بلوچستان کو جو پہلے ہی ظلم و جبراور استحصال کی ایک گہری کھائی میں دھکیلا جا چکا ہے، آج اس کے تعلیمی ادارے بھی ایک اور سنگین سازش کا شکار ہیں۔
بولان میڈیکل کالج اور بلوچستان یونیورسٹی کے بعد اب لسبیلہ یونیورسٹی کو ایک منظم، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عسکری قبضے میں لیا جا رہا ہے۔ یہ عمل کسی صورت محض اتفاق نہیں بلکہ بلوچستان کے مظلوم عوام کو علم کی روشنی سے محروم کرنے کی ایک مکروہ سازش ہے۔
بلوچستان کے تعلیمی ادارے، جو امید کے چراغ ہوا کرتے تھے، اب خوف، جبر، اور عسکری تسلط کا شکار ہیں۔ یہاں علم کے بجائے بندوقوں کا راج ہے، سکون کے بجائے خوف و ہراس ہے، اور ترقی کے بجائے پسماندگی مسلط کی جا رہی ہے۔ طلبہ، جو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے ان اداروں کا رخ کرتے تھے، آج خوف اور دباؤ کے باعث اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف طلبہ کے مستقبل کو تاریک کر رہا ہے بلکہ بلوچستان کو مزید جہالت اور پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ مظلوم بلوچستان، جسے پہلے ہی اپنی زمین، وسائل اور شناخت سے محروم کر دیا گیا، آج اس کے نوجوانوں سے تعلیم جیسے بنیادی حق بھی چھین لیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ عمل نہیں بلکہ ایک منظم ریاستی پالیسی ہے جو یہ پیغام دے رہی ہے کہ بلوچستان کے عوام کو علم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ان کے اداروں کو عسکری کیمپوں میں بدل کر انہیں واضح طور پر یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ صرف محکومی اور مظلومیت کی زندگی گزارنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں اب خوف کے سائے چھا چکے ہیں۔ طلبہ بندوقوں کی چھاؤں میں تعلیم حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، مگر ذہنی کوفت اور دباؤ کے سبب ان کا اعتماد اور توجہ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے بےبسی اور بےچارگی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
یہ سازش صرف تعلیمی اداروں پر نہیں بلکہ پورے بلوچستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔ علم دشمن عناصر ایک ایسی نسل تیار کرنے کے درپے ہیں جو تعلیم سے عاری، حقوق سے محروم اور احتجاج سے خوفزدہ ہو۔ یہ بلوچستان کو ہمیشہ کے لیے جہالت، پسماندگی اور غلامی میں دھکیلنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔
اگر آج بلوچستان کے طلبہ کو ان کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، تو یہ نہ صرف ایک ناقابل معافی جرم ہے بلکہ پورے پاکستان کے تعلیمی اور سماجی نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ یہ وہ دھبہ ہے جسے آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
بلوچستان کے عوام کو اپنی خاموشی توڑنی ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ وہ اپنے حقوق، اپنی زمین، اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کھڑے ہوں۔ اگر آج اس ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی، تو کل ہمارے پاس پچھتاوے اور ماتم کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ یہ جدوجہد نہ صرف بلوچستان کے طلبہ بلکہ پورے خطے کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
ہمیں اس سوال کا جواب لینا ہوگا کہ آخر کب تک بلوچستان کے نوجوان اپنے تعلیمی حقوق کے لیے ترستے رہیں گے؟ کب تک ان کے خوابوں کو بندوقوں کے سایے میں دفن کیا جاتا رہے گا؟ کب تک یہ ریاست ان مظلوموں کو ایک بے حس تماشائی کی طرح دیکھتی رہے گی؟ اب وقت آ چکا ہے کہ اس ظلم و جبر کے سلسلے کو روکا جائے اور بلوچستان کو وہ حق دیا جائے جس کا وہ صدیوں سے منتظر ہے تعلیم، زندگی، اور سکون جوکہ انسانی حقوق کے سرِ فہرست میں ہیں۔