لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ حالیہ پاکستانی اپیکس کمیٹی اجلاس میں بلوچستان میں بڑے پیمانے پر آپریشن اور عسکری جارحیت کا اعلان دنیا کے دیگر ممالک اور اداروں خاص طور پر چائنا کو یہ باور کرانے کی ایک ناکام کوشش ہے کہ بلوچستان میں ابھی تک کوئی آپریشن یا فوجی جارحیت نہیں ہورہی ہے بلکہ ہم اسکے بارے میں فی الحال غور کررہے ہیں، لیکن حقائق اسکے بالکل برعکس و منافی ہیں کیونکہ بلوچستان میں نہ صرف حالیہ دو دہائیوں میں متواتر عسکری جارحیت و ملٹری آپریشنز کا سلسلہ جاری و ساری ہے بلکہ بلوچستان کی سرزمین پر ایرانی و پاکستانی قبضے کے اول دن سے بلوچ قوم کی نسل کشی اور فوجی جارحیت کا سلسلہ تاحال برقرار ہے۔

انہوںنے کہا کہ ایرانی و پاکستانی قبضے کے بعد بلوچستان کے سرزمین کے طول عرض میں ایسا کوئی عرصہ نہیں گزرا جو فوجی جارحیت اور بلوچ نسل کشی سے خالی ہو، بلکہ بلوچ روز اول سے ان جارحانہ پالیسیوں کا شکار رہا ہے اور ایسے میں بھڑک بازیوں سے بلوچ قوم اپنی آزادی کی امنگ اور جد و جہد سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ حالیہ کچھ سالوں سے اب بلوچ سرزمین پر جارحیت کرنے والے کرداروں کے ساتھ اور بھی کئی کرداریں شامل ہوچکی ہیں جوکہ اپنی معاشی و عسکری مفادات کی جنگ کے لئے بلوچ سرزمین کو استعمال کرنے کی کوششوں میں قبضہ گیر پاکستان و ایران کے ساتھ شراکت دار بن چکے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ چین اپنی معاشی و سیاسی توسیع پسندانہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان و ایران سمیت دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ اپنے روابط بہتر انداز میں استوار کرنے کوششیں کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کے خواہاں ہے کہ بلوچ وسائل کے لوٹ مار اور بلوچ قومی غلامی کے خلاف جاری شعوری جد و جہد کو ختم کیا جاسکے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچ سرزمین پر قابض ایران و پاکستان کی بساط اتنی نہیں کہ وہ بلوچ قومی جد و جہد کو کاؤنٹر کرسکیں لیکن پاکستان و ایران کو ہمیشہ علاقائی و عالمی سطح پر امداد و کمک ملتی رہی ہے آج یہ بات واضح ہوچکا ہے کہ بلوچ قوم کو ایران و پاکستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک کی توسیع پسندانہ سامراجی پالیسیوں کا سامنا ہے، اسکی واضح مثال بلوچ قومی جد و جہد سے خائف چین کا یہ کہنا کہ وہ بلوچستان میں موجود اپنے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئیے پیپلز لبریشن آرمی یعنی پی ایل اے کے اہلکار بھیج دے گا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ قومی مزاحمتی تسلسل کے سامنے پاکستانی و ایرانی قبضہ گیر اداروں کو اگر عالمی کمک و حمایت میسر نہ ہو تو بلوچ اپنے وطن کی آزادی کے خواب کو بہت جلد شرمندہ تعبیر کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اپنے حالیہ اپیکس کمیٹی کے علامیے میں بلوچستان کے اندر آپریشن اور سرحدوں کی نگرانی کے میکنزم کو مضبوط بنانے کی جو عندیہ دیا گیا ہے اس سے بلوچ قوم کو مجموعی اعتبار سے بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی قریب میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کس طرح ایران و پاکستان نے خفیہ طور باہمی مشورے کی بنیاد پر نام نہاد گولڈاسمتھ لائن کے دونوں اطراف فضائی بمباری کرکے خواتین و بچوں سمیت کئی بلوچوں کو شہید کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ امر واضح رہے کہ چین کی سربراہی میں ایران و پاکستان کے درمیان ایک مصالحتی دور کا آغاز ہوچکا ہے جہاں دونوں اطراف سے بلوچ جہد کاروں اور آزادی پسند قوتوں کو شہید کرنے اور بلوچ اجتماعی قوت کو ناقابل تلافی نقصان دینے کی کوششیں کی جارہی ہے، ایسے میں ایران یا پاکستان کسی بھی قابض ریاست کو اپنا دوست، نجات دہندہ یا ساتھی تصور کرنا تاریخی اعتبار سے ایک سنگین غلطی ہوگی کیونکہ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں بھی پاکستانی انتظامی سربراہ بھٹو کے کہنے پر انیس سو ستر میں ایران نے نہ صرف اپنے جنگی جہاز پائلٹس سمیت بلوچستان پر بمباری کرنے کے واسطے بھیجے بلکہ اس وقت ایرانی ریاست نے پاکستان کو کئی ملین ڈالرز کی معاشی و عسکری امداد بھی بہم پہنچائی۔

ایف بی ایم کے ترجمان نے مزید کہا کہ ایسے بیانات سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں کی جارہی لیکن حقائق اسکے بالکل برعکس ہیں۔ ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق چھبیس نومبر کو آئی آر جی سی نے ایک بڑے پیمانے پر آپریشن کے حوالے سے اطلاعات شیئر کرتے ہوئے یہ بات قبول کی اس آپریشن میں چھبیس بلوچوں کو شہید اور پچاس سے زائد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دریں اثنا ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر ابھی حالیہ کچھ عرصے سے بے گناہ بلوچوں کو انکی سیاسی نظریات کی بنیاد پر من گھڑت اور جھوٹے مقدمات میں مجرم قرار دیتے ہوئے کثیر تعداد میں پھانسیاں دی جارہی ہیں جو کہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ قابض ایران و پاکستان بیک وقت بلوچ کے خلاف اپنی جارحیت کو مزید وسیع کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، کیونکہ ایک طرف پاکستانی قابض بلوچستان میں موجودہ عسکری آپریشن کا دائرہ کار وسیع کرنے کا اعلان کرچکا ہے اور دوسری طرف ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر بھی بلوچ نسل کشی کی پالیسیاں مزید تیز کردی گئی ہیں، دوسری جانب چین اور پاکستان کا مشترکہ جنگی مشقوں کا پانچ سال بعد دوبارہ شروع ہونا اس بات کا غماز ہے کہ چین بلوچ ساحل و وسائل کی لوٹ مار اور بلوچوں کی نسل کے کشی کے لئے قابض ایران و پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے اور چین اپنی ابھرتی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر پاکستان و ایران کے ذریعے بلوچ قومی نسل کشی کے اس جرم میں بلواسطہ طور پر ملوث ہے چین کا یہی خواب ہے کہ گوادر بندرگاہ سے لیکر چین تک عالمی منڈیوں تک رسائی اور نقل و حمل میں اسے کسی قسم کی کوئی مشکلات کا سامنا نہ رہے جو کہ بلوچ قومی مزاحمتی جد و جہد کے ہوتے ہوئے یقینا ممکن نہیں ہے۔