یوں تو پہلے بھی ہوئے اُس سے کئی بار جدا
لیکن اب کے نظر آتے ہیں کچھ آثار جدا
براہمدغ بگٹی کی سیاست میں اُس وقت سے منفی تبدیلی کے آثار دکھائی دیئے جب آپ نے بی این ایف سے اس غیر سیاسی وغیر سنجیدہ دلیل کی بنیاد پرعلیحدگی اختیار کیا کہ یہ الائنس چونکہ بی این پی مینگل بارے سخت موقف رکھتی ہے لہذا بی آرپی ان کے ساتھ چل نہیں سکتی ۔
بی این پی مینگل پاکستانی پارلیمنٹ کے زریعے بلوچوں کے حقوق کی بازیابی کوممکن سمجھ کر اس کے زریعے اپنی تئیں کوشش کے نام پرقوم سمیت خودفریبی میں مصروف ہے جس کوماضی قریب میں سردار عطاء اللہ مینگل وقت کی بربادی اور اپنے قوم کے ساتھ فراڈکہتے تھے ۔آزادی پسندوں کی طرف سے اُنکی اس سیاسی قلابازی پر تنقید پربی این پی مینگل کی برہمی و دلگرفتگی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ اپنے ہی راستے سے ہٹ کر اپنے ہی نعروں سے انحراف کرچکے ہیں وہ سیدھی سی سوالوں کا جواب دینے کے قابل نہیں رہے ہیں لہذا وہ ہر بات اورسوال کو گستاخی یا گالی سمجھ کر اُس کا جواب دھونس دھمکی یا گالی گلوچ و طعنہ زنی سے دیتے ہیں۔مگراُن کے سیخ پا ہونے پر بی آر پی کا اچانک آپے سے باہر ہونا اور ایک ایسے تنظیم بارے نرم گوشہ رکھنے کا اظہار ناقابل فہم تھا جوپاکستانی پارلیمانی سیاست کا حصہ ہے جسے بی آرپی سربراہ یہ کہکرمسترد کرچکا ہے کہ ہماری پارٹی اُس وقت پارلیمانی سیاست کا حصہ بنے گی جب بلوچستان آزاد ہوگا ہماری قوم آزادی کیلئے کٹ مررہی ہے لہذاہم اُن کے ارمانوں کے خلاف کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بن سکتے جس سے پاکستانی قبضہ گیریت کو قانونی جواز ملتا ہواور جو کام پاکستانی پارلیمانی جماعتیں بشمول بی این پی مینگل کررہی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی غلامی تسلیم کرکے اُس پر مہر تصدیق ثبت کریں۔یہ متضاد بیان اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ یہاں سنجیدہ رویوں کافقداں و سیاسی پختگی ناپید ہے ۔بی این ایف قیادت اس غیرسنجیدہ وغیرسیاسی رویے پر حیران ہونے کے ساتھ یہ سوال کرتا رہ گیا کہ بی آرپی جیسے آزادی پسند تنظیم سے پاکستان پرست بی این پی مینگل کا کیا لینا دینا؟ یہ ہرلحاظ سے سمجھ سے باہروالی بات تھی کیونکہ جو لوگ سیاسی علم سے زرا بھی واقف رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سیاست میں اپنے نظریات اپنا موقف، پالیسی کسی بھی سیاسی و معتبر شخص و جماعت کیلئے اولیت رکھتے ہیں انہی چیزوں کی قدردانی اُنکی سیاسی پختگی ،اخلاص و ایمانداری کا پیمانہ گردانا جاتا ہے ان کے بعد ذاتی تعلقات رشہ داریاں یاری دوستیوں کی باری آتی ہے ۔
براہمدغ بگٹی سے بی این ایف سوال کرتا رہ گیا کیونکہ اس سوال کا جواب نہ کل اُنکے پاس تھا نہ آج ہے اورنہ آنے والے کل کو ہوگاکہ ایک سیاسی اتحاد میں شامل اُن جماعتوں سے دور رہنے کیلئے یہ جواز پیش کیا جائے کہ وہ چونکہ ایک ایسی جماعت کے خلاف کسی مہم کا حصہ ہیں جو دشمن ریاست کو تسلیم کرکے اُسکی قبضہ گیریت کو مضبوط کرنے اُس کا حصہ بننے بیقرار ہے۔2013الیکشن میں بی این پی مینگل کا حصہ لینااور بی آر پی کی طرف سے مذکور ہ الیکشن کو ایک ڈھونگ قرار دینا ان دونوں کے موقف میں زمین و آسمان کے فرق کی واضع مثال ہے۔
اس کے باوجود براہمدغ بگٹی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس جماعت سے اتحاد کے امکان کااشارہ دے کر ان خیالات کو تقویت دی ہے کہ آپ کے پاس سیاسی معیارروائتی تعلقات و رشتہ داریوں کے گردگھومتی ہیں آپ جس بلوچ جہد آزادی کی بات کرتے ہیں جس کے لئے آپ کے وفادار وں کے علاوہ عام بلوچ جانیں نچھاور کررہی ہیں اُس کی کوئی اہمیت نہیں ۔نہیں تو آپ کسی سے بہتر جانتے ہیں کہ یہ ہزاروں شہداء وگمشدگاں اور اپنے گھروں سے دربدر مہاجرت کی زندگی گذارنے پر مجبور فقط بلوچ آزادی کیلئے اس انجام کو پہنچے ہیں ۔ان کی قربانیوں کا کسی بھی پارلیمانی جماعت کے سیاست سے دور دور کا واسطہ نہیں ۔
نمائندہ جنگ کے حالیہ انٹرویو میںآپ نے بی این پی مینگل سے اتحادکے امکانات کے علاوہ چند دیگر باتیں کیں ہیں جو آپ کے سابقہ موقف سے براہ راست متصادم ہیں:
۱) دس کروڑ دالرکی شیخی : آپ کہتے ہیں میرے دادانے دس کروڑ ڈالر مجھے ورثے میں چھوڑے ہیں اس لئے مجھے اپنے کام کیلئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔آپ جس رقم کی بات کرتے ہیں وہ اُس کل رقم کا ایک حصہ ہوگا جو شہید نواب اکبر بگٹی کے پاس موجودتھی مگرشہیدبگٹی نے کبھی بھی اُس مکمل رقم کی موجودگی میں اس طرح کی بات نہیں کی کہ میرے
پاس اتنی رقم ہے مجھے کسی کی مددکی ضرورت نہیں بلکہ اس کے برعکس آپ زندگی کے آخری لمحے تک بلوچ تو بلوچ دنیا کی ہر قوت کو مدد کیلئے پکارتے رہے۔امریکہ دنیا کاواحد سپُرپاور
ہے اس کے باوجود وہ کبھی بھی اس زعم میں مبتلا نہیں ہوا ہے کہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں تو براہمدغ کا سو ملین ڈالر ایک ملک کے خلاف تحریک آزادی چلانے کیا چیز ہے؟۔اگر بات آپ کے ذاتی زندگی و ضرورتوں کی ہے تو یقیناً اس رقم کی موجودگی میں کسی کے مالی مدد کی ضرورت نہیں ہونی چائیے لیکن انٹرویو میں آپ نے قومی سیاسی جدوجہد کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔اِسی بات کو مدنظررکھکر آپ اگلے مرحلے میں اس بات پر برہمی کا اظہارکرتے ہیں کہ خان قلات سلیمان داؤدکیوں اپنے آپ کو بلوچوں کا لیڈر کہلاتا ہے۔ آپ کے اس اعتراض کا مقصد خوداس بات کااظہارہے کہ میربراہمدغ بگٹی اپنے آپکو سیاسی و قومی لیڈر سمجھتے ہیں اگر آپ ایسا سوچتے ہیں توآپ کو اپنے ذاتی اور قومی تقاضوں کے درمیان لکیروں کی معٰنی سے ناآشنا نہیں ہوناچائیے۔ یہاںیہ امربھی زیربحث نہیں کہ ایسااظہاریہ کسی بھی سیاسی لیڈرکے شایاں شان نہیں کہ محفلوں میں بیٹھ کے اپنے دولتمندہونے پر شیخیاں بھگارتا پھرے کیونکہ سیاسی لیڈر کا سرمایہ اُس کا عوام تصور ہوتا ہے نہ کہ ڈالروں کی گٹھڑی! اگردولت ہی سب کچھ ہوتا تو دنیا کے دولتمندتریں شخصیتوں میں شامل معمرقذافی کو لوگوں کی نظروں سے گرنے کے بعد کھربوں ڈالروں کا انباربچالیتا ۔
اتحاد شخصیتوں سے نہیں ہوسکتا:یہ بات جتنی ہی اصولی ہے اُس پر میربراہمدغ کا بات کرنااور پھر اسکی تشریع اتنا ہی غیر سنجیدہ محسوس ہوتا ہے ۔پہلے آپ فرماتے ہیں وہ چونکہ ایک جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں لہذااگر وہ کبھی اتحا د کی طرف جائیں گے تو اُس کے ممکنہ اتحادی بی این پی مینگل اور بی این ایم ہوں گے۔تویاد دلائیں کہ اس سے قبل آپ نے جن لوگوں کے ساتھ سوئیزرلینڈ میں ہاتھ سے ہاتھ ملا کر وسیع اتحاد کا نوید سنایا اُن میں ایک بی این ایم کے علاوہ باقی تمام(مہران بلوچ،جاوید مینگل،بختیار ڈومکی وغیرہ) بھی شخصیتیں تھیں کسی کا کوئی پارٹی یا تنظیم نہیں تھا اگر وہ سارے”ون مین پارٹی “آپ کے اس سنہری اصول پر پورا نہ اُترنے کے باوجود اتحادی کا شرف حاصل کرنے کامیاب ہوئے تو باقیوں کیلئے یہی اصول کیوں کارآمد نہیں رہا؟اس بات کادوسرا حصہ کہ میرا اتحاد بی این پی مینگل اور بی این ایم سے ممکن ہے سیاسی ناپختگی کاوہ شاہکار نمونہ ہے جس کی ڈژایو پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ اتنی لمبی سفر طے کرنے کے باوجود ہمارے کچھ زعما و لیڈری کا دعویٰ کرنے والے لوگ وہاں کھڑے ہیں جہاں روائتی سیاست کی بھینٹ چڑھ کروطن ہاتھ سے جاتا رہا۔خودسری اور اصولوں کی دھجیاں اڑانے والوں میں سرفہرست بڑے ناموں میں سردار عطااللہ مینگل اور میرغوث بخش بزنجویہاں بھی مثالی رہے ہیں سردارمینگل اَسی کی دہائی میں ایک طرف پاکستان پرست حفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹوکیساتھ نیا پاکستان بنانے کنفیڈریشن کا نعرہ لگارہے تھے تودوسری طرف آزاد بلوچستان کا اخبار نکال کر آزاد بلوچستان کی باتیں کرکے پاکستانی الیکشن میں حصہ لینے والوں کو قوم و وطن فروش کے القابات سے نوازتے رہے جبکہ میر غوث بخش بزنجو بیک وقت نیپ و پاکستان کمیونسٹ پارٹی کا مرکزی کمیٹی کا ممبر رہا دونوں جماعتیں اپنے پروگرام اور موقف کے حوالے سے مختلف و یکسر متضاد تھیں مگر میر بزنجودونوں میں رہ کر اصول پسنداوربڑا لیڈر کہنے پر کبھی بھی کسرنفسی سے کام لیکر ایسا کہنے پر کسی کو منع نہ کرسکا۔براہمدغ بگٹی ایک طرف ایک ایسے جماعت سے اتحاد کا خواہشمند ہے جو پاکستانی ووٹ و الیکشن میں حصہ لیکر اُس کے ایوانوں میں بیٹھا ہے جبکہ دوسری جماعت اس ملک کے کسی بھی انتخابی عمل میں شرکت کو قومی تحریک سے انحراف اور شہداء کے لہو کی سوداگری سمجھتا ہے۔بی این ایم اور ڈاکٹر اللہ نذر کئی بار اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ بی این پی مینگل بھی دیگر پاکستانی پارلیمانی جماعتوں کی طرح تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے ریاست کا آلہ کار ہے اب کیا سوچ کر براہمدغ بگٹی اُنھیں بی این پی مینگل جیسا پیش کرنا چاہتے ہیں ۔اس بات کی وضاحت بھی کسی نہ کسی دن ہو جائیگی کہ یہ براہمدغ بگٹی کی خواہش ہے یا درون خانہ بی این ایم بوریاں بستر سمیٹ کر بی این پی مینگل کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل ہو کر ” پاکستانی قومی دھارے”کی سیاست کا حصہ بننے جارہی ہے ۔ کیونکہ ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بی این پی مینگل اس ہیت میں اس سربراہی کے تحت کبھی تحریک آزادی کا حصہ نہیں بن سکتی البتہ اتحاد کی صورت میں بی آر پی اور بی این ایم کے رسوائی کا ساماں کرکے اُنھیں پاکستانی پارلیمانی دلدل کی طرف ضرور کھینچ سکتی ہے یاکم از کم اُن سے اتحاد کے امکانات کو کیش کرکے اسلام آبادکو بیوقوف بنا یاسکتا ہے(اس پرمزید بات ہم اپنے اگلے مضمون ۔”رہا گردشوں میں ہردم تیرے اقتدارکا ستارہ “میں کریں گے) ۔تاہم بی این ایم کا اصولی موقف آنا ابھی باقی ہے کہ کس خوش فہمی،کم علمی یا بد نیتی سے براہمدغ خان یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ بی این پی مینگل کے ساتھ اتحاد کرے گا تو بی این ایم بھی اُس کا حصہ رہے گی جہاں بی این پی مینگل نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کیفیت میں کھڑی ہے جبکہ بی این ایم شہید غلام محمد و دیگر سینکڑوں شہداء کی قربانیوں بدولت قومی آزادی کے حصول وپاکستانی ریاست بارے ایک واضع موقف کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔
اس اظہاریہ میں ایک بات کسی حد تک افسوس ناک کیساتھ خوش آئند بھی ہے۔افسوس ناک پہلو یہ کہ آپ نے کہاہے کہ آپ آزادی پسند حیر بیار مری کیساتھ اتحاد نہیں کرسکتے ۔ جبکہ
خوش آئند بات یہ ہے کہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ بلوچ آزادی پسندوں کے درمیان اتحاد کے فقدان پر کوئی حیر بیار مری کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا جیسا کہ ایک عرصے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی جیسے حیربیار مری اور اُن کے دوست اتحاد نہیں چاہتے ۔بحیثیت سنجیدہ قوت وہ ہمیشہ سب سے زیادہ عوامی دباؤ میں رہے ہیں اوراُن سے یہ تقاضا رہا ہے کہ آپ لوگ اتحاد کیلئے آگے آئیں کیوں تمام آزادی پسند ایک دشمن کے خلاف ایک نعرہ کے تحت برسرپیکار ہونے باوجود ایک ساتھ کام نہیں کرسکتے اب یہ راز راز نہیں رہا کہ
کون اتحاد کے نام پر بے قابو ہجوم اکھٹی کرکے پوائنٹ اسکورنگ کے خبط میں مبتلا ہے یا کون ایک ایسی اتحاد کا خواہاں ہے جو آزادی کے بجائے پاکستانی پارلیمنٹ کومنزل سمجھ کر اُس کے حصول کیلئے کھیتوں میں بارود بوکرقوم کے بہترین بچوں کی بلیدان چڑھا تا ہے اور قوم کو ایک مضبوط اتحاد دے کر منزل تک پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
اقوام متحدہ کی اہمیت سے انکاریا انگورکھٹے ہیں:آپ نے ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہوکر اقوام متحدہ کی اہمیت بارے جو بات کی ہے اُس کے دو پہلو ہو سکتے ہیں ایک پہلو یہ کہ اقوام متحدہ ازخود قوموں کو آزادی نہیں دلا سکتی اس کیلئے قوموں کو خود خون پسینہ بہانا پڑتا ہے جو درست ہے لیکن اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے اس اہم بین القوامی معتبر فورم کو نا مناسب جگہ قرار دینا دانشمندانہ رویہ نہیں ۔ اگر یہ موثر اور مناسب جگہ نہیں تو آپ اپنے دوستوں کے ساتھ جب بھی موقع ملتا ہے اقوام متحدہ کے بلڈنگ کے باہر کیوں بینر اُٹھاکر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اگر آپ باہر کھڑی فریاد کرتے ہیں اس کا مطلب ہے ابھی تک آپ کو اندر جانے میں دشواری ہے ۔باہربارش،سردی، دھوپ میں کھڑے ہونے کا مقصد یہی ہے کہ اندر بیٹھے لوگ آپ کے قومی مصائب سے آگاہ ہوکر آپ کے قومی مشکلات حل کرنے کردار ادا کریں۔ نہیں تو بقول آپ کے آپ جیسے ارب پتی کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے خاک نشیں گمشدگاں کی تصویریں اُٹھاتا پھرے۔آج کی دنیا میں اقوام متحدہ تو بہت بڑی بات ہے چھوٹے سے چھوٹے فورم کو اپنے مقصد کے حصول کیلئے نامناسب اور ناچیز قرار نہیں دیا جاسکتایہ الگ بات ہے کہ ہر فورم سے فاہدہ حاصل کرنے زیرک ،معاملہ فہم ،محنتی اور نابغہ روزگار ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جس کا بد قسمتی سے بلوچوں میں قحط الرجال ہے۔
پاکستان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں! : یقین نہیں آتاکہ یہ بات ایک ایسے بلوچ لیڈرنے کہے ہیں جو ایک عرصے سے اپنی مادر وطن بلوچستان پر جبری قبضہ کو تسلیم نہ کرنے کی بات کرکے بلوچ آزاد ریاست کی بحالی کیلئے جدوجہد کرکے ہزاروں لوگوں کوجد و جہد پر آمادہ کرچکا ہے۔اُسی نعرے کی پاداش میں ہزاروں نوجواں ،بوڑھے ،بچے جانیں نچھاور کر چکے ہیں سینکڑوں گاؤں ویران اور لاکھوں ایکڑ اراضی لہلاہاتی فصلوں کو ترستی فوجی ٹرکوں کی دھول اڑاتی گذرگاہ بن گئی ہیں۔ آج اُسی جہد کا ایک سرخیل یہ کہے کہ میرا پاکستان کیساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں جس کا ہمدرد ووفاداروں کے علاوہ دادا، لاڈلی ہمشیرہ و معصوم بھتیجی پاکستان نے شہید و غائب کئے ہیں تو دل دھک سا جاتا ہے اور سابقہ چہاربے وجہ پسپائیوں کے زخم پھر کھل اُٹھتے ہیں۔
پاکستان سے ذاتی دشمنی نہ رکھنے کی بے وقت راگنی بے وجہ نہیں ہوسکتی۔ براہمدغ خان اس سے قبل بارہا اس ملک کو غیر اور اُس سے کسی بھی تعلق کو غلط کہہ چکے ہیں لیکن اب اچانک اس سے بیرنہ رکھنے کی بات بذات خود ایک مشکوک عمل اور ایک موقع پرستانہ اور ناقابل قبول قدم کی طرف جانے سے پہلے زمین ہموار کرنے کی کوشش ہے۔کیا کسی کے گھرپر حملہ کرکے اُس کا اختیار اپنے ہاتھ لینااُس کے وجود کو مٹا نا دوستی ہے جو بی آر پی لیڈرکو یہ سب کچھ دیکھنے ا ورسہنے باوجود پاکستان سے دشمنی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی؟
پاکستانی فریم ورک یا قومی سیاست کی اُڑتی دھجیاں:آپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے” اگر بلوچستان کے عوام آئین پاکستان کے فریم ورک میں رہنا چاہیں تو اُنھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا”بلوچ قومی سوال متعلق یہ بات دوالگ پیرائیوں کہی جاسکتی ہے مگر دونوں صورتوں میں درست نہیں پہلہ ان معنوں میں درست نہیں کہ پاکستان کے اس دلیل کے جواب میں کہا جائے کہ عام بلوچ آزادی نہیں چاہتا تو اُس کے جواب میں کوئی اِسے چیلنج کی صورت دے کر کہے کہ اگر ایسی بات ہے تو آئیے یہاں ریفرنڈم کراتے ہیں۔یہ مطالبہ کرکے وہ لاشعوری طور پر پاکستان کے قبضے کو جائز قرار دے کر اُس کو مال شریک تسلیم کرتا ہے جوحقیقت سے متضاد ہے۔جو انتخابات 2013میں منعقد ہوئے وہ بھی ایک غیر رسمی ریفرنڈم تھی جسمیں 96%بلوچ الیکشن سے لا تعلق رہے بلوچ لیڈر پاکستان کو برابر کا حقدار تسلیم کرکے اُس کے ساتھ حساب کتا ب کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کو اس سے لا تعلق رہنے کا کہیں جو دنیا میں پاکستان کے ہر پروپگنڈے کا موثر جواب تصور ہوگا ۔دوسری صورت میں یہ آزادی کے جہد سے راہ فرار ہے۔جِسے آزادی کے نعرے سے
دستبردار ہونے کے بعد بی این پی مینگل نے بی ایس او کی سابقہ قیادت سے مستعار لیا اس جماعت نے اس بین القوامی حق کی تشریع اپنے طور یوں کیا کہ یہ نعرہ بھی شُترمرغ کی طرح نہ اُڑتا ہے نہ بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔یہ جماعت بھی یہی تاویل دیتی ہے کہ اقوام متحدہ آکر ریفرنڈم کرائے جس میں اگر بلوچ قوم نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تو وہ اُسے تسلیم
کریں گے مگر جب آپ ایک سوال لاکھ بار مختلف پیرائے میں دہرائیں کہ آپ کی جماعت بلوچ قوم کیلئے پاکستان کے ساتھ رہنے یا آزادی کو ترجیع دیتی ہے اور بحیثیت ” سنجیدہ “
بلوچ جماعت آپ قوم کو کس فیصلے کے حق میں رائے دینے کا مشورہ دیں گے؟۔ وہ کبھی بھی اس کا مطلق جواب نہیں دیں گے کیونکہ اُنھوں نے اس نعرے کو کبھی قبول کرکے اُس کیلئے
کام نہیں کیا ہے بلکہ اِسے آزادی کے نعرے سے بھاگ کے سرچھپانے ایک جاہے پناہ کے طور استعمال کیا ہے دنیا میں لیڈر کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ایک جماعت یا الائنس کے زریعے عوام کوتمام شعبہ ہائے زندگی میں درست فیصلہ کرنے قیادت فراہم کرتی ہے وہ لوگوں کے مشکلات اُنکے دلچسپیوں کا احاطہ کرکے اُنہی کو مدنظررکھ کر پالیسی سازی کرتی ہے۔اُس کے پاس ہر شعبے کو سمجھنے والے لوگ ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ اگر آپ(براہمدغ ) کی قوم آزادی نہیں مانگ رہی یا آپ سمجھتے ہیں کہ آزادی ان تمام
مشکلات کا حل نہیں ہے تو پھر اتنے برسوں سے لوگوں کو کیوں ایک ریاست سے لڑنے اور دنیا سے اپنے مقبوضہ ریاست کی بحالی بارے مدد کی اپیلیں کرتے پھررہے ہیں؟ یہ کہاں کی قیادت ہے کہ آدھی سفر طے کرنے کے بعد ابھی تک آپ یہ بات اعتماد کیساتھ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کیا چاہتے ہیں آپ کی قوم کی رائے کیا ہے؟کسی سے بھی بہتر آپ جانتے ہیں کہ آپ کی قوم وہی چاہتی ہے جس کیلئے وہ قربانیاں دے رہی اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ کچھ لوگ ا س مطالبے کو ڈھنکے کی چوٹ پر بغیر کسی لگی لپٹی آزادی کہتے ہیں اور کچھ اس کا نام لیکر شرماتے ہیں جواس بات کی دلیل ہے کہ اُن میں جیت کی تڑپ سے زیادہ ہارکا خوف توانا ہے جوایسی قوتوں کیساتھ گٹھ چھوڑ کی راہیں تلاش کررہی ہیں جوپہلے اصل راہ سے بھٹک کرحق خودارادیت کے چھتری تلے پاکستانی غلامی کودوام دینے کی تدبیریں ڈھونڈتے ہیں ۔
پاکستان سے مطالبات کا المیہ :ایک سیاسی قوت جوایک ریاست کو غاصب سمجھ کر اُس سے آزادی کے جد وجہد کی قیادت کرتا ہے اُس کی طرف سے اُس ریاست سے ضمنی مطالبہ کرنا غیرسنجیدگی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔آپ نے کہا ہے”میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ میڈیا اور این جی اوز کو بلوچستان میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے”۔جب آپ نے پاکستان سے تمام رشتوں کا خاتمہ کرکے اُس کے اور اپنے قوم کے درمیان معاملات سنوارنے (اس انٹرویو سے قبل بارہا)اقوام متحدہ سے درمیان میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بات کی ہے ۔اس کے بعد آپ کے تمام مطالبات براہ راست پاکستان کے بجائے بین القوامی قوتوں بشمول اقوام متحدہ کے سامنے رکھے جائیں تاکہ وہ اپنا اثر و رسوخ و طاقت استعمال کر کے پاکستان کو بین القوامی قوانیں کی پاسداری پر مجبور کریں جس میں یقیناً بلوچوں کی نسل کشی ،جبری گمشدگی اور دیگر تمام زیادتیاں آتی ہیں جوجبری قبضہ کانتیجہ ہیں۔
حرف آخر:اس بیان سے جو بات قابل تشویش ہے وہ یہ کہ براہمدغ خان اگر مکمل طور پر گرفت میں نہیں آئے ہیں لیکن دشمن کے موقع پرست عناصرکے گھیرے میں ضرور آچکا ہے جس سے تین ممکنہ نتائج سامنے آسکتے ہیں پہلہ بی آر پی بی این پی مینگل کے نقش قدم پر چل کر آزادی کے جد وجہد سے دستبردارہوگااور کسی مناسب موقع پر اخترمینگل کا اتحادی بنے گا اوراختر مینگل اُس کے ساتھ بھی وہی سلوک کریگا جواس سے قبل وہ اور اُس کے والد گرامی اتحادیوں بشمول نواب بگٹی کیساتھ کرچکے ہیں اور پاکستان اُن سب کے ساتھ وہی رویہ روا رکھے گا جو اب اخترمینگل کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے بلکہ اُن کی حالت مزید قابل رحم بنائی جائیگی کیونکہ اگر اختر مینگل کے مقابلے میں ایک شفیق مینگل کی کچی دیوار ہے تومیر براہمدغ کے سامنے کم از کم پانچ لوہے کی دیواریں کھڑی ہیں ۔دوسری صورت میں اگر براہمدغ بگٹی اسی طرح گومگو کی کیفیت سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور جاوید مینگل کو اختر مینگل سے الگ قوت سمجھنے نے کی غلطی کریں گے تب اُسے بدیر یا زود بہت مایوسی ہوگی ۔کیونکہ جاوید کل اختر کے بغیر کچھ نہیں تھا آج بھی اُ س کے بغیرکچھ نہیں ہے اور آنے والے کل کو بھی کسی معجزاتی تبدیلی کے امکانات نظرنہیں آتے۔ایسے میں صرف حیربیارمری سے نفرت کی ایندھن بی این ایم کے دوستوں کیلئے کافی نہیں ہوگا جو براہمدغ بگٹی کے ایسے خودسری اور اصولوں کی دھجیاں اُڑانے کا تماشائی بنارہے ۔بی این ایم سے بیشمار شکایتیں اپنی جگہ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس جماعت میں آج بھی مخلص اور نظریاتی دوستوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ان چیزوں کا بغورجائزہ لینے اور اُنکی درجہ بندی کی پوزیشن میں ہے۔بی این ایم اتنی لمبی سفر طے کرکے کسی اتحاد کے بہانے کسی پاکستانی الیکشن میں جانے کی رو سیاہی کی حد تک نہیں گر سکتا نتیجے میں براہمدغ یا اکیلا کسی اتحاد کے بہانے اخترمینگل کا اتحادی بنے گا اگر ایسا نہیں بھی کرسکا تاہم اُس کے اعتبار کو ایسی لاابالی پن سے شدید دھچکہ لگے گا اور وہ ایک لمبی مدت تک تنہائی کا شکار ہوگاتیسری صورت میں براہمدغ کو اپنا ممکنہ اتحادی کہکر اختر مینگل اُسے اپنے لئے اقتدارکا سیڑھی بنائے گا جس طرح ڈاکٹر مالک اس کا کامیاب تجربہ کرچکے ہیں ۔قابل تشویش بات یہ ہے کہ ان تینوں صورتوں میں نقصان فقط بلوچ قومی تحریک کا ہوگا ۔تاہم ابھی تک کچھ نہیں بگڑاہے اُمید کی جاسکتی ہے کہ براہمدغ بگٹی اور اس کا اکلوتا سیاسی اتحادی بی این ایم ایک دوسرے کے رویوں پر غور کرکے حقیقی آزادی پسندقوتوں سے مراسم بڑھاکے تحریک کو توانا کرنے مثبت کردار ادا کریں گے۔حیر بیار مری کیلئے یہ صورتحال کسی طرح بھی لمحہ فکریہ سے کم نہیں کیونکہ ایسے منفی رجحانات داخلی اور بیرونی طورپر تحریک پر بُرے اثرات پڑتے ہیں جس کو فقط بہترین سفارتکاری اور موثر حکمت عملی سے بحال وبہتر کیا جاسکتا ہے اور میدان میں کوئی دوسری ایسی قوت نہیں جوکسی بڑی بحرانی کیفیت کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتا ہو۔جو مشکل صورتحال درپیش ہے اُس میں حیربیار کا کوئی ہاتھ نہ سہی تاہم اُسے قابوکرنے میں اُس پر سب سے زیادہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ جو ابتداء میں ساتھ رہاہے اُسے آخر تک کاروان کو منزل مقصود تک پہنچانا ہے