تعلیمی ادارے اقوام کے اثاثوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ وہ اثاثے ہیں جہاں سے سالانہ ہزاروں کی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان پیدا ہوتے ہیں ،اُن میں تخلیقی صلاحیتوں کا ایک نا ختم ہونےو الاسلسلہ درآتا ہے۔
آج پوری دنیا ایک منظم طریقے سے تعلیم سے آراستہ ہو رہی ہے اور دنیا کا وژین ہے کہ تعلیم سے مزید ترقی کرے۔ اگر ہم دیکھیں سعودی عرب وچین کا آئندہ لایہ عمل تعلیم پر مرکوزہے جہاں وہ اپنے عوام کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کہ کوششیں کر رہے ہیں مگر بلوچستان وہ بدنصیب خطہ ہے جہاں حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کا استحصال جوش و خروش سے جاری ہے۔ پہلے تو یہاں انسانوں کا استحصال انسانی ریسورسز کا استحصال ہورہی تھی لیکن اب تعلیمی ادارے بھی انہی قوتوں کے استحصال کے منبع و مرکز بنے ہوئے ہیں۔ جہاں تعلیمی اداروں میں فوجی چھائونی ، ریٹائیرڈ فوجی وی سی یا لیکچرز نے سنبھال رکھے ہیں۔ سامراجی اور استعماری قوتوں کو تعلیمی اداروں کی بہتری ،نوجوان نسل کی ادراک و شعور ہضم نہیں ہوتی ہے انھیں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ غلام قوم علم حاصل نہ کرے، اگر وہ علم سے آشنا ہوگا تووہ صحیح غلط کا فیصلہ کر سکے گا۔
بلوچستان کے نوجوانوں میں کسی بھی طرح کی ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے ۔یقیناً یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے جھونپڑیوں میں تعلیم حاصل کی ہے، انہیں کمپوٹر ،وائٹ بورڑ ،چاک تک مہیا نہیں کیا جاتاہے مگر یہ باقی صوبوں کے اسٹوڈنٹس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔کیونکہ ان میں حصول علم کی جنون ہے۔یہ نصابی کتابوں کیساتھ ساتھ آپ کو پوری دنیا کی معلومات فراہم کرسکتے ہیں اگر ان کی تعلیمی اداروں کے استحصال نہ وتی تو آج انہیں آپ دُنیا کے کسی بھی پروفیشنل ادارے میں دیکھتے لیکن اتنی رکاوٹ و دشواریوں کے باوجود میں یہ فخراً کہتا ہوں کہ بلوچستان کے نوجوان باقی صوبوں کے اسٹوڈنٹس سے انتہائی آگے اور ٹیلنٹڈ ہیں ۔یہ ھمارے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان نے کتاب پڑھنا اپنا فیشن بنایا ہیں۔
بلوچستان حکومت کی غفلت اور کوتاہیاں ازل سے ابد تک یکساں ہے جنہوں نے ہمیشہ تعلیمی اداروں پر آگ برسائی ہے۔ تعلیمی اداروں کو انہوں نے اس نیز تک پہنچایا ہے کوئی بھی نوجوان مثبت طریقے سے باقاعدگی سے اپنی کلاسزز نہیں لے سکتا یا پِھر بہت سارے ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن کے دروازوں پر تالے لگے ہیںجو بطورِ گدام استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹیز کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے ،چاہے وہ لسبیلہ یونیورسٹی ہو، بلوچستان یونیورسٹی، گوادر یونیورسٹی، تربت ینورسٹی یا پِھر بیوٹمز جہاں بےشمار مسئلے مسائل کھڑے کردیے گئے ہیں۔ اسٹوڈنٹس نے کہیں بار پُراَمن طریقے سے ان مسائل کے حل کیلئے احتجاج ریکارڈ کیئے لیکِن تاحال یونیورسٹیز کے مسائل وہی کے وہی پڑے ہیں، حکومتی نمائندے سنجیدگی سے کھبی بھی ان مسئلوں کی حل کیلئے کوشاں نہیں رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک امرہے۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق بلوچستان میں تیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ آخر اسکی سبب کیا ہوسکتی ہے کہ لاکھوں کے قریب بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ حقیقتاً ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ وہاں اسکولز نہیں ہیں ،اسکولز کی بلڈنگ ضرور ہے لیکِن وہ تمام تر اسکولز ایسے بند پڑے ہیں جِن پر کھبی بھی بلوچستان حکومت ایکشن نہیں لیتی۔
ہزاروں کی تعداد میں اسکولز فنکشنل نہیں ہیں ۔لاکھوں کی تعداد میں بچوں کا مستقبل تاریکی میں دھکیلا جارہا ہے، اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ کچھ جعلی ٹیچرز کو بھرتی کرکے جنہیں حروفِ تہجی تک نہیں آتی سفارشی طور پر مسلط کئے گئے ہیں ۔آج اِن لوگوں سے بیس لاکھ لیکر اُن کو بھرتی کیا جاتا ہے پِھر آزاد پڑے رہتے ہیں، اسکولز بند ہیں یا پِھر ایسے (کُکڑ پاس) پڑھائیں بھی تو اپنی طرح اپنے لئے مرغی پاس شاگرد ہی بنائیں گے ۔تعلیم یافتہ یا پِھر ہنر مند نہیں ہزاروں کی تعداد میں بند اسکولز کی حکومتی سروے نہیں ہورہی اور پِھر بلوچستا ن حکومت ایسے ناخواندہ افراد کو بھرتی کرتاہے ۔میں سمجھتا ہوں یہ بلوچستان اور بلوچستان کے لوگوں کیساتھ بہت بڑی کھلواڑ ہے جس کا اِزالہ کہیں برسوں تک نہیں کیا جاسکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں تعلیمی اداروں کی بندش یا پِھر فنکشنل تعلیمی اداروں میں بےتحاشہ رکاوٹیں اسٹوڈنٹس کو احساسِ محرومی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔بلوچستان حکومت کی لاپرواہی لاکھوں کی تعداد بچے اسکولوں سے باہر ہے ،یہ ایک حکومتی جبر ہے، بلوچستان تو ویسے ہی تاریکیوں سے نکلا ہی نہیں ازل سے تاریک میں گھسیٹتا آرہا ہے ،یہ مزید بلوچستان کو پسماندگی کے لپیٹ میں دھکیل رہے ہیں۔