بلوچ قوم اور اس کی سب سے بڑی قومی زبان ،بلوچی کی کھوج گذشتہ ڈیڑھ سوسال سے سکالروں ، اکیڈمیشنزاور تحقیق کاروں کے لےے ایک معمہ بنی ہوئی ہے ۔ اصل میں سارے ایشیا کی پوری آبادی کی مائیگریشن تھیوری نے دنیا کو بہت عرصے تک گمراہ کےے رکھا ۔سارے ایشیائی انسانوں کو ریٹرھی پر ڈال کر کبھی یہاں سے وہاں لے جایا گیا ، اورکبھی وہاں سے یہاں لایا گیا۔ ”آریا“ اور”نہ آریا “کی بحثوں نے سب کاراستہ گم کردیا۔اُس دوڈھائی ہزار سال کے زمانے سے پہلے کے دور کے بارے میں لوگوں نے سوچاہی نہیں ۔خود بلوچ محقق کا مسئلہ بھی یہی تھا۔ ظاہر ہے ہمارے اِن سائنس دانوں کوآرکیا لوجی جیسی سائنسی مدد دستیاب نہ تھی لہذا اندازہ ہی نہ ہوتاتھا کہ ہم کن ہوا ﺅں کے تھپیڑے ہیں ۔کس حسین علاقے کی مُسکان ہیں، کہاں سے آئے ہیں ۔ کون بھائی ہے کون چاچے کابیٹا ؟۔چونکہ واحد اوزارجوہماری دسترس میں تھا ، وہ محض پانچ سو برس قبل کی کلاسیکل شاعری تھی۔ اس لئے بلوچ چاکر رند کے عہد کو ہی اپنی اس لسانی بحث کا نقطہِ آغاز گردانتا چلا آ رہاہے ۔ پھر جب شاہنامہ فردوسی پڑھنے والے عالموں نے ہماری تاریخ کو ہزار سال پیچھے کھینچا تو بحثیں بھی ذراساطول پکڑگئیں ۔اور یوں ابھی حال تک فارسی کے اس نامور شاعر ابوالقاسم فردوسی کے اِن اشعار کو بلوچوں کا مخز ن و منبع و ابتدا سمجھاجاتا رہا: سپا ہے زگردان کوچ و بلوچ سگا لیدہ جنگند مانندِ غوچ کسے درجہاں پُشت ایشاں نہ دید زآہن یک انگشت نامہ پدید سپیدارِشاں اشکش تیز ہُش کہ بارائے دل بودو بامغز ہُش درفشش بیاوردہ پیکر پلنگ ہمی از درفشش بیا ر ندجنگ پھر ذرا پیچھے، ڈھائی ہزار سال قبل آریاﺅں کی آمد نے ہمارے تجسس کے سامنے بڑا فُل سٹاپ لگاڈالا۔ معاملے کو ایسا پیچیدہ بنا دیا گیا کہ ہماری سینئر نسل تک یہ بات حتمی کر بیٹھی کہ ڈھائی ہزار سال پہلے گویا چلتن وجوہان کے پہاڑ وجود ہی نہ رکھتے ہوں، اُن پہ ہرن و بھیڑیا کا وجود نہ ہوا ور اُن کے بیچ موجود تعلق کا تصور تک نہ ہو۔ گویا ڈھائی ہزار سال قبل مچ کے کوندروں کے جنگل سے کوئی نیم انسان ایک نل میں سوراخ نکال کر بانسری نہ بجاتا ہو۔ آفاقیت کبھی کبھی ہم نام نہاد دور بینوں کی نزدیک بینی پہ قہقہے لگا کر ہنستی ہوگی!۔ آج تک ہم بلوچ اس بحث سے نکلنے ہی نہ دےے گئے کہ ہماری زبان کی ساخت و پرداخت کیا ہے۔ پہلوی،سنسکرت، دراوڑ……..وغیرہ۔ دوسری زبانوں سے ہمارے رشتے ناطے کیا ہیں ؟۔ اور ہم تاریخ میں کس جگہ کھڑے ہیں؟۔ یہ بلا شبہ سائنسی اور جائز بحث تھی‘ اور ہے ۔اور بحث نہ کرنا جانور پن ہے ۔ مگر نتیجہ نہ نکلنے کی نیت سے صدیوں تک بحثیں کرتے رہنا محض طوطاپن ہے ۔ پھر اِس پورے تصور کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ پڑگیا۔ فرانس کے کچھ سائنس دانوں نے خزانہ تلاش کرنے والے بلوچ کی ناترس و نا تراشیدہ گینتی روک دی اور زمین کی زیادہ شائستہ اور نازک و محتاط کھجلائی شروع کی۔ کدال کے ایک وار سے جتنی کھدائی ہوئی تھی، انہوں نے شش ماہیاں لگا کر اُتنی کھر چائی کی ۔ اور برسہا برس کی گرمی سردی، پردیسی مسافری، زہریلے کیڑوں اور خونخوار درندوں کے بیچ رہ کر ایک ایسا خزانہ دریافت کیا جس کے لےے دنیا بھر کی تجوریاں قربان ۔ مہر گڑھ تہذیب دریافت ہوگئی۔ اور یہ مہر گڑھ تہذیب مسکان کی صورت لیے ہوئے تھی ۔ یہ کھڑی ہم پہ مسکرا رہی تھی ۔ جی ہاں۔پتہ چلاکہ ہم پانچ سویاہزار سال کے بجائے گیارہ ہزار سال پرانے لوگ ہیں ۔اُس وقت سے ہم تباہ نہ ہوئے بلکہ کسی نہ کسی صورت یہیں رہ رہے ہیں ۔ کچھ لوگ ادھر ادھر جاتے رہے ہوں گے کہ سکوت ناممکن ترین چیز ہوتی ہے ۔اسی طرح لوگ باہر سے آتے رہے ، ضم ہوتے رہے ۔ مگر اصل اور بڑی آبادی یہیں رہی ۔ ہم یہیں رہے ۔بلوچ تاریخ میں یہ اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے۔ یہ کہ بلوچ اسی مقدس مٹی کواپنا عرش وفرش بنائے رہا۔ کہیں باہر سے اس کا نزول نہ ہوا ۔ یہ بہت بڑ ی دریافت ہے اسی لےے تو ہماری زبان کے ایک ایک لفظ کی اٹما لوجی اور ہمارے کلچر کی ایک ایک انگڑائی انہی ندی نالوں کے قالب سے ڈھلی ملے گی۔ یہ واقعتابلوچالوجی اور بلوچیالوجی کی اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے ۔ ہم جائز طورپر ایک مضبوط ومستحکم ماضی پہ پیر رکھے کھڑے ہیں۔ یہ تفا خر اور اطمینا ن مستقبل کی چھلانگوں پھلا نگوں میں ایک قوم کے زبر دست معاون ہوتے ہیں۔ ہم کیا زبان بولتے تھے ابھی تک معلوم نہیں مگر یہ بات یقینی ہے کہ سارے وسطی اور جنوبی ایشیاءکے انسانوں ، اُن کی تہذیبوں اور زبانوں کا منبع(اب تک کی معلومات کے مطا بق) یہی مہر گڑھ ہے ۔ بھئی مہر گڑھ کا انسان بولتا تھا ۔ بھئی انسان بولتا تھا ۔۔۔ گیارہ ہزار سال قبل۔ہم بولتے تھے۔۔۔۔ گیارہ ہزار سال قبل ۔ہماری ساری زبانوں کی تشکیل ہوئی ۔۔۔۔ گیارہ ہزار سال قبل کی چاک اور مٹی سے ۔ مگر،ایسانہیں کہ ہم پیدائشی طورپر بولنے لگے تھے ۔ نہیں ۔ ہم تو باقی جانداروں کی طرح تھے ، پھر رفتہ رفتہ انسان کچھ تو دوسرے جانوروں پر ندوں کی نقل میں ، اورکچھ اپنی جبلی ضرورتوں صلاحتیوں سے مخصوص آوازیں نکالتے نکالتے اور انہیں لفظ کی شکل دے دے کر جانوروں کی دنیا سے خود کو الگ اور ممتاز کرچکا تھا۔کم از کم گیارہ ہزارہ سال قبل۔اس لیے کہ دنیا میں زمیں کھجلا کر اُس کی اندرونی کھال کا معائنہ مشاہدہ کرنے والی سائنس نے آبِ حیات پی رکھی ہے ۔ یہ بہت دلچسپ ہے کہ انسان جس قدر اوزار بناتا گیااسی قدر اُس کا دماغ قابلیت، اہلیت ، یاد داشت ، تفکر اور فیصلوں کے لحاظ سے وسعت پاتا گیا ۔ پھر انہی دونوں کی مطابقت میںانسان کی زبان ، نرخرہ ، ہونٹ ، ناک، سینہ اور پھیپھڑوں نے ترقی کرکے اسے گُنگدام سے اشرف المخلوقات بنا ڈالا۔ حتیٰ کہ وہ گُنگ زبان کو اشاروں کنایوں کا بدل بنانے کے قابل ہوا ۔” آں، اوں“ ہی مہر گڑھ سے ہزاروں برس قبل کے بلوچستان کی زبان تھی ۔جی ہاں، آج کی ترقی یافتہ سائنسی بلوچی زبان ”آں، اوں “سے شروع ہوئی تھی۔بالکل ایسے ہی جیسے کہ آج ہمارانوزائیدہ بلوچ دوسرے انسانوں کی طرح نو، دس ماہ کی عمر میں ”آں اوں “ہی سے بولنا شروع کرتا ہے۔یوں ترقی کرتے کرتے ہمارا جدِامجد جانوروں سے بہت آگے نکل گیا اوراُن سے بہت جدا ہو گیا ۔اور آج آپ غور کریں، کہ اگر سارے جاندار مل بھی جائیں تو وہ اتنی ساری آوازیں نہیں نکال سکتے جتنا کہ اکیلا انسان نکال سکتا ہے۔ چرواہے کی جانب سے بھیڑ بکریوں ، اورچراگاہوں سے آتی ہوئی ابتدائی آوازوں سے لے کر تمام پرند چرند درند کی آوازوں کی نقلیں اتارنے تک‘ اور وہاں سے ہزاروں بولیوں میں ملفوف لاکھوں الفاظ بولنے تک ‘اور پھر وہاں سے گانے کی مختلف اصناف تک۔ شروع میں تو یہ توقع تھی بھی نہیںکہ انسان کوئی مسجع اور مرصع بولی بولے گا ، نہ ہی اُسے کسی قافیہ ردیف کی ضرورت تھی ۔ہم آپ سب اپنے دیہی پس منظر سے ہونے کی وجہ سے جانتے ہیں کہ زندگی جتنی سادہ ہوگی الفاظ اُسی قدر کم ، فطری اور مقامی ہوں گے ۔ چیخنا چلانا ہی ہمارے اجداد کی زبان تھی ۔ (بلوچی میں اسے ”واھُو چیک “کہتے ہیں )۔ بکری سے ، بھینس سے ، اوربلوچی تھیریم سے آپ کیا جام درّک کی شاعری میں بات کریں گے ؟۔ نہیں۔ یہ تو محض چیخوں سے شروع ہوا تھا ۔۔۔۔ خوف اور خبردار کرنے کی چیخیں‘غصہ کی چیخیں اور مد داور دیگر جبلی ضرورتوں کے لئے چیخیں ۔ جب محنت شروع ہوئی ، کام کی ابتداءہوئی تو یہ محنت ، یہ کام عموماً اجتماعی انداز میں ہوتا تھا ۔ اس میں ”آں ہوں“ جیسے نعرے ہی چلتے تھے ۔ محنت کی چیخیں!۔ سب مل کر ”آں ہوں “ کہیں، اور مل کر زور لگائیں ۔ اِدھر ہی سے تو الفاظ پھوٹنے لگے ، معانی بننے لگے۔ الفاظ وہ نشان زدہ لیبل ہیں جو ہم خیالات کے ساتھ نتھی کر تے ہیں۔ زبان کی اہمیت جتاتے جتاتے یہ غلطی کبھی نہ کرنی چاہےے کہ یہ یعنی زبان، سوچ سے پہلے ہے(1)۔جتنا ابتدائی انسان ہو گا ، اُس میں زبانیں بھی بے شمار ہونگی ۔ مگر جوں جوں سماج ترقی کرتا گیا اور انسانوں میں باہمی روابط بڑھتے گئے ، معیاری اور واحد زبان وضع کرنے کا عمل بڑھتا گیا ۔پتھر کے زمانے تک تو زبانوں کی تعداد میں اچھی خاصی کمی آئی ۔ اور اس کے بعد تو اس عمل میں بہت تیزی آئی ۔ مہرگڑھ تہذیب میں انسان جنگل کی زندگی اور شکار سے ارتقاءکرتے ہوئے زراعت میں داخل ہو رہا تھا ۔ جہاں موسم سے متعلق الفاظ کی ساخت اور ضرورت بڑھ گئی تھی ۔ شب و روز کے مختلف پہر اہم بن گئے ۔ جہاں ‘وہ خواہ جس طرح بھی اِن پہروں کو ناپتا لیکن طلوعِ آفتاب ، دوپہر ، غروبِ آفتاب اور نیم شب کے لئے الفاظ تو مخصوص ہو چکے تھے۔ اور آسمان پہ رنگوں کی تبدیلی سے بارش کے اندازے لگانے والے ماہر وجود میں آگئے تھے ۔ پھر ستاروں کی حرکت اور مقام ایک الگ سائنس بن گئے ۔ اور اگر چار آدمی بھی اُس تہذیب سے زندہ رہے تو انہوں نے پَور (Pleiades)، تیر بند (Orion)، عقرب (Scorpio) ، نکّوتخت (Ursa Major) ،قطبہ اِستار،اور روشہ استار نامی ستاروں کے مروج ناموں کو تسلسل ضرور بخشا ہوگا ۔ زبانوں کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نئی زبانیں قدیم زبانوں ہی کے کھنڈرات پر بنتی ہیں۔ ہم کسی بھی زبان کو غور سے دیکھیں تو اس میں اس کی پچھلی زبانوں کے الفاظ اور نام ( انسانوں اور جگہوں کے نام ) زندہ انداز میںشامل ہوجاتے ہیں۔ ہم اُن سابقہ زبانوں سے ہل چلانے کے اوزار اور اصطلاحات ، جھُگی جھونپڑی کے اجزا، اماں، ابا، جانوروں گھوڑوں کے نام جیسے الفاظ،خوش قسمت اور منحوس پر ندوںکے نام، دیوی دیوتا¶ں اور جنوں بھوتوں کے الفاظ لیتے ہی رہے۔ قدیم زبانیں مکمل طور پر کبھی نہیںمرتیں۔ مہر گڑھ زبان کے وہ عناصر جو ماضی کی دھند میں دھند لائے نہ جاسکے ، وہ عہدی تقاضوں کی تکمیل کی خاطر نئی نئی صورتیں اختیار کرتے چلے گئے۔ اُن میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ اِن اضافوں نے انہیں کیا سے کیا بناڈالا ہوگا۔ بلا شبہ مہر گڑھ زبان کے اکثر الفاظ گہری تاریکی میں ڈوب چکے ۔…….. مگرجب تک درہِ بولان اپنے سینے میں بند بلوچی کی گیارہ ہزار سال قبل والی جڑوں کا ہمیں درشن نہیں کراتا، اُس وقت تک ہمیں معلومات کی اِسی تنخواہ (یعنی چاکری عہد) پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ جہاں تک بلوچی زبان کی تحریری شکل میں آنے کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ قدیم زبانوں کی تو بات ہی چھوڑےے‘ نئی زبانیں بھی تحریر ی شکل اختیار کرنے سے سینکڑوں برس قبل وجود میں آچکی ہوتی ہیں۔ سائنسی ماہر ین مہر گڑھ سے ملنے والے برتنوں پہ نقش و نگا رکوایک طرح کا ”Proto-writing “قراردے چکے ہیں (2) ۔ماقبل تاریخ کی یہ تحریریں اشکا ل کی صورت تھیں ، ان میں رنگوں کا استعمال ہوتاتھا۔ مہرگڑھ کا مادرسری پرامن اور تخلیقی معاشرہ دنیا بھر کی تہذ یبوں کی ماں ہے ۔ ایران کاشہرِ سوختہ ، قندہارکا مند یگک ، عراق کا میسویو ٹیمیا، اور سندھ کا موئن جودھڑو مہرگڑ ھ کے بیٹے اور پوتے ہیں ۔ یہی حال وہاں بولی جانے والی زبانوں کاہے ۔ ویسے بھی جب مہر گڑھ مائیریشن کر کے ، نوشہرو چلا گیا، بعد میں یہی نو شہرو پیرک منتقل ہو گیا اور بہت عرصے بعد پیرک موئن جو ڈرو اور ہڑپہ کو نقل مکانی کر گیا تو آپ سوچیے ارتقا کتنا زیادہ متاثر ہوا ہوگا۔اور پھر بلوچ حالیہ زمانوں میں بحیرہِ بلوچ کے آر پار کئی خطوں میں بسے تو اُن کی معاشی و سیاسی زندگی افغانستان سے لے کر چین تک سارے نئے رابطوں سے متاثر ہوتی رہی ۔ بلوچی زبان و ثقافت کئی گنا امیر ہوتی رہی ۔ یوں‘آج ہمارا واسطہ ایک زندہ ، متحرک اور کمال درجے کی ترقی یافتہ زبان ،بلوچی سے ہے ۔ جس میں اگر ایک طرف مہر گڑھ اور اس کی آبادی کی مائیگریشنوں کی قدامت کا غیر محسوس و نامعلوم ذائقہ موجود ہے تو دوسری طرف آج کراچی کی سرمایہ دارانہ صنعت او ر سوویت ترکمن سوشلزم کے الفاظ و تراکیب کا حسن باہم شیر و شکر، جلوہ گر ہیں۔ چونکہ اُس ماں زبان کے بارے میں ہم ابھی کچھ بھی نہیں جانتے جسے ابھی تک سمجھانہیں جاسکا ہے لہٰذا ہم نزدیک بینی کے مرض میں مبتلا رہنے پر مجبور ہیں۔ اور محض ہزاردوہزار برسوں والے حالیہ عہد کی زبانوں کی تقسیم و درجہ بندی کرنے پر مامور رہ جاتے ہیں اور اس پر اکتفا کرنا ہی ہماری مجبوری ہے ۔ خدا کرے کسی بھی زبان کی جڑ یں دھند میں گم نہ ہوں۔ حوالہ جات -1کولن تج ۔1996۔دی ٹائم بیفور ہسٹری۔Scribner،نیویارک۔ صفحہ244 2۔ Catherine Jarrige and others , Mehrgarh Field Reports 1974:From Neolithic Times to the Indus Civilization۔صفحہ83