغربی بلوچستان کے بلوچوں کی نسل کشی پر بول نہیں سکتے ہیں تو خدا کے واسطے اس مظلوم قوم کو دھوکہ مت دیجیئے کیونکہ آپ نے بلوچستان کی آزادی کا پرچم اٹھا رکھا ہے اور اس وقت ایران کی پناہ میں ہیں اور بہانا یہی کر رہے ہیں کہ ہم اپنے گھر مغربی بلوچستان میں جبکہ مغربی بلوچستان میں ایران کے قبضہ میں ہیں اور آپ مزکورہ رہنما اس قبضہ کو چھڑانے کے اہل نہیں ہیں ۔