مقبوضہ بلوچستان کے ہوم سیکریٹری نے سال 2015کے اعداد و شمار میڈیاکو جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نام نہاد نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک سال کے دورانیہ میں بلوچستان سے 9000بلوچوں کو گرفتار جبکہ 1800کے لگ بھگ ہلاک کئے گئے ہیں۔ لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کی تنظیم VBMP کے مطابق جبری طور پر لاپتہ اور دوران حراست شہیدکیے گیے بلوچوں کی تعداد ریاستی اداروں کی بتائی گئی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بلوچ نمائندوں کے دستیاب کوائف بتاتے ہیں کہ فوجی آمر جنرل مشرف کی دور حکومت سے لیکر اب تک 8000سے زائد بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاچکی ہیں وہ بلوچ اسیران کی تعداد بھی ہزاروں میں بتاتے ہیں۔ یاد رہے گمشدہ بلوچ اسیران کی بازیابی، بلوچستان میں پاکستانی فوج کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی دنیا کو بتانے کی غرض سے بنائی گئی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزجدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم میں شامل لاپتہ بلوچوں کے لواحقین جن میں پڑھی لکھی بلوچ بہنیں شامل تھیں نے کوئٹہ سے کراچی پھر کراچی سے اسلام آباد تک تاریخ کی مشکل ترین سفر 3000کلو میٹر مسافت پیدل طے کرکے بلوچ اسیران کی کیس کو عالمی سطح پر متعارف کرایا ہے۔ اس کھٹن اور مشکل سفر کے دوران گمشدہ بلوچوں کے اس کارواں کو بلوچستان اور سندھ میں کافی پزیرائی جبکہ یہ کارواں جونہی ہی صوبہ پنجاب کے حدود میں داخل ہوئی وہاں ان کو تنگ کرنے کا سلسلہ زور پکڑتا گیا۔ بلوچوں کی اس لانگ مارچ سے ناخوش ریاستی اہلکاروں نے لانگ مارچ کو ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش کی ہے۔مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ اہلکار وں نے فون پر دھمکیوں کے علاوہ عملی طور پر بھی شرکا کو مارنے کی پلان ترتیب دیے۔ جب لانگ مارچ پنجاب میں رانالہ سے گزرہی تھی تو رادھا اور اکوڑا کے قریب ایجنسیوں نے ٹرک کے ذریعے ان پر حملہ کر پوری ٹیم کوکچلنے کی منصوبہ بندی کررکھی تھی ۔اس دانستہ حملے کے نتیجے میں مارچ کے کئی شرکا ء زخمی ہوگئے تھے جنہیں قریبی ہسپتال میں علاج کی غرض سے داخل کیا گیا تھا جو چوٹوں کی وجہ سے کچھ عرصے کے لئے لانگ مارچ میں شرکت بھی نہیں کرپائے تھے۔ بلوچ قوم کا عالمی میڈیا اور انسانی حقوق سے ہمیشہ یہ گلہ رہی ہے کہ وہ بلوچ آواز کو بلند کرنے میں ان کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ مبصرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا فوج اور اشرفیہ کے ہاتھوں بک چکی ہے۔ بلوچستان میں گرتی لاشوں کو دیکھ کر بھی وہ اسے رپورٹ نہیں کرسکتے ۔ پاکستانی میڈیا کی قصدا خاموشی پاکستانی فوج کی جنگی جرائم میں حصہ داری کے مترادف ہے۔ وسائل، وطن کی دفاع دہشت گردی نہیں اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے اہلکار اسسٹنٹ لائن مین محبوب احمد کو فوجی آفیسر نے اس وقت گولی مار کر موت کے گھاٹ اتاردیا جب انہوں نے تین ماہ بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے میجر راجہ زاہد نامی فوجی اہلکار کے مکان کی بجلی منقطع کرنے کی کوشش کی۔ بی بی سی ذرائع کے مطابق میجر راجہ زاہد نے اپنے ایک رشتہ دار منہاج کی مدد سے مقتول محبوب احمد کی لاش کو گوجر خان کے علاقے میں ایک ویران جگہ پر دفنا دی تھی۔ http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/12/151231_army_major_arrested_lineman_killing_zs?ocid=socialflow_facebook یہ واقعہ ہمیں سوچنے کے لئے مجبور کرتی ہے کہ جب ایک پاکستانی فوجی اہلکار اپنی بجلی منقطع کرنے کی سزا کے طور پر دوسرے سرکاری ہلکار کو گولی مارکر قتل کردیتا ہے جبکہ یہی فوجی اہلکار بلوچ ساحل گوادر ، سیندک اور دیگر معدنیات کو چین کے ہاتھ کوڑیوں کے دام فروخت کرکے پوری بلوچ قوم کی معاشی قتل کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہی قابض فوج بلوچستان کے قدرتی وسائل بشمول گیس کو گذشتہ اٹھاسٹھ سالوں سے مال غنیمت سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔ بلوچ شناخت، تشخص اور ننگ و ناموس کو ملیا میٹ کرنے کے لئے بلوچستان کے کونے کونے میں فوجی آپریشن جاری ہیں۔ اس قبضہ گیریت اور لوٹ مار کے خلاف اگر بلوچ بندوق اٹھائے تو وہ دہشت گرد کیوں قرار دی جاتی ہے۔بلوچ قوم اقوام متحدہ کے طے شدہ اصولوں کے عین مطابق اپنی قومی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ انہیں اپنی دفاع کے حق سے دنیا کی کوئی بھی طاقت محروم نہیں کر سکتی۔ خلیج ایران تنازعہ اور بلوچ قومی سوال متحدہ عرب امارات کے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے ایران میں برسر پیکار بلوچ، الاحواز کی آزاد ریاستوں کو بحثیت ملک تسلیم کرنے کی بات کی اور ساتھ ہی دیگر جلیجی ممالک کو بھی تلقین کی کہ وہ بلوچستان اور الاحواز کو آزاد مملکت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک میں بلوچستان اور الاحواز کو سفارتخانے کھولنے کی اجازت دے۔ متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے کے بعد بحرین میں چالیس ارکان پر مشتمل ممبران نے بحرینی پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ الاحواز کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے قانون بنائے۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ ایران الاحواز کے عرب مسلمانوں پر نارواں سلوک رکھا رکھی ہوئی ہے، ایرانی حکومت آزادی پسند الاحوازیوں کو آئے روز پھانسییوں پر لٹکا کر ان کی آواز کو دبانے کی کوششوں پر کاربند ہے اور ان کی تحریک کو کچلنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ مبصرین مذکورہ دونوں عرب ممالک کی جانب سے بلوچوں اور الاحوازیوں کی آزاد مملکت سے متعلق پالیسیوں کو خطے میں بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جب ایران میں برسرپیکار بلوچ، کرد اور الاحوازی اپنی آزاد مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو ایران ٹوٹ کر بکھر جائے گی، ایران عرب ممالک میں اپنی افرادی قوت کھودے گی جنہیں وہ اب تک سنی عرب ممالک میں بغاوتیں برپا کرنے کے لئے اکساتی رہی ہے۔ایران کا شیعہ آبادی تک سکڑ جانے سے خلیج اور ایشیا میں بلوچ ، الاحواز ابھر کر نئے طاقت کے طور پر سامنے آئیں گے ۔ اس طرح ایران صرف شیعہ ریاست کے طور پر تن تنہا راہ جائے گی۔ سنی مسلمان ریاستیں ایران سے الگ ہوکر خطے میں خوشحالی اور امن کے لئے اپنا کردار ادار کرنے کی پوزیشن میں ہونگے اسی طرح کئی عشروں سے چلی آرہی شیعہ سنی کی کشمکش کو کم کرنے میں بھی معاون ہونگی۔ آج کل سعودی عرب اور ایران کے تعلقات ماضی کی طرح نازک ترین موڑ پر آکھڑے ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب نے شیعہ عالم دین نمر المنر کو 47دیگر افراد کے ساتھ 2جنوری 2016کو پھانسی دی ہے۔ جس پر ایران نے سخت رد عمل دیاہے۔ پاسدارن انقلاب، اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے سعودی عرب سے سخت انتقام کی بات کی ہے۔ سعودی عرب نے ایران کے اس رد عمل پر ایرانی سفیر کو گذشتہ اڑتھالیس گھنٹوں کے اندر اندر ملک چھوڑنے کو کہا ہے۔ شیعہ عالم دین منر النمر کے پھانسی کو لیکر ایران میں مظاہرے اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایرانی بلوائیوں نے سعودی سفارتخانے پر چڑھائی کرکے اسے آگ لگا دی ہے۔ ایران اپنے ملک میں بلوچ ، الاحوازیوں ، کردوں، افغانوں اور دیگر اقلیتی قومیتیوں کو سمگلر اور منشیات کا لیبل لگا کر ہر روز درجنوں کے حساب سے پھانسی پر لٹکا کر موت کے گھاٹ اتارتی ہے۔ سیستان بلوچستان میں ایرانی حکمرانوں نے بلوچ قوم کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔ وہاں کے بلوچوں کو یہ تک اجازت نہیں کہ وہ اپنے بچوں پر بلوچی نام رکھے۔ وہاں کے بلوچوں کو دباو ہے کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچوں پر شیعہ نام رکھیں۔ سنی عرب ممالک میں یہ تاثر عام ہے کہ ایران شیعہ جماعتوں کو جان بوجھ کر مالی، فوجی اور افرادی کمک پہنچا رہی ہے جو وہاں فرقہ وارانہ تشدد کا سبب بن رہے ہیں۔ یمن میں ہوتی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں جاری لڑائی کے دوران ایرانی مداخلت کے مبینہ ثبوت ملے ہیں۔ سعودی حکام بارہا ایران پر خلیج کے معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرتی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ حذب اللہ کے ساتھ ایران کے قریبی تعلقات ہیں۔ شام، مصر ، عراق، بحرین میں ایران کے مفادات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سعودی عرب سے سب سے زیادہ امداد لینے والا ملک پاکستان سے جب سعودی حکام نے یمن میں ہوتی باغیوں سے لڑنے کے لئے فوج بھیجنے کی درخواست کی تو پاکستان نے حسب توقع پلٹی مار کر سعودی عرب سے دغہ بازی کی۔پاکستان نے سعودی عرب سے جان چھڑانے کے لئے پارلیمنٹ کے اجلاس کا سہارا لیا۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے سعودی عرب کی مدد سے انکار تو نہیں کیا لیکن فوج وہاں بھیجنے کی مخالفت کی ۔ پاکستان کا یہ فیصلہ سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھیں جو اب تک پاکستان کو اپنا محسن اور مددگار سمجھتے رہے۔ پاکستان کی اس فیصلے کے فوراً بعد متحدہ عرب امارات کے وزیر داخلہ انور قرقاش نے پاکستان کی خلیج سے متعلق دوہری پالیسی اختیار کرنے پر بھیانک نتائج کی دھمکی دی۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات کے ترقی یافتہ ریاست دبئی کے پولیس چیف اور سیکورٹی کے اعلیٰ عہدیدارخلفان دہائی نے ایران میں برسرپیکار بلوچستان، الاحواز کو بحثیت ریاست قبول کرنے کا عندیہ دیا ساتھ ہی دوسرے عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ بلوچستان اور الاحواز کوبطور ریاست تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ ممالک کو اپنے اپنے سفارتخانے کھولنے کی اجازت دے۔ انہوں نے ایران میں بلوچستان اور الاحواز کے باسیوں پر ایرانی مظالم کا مختصر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اتنے ظلم کسی پہاڑ پر ڈھایا جائے تو وہ بھی پگل جاتی ہے انہوں نے کہاکہ ایران بلوچوں اور الاحوازیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ سرکاری ٹوئیٹر صفحے پران کا دیا گیا یہ بیان ایک جانب بلوچ، الاحواز کرد اقوام کے لئے حوصلہ افزا رہا جبکہ دوسری طرف ایران اور پاکستان کے لئے متحدہ عرب امارات کے اس سخت بیان نے کافی پریشانی کا سامان پیدا کیا ہے۔ پاکستان ، خلیج کی مصنوعی رشتے اس حقیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کا دنیا کے ساتھ روابط اور نذدیکیاں نظریاتی نہیں بلکہ صرف اور صرف ڈر اور لالچ پر استوارہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا جب پاکستان پر 1998کے ایٹمی دھماکوں کے بعد عالمی پابندیاں لگیں تو سعودی عرب نے دو سال تک پاکستان کو تیل مفت میں دیا تھا۔ اس کے علاوہ جب جنرل مشرف نے نواز شریف کوجیل میں ڈال کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو سعودی عرب نے ثالثی کا کردار ادا کرکے نواز شریف کو دس سال تک سعودی عرب بلوا لیا تھا۔ گذشتہ سال جب امریکہ نے پاکستان کی دوغلی پالیسوں کو بھانپتے ہوئے کیری لوگر بل کو دہشت گردوں کے خلاف کاروائی سے مشروط کر دیا تھا تب بھی سعودی عرب نے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لئے تحفے کے طور پر دو ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا۔ لیکن جب سعودی عرب نے یمن میں ہوتی باغیوں کے خلاف فوجی کاروائی میں مدد کو کہا تو پاکستان نے ہاتھ کھینچ لیا۔ 4 جنوری 2016سے سعودی عرب ایران تعلقات سخت کشیدگی کا شکار ہیں ، مبصرین خلیج اور ایران کے مابین کسی ممکنہ جنگ کے امکان کو رد نہیں کررہے ۔سعودی عرب کا وزیر خارجہ اس وقت پاکستان کے دورے پر ہیں۔ اس بار بھی پاکستان حسب روایت اپنی مبہم پالیسی کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ دھوکہ دہی پر مشتمل پاکستان کی پالیسیاں خلیجی ممالک کو اس نہج تک پہنچاچکے ہیں کہ وہ پاکستان کی بجائے اب بلوچستان کو اہمیت دینے کی سوچ رہے ہیں۔ کیونکہ خلیج پاکستان کی تاریخ کا شاید باریک بینی سے مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگر پاکستان ،امریکہ، روس، اور نیٹو ممالک کا نہ ہوسکا تو وہ خلیج کی وہ کیا مدد کرسکتی ہے۔ خلیجی شہزادوں کا پاکستان سے تعلقات کا انحصار بلوچستان کے تلور پرندوں کے شکار کی اجازت نامہ پرہے۔ بلوچستان کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اومان، بحرین، قطر اور کویت کے شہزادے تواتر کے ساتھ بلوچستان میں نایاب پرندوں کے شکار کرنے آتے ہیں۔ سعودی عرب تبوک کے وزیر خارجہ نے 2014میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں 2100تلور پرندوں کا شکار کیا تھا۔ اپنے اپنے ممالک میں پرندوں کی شکار پر بھاری جرمانے اور قید و بند کی سزائیں متعارف کرانے والے ان عرب شہزادوں کو بلوچستان کے تلور پرندوں کی شکار پر بلوچوں کو شدید تشویش ہے۔وقت کا تضاقا ہے کہ بلوچ حقیقی قیادت خلیج سمیت پورے خطے کے ممالک کے ساتھ سنجیدہ نوعیت کے تعلقات کو اور بھی تیز کرے تاکہ انہیں یہ باور دلانے میں جلد از جلد کامیابی حاصل کی جاسکے کہ خطے میں امن اور خوشحالی کے دروازے پاکستان سے نہیں بلکہ بلوچستان سے ہوکر گزرتے ہیں۔ بلوچ قیادت کو اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ خطے میں کسی فرقہ وارانہ لڑائی میں کودنے سے دو ر رہے کیونکہ بلوچ تحریک خالصتاً قومی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ بلوچ خطے میں کسی پراکسی وار کا حصہ دار ہوئے بغیر اپنی قومی تشخص اور بقا کی جنگ میں پوری دنیا کی ہمدردی حاصل کرنے کا متقاضی ہے۔ بلوچ ریاست بحالی کیوں ضروری؟ خطے کی حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے، پاکستان سے نبرد آزما بلوچستان کی آزادی کے لئے راہ ہموار ہوتی نظرآرہی ہے۔بلوچ تحریک آزادی کی تقلید کرتے ہوئے سندھی، پشتون اور گلگتی اقوام کا اپنے حقوق اور آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہونا خطے میں بشمول برصغیر میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی کیونکہ جب پاکستان کے زیر تسلط بلوچستان اپنی آزادی حاصل کرلے گی توپاکستان کے زیر تسلط مذکورہ اقوام کو بھی اپنی آزادی لینے میں آسانی ہوگی۔ جب پاکستانی فوج کا ان محکوم اقوام پر سے گرفت ختم ہوگی تو بہت ہی کم عرصے میں پاکستان تحلیل ہوکر سندھو دیش،گلگت بلتستان، پشتونستان اور آزاد بلوچستان کی صورت میں نئے ریاستوں میں بٹ جائے گی۔ پاکستان کا تحلیل ہونے میں نہ صرف مذکورہ قومیتوں کی نسل کشی رک جائے گی بلکہ پورے خطے میں خوشگوار تبدیلیاں دیکھنے کو ملی گی کیونکہ اب تک یہ دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں ان کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جاکے پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں سے ملتی ہیں۔ پاکستان نے ضیا ء دور سے لیکر اب تک مذہبی شدت پسندوں پر مشتمل جو کھیپ تیار کررکھی ہے وہ اب پاکستان کا ایک بغیر وردی والے اثاثوں کے طور ر پر اپنا کام کررہے ہیں۔پاکستانی فوج کی سرپرستی پر چلنی والی ان مذہبی شدت پسندوں کو ملک بھر میں فلاحی کاموں کے بہانے پھیلادیا گیا ہے۔ پاکستان کے ہر سٹیشنری سٹور،،پبلیکیشن ہاوس، اور بک سٹالز پر ان مذہبی شدت پسندوں کی لٹریچر کی بہتات ہے ۔ پاکستان نے بلوچ قوم پرستوں کی ویب سائٹس پر پابندی عائد کی ہوئی ہے جبکہ اپنے پالے ہوئے مذہبی شدت پسندوں کے سینکڑوں ویب سائٹس بلا کسی روک ٹوک کے کام کررہے ہیں۔ ان کے باقائدہ اخبار، رسائل اور ریڈیو ایف ایم بھی چل رہے ہیں جن کا منشور پاکستان کے سکول، کالجز، یونیورسٹیوں اور مدارس میں لوگوں کے دلوں میں امریکہ، ہندوستان ، افغانستان ، بلوچستان اور مغرب کے خلاف زہر گھولنا ہے۔ پاکستان نے بظاہر ان اسلامی شدت پسندوں پر پابندی کا شوشا چھوڑی ہوئی ہے لیکن در حقیقت یہ گروہ دیدہ دلیری سے مذہبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں ان شدت پسندوں کے ذمہ داریوں میں بلوچ تحریک آزادی کے ہمدرد، صحافیوں، طبا، اساتذہ، پروفیسرز، اور دیگر تعلیم یافتہ طبقہ کو اغوا ء کروانا اور ان کی لاشیں پھینکنے کے علاوہ بلوچ تعلیم یافتہ طبقے کو نشانہ بنا کر قتل کرنا ہے تاکہ بلوچستان کو جہالت کی اندھیروں میں دکھیل کر بلوچستان پر پنجانی قبضے کو دوام دیا جاسکے۔بلوچ قوم کی نسل کشی روکنے کے لئے آسان فارمولا ان کی ملی وحدت کو تسلیم کرکے ان کی سرزمین کو غاصبوں سے چھڑانے میں بلوچوں کا ساتھ دینا ہے کیونکہ جب بلوچ، پشتون، سندھی اور گلگتی اقوام اپنے اپنے ممالک کے مالک ہونگے تو پاکستانی فوج کو شدت پسندی کو ھوا دینے کے لئے افرادی ایندھن میئسرنہیں ہوگا۔ جب پاکستان کو لڑانے کے لئے زرخرید قاتل دستیاب نہیں ہونگے تو پاکستان پنجاب تک محدود ہوکر راہ جائے گی۔ پنجاب کے پاس کوئی قدرتی وسائل نہیں نہ ہی پاکستان کے پاس گوادر جیسا سمندر ہے جو مشرق وسطع، سنٹرل ایشیا کا معاشی اعتبار سے بے تاج بادشاہ بنے۔ بلوچستان آزاد ہونے کی صورت میں چائنا، پاکستان کے ناپاک عزائم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے۔ بلوچوں کا چائنا کے ہاتھوں گوادر بدری! پاکستان اور چائنہ کے حکمران اپنی نذدیکی اور دوستی کو کوہ ہمالیہ سے بلند قرار دیتے ہیں۔ چین نے اپنی آزادی سے لیکر پاکستان سے ساتھ روابط استوار کئے وہ بلوچ قومی بقا او سلامتی کے خلاف رہے ہیں۔ نواز حکومت نے بلوچ ساگر (گوادر) کو 40سال تک چین کے حوالے کرکے بلوچوں کی کھلم کھلا معاشی ، تاریخی نسل کشی کی بندوبست کررکھی ہے۔ اقتصادی راہداری کے نام پر گوادر پر قبضہ کرکے وہاں چین اور پنجاب کی آبادی کا سیلاب لانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ گوادر کو سڑک کے ذریعے پنجاب، اور ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس سڑک پر غیرمعمولی کام جاری ہے جن کی حفاظت کی ذمہ داری پاکستانی فوج، پیراملٹری فورسز اور ایف سی کو سونپ دی گئی ہے۔ گوادر کے باسی اس وقت پانی کی شدت قلت سے دوچار ہیں لیکن حکومت پاکستان اور ان کی فوج کی ترجیحات میں گوادریوں کو پانی ، اور دیگر بنیادی سہولیات مہیا کرنا نہیں بلکہ سڑک کی تعیر ہی ہے۔ گوادر کے مکینوں کو فوج نے علاقہ خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ چائنا گوادر میں بڑے نیول بیس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ وہاں خفیہ فوجی تصیبات کی تعمیر کے لئے فوج کے ذریعے بلوچ آبادیوں کو گوادر بدر کررہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر گوادر عملی طور پر چین کے ہاتھوں چلی گئی یہ ہندوستان، افغانستان ، امریکہ، جاپان، روس، یورپ، خلیج اور خود بلوچستان کے لئے تباہی کا باعث بنے گا کیونکہ ایسا ہو جانے سے پاکستان کو غیر معمولی طور پر ناجائز طاقت ہاتھ آئے گی ۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ پاکستان اپنی کمزور معیشت کے باوجود شدت پسندوں کی پشت پناہی، اور مذہبی دہشت گردی کے ذریعے دنیا کے ناک میں دم کر رکھی ہے اگر اسے سنٹرل ایشا کے سنگم پر واقعہ گوادر پر پوری طور گرفت ممکن ہو تو سوچ لیں وہ کیا کیا تباہ مچا سکتی ہے۔لہذا اس سے پہلے کہ گوادر چائنا اور پاکستان کے پلیٹ میں چلا جائے بلوچوں کی ہر سطح پر مدد و حمایت م کی جائے تاکہ وہ اپنی کھوئی آزادی کو واپس حاصل کرسکیں ۔ اس وقت خطے کو چین اور پاکستان کی شر سے بچانے کے لئے روس، بھارت، امریکہ ، خلیج اور یورپ کو عملی کردار ادا کرنا پڑیگا۔ انہیں پاکستان سے بلیک میل ہونے کی بجائے جرت کا مظاہرہ کرکے بلوچ قومی نمائندوں کے ساتھ براہ راست گفت و شنید کرکے بلوچ ریاست کی بحالی میں ان کی مدد کرے۔ پاکستان ، طالبان، القائدہ کے بعد داعش کا بھی سرپرست نکلا دسمبر 2015 کے آخری مہنے میں امریکہ نے حسب روایت پاکستان پر زور دی ہے کہ وہ شدت پسندی کو ہواد ینے والی مدارس کے خلاف کاروائی کرے ۔ اس کے چوبیسوں گھنٹے کے اندر اندر پاکستانی وزیر دفاع چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان کے ذریعے امریکہ کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں قائم دینی مدارس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت کے معاون ہیں، ہدف نہیں‘‘۔ یہاں چوہدری نثار یہ بھول گئے کہ مدارس کے سرپرست اعلیٰ اسامہ بن لادن، طالبان رہنما ملا عمرپوری عالمی امن کوتباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ چوہدری نثار کے اس بیان کے ایک ماہ بعد دسمبر 2015کے آخری ہفتے کو سابق پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ حال ہی میں پاکستان کے گوجرانوالہ کے ایک مدرسے میں داعش سربراہ نے پانچ سے چھ ماہ تک قیام کیا ہے۔ انہوں نے وہاں مذہبی جماعتوں سے خفیہ میٹنگز بھی کی ہیں۔ داعش کا پاکستان کے مدرسوں تک پہنچ جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ افغانستان، کشمیر اور خطے کے دوسرے حصوں میں لڑنے والے اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے انہی مدرسوں سے فارغ التحصیل مذہبی شدت پسند نوجوان ہیں جنہیں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے مذہبی علوم کے نام پر برین واش کرکے پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ اس بات کے مزید شواہد سامنے آئے ہیں جس میں ڈان نیوز کے عمر چیمہ نے ایک خبر لیک کی ہے جس کے مطابق لاہور کے ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم بیس کے قریب خواتین داعش کے جنگجووں میں شمولیت کے لئے مصر گئے ہیں۔ یاد رہے داعش خطے میں تیزی سے بڑھتا ایک ایسا خطرہ ہے جس سے نپٹنے کے لئے عالمی برادری کو یکسو ہونا پڑیگا۔ روس کا داعش کے خلاف کردار اب تک مثالی رہی ہے۔ شام اور ترکی میں روس کی افواج نے اب تک کئی بڑی فضائی کاروائیوں کی سربراہی کی ہے۔ کہا جاتا ہے داعش کے خلاف روس نے کم عرصے میں جتنی کامیاب اور بھیانک کاروائیاں کی ہیں، اتنی نیٹو نے افغانستان میں اپنی نصف دہائی پر مشتمل قیام کے دوران بھی نہیں کیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ روس پاکستان میں تیزی سے قدمیں جماتی داعش جنگجووں کے خلاف کس پیمانے کی کاروائی کے لئے تیار ہوگی۔ روس اور پاکستان کے تعلقات ماضی میں بہت خراب رہے ہیں جب روس افغانستان میں مجاہدین کے خلاف برسر پیکار تھی پاکستان نے مجاہدین کو تربیت، اسلحہ اور پیسہ دے کر روس کو افغانستان میں شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ افغانستان کی وادیاں روس کے تباہ شد ہ جنگی ٹینکوں اور ھیلی کاپٹروں کے باقیات سے بھر پڑے ہیں۔ تاریخ پر گہری نطر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ روس پاکستان کی طرف سے لگائے گئے ماضی کے گھاو کو بھولا نہیں ہے۔ مبصرین یہ بھی قیاص آرائی کررہے ہیں کہ پاکستان آرمی چیف کی روس دورے کے باوجود ، روسی صدر پیوٹن پاکستان سے پرانے حساب چکانے کے لئے پاکستان کے خلاف برسر پیکار ان قوتوں کا ساتھ دے سکتی ہے جو مذہبی شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ روس کی جانب سے کردوں کو مدد کی پیشکش نے ان قیاص آرائیوں کو اور بھی مضبوط کر دیاہے ۔ بلوچ قومی تحریک تمام تر مذہبی شدت پسندی سے پاک تحریک ہے۔ بلوچ، کردوں کی طرح ایک ایسی طاقت ہے جو اپنی سرزمین پر مذہبی شدت پسندی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ خطے میں بڑھتی پاکستانی شدت پسندی کو لگام دینے کے لئے دنیا کے سبھی جمہوریت پسند اور انسان دوست ممالک کے ساتھ کام کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر روس بھی نیٹو کی طرح پاکستانی فوج کو داعش کے خلاف کاروائی میں شریک کرے گی یا ان سے معلومات کا تبادلہ کرنے کے کی غلطی دہرائے گی تو نتیجہ وہی ہوگا جو امریکہ اور نیٹو آج افغانستان میں بھگت رہی ہے۔ پاکستان کا نیٹو اور امریکہ کے خلاف درپردہ جنگ۔۔۔ ختم نہیں ہوگی! عالمی برادری نے پاکستان کی ڈبل گیم کو نظر انداز کرکے صدی کی سب سے بڑی غلطی کی۔ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ عالمی دہشت گرد القائدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن آٹھ سال تک ایبٹ آباد کے علاقے کاکول میں فوجی چھاونی کے احاطے میں آئی ایس آئی کا مہمان خاص بن کر راہ رہے تھے جن کی قیام و طعام کی ساری ذمہ داری آئی ایس آئی نے اٹھائی ہوئی تھی۔ امریکہ کا پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی کا شرف بخشنا حیران کن امر اوردہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب بناکیونکہ پاکستان ایک ہاتھ میں امداد لیتی رہی تو دوسری ہاتھ میں اسی امداد کو اپنے پالے ہوئے مذہبی دہشت گردوں اور طالبان کوبہم پہنچاتی رہی۔ پاکستان نے عالمی رائے عا مہ کو گمراہ کرنے کے لئے کھوکھلے نعرے لگائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں آمد سے اب تک اگر معاشی اعتبار سے نقصانات کا مفصل جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے اس پندرہ سالہ جنگ میں پاکستانی فوج کو صرف فائدہ ہی فائدہ ہوا ہے۔ پاکستان نے فوج اور پنجاب کو حاصل فوائد کو دنیا کے نظروں سے اوجھل رکھا۔ اگر دنیا کو اس بات کا صحیح معنوں میں پتہ ہوتا کہ اس جنگ کے اصل متاثرین بلوچ اور پشتون اقوام ہیں تو دنیا پاکستان کے امداد سے بہت پہلے ہی ہاتھ کھینچ لیتی ۔ اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ 9/11سے لیکر اب تک ، پنجاب صوبے میں کہیں سے بھی آپ کو یہ خبر نہیں ملے گی کہ دہشت گردی سے متاثر ہوکر پنجاب کے کسی ضلع سے لوگوں نے نکل مکانی کی ہو یا پنجاب کے کسی ملک یا چوہدری کا اغوا شدہ بیٹے کی مسخ لاش کسی سڑک کنارے ملی ہو۔ بلوچستان اور پشتونستان کے مقابلہ میں پنجاب میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ ایک طرف بلوچ اور پشتون اقوام اس جنگ کے براہ راست حقیقی متاثر ین لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں مذکورہ اقوام اب تک دنیا کی توجہ سے محروم رہے ہیں ۔اعداد و شمار کے مطابق بلوچ اور پشتون آئی ڈی پیز کی تعداد لاکھوں میں ہیں جو گذشتہ ایک دہائی سے اندرون ملک یا پھر افغانستان اور دیگر ممالک میں پناہ گزین بن کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ وہ اپنے اہل عیال کے ہمراہ نان شبینہ کا متحاج بنا دے گئے ہیں جبکہ دوسری جانب پنجاب میں میٹرو بسیں، طلبا میں لیپ ٹاپ تقسیم ہورہے ہیں اور موٹر وے بنانے کے چرچے زبان زد عام ہیں جو پاکستان کے متاثر ہونے کے ان دعوں کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ عالمی برادری کو اب اس حقیقت کو بھی تسلیم کر نا پڑے گا کہ پاکستانی فوج دہشت گردی کے نام پرعالمی برادر ی کو اندھیرے میں رکھ کر اصل میں دہشت گردوں کو مضبوط بنارہی تھی ۔ پاکستانی فوج کی جانب سے خیبر پشتونخواہ میں شروع کی گئی ضرب عزب کا اصل مقصد دہشت گردوں کو افغانستان کی جانب دھکیلنا تھا کیونکہ پاکستانی فوج چاہتا ہے کہ جب امریکہ اور نیٹو فورسز کا افغانستان سے انخلا کی صورت میں وہ طالبان کے ذریعے نومولود افغان فوج پر حملوں میں شدت لائے گی جس سے افغانستان کا عسکری ڈھانچہ مکمل طور پر ڈہہ جائے گی ۔ نو تربیت یافتہ اور فوجی لحاظ سے کمزور افغان فوج طالبان جنگجووں (پاکستانی زرخرید سپاہی ) کا مقابلے نہیں کر پائے گی اسی طرح وہ صدر اشرف غنی کا تختہ الٹ کر پاکستان نواز طالبان حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جس طرح آئی ایس آئی نے سویت یونین کے انخلا کے بعد مجاہدین کی مدد سے کابل پر قبضہ کیا تھا۔ خطے پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے صوبے کندوز ، غزنی، ہلمند، پکتیکا، پکتیا اوردیگرعلاقوں میں طالبان کا بڑے پیمانے پر پیش قدمی پاکستان آرمی کے ڈاکٹرائن کا حصہ ہیں ۔ پاکستان گاوں کا بدمعاش لونڈا دونوبیاہ جوڑے گاڑی میں کہیں جارہے تھے۔ خستہ حال سڑک پرسفر کرنے کی وجہ سے وہ کافی تھک چکے تھے ۔ ان کا گزر کسی گاوں کے نذدیک سے ہوئی ۔ وہاں جاتے ہوئے راستے میں ان کی گاڑی کیچڑ میں بری طرح پھنس گئی۔ دونوں جوڑے کافی پریشان ہوئے کیونکہ قریب میں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اچانک قریبی جھاڑیوں سے دو ہٹے کٹے نوجوان نمودار ہوئے۔ انہوں نے کیچڑ میں پھنسے مسافروں کو مدد کی پیشکش کی جسے پریشان حال جوڑے نے قبول کر لیا۔ دونوں نوجوانوں نے گاڑی کو دھکا دے کر کیچڑ سے باہر نکالا۔ اسے نیکی سمجھ کر مالک گاڑی نے دونوں نوجوانوں کو پانچ پانچ سو روپے بطور معاوضہ دے دیا جسے دونوں نوجوانوں نے مسکراتے ہوئے قبول کر لیا۔ جاتے جاتے گاڑی مالک نے دونوں نوجوانوں سے دریافت کیا ’’ بھائی صاحب یہا دور دور تک کوئی آبادی نظر نہیں آرہی، لیکن پانی ہے، زمین بھی کافی سرخیز دکھائی دے رہی ہے، آپ لوگ یہاں اپنا گزر بسر کیسے کرلیتے ہیں‘‘۔ ان میں سے ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر جواب دیا ’’بھائی صاحب آپ جب یہاں سے چلیں جائیں گے تو ہم پھر سے سڑک کنارے ندی سے پانی بھر بھر کر سڑک پر پھینکیں گے، اسے کیچڑ بنائیں گے اور آپ کی طرح ایک اور گاڑی آکے یہاں پھنس جائے گی اور ہم مسیحا بن کر ان کو مدد کی پیشکش کریں گے اور اسی طرح ہمارا کاروبار چلتا رہتا ہے ۔‘‘ قارئین دنیا اب تک غلطی سے یا اپنی مجبوریوں کے تحت پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف مسیحا سمجھ رہے تھے۔ سویت یونین جب افغانستان میں کود پڑا تو پاکستان نے مسیحا بن کر مدد کی پیش کش کی، اس کے بعد جب امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کی تو یہی پاکستان نے پھر طالبان کا کیچڑبنا کرکر امریکہ کو اس کیچڑ میں دھنسائے بھی رکھا اور پھر طالبان کے خلاف کاروائی کے سلسلے میں عسکری اور معاشی مدد و کمک بھی طلب کی ۔ وہ امریکہ اور نیٹو کو ابھی تک اسی کیچڑ میں پھنسا ئے رکھی ہوئی ہے ۔لیکن اب ہمیں امید ہے کہ دنیا کے آنکھوں کے سامنے سے دھول صاف ہوچکی ہے۔کیونکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری جس ملک کو مدد دیتی آرہی ہے وہ عوامی سطح پر دہشت گردوں کو اپنا ہیرو قرار دے چکی ہے۔پاکستان گاوں کا وہ بدمعاش نوجوان کی مانند ہے جو خود کو عام لوگوں کے سامنے مسیحا قرار دیتی رہی لیکن اصل میں وہ عالمی امن و سلامتی کے لئے سب سے مہلک ترین ثابت ہوئی ہے۔ یہ غور طلب ہے کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے زیر دست چلنے والی تنظیم جماعت الدعویٰ کے سربراہ حافظ سعید نے ایک جلسے کے دوران اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ کارگل میں جب پاکستان اور ہندوستان کی فوج آسنے سامنے جنگ کے لئے تیار تھے پہلا راکٹ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خود چلایا تھا۔ ان کا یہ بیان ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردوں کو دنیا کے خلاف پال رہی ہے۔ حرف آخر پاکستانی فوج اور ان کی آئی ایس آئی عالمی برادری کو گذشتہ کئی عشروں سے دہشت گردی کی خود کار کیچڑ میں جس طرح پھنسا کر پھر مسیحا بن کر انہیں اس کیچڑ سے نکالنے کی جو ناٹک کر رہی ہے اس کا علم پاکستان کے زیر قبضہ بلوچ قوم سے زیادہ شاید ہی کسی اور کو ہو۔ پاکستان اپنی وجود سے لیکر اب تک بلوچوں کے خون بہانے کے ساتھ ساتھ افغانستان، ہندوستان میں اپنی پراکسیز کے ذریعے بد امنی پھیلانے میں براہ راست ملوث ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تین جنگیں، بلوچستان کے ساتھ پانچ اور افغانستان کے ساتھ ہمیشہ سے حالت میں جنگ میں رہنے والا پاکستان کیسے امن کا خواہاں رہا ہے۔ دنیا نے پاکستان کی ریاستی سطح پر اس دہشت گردانہ پالیسیوں پر صرف نظر کرکے عالمی امن کو نازک ترین موڑ پر لا کھڑا کر دیا ہے۔پاکستان کی تربیت یافتہ دہشت گرد اب بلوچستان، افغانستان اور ہندوستان کی سرحدیں پارکرکے یورپ کے فرانس اور امریکہ تک جا پہنچے ہیں۔ خلیج جو اب تک پاکستان کو اپنا مسیحا سمجھتے رہے، ان کا ساتھ نہ دے کر پاکستان نے ان کے پیٹ میں بھی چھرا گھونپا ہے۔دنیا کو سر جوڑ کر سوچنا چاہیے کہ پاکستان کی موجودگی میں شدت پسندی، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا احمقوں کے جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔دنیا اگر واقعی دہشت گردوں کی جانب سے لگائے گئے گھاو کو مندمل کرنا چاہتی ہے تو انہیں خطے میں بڑے فیصلے لینے ہونگے۔ دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے بلوچ ریاست کا قیام ایک انہتائی دانشمندانہ فیصلہ ہوگاکیونکہ شدت پسندی کو لگام دینے کے لئے ایک خود مختار، آزاد بلوچ ریاست کردوں کی طرح ایک اہم اتحادی ثابت ہوسکتا ہے۔جیسے کرد اپنے قومی مفادات کے خاطر مذہبی شدت پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اسی طرح بلوچ بھی اپنے قومی مفادات کے لیئے پاکستان اور اس کے پالے ہوئے مذہبی شدت پسندوں کے خلاف لڑنے گزشتہ کئی عشروں سے نبردآزما ہیں ۔کردوں کے بعد عالمی برادری کو بلوچوں سے روابط استوار کرنی پڑیگی کیونکہ بلوچ ایشا کے سنگم پر واقعہ انتہائی اہم خطے کا مالک ہیں۔ عالمی تجارت کا گزرہ گاہ سمندر بھی بلوچوں کی ملکیت ہے جسے پاکستان اب تک انتہائی چالاکی کے ساتھ اپنا معرکہ لگاکر خود کو اہمیت کا حامل ملک گردان رہی تھی۔ بلوچ قوم نے کبھی بھی عالمی برادری کی مفادات کے خلاف کام نہیں کیا ۔اسے لئے بلوچ کہتے ہیں بلوچستان پاکستان نہیں ہے کیونکہ بلوچ بحثیت قوم اور ان کی تحریک خطے میں ایک غیر متنازعہ کردار کے مالک ہیں ان کی مدد اور حمایت سے ہی عالمی امن اور ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری پاکستان کو طالبان، القائدہ اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی سمجھ کردل کھول کے فوجی و مالی امداد دیتی رہی۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو جس مقصد کے تحت آئے تھے بدقسمتی سے اس میں انہیں اب تک کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ امریکہ اور عالمی برادری جس فراخ دلی سے پاکستانی فوج کو دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے رقوم و فوجی ہتھیار و دیگر و سہولیات پہنچاتے رہے وہ در اصل امریکہ ہی کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔ پاکستان کو مالی و فوجی مدد بلوچ تحریک آزادی کے لئے بھی ایک تکلیف دہ اور مضر ثابت ہوئی کیونکہ پاکستان نے امریکہ اور دیگر عالمی برادری کے آنکھوں میں دھول جھونک کر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پرملنے والی اربوں ڈالرکے وسائل اور فوجی کمک کو بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بھر پور طریقے سے بروئے کار لایا۔ اس دوران ہزاروں بلوچوں کو پکڑ کر غائب کر دیا گیا جنہیں حراستی مراکز میں رکھا گیا۔ ان قیدیوں کو بعد میں باری باری کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا اور لاشیں مسخ کرکے بلوچستان کے طول و اریض میدانوں، بیابانوں ، وادیوں اور پہاڑی گھاڑیوں و گزرگاہوں میں پھینک دیا گیا۔ پاکستانی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے چند بلوچوں کی ہلاکت کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں جو دل دہلانے والی حقیقت پر سے پردہ اٹھانے کے لئے کافی ہیں۔