ہیمبرگ ( ہمگام نیوز ) فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے 27 مارچ مقبوضہ مشرقی بلوچستان کے یوم قبضہ کی مناسبت سے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں “اَن سُنے بلوچستان، ماضی اور حال” کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں نامور جرمن مصنف ڈاکٹر مارٹن اگزمان، سپین کے زیر اثر باسک کنٹری سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی کارلوس زروتوزا، مختلف سیاسی تنظیموں کے اتحاد ایکور کے یورپین کوآرڈینیٹر جواخم گریسباؤم، فری لائف پارٹی کردستان کے نمائیندے کاوی فتحی اور فری بلوچستان موومنٹ کے نائب صدر ڈاکٹر شاہ زوار کریمذادی نے مہمان مقرر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ سیمینار میں سوال جواب کا بھی سیشن رکھا گیا تھا جس میں مقررین نے پوچھے گئے سوالوں کے جواب دئیے۔ 

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان اور بلوچ نیشنلزم کی تاریخ پر لکھی جانے والی کتاب”بیک ٹو دا فیوچر” کے مصنف ڈاکٹر مارٹن اگزمان نے کہا کہ بلوچستان کی تحریک جو اس وقت عالمی سطح پر اس طرح کی توجہ سے محروم ہے جس طرح کی اس کو ملنی چاہئے پچھلے دو دہائیوں سے روانی سے جاری ہے جس نے مختلف مشکلات اور چیلنجز کے باوجود اپنے آپ کو زندہ رکھا اور روانی سے چلتا رہا سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نیشنلزم کی تحریک ایک شعوری تحریک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب میں اپنے ریسرچ کے لئے انڈیا سے پاکستان میں داخل ہوا تو مجھے لاہور چھوٹا دہلی اور کراچی چھوٹا بمبئی لگا تو میں سوچھنے لگا کہ لوگ ایک ہیں، ثقافت ایک ہے تاریخ بھی ایک ہی رکھتے ہیں، رہن سہن کے طریقے زُبان وغیرہ ایک دوسرے سے بہت ملتے ہیں تو یہ دو مُلک کیوں ہیں؟ کراچی تک تو مجھے ہندوستان اور پاکستان کی ہر چیز ایک جیسی ہی لگی لیکن میں جیسے ہی بلوچستان میں داخل ہوا مجھے یک سر ایک الگ زمین، لوگ، ثقافت اور زبان دیکھنے کو ملی تو مجھے ان لوگوں کو جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے مختلف لائیبریریوں کا رُخ کیا تاکہ جان سکوں کہ بلوچ ہیں کون، بلوچستان ہے کیا تو مجھے اس حوالے سے مناسب مقدار میں لٹریچر نہیں ملا تو میں نے فیصلہ کیا کہ ان کے حوالے سے میں تھوڑا بہت لٹریچر دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کروں گا جس کے بعد میں نے بلوچستان کا رُخ کیا اور اپنی تحقیق شروع کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن بلوچ قوم کی نیشنلزم اتنی گہری اور مضبوط نہیں جس کی وجہ سے اتحاد کا فقدان رہا ہے جو اب تک موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان آج تقسیم ہے اور مقبوضہ ہے۔ پاکستان بننے کے وقت ہندوستان کے پاس انگریز کی بنائی گئی ایک مکمل فوج تھی جس کو تقسیم کرکے پاکستان کو فوجی طاقت دی گئی لیکن بلوچ کو کوئی مدد میسر نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کچھ ہی مہینے کے اندر اندر بلوچستان پر قبضہ کرلیا لیکن اگر پاکستان نہ کرتا تو مجھے شک ہے کہ یہ کام بلوچستان کے تینوں ہمسایوں میں سے ایران یا افغانستان نے کرلینا تھا۔ سرزمین اور سرحدیں اندرونی انتشارات سے کمزور ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے بلوچ اس انتشار کا ہمیشہ شکار رہا ہے اور ابھی تک یہ انتشار موجود ہے جس کو دور ہونا چاہئیے۔

ڈاکٹر مارٹن اگزمان نے مزید کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ اب بھی علاقوں اور قبائل کی بنیاد پر تقسیم کا شکار ہیں جو ان کی تحریک کے لئے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ بلوچستان کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جس پر سب متفق ہوں مگر بلوچ نیشنلزم کی تحریک میں اب تک یہ چیز نظر نہیں آرہی، انہوں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ گاندھی اور اتاترک جیسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک انہیں تجارتی مقاصد کے لئے کم اور فوجی مقاصد کے لئے زیادہ بنایا جارہا ہے مگر بلوچ مسلح مزاحمت کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں لگتا کہ اس میں کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں۔    

سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور بلوچستان پر گہری نگاہ رکھنے کارلوس زروتوزا کا کہنا تھا کہ بے شُمار قیمتی وسائل سے مالا مال خطہ جو دنیا کے امیر ترین خطوں میں شُمار ہوتا ہے۔ بلوچستان سونا، چاندی، گیس اور تیل سمیت ہر طرح کی معدنیات سے مالا مال ہے مگر بدقسمتی سے اس کے اثرات زمین پر رہنے والے لوگوں کی زندگی میں بلکل ہی نظر نہیں آتے۔ ان مسائل کو اُجاگر کرنے کے لئے عالمی سطح پر موثر آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں بلوچستان، کردستان اور افریقہ کے مغربی صحارہ کے علاقے کے مسائل میں مماثلت نظر آتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مغربی مقبوضہ بلوچستان اور مشرقی بلوچستان میں واضح فرق یہ ہے کہ مغربی مقبوضہ بلوچستان میں انفرا اسٹرکچر بہتر ہے مگر وہاں اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے جب کہ مشرقی مقبوضہ میں اظہار رائے پر کوئی ظاہری پابندی نہیں مگر جو اس کا استعمال کرے وہ لاپتہ ہوجاتا ہے جس کے بعد اُس کی مسخ شُدہ گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سوشل میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال میں لایا جاسکتا ہے اور اِسی کے ذریعے بلوچستان کی آواز عالمی سطح پر اُجاگر کیا جاسکتا ہے۔ 

صدر مجلس ڈاکٹر شاہ زوار کریمذادی نے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں، خواتین کو نشانہ بنانے اور لاپتہ کرنے کے واقعات اور بلوچستان میں جبری گُمشدگیوں کے مسائل کو اُجاگر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان اور کردستان کی قومی آزادی کی تحریکیں خطے میں مظلوم و محکوم اقوام کے لئے روشنی کی ایک کرن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 39 مُلکوں کی حکمرانی میں تقسیم تباہ حال جرمنی اگر پھر سے ایک متحد ریاست بن کر دنیا کی چھوتی سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے تو بلوچستان ایک متحدہ آزاد ریاست کیوں نہیں بن سکتا ہے۔ انہوں نے باہمی اختلافات کو بُھلا کر افہام تفہیم اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ جدجہد کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔