شال(ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، ریاستی فسطائیت اور فکری استبداد کا ایک مکروہ حربہ ہے،جو بلوچ قوم کے شعوری ارتقا، نظریاتی بالیدگی اور فکری انفرادیت پر ایک کاری ضرب کے مترادف ہے۔ یہ اقدام درحقیقت ذہنی استعماریت اور فکری محکومی کی ایک گھناؤنی سازش ہے، جس کے ذریعے ریاستی مقتدرہ نوجوانوں کی فکری اُپج، شعوری خودمختاری اور فکری آزاد روی کو جڑ سے اکهاڑنا چاہتی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کی فکری تربیت، سماجی آگہی اور سیاسی شعور کی تربیت گاہیں ہوتی ہیں، جہاں نوجوان نسل اپنی تاریخ، قومی حقوق اور اجتماعی معاملات پر بحث و تمحیص کے ذریعے فکری بلوغت حاصل کرتی ہے۔ مگر بلوچستان میں ریاستی جبر کے تحت ان علمی داش گاہوں کو شعوری انحطاط، نظریاتی قحط اور فکری بانجھ پن کی آماجگاہوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ریاستی مقتدرہ نے بلوچستان کے سیاسی و سماجی اداروں کو پہلے ہی عسکری استبداد کے ذریعے غیر فعال کر دیا ہے، اور اب تعلیمی اداروں پر قدغن لگا کر نوجوان نسل کی فکری خود مختاری کو بھی معدوم کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ اقدام درحقیقت نظریاتی حبس، فکری انسداد اور ذہنی انجماد کو یقینی بنانے کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے، تاکہ بلوچ نوجوانوں کو شعوری بےگانگی اور فکری انحراف کا شکار کر کے انہیں محکومیت کے دائرے میں مقید رکھا جا سکے۔ریاست کی یہ فسطائی حکمتِ عملی محض سیاسی سرگرمیوں کی مخالفت تک محدود نہیں، بلکہ یہ فکری و نظریاتی غلامی کا وہ زہر ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کی ذہنی تعمیر کو مسخ کر کے ان کے قومی شعور کی ہر کرن کو بجھانا ہے۔ تعلیمی اداروں پر مسلط کردہ یہ نظریاتی جمود دراصل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ریاست بلوچ نوجوانوں کی شعوری پرواز، سیاسی بصیرت اور فکری بالیدگی سے خائف ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ اقدام فکری نسل کُشی کا تسلسل ہے، جس کے ذریعے نوجوانوں کے اذہان کو شعوری انجماد کا شکار کر کے انہیں قومی مسائل سے لاتعلق کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ریاست اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی سیاسی و نظریاتی تربیت، ان کی مزاحمتی فکر اور تاریخی شعور سے جڑی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں ہر قسم کی فکری سرگرمی کو جبر کے ذریعے ممنوع قرار دے کر ذہنی محکومی کی زنجیریں مزید مضبوط کر رہی ہے۔دنیا کی مہذب اقوام میں تعلیمی ادارے فکری انفرادیت، جمہوری شعور اور سیاسی آگہی کے مراکز سمجھے جاتے ہیں، جہاں نوجوان نسل کو سماجی انصاف، حقوق کے دفاع اور اجتماعی معاملات میں حصہ لینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مگر بلوچستان میں تعلیمی اداروں کو فکری اسارت اور نظریاتی حبس کا شکار کر کے ریاست نے اس قوم کے ذہنی ارتقا کے تمام امکانات کو مسدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
ترجمان نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور سامراجی قوتوں کی منافقانہ خاموشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے منشور کے تحت ہر انسان کو آزادیٔ اظہارِ رائے اور فکری آزادی کا حق حاصل ہے، مگر بلوچستان میں ریاستی استبداد کے ذریعے یہ بنیادی حق نہ صرف سلب کیا جا رہا ہے، بلکہ نوجوان نسل کو شعوری معذوری کا شکار کرنے کی منظم حکمتِ عملی اپنائی جا رہی ہے۔
آخر میں ترجمان نے کہا کہ ریاستی استبداد کے یہ ہتھکنڈے اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ بلوچ قوم کی فکری بالیدگی، شعوری ارتقا اور نظریاتی خود مختاری سے ریاست کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ لیکن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جبر کے قلعے ہمیشہ فکری آزادی اور شعوری بیداری کی طاقت سے مسمار ہوتے ہیں، اور فسطائی نظام چاہے جتنا بھی جبر کرے، فکری ارتقا اور شعور کی بیداری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ بلوچ نوجوان اپنی مزاحمتی فکر، شعوری بلوغت اور نظریاتی استقلال کے ذریعے ہر جبر کو شکست دیں گے اور اپنی فکر و دانش کے ذریعے ظلمتوں کے اندھیروں کو مٹانے کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔