ہمگام کالم : کل اگر بھارت نے پاکستانی پنجاب پر حملہ کیا تو بلوچ کو زرہ بھربھی دکھ نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ وہ درد اور دکھ کے پہاڑ جو سفاک پنجابی عسکری قیادت نے بلوچوں پر توڑے ہیں وہ انتہائی بھیانک اور ناقابل فراموش ہیں۔
اچھے وقتوں میں پنجابی جنرلوں نے باہمی رضا و رغبت، بھائی بندی، ہمسائیگی اور جمہوریت کے اعلی اقدار و روایات کو ہمیشہ جوتی کے نوکھ پر رکھا ہے۔ سفاکیت، جبر اور مکر وفریب کو فوقیت دیتے ہوئے بلوچوں کو زیر subjugate کرنے کی تمام حدوں کو پار کرچکے ہیں۔ انگریزوں کی وفاداری کے بدلے ورثے میں ملی فوجی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ان پنجابی جنرلوں نے بلوچستان اور پختونستان میں تباہی مچائی ہوئی ہیں ۔ انکے ساتھ اگر 70 سالہ رشتے کو اکیڈمک بنیاد پر پرکا جائے تو ہم اس نتیجے کو پہنچتے ہیں کہ پنجابی قوم انتہائی کٹر قوم پرست بلکہ شاونسٹ ہیں البتہ شاطرانہ طور پر پاکستان اور اسلام کے نام پر پشتون اور بلوچوں کو ورغلاتے رہے ہیں کہ ہم مسلمان بھائی، بھائی ہیں۔
بلوچ عوام ان پنجابی جنرلوں کی ظلم و ستم، وسائل کی لوٹ و کھسوٹ، سیاسی رہنماؤں کو بزور بندوق کرپٹ کروانے جیسے گھناونے حرکتوں سے، بلوچستان کو دانستہ طور پر انتہائی پسماندہ رکھنے سے، عدل و انصاف کی دھجیا اڑانے سے، ایک وقت کی روٹی کیلئے بلوچ بچوں کو بھوکا رکھنے سے ، روزگار کے تمام دروازے بند رکھنے سے، بلوچستان پر فوجی یلغار اور نوآبادیاتی قبضہ گیریت کی بدصورت رویہ سے، بلوچستان میں ہر سول ادارے پر آئی ایس آئی کی بدمعاش اہلکاروں کی مداخلت سے، تعلیمی اداروں پر فوجی کنٹرول سے، حتکہ پانی بجلی اسپتال جیسے بنیادی ضرورتوں پر آئی ایس آئی کی کنٹرول جیسے غلیظ رویوں اور بدمعاشانہ حرکتوں سے بیزار ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے فوجی جنرلوں کی سفاکیت کی وجہ سے بلوچستان کے ہر گلی کوچےمیں پنجاب کے خلاف بلوچوں کے دلوں میں نفرت کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ۔
سوشل میڈیا جوکہ پنجابی جنرلوں کے دسترس سے باہر ہے لیکن مکر و فریب سے اسکی آئی ایس آئی کی سائبر ونگ بلوچوں کے ناموں کے ساتھ فیک آئیڈیز میں یہ تاثر دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ بلوچ پاکستان کے وفادار ہیں۔ بھائی اب بہت ہوچکا یہ ناٹک اب بلوچستان میں کم ازکم نہیں چلے گا۔ اب انڈیا کے ساتھ جنگ کی نوبت آچکا ہےدیکھتے ہیں پنجابی جنرل کہاں تک اپنی موجودہ منفی رویہ کے ساتھ بلوچ اور دوسرے اقوام کو محکوم و غلام رکھیں گے۔
کیڑے مکوڑوں کی طرح پنجاب کی بڑھتی ہوئی بڑی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے پنجابی بیروکریٹس، بندوق بردار پنجابی جنرلوں کے دہشتگردی کے سائے تلے بلوچستان سمیت پختونستان و سندھ کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔پاکستان میں روزگار دینے والا سب سے بڑا ادارہ پاکستان آرمی ہے، اسکی افرادی قوت 75٪ پنجابی جوانوں اور افسران پر مشتمل ہے، پاکستان کا یہ نام نہاد دفاعی ادارہ بندوق بردار پنجابی جنرلوں کے تصرفات میں ہے دفاعی ماہرہ عائشہ صدیقہ کے مطابق پاکستان آرمی پاکستان میں سب سے بڑی پرائیویٹ بزنس چلا رہا ہے جس کی مالیت تقریبا 100 بلین ڈالر سے زیادہ ہے، پبلک سیکٹر کے لبادے میں جیسا کہ نام سے واضع ہے، نیشنل لاجسٹک سیل، اسپیشل کمیونیکشن آرگنائزیشن، فوجی فاؤنڈیشن ،فرنٹیر ورک آرگنائزیشن،عسکری بینک،فوجی فرٹیلائزر کمپنی وغیرہ، یہ سارے کاورباری ادارے سالانہ جانچ پڑتال اور آڈٹ سے مثتسناء ہیں۔
پنجاب کس طرح دوسرے اقوام کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ پاکستان کے ٹوٹل سالانہ بجٹ میں سے 5.9 ٹریلین روپیہ فوج پر خرچ ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سارا پیسہ ہرسال بلواسطہ پنجاب کے پیٹ میں جاکے گرے گی۔ آبادی کی تناسب میں بھی وفاق کے وسائل کی75فیصد اخراجات پنجاب پر ہو رہے ہے۔ وفاقی سیکٹریٹ میں براجمان تمام کے تمام بابو وغیرہ پنجابی ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے تمام وسائل کی استعمال سے لیکر ترقیاتی منصوبوں کا فیصلہ کرنے کے اختیار دار ہیں ۔اسلام آباد وفاقی سیکٹریٹ میں ناسا کی طاقتورترین خوردبین کو استعمال کرتے ہوے بھی آپ کو ایک بھی بلوچ نظر نہیں آئیگا، لیکن اگر مل بھی جائے تو بندوق بردار پنجاب جرنیلوں کی ڈر سے وہ بلوچستان کے لیئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا ۔ صوبائی نمائندگان پنجابی جنرلوں کے چنے گئے ان پڑھ لوگ ہیں جو کسی بھی امید اور توقع کے لائق نہیں۔
لیکن اب ہر گزرتے وقت کے ساتھ بلوچ اور پشتون پنجاب کے سامنے پہاڑ کی مانند کھڑے نظر آرہے ہونگے۔ بندوق بردار پنجابی جنرلوں نے جتنے’ گل خانوں اور جمعہ خانوں ‘کو استعمال کیا وہ اب ناکارہ کارتوس بن گئے ہیں۔ منظور پشتین کی کامیاب پُرامن سیاسی تحریک پنجاب کیلئے ایک ڈراونا خواب بن چکا ہے۔ بلوچستان میں اب پنجابی جنرلوں کی حکم ایسا نہیں چلے گی، کیونکہ بلوچ سرمچاروں کو پنجابی سیاست بازی سے سخت نفرت ہے۔
دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ پنجابی پاکستان کو یہ بات اب سمجھ آنا چاہیے کہ جس دن دنیا نے کردوں کی طرح بلوچستان کے مسئلے پر توجہ دینا شروع کیا تو اس کےلیے بھاگنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچےگا۔ بہتر یہی ہے کہ خون خرابے کے بغیر پنجابی پاکستان فوج بلوچستان سے نکلے۔ اور ویسے بھی بلوچ مزاحمت کی وجہ سے معاشی طور پر تباہ حال پاکستانی بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ بلوچستان کو کنٹرول کرنے پرخرچ ہو رہا ہے۔۔ اب لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔ پاکستانیوں کے لیئے نوشتہ دیوار پڑھنے کیلئے صاف اور شفاف یہ لکھا ہوا ہے کہ بلوچستان آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اب بلوچ سرمچاروں اور پاکستانی فوج کے درمیان طاقت کے توازن کو برابر رکھنے کیلئے بس اب بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت کی دیر ہے۔ دانشمند پنجابیوں کو اپنے بے لگام جنرلوں کو سجمھانا ہوگا کہ کچکول لیئے در در کی ٹھوکریں کھانے سے پہتر یہی ہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کو پرامن طور پر تسلیم کریں اور پھر باقی تمام معاملات مزاکرات کے ٹیبل پر گفت وشنید سے حل ہونگے۔۔بلوچستان کی گیس جو خون طرح پنجاب کی رگوں میں دوڑ رہا ہے، اس کو بلوچ بند نہیں کرینگے، لیکن بلوچستان میں انسانی حقوق کی پائمالیوں کا جواب دینا ہوگا۔۔
جس طرح امریکہ خلیج اور یورپ نے پاکستان کی مدد کی ہے بلوچستان بھی پنجاب کی غریب عوام کے فلاح کیلئے مالی کمک کریگا لیکن پنجاب بین الاقوامی شرط و شرائط کے تحت یہ ضمانت دے وہ کہ ایک اچھے ہمسایہ کی طرح بلوچستان کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کریگا اور بلوچستان کے وہ تمام علاقے انگریز نے انتظامی امور چلانے کی غرض سے پنجاب میں شامل کیئے وہ واپس بلوچستان کے ساتھ ضم ہونگے، بال اب پنجاب کے کورٹ میں ہے۔