جنیوا:(ہمگام نیوز) جنیوا میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے زیر اہتمام پانچویں بلوچستان انٹرنیشنل کانفرنس میں، ماحولیاتی اور انسانی حقوق کے کارکن یوسف بلوچ نے بلوچستان کی جدوجہد آزادی اور عالمی موسمیاتی بحران کے درمیان تعلق اجاگر کیا۔
اپنے خطاب میں انھوں نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے گہرے مسائل پر روشنی ڈالی اور ان ناانصافیوں کی استعمار اور سرمایہ داری کے وسیع اثرات سے تعلق کو بیان کیا۔
یوسف بلوچ نے کہا، بلوچستان کی جدوجہد کا موسمیاتی بحران سے گہرا تعلق ہے۔ جب ہم بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل پر بات کرتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بڑے مسائل موسمیاتی بحران سے جڑے ہوئے ہیں، جو خود سرمایہ داری اور استعمار کی پیداوار ہے۔ بلوچستان پاکستانی ریاست کی کالونی ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے کہ ہم اس جابرانہ نظام کو ختم کریں اور اس کے اداروں کو ختم کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بلوچستان کے مقامی لوگ، دنیا کی دیگر برادریوں کے ساتھ آزادی حاصل کر سکیں۔
یوسف نے بلوچستان کے مقامی لوگوں کی نمائندگی کی اہمیت پر کہا، اس بات پر زور دینا بہت ضروری ہے کہ یہ ہماری سرزمین ہے، ہم یہاں کے ہیں، اور ہم یہاں کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں رہتے۔ ہمیں اس اختیار کی مزاحمت کرنی چاہیے۔
انھوں نے اس تحریک میں نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا، بلوچستان کی آزادی اور انصاف کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہمارے مقصد کی موثر نمائندگی ہو۔ بلوچستان کی جدوجہد چاہے کسی لاپتہ رشتہ دار، دوست، یا کسی ایسے شخص کے ذریعے ہو جسے پاکستانی ریاست نے اغوا یا قتل کیا ہو۔
یوسف بلوچ نے اپنے خطاب کے اختتام پر تحریک کو طویل مدت تک برقرار رکھنے کی اہمیت پر کہا کہ یہ مسائل چند سالوں میں حل نہیں ہو ں گے ۔ ہمیں ان ناانصافیوں پر غصہ کرنا چاہیے، ساتھ ہی ایک بہتر مستقبل کی امید کو بھی تھامے رکھنا چاہیے۔ غصے اور امید دونوں کو متوازن کرنے سے ہی ہم حقیقی بنیاد پر تبدیلی لانے والے طریقے اختیار کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔