تحریر : پروفیسرحسن جانان
بلوچ سیاسی منتشر قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش اس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب سب یہ مان لیں کہ اتحاد ہی غلامی سے نجات کا ذریعہ ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز (مسلح یا غیر مسلح) کی سوچ و فکر میں ایک حد تک یکسانیت ہو تب یہ ممکن ہو سکے گا کہ سب ایک پلیٹ فارم کی طرف چل پڑیں۔
ماضی قریب میں بلوچ آزادی پسندوں کا بی این ایف کے نام سے ایک اتحاد تھا، اچھا ہوتا کہ اُس اتحاد کو درجہ بہ درجہ ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر آگے بڑھایا جاتا لیکن بی این ایف کے اندرونی اختلافات اور گروہی طاقت کے زعم میں ہر ایک اسٹیک ہولڈر یہ باور کر بیٹھا کہ وہ ہی اصل میں طاقت کا سرچشمہ ہے اس بنا پر اختلافات دوریوں کا سبب بن کر اس اتحاد کے خاتمے کا ذریعہ بنا۔
اسکے بعد سے لیکر ہر آزادی پسند تنظیم و ادارے نے اتحاد کے لئے بیانات دیے ہیں اور اپنی کمزور سی کوشش کی ہے یہاں تک کہ کمیٹیاں بھی بن گئی لیکن وہ بات چیت آگے نہ بڑھ سکی۔ اسکی بہت ساری وجوہات رہے ہیں ہر کوئی دوسرے پر الزام لگاتا رہا، البتہ جو بھی ہوا اس وقت مکمل اتحاد کے حوالے سے بات چل پڑی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا. گزشتہ قریباً تین سال سے براس کے نام سے مسلح تنظیموں کا ایک اتحاد تشکیل پا چکا ہے جس میں چار تنظیمیں مشترکہ جدوجہد کررہے ہیں. جبکہ باقی چار مسلح تنظیمیں اس میں شامل نہیں، یہ اتحاد جن حالات میں وقوع پذیر ہوا وہ علیحدہ بحث ہے یہاں ہمارا مقصد اس اتحاد کی خوبیوں و خامیوں پر بات کرنا نہیں کیونکہ کوئی بھی اتحاد اور مثبت قدم جو مجموعی حوالے سے بلوچ فکر آزادی کے لیے فائدہ مند ہو اس اقدام کی حوصلہ افزائی کر لینی چاہیے.
اس اتحاد کے بعد گزشتہ تین سالوں سے اتحاد کے حوالے سے اندرون خانہ مسلح و غیر مسلح پارٹیوں میں بحث مباحثے کی افوائیں گردش کرتی رہی ہیں کہ دیگر اسٹیک اولڈرز سے بھی اتحاد کی طرف بڑھیں البتہ اس طرف پیش رفت نہ ہو سکی.
گزشتہ دنوں بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نظر کی جانب سے ایک ٹیویٹ میں تمام آزادی پسندوں کو ایک پوائنٹ ایجنڈے پر اتحاد کی دعوت دی گئی کہ تمام آزادی پسند ایک پوائنٹ پر اتحاد کرکے مشترکہ جہد کر سکتے ہیں، ون پوائنٹ ایجنڈہ اتحاد کتنا کامیاب ہو سکتا ہے یا نہیں البتہ اس پوائنٹ سے کم از کم ایک بحث کا آغاز ہو سکتا ہے، کیونکہ ایک پوائنٹ ایجنڈے کا مقصد تمام آزادی پسندوں کو اپنے فریم ورک میں رہ کر اپنے پالیسیاں آگے بڑھانے اور جاری رکھنے کی آزادی ہو گی۔ وہ صرف کسی پروگرام میں اس نقطے پر مشترکہ اپنی رائے دے سکتے ہیں یا عالمی سطح پر ون پوائنٹ ایجنڈے پر دنیا کو یہ باور کرا سکتے ہیں کہ آزادی کے ایجنڈے پر ہم سب ایک ساتھ متحد ہیں.
اس سے تحریک کے لیے نئی رائیں کھلنے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اگر دیگر انتظامی و طریقہ کار کے مسائل پر اختلافات موجود ہیں انکو وقتی طور پر پس پشت ڈال کر اس بحث کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے کہ ایک ایجنڈے پر ہم سب کی رائے ایک ہے اور آزادی کے ایجنڈے پر سب ایک پروگرام پر چل سکتے ہیں. بات چیت کو آگے بڑھانے سے رابطوں میں اس خلیج کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ جو گزشتہ ایک عشرے سے قائم ہے اگر دیکھا جائے تو تمام آزادی پسند اپنے تہیں سب کی حیثیت کو تسلیم کر چکے ہیں بس اظہار نہیں کر پاتے ایک دوسرے کے مدد و کمک کے بغیر آزادی ممکن نہیں سوائے معجزاتی کرشمے کے۔
ایک طرف ریاست اپنی پرزور کوشش کے ساتھ گوادر سمیت اپنے ہر پروجیکٹ کو تکمیل کی طرف لے جارہی ہے اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گوادر کو باڑ لگا کر مقامی لوگوں کے لیے بند کیا جارہا ہے اور رفتہ رفتہ مقامی لوگوں کو لینڈ مافیا و ریاستی اداروں کے طرف مختلف طریقوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگا اور یہ سلسلہ گوادر میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ نقل مقانی پر پہلے سے مجبور ہیں، اس میں مزید تیزی لانے کا گمان بڑھے گا اور ماہی گیروں کا روز گار بڑی کمپنیوں نے پہلے سے ہی چھین لیا ہے اسطرح قابض ریاست سٹیپ وائز اپنے پروجیکٹس کو آگے لے جارہا ہے اور بلوچ کے لیے سوائے دعوی کرنے کے اور کچھ نہیں بچے گا۔ جس سرزمین کی ہم وراثت کا دعوی کرتے آرہے ہیں وہ ہم سے سٹیپ وائیز چھینا جارہا ہے جبکہ ہم آپسی اختلافات کی زعم میں ایک دوسرے سے دوری بنائے ہوئے ہیں جو ہماری قومی موت کا سبب بنے گا اس لیے تمام آزادی پسندوں کو چاہیے کہ کچھ ایشوز و کچھ مخصوص نقاط پر آپس میں مشترکہ جدوجہد کا طریقہ کار اپنائیں۔
اس سے اگر وطن کو بچایا نہیں جا سکتا کم از کم تحریک کے لیے نئے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں تاکہ آنے والی نسل تک اس فکر کو منتقل کیا جا سکے بیس سالوں سے جاری جہد میں بلوچ نے بہت کچھ کھویا ہے کئی گھر اجڑ گئے کئی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں خاندان جلاوطنی کی آگ میں تپ رہے ہیں اتنے بے رحم حالات میں اگر مل جل کر کچھ نقاط پر جہد نہیں کرسکتے تو یہ ممکنات میں ہے کہ آزادی کے لیے انکی جہد پائیدار نہ ہو۔
وقت و حالات پہلے ہی ایسے تھے آج بھی قومی تقاضوں کے لیے پہلے جیسے ہی ہیں اتحاد یکجہتی کل کی بھی ضرورت تھی آج کی بھی ضرورت ہے اس لیے اپنے گھر سے نکل کر کچھ درگزر و کمپرومائز کرکے اپنے ہی ہم فکروں کے ساتھ اتحاد بہتر نتائج دے سکے گا۔
ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی طرف سے تمام آزادی پسندوں کو دعوت اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر دیگر نقاط پر ہم ایک نہیں ہو سکتے کم از کم آزادی کے نقطے پر سب کی زبان ایک ہے اس بات سے قطع نظر کہ گزشتہ سالوں میں کئی بار ایک دوسرے کے کردار و فکر آزادی جیسے مقدس نظریے پر بھی شہبات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اب جب سب اپنے تہیں اس بات کو مانتے ہیں تو پھر ایک نقاطی ایجنڈے پر ایک اتحاد قوم میں آزادی کی امنگ کو ایک بار پھر توانا کرکے جگا سکتا ہے اور آزادی پسندوں کی قوت ایک بار پھر مخصوص سرکلز سے عوام تک پہنچ سکتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو سبھی آزادی پسندوں نے آزادی کے سفر میں اپنا بہت کچھ قربان کیا ہے، کسی نے زیادہ کسی نے کم، البتہ سبھی اسی راستے کے مسافر رہے ہیں اور مرتے دم تک اس سے جڑے رہنے کا عہد کر چکے ہیں. البتہ کسی کے وقت و حالات کے مناسبت سے ڈپلومیٹک بیان پر بہت ہی جذباتی ردعمل سامنے آئے ہیں جس سے ایک دوسرے پر بداعتمادی کا خلیج بڑھتا گیا ہے اگر ہم غور سے دیکھیں تو بد اعتمادی کی وجہ ایک دوسرے سے رابطے کا فقدان بھی رہا ہے۔
براہ راست رابطے کی بجائے بلواسطہ رابطہ کی وجہ سے بہت سے کنفیوژن پیدا ہوئے جس سے کمیونیکیشن گیپ بڑھتا رہا اور ایک دوسرے پر بد اعتماد ہو کر ایک دوسرے کے خلاف قیاس آرائیوں پر فیصلہ صادر کیا جاتا رہا ہے، اب وقت و حالات نے تمام آزادی پسندوں (مسلح جہد یا غیر مسلح) سب کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب رہا ہے تو کم از کم ایک نقطہ کے اتحاد پر بات چیت کرنا کوئی بری بات نہیں اگر اتحاد نہ بھی ہو۔
البتہ رابطے سے وہ خلیج کم ہو سکتی ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے اس جہد آزادی میں نہ کوئی سردار ہے اور نہ کوئی مڈل کلاس، سبھی بلوچ بن کر اس جہد میں اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں البتہ ایک دوسرے کے ساتھ رسہ کشی کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ایک دوسرے پر الزامات لگتے رہے ہیں اب سبھی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں سے صاف اور واضع دکھائی دے رہا ہے کہ اس جہد میں سبھی آزادی کے عظیم مقصد کے لیے شامل ہوئے تھے اور اپنے خلوص کے ساتھ اس جہد میں اپنا کردار ادا کرتے رہے گو کہ کردار اگر مثالی نہیں رہا لیکن اپنے طور پر جس حد تک ممکن ہوا اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
اب اگر سبھی ایک دوسرے کی حیثیت و طاقت کو قبول کرکے ایک ساتھ مل بیٹھ کر ون پوائنٹ ایجنڈے پر بات چیت کو آگے بڑھائیں اس میں کوئی قباعت نہیں، جب بات چیت ہوگی رابطوں کا براہ راست سلسلہ برقرار رہے گا تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایک پلیٹ فارم پر ایک دو یا تین نقاط پر مشترکہ جہد کے لیے رضامندی میں دیر نہیں لگے گی ۔
ڈاکٹر اللہ نظر نے سبھی کو مخاطب کرکے ایک نقطے پر جمع ہونے کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کی ہے اب دیگر (مسلح و غیر مسلح) آزادی پسندوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پر مثبت ردعمل دکھائیں تاکہ رابطوں کے خلیج کو پر کرنے کے ساتھ بلوچ عوام میں امید کو دوبارہ جگایا جا سکے، اور دشمن کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ ہمارے اندرونی اختلافات اپنی جگہ لیکن جہد آزادی کے نقطے پر ہم سبھی ایک ساتھ ہیں.
آج اگر ہم ماضی قریب کے سیاسی رویوں کا جائزہ لے کر دیکھا جائے، تو ہمیں ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملیں گے جو ماضی میں مخالفین سے رہے،جبکہ حال ہی میں انکے سوچ و فکر میں کسی حد تک ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن ون پوائنٹ ایجنڈے پر وہ سب ایک ساتھ ہو کر جہد کررہے ہیں تو پھر بلوچ آزادی پسند کیوں نہیں کر سکتے؟
امریکہ و طالبان مزاکرات کر سکتے ہیں خلیجی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی نکڑ پر پہنچ چکے ہیں تو ہم آزادی پسند کیوں ایک دوسرے کو گلے نہیں لگا سکتے؟
بات چیت کے زریعئے سے ہی دوریوں کا خاتمہ ممکن ہے اور مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے سیاسی قربت کو بڑھایا جائے تبھی سیاسی مسائل سیاسی مکالمے سے ہی حل ہوسکتے ہیں ۔