تحریر ۔ ۔ گہرام بلوچ

رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جوکہ (تاریخی طور پر، نہ کبھی پاکستان کا حصہ رہا ہے اور نہ برصغیر کا )، جس کا رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے۔اور آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹا صوبہ ہے جس کی کل آبادی تقریباً 29.4 ملین ہے۔

  معدنیات اور سونے سے مالا مال بلوچستان کے باشندے آج بے بس اور پسماندگی کے شکار ہیں۔ اس وقت تعلیم جیسے اہم اور بنیادی موضوع پر بات کرتے ہیں۔

 بلوچستان میں معیاری تعلیم کی بات نہ کریں، غیر معیاری تعلیمی نظام بھی خستہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے اور اس کا جوابدہ کون ہے؟ بلوچستان میں اکثر دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

 بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں سکول و کالجز سرے سے ہیں ہی نہیں۔آج بھی بلوچستان کے کئی دیہاتوں میں تعلیم کا یہ حال ہے جہاں بچوں کو تعلیم کے بجائے انہیں گھر کے کاموں یا مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر گاؤں میں کوئی اسکول ہے تو وہ بھی نام کے لیے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو اس میں اچھے اساتذہ ہیں اور نہ ہی پڑھائی کے لیے ضروری سہولیات میسر ہیں۔

تعلیم سے محرومی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ ایک بے تعلیم فرد نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر نہیں بنا سکتا بلکہ معاشرے کے لیے بھی بوجھ بن جاتا ہے۔ جب بچے پڑھ نہیں پاتے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو نکال نہیں پاتے اور پوری زندگی محرومیوں کا شکار رہتے ہیں۔بلوچستان کے دیہی علاقوں میں تعلیم کی صورتحال انتہائی تشویشناک اور افسوسناک ہے کہ تعلیم جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے، وہاں کے بچوں سے یہ حق چین لی گئی ہے ۔

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں گذشتہ ایک مہینے سے زائد بولان میڈیکل کالج اور بلوچستان یونیورسٹی کے بوائز اور گرلزہاسٹلزکو بندکیا گیا ہے تاکہ بلوچ قوم کی کی نئی نسل کو تعلیم سے محروم رکھا جاسکے ۔

شاہ محمد مری صاحب نے بالکل درست فرمایا ہے کہ انسان کی پرورش میں تعلیم کا بہت اہم کردار ہے۔ تعلیم ہی انسان کو آگے بڑھنے، اپنی زندگی میں بہتری لانے اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ مگر افسوس کہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں تعلیم کا یہ بنیادی حق پورا نہیں ہو رہا۔ اسکولوں کی عدم موجودگی یا اگر موجود ہوں تو ان کی غیر فعال حالت یہ بتاتی ہے کہ تعلیم کے لیے کتنا کم توجہ دی جا رہی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ بچے اپنی تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں اور ان کا مستقبل اندھیرے میں ہے۔بہت کم ایسےاضلاع ہیں جہاں سیکنڈری سکول اور کالجز کی تعمیر پر توجہ دی گئی ہے۔ نتیجتاً پرائمری سکول سے فراغت کے بعد بچوں کی تعلیم کا آگے کوئی مستقل نظام نہیں ہوتا ہے۔ پرائمری سکولز میں ایسے سیکڑوں سکول شمار کیے جاسکتے ہیں جو اساتذہ کی عدم توجہی، قابلیت کی کمی اور مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان بھر میں کل 14 ہزار 978 سرکاری سکول ہیں جن میں 10 ہزار 55 سکول لڑکوں کے، چار ہزار 238 لڑکیوں جب کہ 686 سکول لڑکوں اور لڑکیوں کے مشترکہ ہیں۔کئی سکول ایسے ہیں جو محض ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ اس معاملے میں اساتذہ کا تناسب قابل غور ہے۔

 بلوچستان میں 10 ہزار کے قریب اساتذہ گھوسٹ ہیں جبکہ پورے بلوچستان میں اساتذہ کا شدید فقدان ہے۔ کئی مڈل سکولز تین سے چار استادوں پر ہی چل رہے ہیں اور کئی میں صرف ایک استاد تعلیمی عمل کو یقینی بنانے میں سرگرداں ہیں۔اس نیو کالونیل ریاست اور چند پر اسرار طاقتوں نے تو پہلے ہی دن سے یہ عہد کیا ہے کہ بلوچستان کو آگے بڑھنے اور باشعور ہونے دینا ہی نہیں ہے کیوں کہ اگر یہ باشعور ہو گئے تو اپنا حق مانگنے لگ جائیں گے وہ جو کہ ان کو ہر گز ملنا نہیں چاہیے۔