یہ بات بالکل درست نہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اس سے بلوچ اپنی آزادی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ اول تو یہ دشمن کا ایک نفسیاتی پروپیگنڈا ہے، جس کا شکار ہمارے کچھ پڑھے لکھے بلوچ اور کچھ پارلیمانی سیاسی بلوچ جماعتیں بھی ہوگئی ہیں۔ اب بلوچوں نے محسوس کیا ہے کہ وہ غلام ہیں۔ یہ ایک قسم کا احساس ہے جو بلوچوں کے اندر پیدا ہوا ہے، اور یہ احساس آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ یہی احساس اب ہر بلوچ کے دل میں جنم لے رہا ہے۔ جب کسی قوم میں اپنی غلامی کا احساس پیدا ہوجائے، تو دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو مزید غلام نہیں رکھ سکتی، کیونکہ جذبہ، جوش اور جنون کو آج تک کسی نے شکست نہیں دی ہے۔
بلوچوں کی غلامی کا احساس اور آزادی کی راہ میں قربانی دینے کا جذبہ، بلوچ جدوجہد کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے کا سبب بنا ہے۔ بلکہ بلوچ جدوجہد کی تاریخ کو دنیا کی دیگر مظلوم اقوام بطورِ مثال پیش کرتی ہیں اور اسے پڑھایا بھی جاتا ہے۔ اس وقت بلوچوں کے حق میں معروضی حالات بالکل ہموار ہیں۔ بلوچوں کو بین الاقوامی محاذ اور موضوعی قوت پر زیادہ توجہ دینا چاہیے، کیونکہ بلوچوں نے بائیس سال میں جتنی اپنے نوجوانوں کی جانیں قربان کی ہیں، اس سے کم قربانیاں دے کر دنیا کی دیگر اقوام نے اپنی آزادی ظالم حکمرانوں سے حاصل کی ہے۔
بلوچوں کو سفارتی محاذ پر اپنے جبری الحاق کے معاملے کو دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے اور پاکستانی ریاست کے ظلم و جبر اور دہشتگردی کے اقدامات سے عالمی برادری کو آگاہ کرنا چائیے۔
بلوچوں کو اپنی خارجہ پالیسی اپنے ہمسایہ ممالک اور دنیا کی عالمی قوتوں کے سامنے واضح طور پر پیش کرنی چاہیے، کیونکہ بلوچوں کے تعلقات اور ان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں بہت سی عالمی طاقتیں واضح نہیں ہیں۔ ہمسایہ ممالک اور عالمی قوتیں بلوچ مزاحمتی تحریک کو اُس وقت سپورٹ کرتی ہیں جب آزادی حاصل کرنے کے بعد یہ تحریک ان کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو۔ اس حوالے سے بلوچوں کو اپنے ہمسایہ ممالک اور عالمی طاقتوں کو یقین دلانا ہوگا کہ وہ آزادی کے بعد اپنے ہمسایہ ممالک اور دیگر بین الاقوامی سپر پاورز کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم رکھیں گے۔ بلکہ ان کے ساتھ معاشی، سفارتی اور سلامتی جیسے اہم معاملات میں معاہدے کرکے انہیں تسلی بخش ضمانتیں بھی دی جانی چاہییں۔ اس طرح بلوچ نہ صرف عالمی حمایت حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اپنے مقصد کو بھی مؤثر طریقے سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔