کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ اس جدید دور میں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ترقی کے اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں وہ انسان کے دماغ کو ہیک کرنے کیلئے الگورتھم جیسے ٹیکنالوجی کو ایجاد کررہے ہیں تاکہ باآسانی سے انسان کی سوچ، خواہشات، فیصلہ جات، باقی چیزوں کو ہیک کرکے انہیں اپنے گرفت میں لے لیں۔ لیکن دوسری جانب ہم اپنے تعلیمی نظام پر نظر دوڑائیں تو تعلیمی ادارے تباہی کے اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر اسٹوڈنٹس اور ملازمین سڑکوں پر اپنے بنیادی ضروریات کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔

اسی کی حالیہ مثال بہادر خان وومین یونیورسٹی کے سب کیمپس نوشکی کے طالبات کی ہیں جو اپنے تعلیمی ادارے کے بچاؤ کیلئے احتجاج کر کے روڑوں پر نکل چکے ہیں، اسی طرح خضدار نرسنگ کالج کو بھی کئی مصنوعی مسائل کا شکار بنا کر طالبات کو روڑوں پر نکلنے اور احتجاج کرنے پر مجبور کی گئی ہے، قلات ڈویژن کا واحد نرسنگ کالج ہے جہاں بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے طالبات نرسنگ کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے زیر تعلیم ہیں لیکن مصنوعی مسائل کے سبب کالج میں نہ کلاس رومز ہیں اور نہ ہی دور دراز علاقوں سے آئے اسٹوڈنٹس کیلئے ہاسٹل تعمیر کی گئی ہے، اسکے علاوہ خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات اور تربت یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس بھی آئے روز انتظامیہ کی بدعنوانیوں، من مانیوں، رزلٹ کی منسوخی سمیت دیگر مصنوعی مسائل کے خلاف احتجاجاََ کلاسز کا بائیکاٹ کرچکے ہیں۔ لیکن بعد میں یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے بدنامی کو چھپانے کیلئے یونیورسٹی کو بند کیا گیا تاکہ طلبا اپنے حقوق اور انتظامیہ کے من مانی کو اجاگر نہ کر سکیں اور یونیورسٹی کھلتے ہی انتظامیہ نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے تین اسٹوڈنٹس کو یونیورسٹی سے فارغ کر دیا تاکہ آئندہ کوئی انتظامیہ کے من مانی، غلط پالیسیوں اور اپنے بنیادی حقوق کی خاطر آواز نہ اٹھا سکیں۔

ترجمان نے مزید کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی نظام کی بہتری کے بجائے دن بہ دن تعلیمی نظام ابتر ہوتا جارہا ہے، جوکہ بلوچ اسٹوڈنٹس کو تعلیم کے میدان میں پسماندگی کی جانب دھکیلنے کی ایک سازش ہے۔ بلوچستان کے چند حسابی یونیورسٹیاں ہیں وہ بھی مالی بحران کے آخری دہانے پر پہنچ چکے ہیں ۔ بلوچستان یونیورسٹی احتجاجََا تین مہینے بند ہونے کے بعد اب تک اسی طرح مالی بحران سے دوچار ہے۔ اسی طرح لسبیلہ یونیورسٹی بھی مالی بحران کا شکار ہے ۔ بلوچستان میں اسکولوں سے لیکر کالجز اور یونیورسٹیوں تک سب مالی بحران کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی من مانی اور طلباء کے خلاف انتقامی کارروائیوں بھی عمل میں لائی جا رہی ہیں تاکہ وہ اپنے تعلمی حقوق سے دستبردار ہوں۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی خستہ خالی اور تباہی کا زمہ دار موجودہ استحصالی اور نو آبادیاتی نظام ہے جن کو مستحکم بنانے کیلئے محکوم کے نوجْوانوں کو علیمی پسماندگی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں بلوچ تنظیموں سے مخاطب ہو کر کہا کہ بلوچستان کے تعلیمی نظام کی تباہی بلوچ قوم کی تباہی کا پیش خیمہ ہے، لہٰزا بلوچ قوم کے مستقبل کو تباہی سے بچانے کیلئے ہم آواز ہو کر بلوچستان کے لوٹ مار اور تعلیمی اداروں کی تباہی کے خلاف آواز اٹھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔