ھمگام کالم
تحریر: پروفیسر حسن جانان
امریکی انتخابات کے نتائج کے بعد افغانستان ایران پاکستان میں خارجی پالیسیوں کے حوالے سے کچھ تبدیلیوں کے امکانات نظر آرہے ہیں کیونکہ ٹرمپ کی حکمرانی میں تجزیہ یہی کیا جارہا تھا کہ شاہد ایران پر امریکہ جلد ازجلد حملہ کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا اور تیل سپلائی کرنے والے ٹینکروں پر بحر ہرمز میں کچھ حملے بھی ہوئے اور اس دوران ایران کے القدس فورس کے سربراہ میجر جرنل قاسم سلیمانی بھی عراق میں ڈرون حملے کا نشانہ بن گئے اس سال کے شروعات میں حالات کچھ تیزی سے بگڑ رہے تھے الیکشن میں لوگوں کی حمایت کے لیے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے گئے تھے تاکہ لوگوں کی حمایت لیکر ٹرمپ نئے ٹرم میں اپنی پالیسیوں کو جاری رکھ سکے خصوصاً ایران کی جوہری ہتھیاروں کے منسوخی معاہدے پر اپنے پابندیوں کو مزید بڑھائے لیکن امریکی عوام نے ٹرمپ کو مسترد کردیا اب ڈیموکریٹس کی پالیسیاں کیا ہوں گے؟ آیا وہ ٹرمپ پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں کرکے کے اسے آگے بڑھائیں گے یا ڈائیلاگ و طاقت کو ساتھ لیکر چلیں گے کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا البتہ ایران اس دوران اپنے موقف پر ڈٹا رہا معاشی و سیاسی نقصان اٹھاتا رہا اور اپنے اندرون خانہ سازشوں کو دبانے کی کوشش کرتا رہا اور اپنے دشمنوں سے سختی کے ساتھ نمٹتا رہا، ٹرمپ کی شکست کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے گذشتہ بدھ 11 اکتوبر کو صدر پاکستان وزیراعظم پاکستان و آرمی چیف جرنل سے ملاقاتیں کی. ملاقات کا مقصد پاک ایران باہمی تعلقات، امریکی صدارتی انتخابات، پی فائیو سی ون معاہدے کی بحالی، پاک ایران اقتصادی تعلقات، افغان قیام امن، منشیات و انسانی سمگلنگ و سرحدی و انتظامی امور پر بات چیت کی گئی جی ایچ کیو میں جو معاہدہ طے پایا گیا اس میں مجرموں کی حوالگی ایک اہم معاہدہ ہے جو کہ بلوچ آزادی پسندوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں کہ دونوں ممالک اپنے اندر موجود سیاسی بے چینی کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کی مدد و کمک کریں اگر دیکھا جائے تو ایران میں مشرقی بلوچستان کے آزادی پسند مارے گئے ہیں اور مرکزی بلوچستان میں ایران مخالف بلوچ مارے گئے ہیں یہ باتیں ہر وقت گردش کرتے رہے ہیں کہ ایران مخالف گروہوں کو پاکستان کی مدد حاصل رہی ہیں جنداللہ و جیش العدل جیسی مذہبی تنظیمیں جو ایرانی شیعہ رجیم کے خلاف ہیں انکی محفوظ پناہ گاہیں مقبوضہ بلوچستان رہا ہے اور اسی طرح بلوچ آزادی پسند ایران میں روپوش رہے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان اور ایران کے مابین کئی بار ملاقاتیں رہی ہیں اور ایران مخالف لوگ بلوچستان میں مارے گئے ہیں اور پاکستان کی جانب سے انکی حوالگی بھی کی گئی ہیں اور ایران کی طرف سے بھی یہی عمل دہرایا گیا ہے ماضی میں ایرانی مدد سے کوبرا ہیلی کاپٹر بلوچستان پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی پاکستان اور ایران کی دوستی میں کچھ خلل پڑ چکا تھا البتہ اب لگ رہا ہے کہ وہ دوستی مضبوط ہو رہی ہے حالیہ دورے کے پانچ دنوں کے بعد ایران مخالف ملاعمر تربت میں فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے ملاعمر جو کہ ایران سے اشتہاری ہوکر مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی آرمی کی مدد سے بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف استعمال ہوتے رہے اب ایک آنجہانی موت نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا حالانکہ بلوچ مسلح آزادی پسندوں نے کئی بار انھیں مارنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بچ نکلے تھے اب حالیہ دورہ وزیرخارجہ ایران و آرمی چیف پاکستان صدر پاکستان کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد یہ واقعہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین کوئی نہ کوئی معاہدہ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمنوں کو نقصان پہنچائیں گے اور یہ سلسلہ پہلے بھی رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ انکی دوستی میں کھبی گرم جوشی و کھبی سرد مہری رہی ہے بلوچ آزادی پسند جو نہ پاکستان میں محفوظ ہیں نہ افغانستان و ایران میں، ان حالات میں بلوچ آزادی پسند کونسی پالیسی اپنائیں گے کہ جس سے اپنی لیڈرشپ و فکر آزادی کے نظریے پر بلاشرط و شرائط ان ملکوں میں رہ کر بھی کاربند رہیں اس کا فیصلہ وقت پر ہی چھوڑ دیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی ایران کے ساتھ بڑھتی سفارت کاری سے نئے خدشات جنم لیں گے اور یہ ممکنات میں ہے کہ بلوچ آزادی پسند ایران میں محفوظ نہیں بلوچ آزادی پسندوں کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا افغانستان طالبان و امریکہ امن مزاکرات میں پاکستان کا کردار اور ایران کے ساتھ پاکستان کے ساتھ دوستی کے آثار اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ امریکہ میں ڈیموکریٹس کی جیت شاہد اس خطے میں نئی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو جس سے بلوچ قوم کو کس حد تک فائدہ ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہو گا البتہ ایسے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں جس سے بلوچ تحریک کو فائدے کا گمان ہو. جواد ظریف کی آمد کے بعد سعودی عرب نے جو تین بلین ڈالر کا قرض پاکستان کو دیا تھا انکی ادائیگی کے لئے پاکستان پر سفارتی سطح پر دباؤ ڈال رہا ہے اس سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات بگڑ رہے ہیں اور پاکستان اپنی اس کوشش میں نئے دوست بنا رہا ہے اور کشمیر کے مسلئے پر ایران کی پاکستان کی حمایت پاکستان کو مزید ایران کے لئے بہت کچھ کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے اور پاکستان اس کوشش میں ہے کہ ایران کی خوشنودی حاصل کرلے تاکہ ایران و ہندوستان کے تعلقات میں خلل پیدا کر سکے اس لیے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ تحریک آزادی جو مختلف طاقتوں کے بیچ اپنی کمزور قوت بازو کے ساتھ دشمن سے مد مقابل ہے اسے سیاسی سفارتی و معاشی سطح پر مدد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اپنی مکمل قوت کے ساتھ بلوچوں کے کمزور سفارتی تعلقات کو متاثر کر رہا ہے اور پاکستان اپنی مکمل کوشش میں ہے کہ بلوچ تحریک آزادی کو ہندوستان کی پراکسی ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش میں ہے کہ بلوچ ہندوستان کی خوشنودی کے لئے پاکستان میں دہشت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور بلوچستان کے حوالے سے ہندوستان کی دوغلی پالیسی جو نہ کہ بلوچوں کی سفارتی سطح پر مکمل حمایت کرتا ہے اور نہ ہی انھیں معاشی مدد فراہم کرتا ہے بلکہ بلوچ تحریک آزادی کو جواز بنا کر وہ پاکستان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح بلوچ کھبی ایک ڈگر کے مسافر نہیں ہو سکتے، ایران امریکہ کے ساتھ بگڑے تعلقات میں مزید کشیدگی نے اسے بلوچوں کے ساتھ نرم رویہ رکھنے پر آمادہ کردیا تھاوہ بلوچ آزادی پسندوں کے لیے مغربی بلوچستان میں موجودگی پر نرم رویہ رکھا تاکہ اپنے لیے مزید مشکلات سے بچا جا سکے اب حالات جونہی اسکے لئے سازگار ہونگے تو بلوچ آزادی پسندوں کے لیے مشکلات بڑھ سکتے ہیں اس سے پہلے جو آزادی پسند اپنے گھر بار چھوڑ کر مغربی بلوچستان میں اپنے قریبی رشتہ داروں کے یہاں پناہ گیر ہوئے تھے ان پر کئی بار حملے ہو چکے ہیں اور کئی بلوچ آزادی پسند شہید ہوئے اب یہ واقعات مزید بڑھ سکتے ہیں پاکستانی حمایت یافتہ ملاعمر کی ہلاکت اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمنوں کو یا تو ایک دوسرے کے حوالے کرینگے یا انھیں ٹارگٹ کرکے شہید کرینگے اس لیے ضروری یہ ہے کہ آنے والے حالات کے لئے پہلے سے تیار ہونا چاہے وہ افغانستان ہو یا ایران و پاکستان، افغانستان میں امن مزاکرات کی کامیابی کا واویلا اور امریکہ کی اپنی فوج کی واپسی سے لگ رہا ہے کہ افغانستان بھی بلوچ آزادی پسندوں کے لیے مزید محفوظ نہیں رہے گا دنیا سے آس لگائے بلوچ آزادی پسندوں کو چاہیے کہ وہ وقت سے پہلے اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کریں تاکہ ان گنجلک حالات سے تحریک کو نکال کر کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکے ان حالات میں چاہئے کہ تمام بلوچ لیڈرشپ ایک دوسرے سے قربت رکھ کر کم ازکم ایک دو نقاط پر شراکت داری کریں تاکہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اس دلدل سے نکلا جا سکے.