بلوچ قوم پرستی کی تاریخ میں بابا خیربخش مری یقیناً ایک جاویداں کردار ہیں ، قوم کی منتشرالخیال قوم پرستانہ رجحانات اور مزاحمت کو قومی آزادی کا واضح سمت دینا اور دشمن سے غیر مصالحانہ جنگ کے فلسفے کا طرہ یقیناً تاریخ انکے سر پر سجائے گی ۔ بابا خیربخش مری اپنے سادہ طبیعت ، پرکشش شخصیت اور کم گوئ کے بنا پر ہمیشہ سے توجہ کا مرکز رہے ، افغانستان سے واپسی سے لیکر رحلت تک تحریک میں انکا کردار قدرے غیر متحرک رہا لیکن واپسی کے بعد ابتدائ دنوں میں حق توار کے نام سے سرکل میں ایک محدود حلقے کی فکری تربیت کرتے رہے اور بعد ازاں کراچی میں گوشہ نشیں ہونے کے بعد آپ کے دروازے آپ کے رحلت تک تمام بلوچ سیاسی کارکنوں کیلئے صلاح و مشورے کیلئے کھلے رہے ، سیاسی کارکنان سے یہ ملاقاتیں ہوں یا میڈیا کو دیئے گئے آپ کے کئ انٹرویو سب میں یہ محسوس کیا گیا کہ بابا مری 70 کے دہائ میں شروع ہونے والے تحریک کے اسباب و علل بیان کرنے سے کتراتے تھے ، یہی سلوک وہ بجارانی و گزینی تنازعہ اور بابو شیرو کی کنارہ کشی جیسے وضاحت طلب مسائل کے بارے میں برتتے رہے ، بعد ازاں یوبی اے کے قیام جیسا متنازعہ عمل بھی انکے چپ کا نظر ہوکر انکے زندگی میں کبھی ان سے دفاع نہیں پاسکا ، ان کے انداز تکلم کا ایک خاصہ تھا کہ وہ پیچیدہ مسئلوں پر واضح موقف بیان کرنے کے بجائے مبہم خیالات پیش کرکے یہ تسلیم کرتے نظر آتے تھے کہ ” شاید میں سمجھ نہیں رہا ہوں”اور عاشقانِ خاک اسے انکی سادگی و حکمت گردان کر انکے سادہ جملوں کی تشریح کرکے فلسفے کا حیثیت دیتے رہے اور مجھ جیسے نا پختہ و بے چین اذہان انکے رحلت تک اسی انتظار میں رہے کہ شاید کسی وقت بھی انکی کوئ جامع تحریر یا کتاب منظر عام پر آکے ہمارے ابہام کو رفع کردے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ، وہ مبہم خیالات انکی سادگی و حکمت سے زیادہ انکا مافی الضمیر تھے ، شاید آسودہ خاک ہونے تک وہ اپنے مبہم خیالات کی گھتی نا سلجھا سکے ، ہمارے جیسے شخصیت پرست معاشرے میں جہاں سردار کیلئے کہا جائے کہ اس میں چالیس ولیوں کا طاقت ہوتا ہے ، اسکا نام زبان سے ادا کرتے ہوئے لوگ کتراتے ہو ، جہاں سیاست قبلوں کے بجائے اصنام کے گرد گھومتی ہو وہاں یہ بات تسلیم کرنا اور کہنا زھر کا گھونٹ گلے سے اتارنا ہے کہ بابا مری کامل عقل کا مالک ایک دیوتا نہیں بلکہ ایک شخص تھے اور شاید انکا کردار اس طویل تاریخی تسلسل میں اتنا تھا کہ انکو ہمیں واضح سمت دِکھانا تھا ، اسکے بعد اس سمت کے جانب چل کر کیسے منزل تک پہنچنا ہے اسکا تعین اگلے نسل کو کرنا تھا ۔

                             قطع نظر اسکے بابا مری بلوچ قوم پرستانہ سیاست میں اپنے غیر متحرک کردار کے باوجود ایک مرکزی شخصیت کی حیثیت سے رہے جس کی بنیاد انکا طویل جدوجہد اور سمت کے حوالے سے بیان کردہ دو ٹوک موقف ہی رہا ، لیکن ارتقاء و تاریخی تسلسل بہت بے رحم ہوتے ہیں ، اس میں ہر وقت اضداد کے بیچ جدل جاری رہتا ہے اسی لیئے شاید شاعر کہتا ہے کہ ” ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ” یہاں اضداد کے جدل سے جب آپ نکل کر ایک سلجھن یا نتیجے کی طرف جاتے ہیں تو اس سلجھن یا نتیجے کے اندر ایک اور تضاد پیدا ہوتا ہے پھر ان کے بیچ ٹکراو پھر ایک نتیجہ اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے ، یہی جدلیاتی عمل ہی ترقی ، ارتقاء اور تتقیر ہے ، یہی شفافیت ہے ، یہ اضداد جدید و قدیم ہیں، وقت کا ظالم پہیہ آگے بڑھتے ہوئے ہر جدید شے کو قدیم بناتے ہوئے ایک اور جدید کو پیدا کرتا ہے اور وہ جدید قدیم سے ٹکرا کر اسکی جگہ لیتا ہے اور پھر زمانہ آگے بڑھتا ہے ۔ جہاں بابا مری نے اپنے وقت و حالات کے مطابق آزادی کو واحد سمت قرار دیکر منتشرالخیال بلوچ سیاست میں ایک جدت پیدا کی ، جہاں انکا سوچ روایتی پارلیمانی ومفاداتی سیاست کے سامنے ایک تضاد کی طور پر ابھر کر سامنے آیا پھر اس سے ٹکرا کر نتیجہ و سلجھن ہمیں نعرہ آزادی و فلسفہ غیر مصالحانہ مزاحمت کی صورت میں دے گیا ، وہیں اٹل قوانین فطرت نے خود کو دہراتے ہوئے اس کے اپنے خیال کے اندر سے ہی ایک تضاد فکرِ حیربیار کی صورت میں پیدا کردیا ، اب بلوچ سیاست میں آج آپ جو ہلچل دیکھ رہے ہیں ، وہ انہی اضداد کے بیچ جدل ہے ، انہی خیالات کے بیچ ٹکراو ہے ، یہاں جدید قدیم کو بدلنا چاہ رہا ہے اور طویل تاریخی تسلسل ہمیں بتاتی ہے کہ اس جدل و ٹکراو کا انجام ناگزیر طور پر ترقی و احیاء ہے ۔ بابا خیربخش کا کردار اس تحریک میں یہاں تک تھا کہ انہوں نے منزل کا تعین کیا اور 70 کے دہائ میں اس وقت کے معروضی حالات کے مطابق منزل تک پہنچنے کا راستہ کلاسیکی مارکسی تھیوری سے محض عوامی قوت اخذ کیا جس کا انجام پسپائ ہوئ ، بقولِ ایک سنگت عوام کی صورت میں مری قبیلے کی جم غفیر افغانستان میں جمع کرنے کے باوجود وہ کامیابی تو کجا انکو بلوچ نہیں بناسکے بلکہ گزینی اور بجارانی بن کر واپس لوٹ آئے ۔ اسکے بعد بابا آخر وقت تک اس گھتی کو سلجھانے میں ناکام رہے جس کا ذکر میں نے پہلے پیراگراف میں کیا تھا یعنی ” بابا تھے تو مارکسسٹ لیکن قوم پرستی کے تقاضے مختلف تھے ، کہیں سرمایہ دارانہ دنیا کی ضرورت ناگزیر تھی اور کہیں نواب بن کر تحریک کے لوازمات پورے کرنے پڑتے ” اسلئے بابا اس ابہام میں وسعت اللہ خان کو یہ کہتے ہیں کہ ” شاید میں کچھڑی ہوں “۔ یہیں سے بابا مری کی سوچ قدیم ہوجاتی ہے اور حیربیار کی سوچ اسکی جگہ لیتی ہے ، اسے بہتر کرتی ہے ، یہ کہتی ہے کہ جدید دنیا میں تحریکوں کی کامیابی کی ضمانت صرف عوامی جم غفیر نہیں ہوتا بلکہ یہاں مقصد کے تعین اور عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ وقت کا چناو اور بیرونی امداد بھی ناگزیر عوامل ہیں ، اور اس وقت سوشلزم کے نعرے کے ساتھ یہ ناممکن ہے کہ ہم بیرونی امداد یا حمایت کی توقع کریں ، اب دنیا بائ پولر نہیں بلکہ یونی پولر ہے دنیا کے تمام فیصلے سرمایہ داروں کے بادشاہ امریکہ اور یو رپی یونین کرتے ہیں ، اور دوسری طرف دیکھیں تو جب سوشلسٹ بلاک اپنے جوبن میں تھا اس وقت بھی ہماری قیادت سوشلزم کا نعرہ مستانہ لگاکر کوئ فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہے اب تو پرولتاری آمریت کے باوجود سویت یونین کو روس بن کر سرمایہ داری اور چین کو مخلوط معیشت کی جانب جانا پڑا ہے ، قطع نظر سوشلزم کے افادیت و عدم افادیت کے کم از کم ہم جیسی کمزور و غلام قوم اس نعرے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اگر منزل آزادی ہے تو اسکا راستہ مسلسل جدوجہد اور عالمی حمایت ہے ۔ دوسری طرف بابا امریکہ کو سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کو ناسور تو قراردیتے رہے لیکن کوئ اور راستہ دینے میں بھی ناکام رہے ، اور بابا اپنے سوچ پر ہونے والے تنقید کا دفاع میں ناکام ہوتے ہوئے بند کمرے میں صرف ایک روایتی جملہ ہی کہہ سکے کہ ” حیربیار امریکہ کا یار ہے “۔ بابا اپنے سوچ کے ساتھ کھڑے رہے اور جدید سوچ ان سے ٹکراتی رہی اگر بلوچ سیاست کے اختلافات کا کلاسیکی نظریاتی پہلو پوچھا جائے تو وہ یہی ہے ۔

               سوشل سائنسز کے جدید تشریحات میں نظرئے کی تشریح محض پیچیدہ معاشیات ، سماجیات و مذاہب کے تھیوریاں نہیں آتے بلکہ وہ کہتی ہے کہ ” مختلف عوامل کو دیکھنے کا طریقہ بھی نظریہ کہلاتا ہے “۔ کلاسیکی تشریح پر نظریاتی اختلاف کو پرکھنے کے بعد اگر ہم بابا مری اور سنگت حیربیار کے بیچ اختلافات کو نظرئے کہ جدید تشریح پر دیکھیں تو زامران والا مسئلہ سامنے آجاتا ہے ، جہاں قومی وسائل میں خرد برد کرنے کے بعد سنگت حیربیار کا موقف ہوتا ہے کہ زامران مری ، قادر مری سمیت کچھ پرانے کمانڈروں کا احتساب ہو ، وہیں اس پر بابا مری اس مسئلے کو ایک مختلف طریقے سے دیکھتے ہوئے در گزر کرنے کا کہہ رہے تھے اور اسکیلئے انکا دلیل یہ تھا کہ زامران چھوٹا ہے اور بھائ ہے اور باقی کمانڈر پرانے لوگ ہیں اسلیئے انکو استثنیٰ حاصل ہو لیکن سنگت حیربیار سینئر و جونیئر اور خونی رشتے کیلئے نرم گوشے کے روایتی تصور کو مسترد کرتے ہوئے یکساں احتساب کا مطالبہ کررہے تھے ، اس سینئر و جونیئر کے مدعے پر زامران والے مسئلے سے پہلے بھی بابا خیربخش اور سنگت حیربیار کے بیچ اختلافات رہے تھے ، سنگت حیربیار قیادت کیلئے معیار قابلیت کو سمجھتے تھے اسلیئے بلوچ خان اور بشیر زیب جیسے دوستوں کو صلاحیت کے بنیاد پر ذمہ داری دینے کا کہتے تھے اور بابا خیربخش مری کے سامنے قیادت کا معیار قابلیت کے بجائے سینیارٹی اور وفاداری کی خاطر مری قبیلے سے تعلق رکھنا ہوتا تھا اسلیئے وہ قادر مری اور قلاتی جیسے لوگوں کی وکالت کرتے تھے حیربیارمری نے شروع سے ہی تمام گوریلوں میں بہتر کے چناو کے لیے قابلیت اور محنت کو اولیت دی اور اسی ایک وجہ کو مزید ذمہ داریاں سونپنے کا ذریعہ بنایا قادرمری اور اس کے جیسے چند کمانڈر شروع سے ہی روایتی طریقہ کار پر کار بند تهے اور ہمیشہ اپنے سنئیر هونے کے بل بوتے پر مقام اور حثیت چاہتے تهے ہمیشہ کی سست روی پر پوچھ گچھ کو اپنے سنئیرٹی کی توہین سمجهتے تهے اور نواب خیربخش مری پرانے ساتهی هونے پر انکے تمام غلطیوں اور کمزوریوں سے درگذر کرنے پر زور دیتے تهے،ان کے علاوہ جہد کے طریقے پر بھی کچھ اختلافات سامنے آتے رہتے تھے ، عسکری جہد کے وظائف کو سمجھنے میں اپنے کم علمی کی وجہ سے شاید میں انکا احاطہ نا کرسکوں لیکن واضح فرق یہ تھا کہ سنگت حیربیار دشمن پر حملوں کو تیز اور جدید کرنا چاہتے تھے اور بابا گوریلہ جنگ کے روایتی طریقوں پر چلتے ہوئے سست اور طویل جنگ کے قائل تھے اس واضح فرق کو سمجھنا ہو تو قادر مری کے اسپلنجی کیمپ اور بلوچ خان کے بولان کیمپ کے سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالیں ۔ ان تضادات کو جانچیں تو ہمیں ایک بار پھر جدید و قدیم کا ٹکراو نظر آئے گا ، اور سنگت حیربیار کے اختلاف رکھنے کو اگر ہم روایتی احترام کے ترازو میں تول کر دیکھیں تو وہ ایک عظیم باپ کا نافرمان بیٹا ہی کہلائے گا ، جو اپنے مدبر باپ کے طریقہ کاروں پر چلنے کے بجائے نئے طریقے لاکر ان پر اتنی سختی سے ڈٹا ہوا ہے کہ اپنے باپ اور سگے بھائ کو بھی نہیں مانتا تبھی بابا خیربخش مری اپنے دفاع میں لاشعوری طور پر سنگت حیربیار کو نافرمان کہہ کر یہ کہتے ہیں کہ ” زامران میرا بات مانتا ہے اور میرے رستے پر چلتا ہے ” اور سنگت کے اٹل موقف کو ڈکٹیٹر شپ کہتا ہے اس لیئے ہمیں زامران والے مسئلے میں سمجھ آجاتا ہے کہ انہوں نے کیوں زامران کا سائڈ لیکر اسے یو بی اے کا تحفہ دیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ، کیونکہ روایتی پدری ذہنیت میں اچھا بچہ صرف تابعدار بچہ ہوتا ہے۔ بابا جانتے تھے کہ زامران نے کرپشن کیا ہے لیکن وہ معافی کے حقدار تھے کیونکہ وہ بابا کے تابعدار بچے تھے اور حیربیار تو نافرمان تھے جو یقیناً بابا کے وراثت کا اہل نہیں تھے، یہ عملی طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بابا کے رحلت کے بعد تابعدار بیٹا زامران بابا کے وراثت ” نوابی ” کو فوری طور پر سنبھالتے ہیں اور نافرمان بیٹا حیربیار اپنے نافرمانی کا مظاھرہ بابا کے وراثت کے خاتمے کا ہی اعلان کرکے کردیتا ہے ۔

                               آجکل سوشل میڈیا میں ایک وڈیو کلپ گردش کرتی نظر آرہی ہے ، جس میں بابا مری سنگت حیربیار کو ” ڈکٹیٹر ، وار لارڈ اور امریکا کا یار ” کہتے ہیں اور زامران کے بارے میں کہتے ہیں کہ ” وہ میرا مانتا ہے اور اسے میں نے سکھایا ہے ” اس ویڈیو کی باز گشت کافی وقت سے چل رہی تھی ، اسے بی ایس او کے ایک خاتون سینئر رہنما نے بنایا تھا ، اس ویڈیو کو یہ کہہ کر بنایا گیا تھا کہ یہ انٹرویو بعد میں تحریری شکل میں شائع ہوگی اسلیئے بابا اسی کلپ میں کہتے ہیں کہ ” یہ باتیں میں میڈیا میں نہیں کرتا ” یعنی اسے پتہ تھا کہ یہ ویڈیو باتوں کے ریکارڈ کیلئے ہے تاکہ بعد میں تحریری صورت میں لائ جائے انکو اگر یہ پتہ ہوتا کہ یہ میڈیا میں نشر ہوگا تو وہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ میں یہ باتیں میڈیا میں نہیں کہتا ، بقولِ ایک دوست بابا نے ان باتوں کو ہذف کرنے کا بھی کہا تھا ، یہی وجہ تھی کہ یہ ویڈیو کلپ بابا کے انتقال سے قریباً دو ماہ پہلے بننے کے باوجود کبھی منظر عام پر نہیں آیا بلکہ انتقال کے بعد سامنے آیا، موقع پرست یار لوگوں کا فطرت تو وہی پرانی ہے کہ جہاں سے موقع ملے اپنا کام نکالو ، کبھی کسی کے پیچھے چھپ جاو اور کبھی کسی کے کندھے پر کھڑے ہوکر اپنا قد اونچا کرو اور اگر ایسے عالم میں مردہ خوری کا موقع ملے تو سونے پر سہاگہ ۔ اب اس ویڈیو کو نشر کرنے کے بعد یار لوگ خوب بغلیں بجارہے ہیں ، قطع نظر ان باتوں کے میں سمجھتا ہوں کہ اس ویڈیو کا نشر کرنا بلوچ قوم خاص طور پر حیربیار و اسکے فکری سنگتوں پر ایک احسان سے کم نہیں ، بابا کے ان دو جملوں سے فکری سنگتوں کے اس موقف پر تصدیق کا مہر ثبت ہوگیا جو وہ گذشتہ 3 سالوں سے بلوچ مخلوق کے سامنے پیش کررہے تھے اور جن کا ذکر میں نے اپنے اس مضمون میں کیا ہے ، یہ باتیں نئ نہیں ہیں اس کا ذکر فکری دوست کافی عرصے سے کر رہے تھے کہ بابا مری کے روایتی سوچ کے ساتھ ہمیں نظریاتی اختلاف ہے اور ان اختلافات کو چھپانے کے بجائے بلوچ عوام کے سامنے پیش کررہے تھے اور ہر نظریاتی تضاد کی طرح بابا کے روایتی سوچ پر تنقید بھی کررہے تھے اور یہ تنقید ان تضادات کے فطری حل تک جاری بھی رہے گی ، کیونکہ بابا مری کے پاس اپنے خیالات کے دفاع کیلئے دلائل نہیں تھے اور نا ہی ” نصیحت مصلحت ” کے سوا کوئ دلیل ہوسکتا تھا ، اس لیئے انہوں نے ” چپ ” کے دیوار کے پیچھے خود کو چھپا لیا تھا لیکن وہ اس تنقید کے تپش کو بھی محسوس کررہے تھے ، اسلیئے نجی محفل میں انہوں نے اظہار کردیا ، قطع نظر اسکے بابا جانتے تھے کہ وہ اپنے سوچ کا دفاع عوامی سطح پر نہیں کرسکتے لیکن ظاھر ہے کسی کے سوچ پر اس قدر تنقید ہو تو اسکے پاس اپنے دفاع میں کہنے کیلئے کچھ تو ضرور ہوتا ہے اور وہ کچھ پھولوں سے سجا بھی نہیں ہوتا ، اسلیئے بابا نے اپنے موقف کا اظہار اپنے زاویہ نظر سے اپنے الفاظوں میں کیا ، بابا کے اس کمزور دفاعی موقف پر میں یہ کہنے کی آزادی چاہوں گا کہ مجھے بابا کہ تمام باتوں سے اتفاق ہے ” ہاں حیربیار ڈکٹیٹر ہے ، اسے اس جم غفیر اور خونی رشتوں سے الگ کھڑا ہونا منظور ہے لیکن موقع پرستی کرکے اپنے موقف میں ہیر پھیر منظور نہیں ، “ہاں حیربیار امریکہ کا ہمنوا ہے ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ امریکا اور یورپ کے حمایت کے بغیر بلوچ آزادی ناممکن ہے ” ، ” ہاں حیربیار وار لارڈ ہے ، کیونکہ وہ روایتی گوریلہ جنگی اصولوں جن میں ایک گمنام کونے میں بیٹھ کر چھ ماہ میں ایک کھمبا اڑایا جاتا ہے کو نہیں مانتا بلکہ وہ متحرک اور جدید جنگ کا قائل ہے ” ، ” ہاں حیربیار مارکسسٹ نہیں ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ اجارانہ دنیا میں مارکسسزم بلوچ جیسے کمزور قوم کیلئے خود کشی ہے ” ہاں آپکے تشریح کے مطابق حیربیار قوم پرست نہیں ، کیونکہ اسکیلئے قوم مری قبیلہ نہیں بلکہ بلوچ ہے ” ، ” ہاں زامران فرمانبردار اور حیربیار نافرمان ہے ، کیونکہ اسکیلئے خونی رشتوں سے زیادہ اہم نظریاتی رشتے ہیں ” اور ایک عام بلوچ سیاسی کارکن کے حیثیت سے میں اپنے لیئے ایک مردہ خور ، مفاد پرست اور موقع پرست لیڈر کے بجائے ایسا ہی لیڈر پسند کروں گا ۔

             جہاں تک تعلق ہے نام نہاد مڈل کلاس کا تو آپ غور کریں ، ڈاکٹر اللہ نظر پہلے اس تنقیدی سلسلے کو پاکستانی ایجنٹوں کا کام کہتا ہے اور مختلف موقفوں سے ہوتے ہوئے اب اسے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سازش کہتے ہیں ، بی این ایم کہتا ہے کہ ہم نے تنقید سے منع کیا ہوا ہے کہ اسکا جواب نہیں دیا جائے لیکن دوسری طرف بی این ایم کے ترجمان آرگن سنگر میں تواتر کےساتھ ” زر بیار ، تاجک ، جمعدار ، پٹھان ” جیسے الفاظ سے مزین آرٹیکل شائع ہورہے ہیں اور وہ سوشل میڈیا میں سنگر کے پیج سے بھی پوسٹ ہوتے ہیں ، یعنی یہ خود کنفیوز ہیں کہ یہ اپنے کارکنوں کو منع کررہے ہیں یا مقابلہ کررہے ہیں ، اسی طرح بی ایس او آزاد کو دیکھیں پہلے انہوں نے بیان داغ کر اپنے کارکنوں کو اس بحث سے منع کیا ، پھر کچھ ماہ بعد سینہ تان کر کہنے لگی کہ ہم سوشل میڈیا میں پیج بناکر وہاں سے جواب دینگے ، چار مضمون لکھنے کے بعد انکے جواب اور وہ پیج کہاں غائب ہوگئے کسی کو خبر ہی نہیں اور آجکل پھر یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بحث کرنے والے غدار ہیں ، ان عوامل سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ انکا مسئلہ سوشل میڈیا یا تنقید نہیں بلکہ انکا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کوشش کرنے کے باوجود اپنے دفاع میں فطری طور پر اس طرح ناکام ہوچکے ہیں جس طرح ہر بوسیدہ موقع پرست سوچ ناکام ہوتی ہے ، اور اب ایک خاص منصوبے کے تحت سازشی تھیوریاں گھڑ کر تصوراتی دنیائیں تخلیق کرکے جان چھڑانا اور روایتی الزام تراشی کرکے الزام لگانے والے کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں ، کہتے ہیں ایک چور کو رنگے ہاتھوں چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا اور محلے والے جمع ہوگئے تو اس نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کیا دیکھو اس گھر کے تیر ( بانس ) غلط لگائے گئے ہیں تاکہ بحث بانسوں کے اوپر ہو اور چوری اس بحث میں گم ہوجائے ، یہی انکا طریق ہے ان پر ہزاروں الزامات ہیں انکے جواب دینے کے بجائے یہ کہنے لگے کہ یہ تو سامراجی ایجنٹ ہیں ، کچھ دن پہلے بی این ایم کا جو بیان آیا جس میں انہوں نے سنگت کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ کہا تھا وہ اصل میں بابا مری کے اس ویڈیو سے جڑا ہے ، اس ویڈیو کلپ کو اتنے وقت اس لیئے چھپا کر رکھا گیا تاکہ پہلے اپنی سازشی تھیوریاں پیش کریں پھر بابا کا یہ انٹرویو نشر کرکے آرام سے اسکے پیچھے چھپ جائیں ، اور یقین کریں اپنے الزامات کیلئے انکا واحد ثبوت بھی یہی ہے ، ویسے ایک بات پر غور کریں بی ایس او کے سینئر خاتون رہنما کا بنایا ہوا ویڈیو فیس بک پر سب سے پہلے برھان عارفی نامی آئ ڈی شیئر کرتا ہے یہ وہ شخص ہے جو گذشتے طویل عرصے سے سنگت حیربیار کو غلیظ ترین گالیاں دے رہا ہے ، قادر شیخ کے اعترافی آرٹیکل کے بعد انکا یہ کارنامہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ منہ سے ڈھونڈ ( گند ) اگلنے والے آئ ڈیز کے پیچھے انہی ڈھونڈ (مردہ) خوروں کا ہاتھ ہے۔

                  مجھ سے ایک دوست پوچھ رہا تھا کہ بابا مری کے ساتھ نظریاتی اختلافات تھے ، لیکن ڈاکٹر اللہ نظر ، خلیل و منان ، کریمہ و جواد کے ساتھ آپ لوگوں کے کیا اختلافات ہیں ۔ میں نے کہا کہ اگر موقع پرستی ایک نظرئے کا نام ہے تو پھر ان سے بھی نظریاتی اختلاف ہیں ورنہ میں سمجھتا ہوں یہ کسی نظرئے کا مالک نہیں ہیں یہ وہ عناصر ہیں جو ہر انقلابی تحریک میں گھس کر ذاتی و گروہی فائدے حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اس شعر کے مصداق کہ ” گر جیت گئے تو کیا کہنا ۔۔۔۔ ہارے بھی تو بازی مات نہیں ” تحریک کامیاب ہوتی ہے تو یہ اسکے حصہ دار ہوتے ہیں اگر نہیں بھی ہوئ تو طاقت ، دولت یا شہرت کی صورت میں انکے اسبابِ زندگی جمع ہوتے رہتے ہیں ( یہاں مراد عام کارکنان نہیں) ۔ ان اختلافات میں یہ نظریے کی بات کر ہی نہیں کرسکتے ، جب سنگت حیربیار اور بابا مری ساتھ تھے تو دونوں اچھے تھے ( پس پردہ دونوں کو قبائلی گنوار کہنا زیر بحث نہیں ) خلیل 2010 کے کونسل سیشن کے بعد بیان دیتا ہے کہ حیربیار فرد نہیں بلکہ ادارے کی حیثیت سے باہر سفارت کاری کر رہے ہیں ، جب اختلافات شروع ہوئے تو یہ لیت و لعل سے کام لیکر نا کسی کی مخالفت کررہے تھے نا حمایت دیکھ رہے تھے کہ کس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے ، جب مڈی لیکر یو بی اے رفو چکر ہوا اور وہاں سے انہیں پہلے سے زیادہ خرچہ پانی ملنے لگا تو پھر حیربیار ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ اور بابا مری درسگاہ آزادی بن گئے ، کل مھران کمزور پڑ جائے تو ” یہ نہیں کوئ اور صحیح ” ، عوام میں جاکر خود کو کٹر مارکسسٹ ظاھر کرتے ہیں لیکن انکو باہر دنیا میں کہیں سوشلسٹ کہو تو انکی ہوائیاں اڑ جاتی ہیں ، بابا زندہ تھے تو پِیر و مرشد تھے ان کے رحلت کے بعد دھوکے سے انکا لیا گیا انٹرویو شائع کرنا تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہے کون نہیں دھوئے ، میں نے پہلے بھی کہا تھا میں بابا سے احترام کے حدوں میں اختلاف رکھتا ہوں انکا سوچ غلط تھا لیکن ایک سوچ تو تھا لیکن میں یار لوگوں سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن ہرگز احترام نہیں کرتا کیونکہ یہ کسی سوچ کا نام نہیں بلکہ موقع کا نام ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ لیڈر ہیں انکا احترام کرو میں کہتا ہوں یہ ہرگز لیڈر نہیں ، اگر بلوچ سیاست میں کوئ حقیقی لیڈر ہے تو وہ سنگت حیربیار ہے ، سنگت حیربیار صرف اپنی سوچ کی خاطر اپنے باپ ، بھائ اورقبیلے سے کنارہ کش ہوکر فکری دوستوں کو اپنا سرمایہ حیات بناتے ہیں ، کیا ان میں سے کسی میں ایسا فیصلہ لینے کا جرات ہے ، ڈاکٹر اللہ نظر و اختر ندیم اپنے رشتے دار مخبر مصطفیٰ کو قتل نہیں کرسکتے اور دوسروں کو بھی دھمکی دیا ہوا ہے کہ اگر کسی نے اسے مارا تو ہم بدلہ لیں گے، کریمہ کے کزن کو چھڑانے کیلئے یہ ڈیتھ اسکواڈ کے ایک کارندے کے بھائ کو چھوڑ دیتے ہیں ، سنگت حیربیار پر یہ تمام لیڈران و پارٹیاں ایک ایک کرکے اپنے رسمی بیانات میں بے شمار کیچھڑ اچھال چکے ہیں لیکن انہوں نے آج تک کسی کا جواب نہیں دیا ہے کیونکہ وہ اس تضاد کو اپنے شخصیت نہیں بلکہ سوچ سے نتھی کرتے ہیں ، کیا یہ ایسا کرسکتے ہیں ، نہیں ڈاکڑ اللہ نظر کے بارے میں سلیمان داود صرف اتنا کہتا ہے کہ انہیں اختر سے ملنا نہیں چاہئے تھا وہ ذات پر بات کو دیکھ کر ، سیخ پا ہوکر فرط جذبات میں دو بیانات ٹھوک دیتے ہیں اور ماشاء اللہ سے اپنے والد صاحب تک کو سرمچار ظاھر کرتے ہیں ، سنگت حیربیار اپنے موقف کو لیکر ایک اصولی اختلاف رکھتے ہیں جس کے بدلے وہ باقی تمام لیڈروں و پارٹیوں سے تنہا رہ کر مشکلات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں کیا یہ ایسا کرسکتے ہیں نہیں صبح شام سرداروں و نوابوں کو گالیاں دینے کے بعد موقع ملتے ہی وہ بے شرمی سے انکے ساتھ ہاتھوں کی زنجیر بنالیتے ہیں ، اگر قومی لیڈر انکے جیسے ہوتے ہیں تو پھر اس قوم پر خدا ہی رحم کریں ۔

               17 دسمبر 1903 کو رائٹ برادران دنیا کا پہلا جہاز بناکر اڑاتے ہیں ، صرف 56 سالوں بعد اسی ٹیکنالوجی کے بنیاد پر پہلا خلائ شٹل ” لیونا 2 ” 13 ستمبر 1959 کو چاند پر اترتا ہے اور صرف 66 سال بعد 20 جولائ 1969 کو پہلا انسان چاند پر اترتا ہے اور آج یہ ٹیکنالوجی کہاں تک پہنچی ہے سب کے سامنے ہے ، شاید رائٹ برادران کو گمان تک نا گذرا ہوگا کہ ان کے معمولی سی بنیاد کس قدر ترقی کرسکتا ہے ، آج ہم رائٹ برادران کو ان خلائ شٹلوں کو چھوڑیں کوئ جدید جہاز بنانے کو کہیں تو بنانا درکنار وہ اسے اڑا بھی نہیں سکیں گے لیکن پھر بھی خالق وہی ہیں ۔ رائٹ براداران نے اپنا کام کیا اسکے بعد وہ سوچ شاید ان سے بہت بڑی تھی اس لیئے انکے حد تک رک نہیں سکی بلکہ ترقی کرتی گئ ۔ اسی طرح بابا مری نے اپنے وقت میں تحریک کی بنیاد رکھ کر اپنا کام کیا جسے جھٹلا نہیں سکتے لیکن وہاں رکنا اور آگے نہیں بڑھنا شاید فطری اصولوں کے منافی عمل ہوگا یہ ارتقاء اٹل ہے ، ارتقاء و ترقی کیلئے تضاد اٹل ہے اس فطری عمل کو نا بابا روک سکے اور نا کوئ اور روک سکے گا ، آج سنگت حیربیار اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے ، بابا کے سوچ کا حصہ ہونے کے باوجود یہ اسکا تضاد بھی ہے ۔ کل اگر سنگت حیربیار وقت کے اس چلتے پہیئے کے ساتھ نہیں چلے تو وقت انہیں روند کر اسکی جگہ کسی اور کو کھڑا کردے گا اور ہاں جہاں تک تعلق ہے موقع پرستوں کا تو ان کیلئے کہا تھا نا ” وہ کسی سوچ کا نہیں بلکہ موقع کا نام ہیں “