ایک کمسن بیٹے کی فریاد، وہ روز چلاتا ہے،یہی استفسار کرتاہے کہ کہاں ہے میرا بابا؟اپنے عمر سے بھی بڑے سوالات کرتا ہے۔ دن رات بابا کے بارے میں بات کرتا ہے۔ بڑبڑاتے ہوئے نجانے کیا کیا کہتا ہے ۔اس کو ان سات مہینوں میں ایک بار بھی مسکراتے نہیں دیکھا ہے ۔ وہ بات بھی نہیں کرتا جیسے دیمک کسی درخت کو کھا جاتی ہے۔والد کی جبری گمشدگی کا غم اسے اندر سے ہی کھائے جا رہا ہے۔ جب کھانے کا وقت ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ پتا نہیں ابو نے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے والد کی یادوں میں کھو کر رہ جاتا ہے اور ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو یاد کرتا ہے۔ وہ ان کی مسکراہٹ، ان کا پیار، اور ان کی شفقت کو یاد کرتا ہے اور ان کی کمی شدت سے محسوس کرتا ہے۔یہ بچہ اپنے والد کی جبری گُمشدگی کی وجہ ان مقتدرہ قوتوں سے پوچھنا چاہتا ہے، اسے یہ جاننے کا حق ہے کہ اس کے والد کو ماورائے عدالت کیوں اٹھا کر لاپتہ کیا ہے ، حکمرانوں سے التجا کرتا ہے، لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملتا۔ وہ صرف ایک ہی جواب چاہتا ہے کہ اس کے والد کہاں ہیں؟

میری لڑکھڑاتی زبان سے نکلا بس ایک ہی سوال کئی عرصوں سے ذہن میں ثبت ہے ایک ہی سوال کیوں مانگتا ہوں جواب ہمیشہ ایک ہی سوال کا؟ کیا کوئی حل نہیں؟ کوئی جواب نہیں میرے اس سوال کا؟ کہاں ہیں میرے بابا؟ کیا غلط ہے یہ سوال؟ ہاں! ہاں، اگر غلط ہے یہ سوال تو تب بھی پوچھتا رہوں گا میں یہ سوال

کیا مہر لگا پاؤ گے میرے ذہن پر؟ کیا تالا لگا پاؤ گے میری زبان پر؟

تو بتا، اے وحشی! کیا جواب دے پاؤ گے میرے ان سوالات کا؟ کیا بتا پاؤ گے کہ انتظار کی یہ تکلیف دہ گھڑیاں کب ختم ہوں گی؟ غلامی کی زنجیریں کب ٹوٹیں گی؟ تاریک اور گھٹن زدہ زندان میں کب تک ایک منور دیا مدھم ہوتا رہے گا؟ کب تک یہ اذیت ناک کلمہ “لاپتہ” میرے والد کے خوبصورت نام سے منسلک رہے گا؟ کب تک اپنے والد کی ایک جھلک دیکھنے کو ترسوں گا؟ کب تک ان کی مبارک مسکراہٹ کے لیے بےقرار رہوں گا؟ کب تک اس درد و رنج کے پہاڑ کو اپنے نازک کندھوں پر اٹھاتا رہوں گا؟ کب تک ان کی یاد میں تڑپ تڑپ کر مرتا رہوں گا؟ آخر مجھ سے میری سانسیں کیوں چھین لی گئیں؟ میرے دل کی دھڑکنیں کیوں روک دی گئیں؟ میری بصارت کیوں چھین لی گئی؟ کیوں میری خوشیوں، میری مسرتوں، اور میرے خوابوں پر ڈاکہ زنی کی گئی؟ میرا بچپن، میرے کھلونے، میرے ہاتھوں سے چھین کر مجھے ایک نامعلوم اور گمنام تصویر تھما دی گئی؟ میری مسکراہٹ چرا کر مجھے سڑکوں پر فریادیں کرنے، چیخنے، اور چلانے پر مجبور کیوں کیا گیا؟

اس سکون دہندہ ہاتھ کو تھامنے کے بجائے، آج اس کی تصویر اور جبری گمشدگی کا داغ لیے گھر گھر دستک دینے پر کیوں مجبور ہوں؟ والد سے پسندیدہ شے کی آرزو رکھنے کے بجائے، ان کی رہائی کے لیے اندھے، گونگے، اور بہرے حکمرانوں سے مطالبہ کیوں کر رہا ہوں؟ کیوں عدالتوں میں بےبس بیٹے کی طرح انصاف کا طلبگار ہوں؟ کیوں یہ لاجواب سوالات میرے ذہن میں گردش کرتے ہیں اور مجھے اندر سے کھائے جا رہے ہیں؟ کیوں ان ظالموں کو میری اذیت نظر نہیں آتی؟ میری فریادیں، میری داستانیں ان کے کانوں تک کیوں نہیں پہنچتیں؟ میرے ہزاروں سوالوں کا جواب کیوں نہیں ملتا؟

والد کی جدائی کا ہر لمحہ، میری آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کا ہر قطرہ، اور اذیت میں گزرتا ہر دن مجھے یہ احساس دلاتا ہے کہ یتیم نہ ہوتے ہوئے بھی میں یتیموں جیسی زندگی گزار رہا ہوں۔

گزشتہ چھ مہینوں سے یہی سنتا آ رہا ہوں کہ والد اب بازیاب ہوں گے، وہ کالی کوٹھریوں سے آزاد ہوں گے۔ سفید سویرا آئے گا، اندھیری راتوں سے روشنی پھوٹے گی، اور یہ کالی پرچھائیاں اور بادل ہمارے سر سے اٹھ جائیں گے۔ ہم دھوپ میں نہیں جھلسیں گے۔ ہمارے سر کا سایہ لوٹ آئے گا۔

میری ماں ہمیشہ مجھے دیکھ کر افسردہ ہو جاتی ہے۔ جب میری لڑکھڑاتی زبان سے اپنے والد کو پکارنے کی آواز نکلتی تو وہ آنسو بہانے لگتی ہے۔ وہ گڑگڑا کر رونے لگتی ہے اور اپنے بلوچ ہونے پر فریاد کرتی ہے۔ لیکن میں کیا کرتا؟ میں اپنے بھائی کو کیسے بتاتا کہ ہمارے والد کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی گئی اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں؟ وہ زندانوں کی نذر ہو گئی۔ وہ اب ایک گمنام تصویر بن چکے ہیں، لاپتہ افراد کی فہرست کا حصہ بن چکے ہیں۔

اے میرے رب! میں نے اپنے بے بس ہاتھ تیری بارگاہ میں اٹھائے ہیں۔ میرے لبوں سے کوئی دعا نہیں نکلی، بس آنسوؤں کی بارش ہو رہی ہے۔ میں کیا کہوں؟ کس الفاظ میں تجھے جگاؤں جو گزشتہ چھ مہینوں سے گہری نیند میں ہے؟ کیا کہوں کہ میری ایک سسکی بھی تیری کانوں تک نہیں پہنچی؟ کیا کہوں کہ تیری مخلوق کی ظلم کی آگ میں جل رہا ہوں اور تیری رحمت کی بارش کا انتظار کر رہا ہوں؟

اے میرے مولا! آج میری پکار کو سن لے۔ میں تجھ سے اپنے سائے کو لوٹانے کی التجا کرتا ہوں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تیری مخلوق کچھ نہیں کر سکتی، وہ ظالم اور بے رحم ہے۔اے خدا تو ہی اس کی آواز سنوا دے جسے میرا بھائی آج تک نہ سن سکا، جس نے آج تک اس کی گود کا سکون نہ پایا۔

اے خدا! اپنی اس اندھی، گونگی اور بہری مخلوق کو کہہ کہ وہ مجھ بےبس بیٹے پر ترس کھائیں۔ میں کئی مہینوں سے اپنے والد کی تلاش میں سرگرداں ہوں، لیکن انصاف کا راستہ نہیں مل رہا۔