ایک سرمچار کی موت
تحریر :نوکاپ بلوچ
مترجم : شے بجار
ہمگام: اردو کالم
چھبیس جنوری کوہسارِ وطن شہید شعیب عرف لکمیر کی پہلی برسی کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
مجھے وہ ناگوار صبح آج بھی یاد ہے جب میں نیند سے بیدار ہوا تو معمول کے مطابق اپنا موبائل فون چیک کیا تاکہ دوستوں کے میسجز اور کال دیکھوں، جب میں نے موبائل اسکرین کھولا تو مجھے ایک میسج پیغام موصول ہوا تھا، جب میسج کھولا تو حیران ہو گیا، جسم نے ساتھ چھوڑ دیا اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ جس میسج نے میرے پیروں پر سے زمین اکھاڑ پھینکا وہ ” شعیب کولواہ کے علاقے میں شہید ہو گیا ہے” تھا۔ اس افسوسناک میسج نے میری زندگی جیسے بدل ڈالی. شہید شعیب کی اکیس سال کی عمر میں شہادت نے جیسے زندگی ویران کر دیا.
شہید شعیب 1997 کو تربت سے متصل گاؤں شاپک میں پیدا ہوئے. اپنی بنیادی تعلیم گاؤں سے حاصل کی اور بچپن سے کرکٹ کے کھیل کے شوقین تھے کرکٹ میں شوق کی وجہ سے شہید کو سارے انٹرنیشنل میچوں کا علم تھا. بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عطا شاد ڈگری کالج تربت کا رخ کیا اور چھٹیوں میں اپنے گاؤں میں آتا جاتا رہا. میٹرک کرنے کے بعد شہید شعیب کے مزاج میں کافی حد تک تبدیلی آ گئی تھی اور زیادہ وقت خاموشی میں گزارتا تھا شہید بہت خوش مزاج بندہ تھا اسی لیے دوست اسے کافی پسند کرتے تھے. مباحثوں میں بات کرنا اس کے مزاج کے برخلاف تھا اور اس کے دلائل اسکی خاموشی میں پیوست تھے. شہید نے کھبی بھی سرزمین کے حوالے سے اپنے احساسات کا کسی کے ساتھ بھی اظہار نہیں کیا اسی لیے کسی کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ شہید شعیب اندر ہی اندر قومی غلامی کی آگ سے جل رہا ہے. 2015 کو شہید جب پنجاب گروپ آف کالجز سے ایف ایس سی کر رہے تھے تو مادر وطن بلوچستان کی فریاد نے انہیں پہاڑوں کو اپنا مسکن بنانے کیلئے مجبور کر دیا اور بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کرلی، ایک سال گزرنے کے بعد بی ایل ایف سے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر بی ایل ایف چھوڑ کر بی آر اے میں شمولیت اختیار کر لی اور آخری سانس تک بی آر اے سے جڑے رہے. بہت سے جاننے والے دوست شہید شعیب کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتے تھے کیونکہ انہیں پہلے معلوم نہیں تھا کہ شعیب بھی سرزمین کا سپاہی ہے. شہید فوجی گشتوں میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاتے تھے اور دشمن کو کاری ضرب لگاتے تھے. شہید احساس ذمہ داری کی وجہ سے کم مدت میں دوستوں میں ہر دل عزیز شخصیت بن گیا. شہید اپنی بہادری کی وجہ سے دوستوں میں مقبول ہو گیا ایک مرتبہ دشمن کے ایک جنگی ہیلی کاپٹر نے شہید پر حملہ کر دیا تو شہید نے بہترین جنگی داؤ پیچ سے دشمن کے ہیلی کاپٹر کو پسپا کر دیا. شہید کو دوستوں کی جانب سے بارہا کہا گیا کہ وہ واپس جا کر اپنی پڑھائی جاری کریں مگر شہید انکار کر کے کہا کرتاتھا”کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں میری عمر کے دوست شہید ہوئے ہیں جنہوں نے قومی بوجھ مجھ سمیت باقی دوستوں کے سر پر رکھے ہیں انہیں میں دھوکہ نہیں دے سکتا” جب جنگ کے میدان میں شہید نے موت کو قریب سے دیکھا تو اپنے باقی کامریڈوں کو جانے کے لیے کہا. دوستوں کے مطابق شہید نے آخری وقت اپنے موبائل فون کو بھی توڑ دیا تاکہ دشمن کے ہاتھ نہ لگے، شہید زخمی حالت میں بھی دشمن کے خلاف مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا.
شہید شعیب 26 جنوری 2018 کو اس وقت شہید ہوئے جب وہ اپنے باقی دوستوں کے ہمراہ کیمپ میں تھے دشمن فورسز نے کیمپ کو قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر شہید شعیب فولادی جگر لے کر دشمن کے خلاف کھڑے ہوئے اور آخری سانس تک دشمن فورسز کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے باقی دوستوں کو بحفاظت نکالنے میں بھی کامیاب ہوئے. جب دشمن فورسز قریب تر آتے گئے تو شہید نے باقی دوستوں کو نکلنے کی تلقین کی، دوست اسے بھی نکلنے کو کہتے رہے مگر شہید کو پتہ تھا اگر دشمن کا راستہ نہ روکا گیا تو سب دوستوں کو شہید یا گرفتار کیا جائے گا اسی لیے شہید نے اپنے لیے شہادت کا عظیم الشان رتبہ قبول کیا اور دشمن کے خلاف لڑتا رہا.دوستوں اور اپنے کیمپ کو محفوظ کرکے شہادت نوش کر لیا. ایک گھنٹہ لگاتار لڑائی کے بعد جام شہادت نوش کیا. شہید جسمانی طور پر آج ہم میں موجود نہیں مگر مادر وطن کیلئے انکی عظیم قربانیاں داں ابد بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کرتی رہیں گی ،شہید شعیب جان کی شہادت کے بعد ان کی تنظیم نے انہیں عظیم قربانی پر “کوہسار ِوطن” کے القاب سے نوازا۔