تحریر ۔ ۔ حفیظ حسن آبادی

ھمگام آرٹیکلز

صاحب ِاختیار لوگوں کے بقول اسلام کے نام پر بناجمہوریہ پاکستان میں تماشہ نما انتخابات کی تاریخ اتنی ہی پُرانی ہے جتنی پاکستان کی اپنی وجود کی تاریخ۔اس عرصے میں سب چھوٹے بڑے گرتے پڑتے اسمیں اسلام اور جمہوریت کی تلاش میں رہے مگر انھیں کسی بھی موڑ پر جمہوریت اور اسلام نہیں ملا البتہ اس تلاش میں مفادات کے ہجوم میں بھٹک کر خود کوضرور کھو بیٹھے۔

2024 ء کے انتخابات تو ان تمام انتخابات سے بھی زیادہ متنازعہ اور کسی حد تک دھاندلی میں برہنگی کی تمام حدیں پار کرگئیں مگراس “انفرادیت”کے باوجود یہ بات ہمارے لئے جاذب نہیں کیونکہ اس سے بلوچستان اور خاصکر بلوچ کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا البتہ بلوچستان میں انتخابات پر نظر دؤڑانے کی اس لئے ضرورت ہے کہ اس بار بہت سے کہنہ مشق مبصرین کے اندازوں کے برخلاف بلوچستان کے قوم پرست (نام نہاد) ایسے کھیل سے باہر رکھے گئے کہ نیم البدل کیلئے انتظار کے بینچوں تک بھی رسائی سے محروم رہے۔

یہ بات اسلام آباد کی ایسی نئی پالیسی کی طرف جانے کا عندیہ دیتی ہے کہ جس کا کم از کم بلوچستان کے” قوم پرستوں “اور اُنکے ہمدردوں نے تصور نہیں کیا تھا اور وہ پالیسی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں یہاں کی سیاست میں سنگ میل ثابت ہونے والی ہے۔ گو کہ بظاہر یہ عام سے بات ہے کہ کون اسمبلی جائے گا کون نہیں کیونکہ فعالیت کے لحاظ سے سب کا نتیجہ ایک جیسا ہوتا رہا ہے اور اس بات کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے کہ نئے آنے والوں سے کسی اچھائی کی توقع یا کسی غیر متوقع بُرائی کا خدشہ پیدا ہوتا ہو بلکہ یہ لوگ خانہ پُری کیلئے لائے اور بٹھائے جاتے ہیں اس لئے بلوچستان میں سیاست کے نام پر جو مردم فریبی ہوتی رہی ہے وہ برقرار رہے گی بُرائی بھی وہ اُتنا ہی کریں گے جو اس سے قبل کرتے اور “اعتماد پر اُترکر” یہاں تک آئے ہیں لہذا ان کا آنا نہ آنا عوام کیلئے بے معٰنی۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ اسلام آبادکے حاکموں نے یہاں کے “قوم پرستوں ” کو کیوں خیرات کے ایک دو سیٹیں دے کر یکسر نظرانداز کیا؟ اس کے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں بلوچستان میں کشیدہ حالات کو بہتر کرنے اُنکی غیر تسلی بخش کارکردگی یا عدم کارکردگی، عوام میں انکی غیر مقبولیت، کرپشن اسکنڈلز،بلوچ اور پاکستان دونوں کی طرف سے کھیلنے کی کوششیں اور کہیں بھی نہ ہونے کا احساس وغیرہ وغیرہ لیکن ان سب سے بڑھ یہ کہ ریاست اب اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ ان کے بغیر بھی کام چلایا جاسکتاہے اور یہ لوگ اُن لوگوں (بقول اُن کے ناراض بلوچوں) سے یا اُن کے دائرے کے لوگوں سے نہ کوئی رابطہ رکھتے ہیں اور نہ اُنھیں کسی بات پر قائل کرنے کی تدبیر و صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ یہ اسلام آباد کو بیوقوف بناکر اُن سے جھوٹا تعلق جوڑ کر اقتدار تک پہنچنے کی نیرنگیاں کرتے ہیں۔

چنانچہ جن سے ہم بلوچستان کے حالات کو بہتر کرنے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں وہ (پہاڑوں کے لوگ) انھیں قومی مجرم و جنگی منافع خور سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف ان لوگوں کو گزشتہ بیس پچیس برسوں میں اتنے طریقوں سے اُنکے اپنے لوگوں کے سامنے بدقول ثابت کرواکے بے

توقیر کیا ہے کہ یہ اب اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں اس پر بھی راضی ہیں کہ “جو دے اُس کا بھی بھلا جو نہ دے اُس کا بھی بھلا”۔اگر صورتحال ایسی ہے تو کیوں نا اُن لوگوں کو میدان میں اُتارنے کا تجربہ کیا جائے جو نہ نخرے کرتے ہیں نہ وہ اسلام آباد کے علاوہ کسی اور کو خوش کرنے کے خواہشمند ہیں اور نہ ہی وہ نمائشی ہی سہی سوال و جواب کرتے ہیں بس سُنتے اور حکم بجا لاتے ہیں جبکہ قوم پرستی کا نام لینے والے اُس بھکاری کی طرح ہیں جس کے بارے میں بلوچی محاورہ ہے ترجمہ” ایک تو بھیک مانگتاہے اُوپر سے لات مارنے والا گدھابھی ساتھ رکھتا ہے “۔

بلوچستان کی سیاست میں ایسی ایک سو اَسی ڈگری کی تبدیلی اسلام آباد والوں کے اس سوچ کے علاوہ کہ بلوچستان میں جو کچھ کرنا ہے خوداپنے اے ٹیم کیساتھ مل کر کرنے کے چند دوسرے وجوہات بھی ہوسکتے ہیں جیسے۔ا)بلوچ پارلیمانی سیاست داں اب اُن کے سامنے مزاحمت نہیں کرسکتے یہ جواُنکی زبانی پہاڑوں پر جانے یا وہاں جانے پر مجبور کرنے کی باتیں ہیں اُن پرہمیں تو کیااُنکے اپنے بلوچوں کو ہنسی آتی ہے کیونکہ جن کو جانا ہوتا ہے وہ جاتے ہیں سامنے کھڑے ہوکر پاؤں زمین پر پٹک کر دھول نہیں اُڑاتے۔ب) یہ پارلیمانی بلوچ تو کسی کام کے نہیں بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بلوچ مزاحمت کو کچلنے یا اُنھیں کچھ لے دے کے غیرموثر کرنے بھی کامیاب ہوئے ہیں جو گیس پائپ لائن محفوظ ہیں، اسٹراٹیجی اہمیت کے شاہراہوں پر کام پوری آب و تاب کیساتھ جاری و ساری ہے، سائندک وریکوڈک کے وسائل لے جانے ایسی کوئی رکاوٹ حائل نہیں کہ جسے کریٹیکل کہا جائے،گوادر میں وہ پروجیکٹ جن کو یہ لوگ بلوچوں کیلئے استحصالی کہتے ہیں وہ برقرار ہیں اگر اُن کے سامنے کوئی چیز حقیقی طور پر رکاوٹ ہے وہ پاکستان کااپناکرپٹ سسٹم اور کرپٹ اعلیٰ عہدہ داران ہیں۔

اُن کی نظر میں اگر سائندک،ریکو ڈک،چمالنگ گوادر اورسوئی کے گیس کے معاملات ٹھیک چل رہے اور سوئی کے پائپ لائن ہر طرف جاتے محفوظ ہیں اسکا مطلب ہے سب کنٹرول میں ہے کیونکہ ان پر حملوں سے براہ راست اشرافیہ کے مفادات پر کاری ضرب پڑے گا اور وہ نقصان ناقابل تلافی ہے جبکہ ان کی جگہ اگر کہیں جھڑپوں میں سپاہی مارے جائیں کوئی بات نہیں کیونکہ اُنکی جگہیں لینے بیروزگاروں کی لائن لگی ہے اور لگی رہے گی۔اس نظریے سے دیکھا جائے تو ریاست کیلئے سرفراز بگٹی سے بہتر وزیراعلیٰ ہو نہیں سکتا جس نے کم ازکم سوئی کے معاملات ریاست کے حق میں بہتر کئے ہیں چاہے اس کے لئے دہشت کا سہارا لیاہو یا کسی سے کوئی لے دے کی ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ اُس نے ریاست کو اس طرف سے مطمین کیا ہے جو چند سال قبل روزانہ کی بنیاد پر پائپ لائن اُڑائے جاتے تھے جس سے پاکستان کو روزانہ اربوں روپیوں کا نقصان ہوتا تھا اب اطمنان ہی اطمنان ہے۔ اُن کی نظر میں اگر ان پروجیکٹس کومحفوظ رکھنے کے عوض کوئی مرتا ہے کہ جیتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پ) ایک اور بات جو پاکستانی حکمرانوں کو ایک خوش فہمی میں مبتلا کرچکی ہے وہ یہ کہ بلوچ مزاحمت کاروں کے صفوں میں انتشار ہے وہ ایک مقصد کی بات کرکے ایک ساتھ بیٹھنے روادار نہیں تواُنکی ایسی داخلی خلفشار کی موجودگی میں نہ بلوچ کھل کر اُن کا ساتھ دے کر منظم ہو سکیں گے اور نہ کوئی بیرونی سنجیدہ پارٹی اُن سے بات چیت کرنے یا معاملات طے کرنے آگے بڑھنے کا رسک لے گا۔

تاہم اگر کبھی کہیں جاکر وہ اتحاد کی طرف جاکے منظم ہوئے تو بعد میں دیکھا جائے گا جہاں تک حال کی بات ہے وہ ناگوار ضرور ہیں مگر تباہ کُن وناقابل برداشت نہیں۔اُنھیں اس بات پربھی اطمنان ہے کہ آزادی پسندوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں اداروں کے مظالم سے جان

بچانے ایران میں پناہ لئے ہوئے ہیں جو بہ وقت ضرورت ایران اور پاکستان کے درمیان کسی بھی” دشمنوں کے تبادلے” میں پاکستان کے حوالے کئے جاسکتے ہیں یا وہیں کسی نامعلوم کے ہاتھوں مارے جاسکتے ہیں جس کا اب تک تواتر سے پریکٹس ہوتا آرہا ہے کہ ایران کا کو ئی مخالف پاکستان میں پُراسرار حالات میں مارا جاتا ہے یا ایران کے حوالے کیا جاتا ہے اور پاکستان کا مخالف وہاں نامعلوم لوگوں کے حملوں سے گولیوں کا نشانہ بنتا ہے۔

یہاں یہ بات کسی کو بھی سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ بلوچ بارے پاکستان اور ایران ابتداء سے لیکر آج تک ایک صفحے پرہیں۔جبکہ بدقسمتی سے پاکستان اور ایران کے عزائم کے جواب میں آزادی پسند قیادت کی صفوں میں جس اتحاد کی ضرورت کو ایک عرصے سے محسوس کیا جارہا کہ وہ کم از کم پوائنٹ پر صحیح ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں وہ اُس کیلئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا شائستہ ماحول پیدا کرنے کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔

حرف آخر: بلوچستان بارے نئی پالیسی کے تحت نہ صرف یہاں کی قوم پرستوں (نام نہاد) کو غیرفعال سمجھ کر دائرے سے خارج کی گیا ہے بلکہ یہ بات کھل سامنے آرہی ہے کہ وہ آزادی پسندوں (جنہیں وہ ناراض بلوچ کہتے ہیں)سے کسی بات چیت کا ارادہ نہیں رکھتے اور جس زور اور مظالم کی سیاست ابھی تک چلتی آرہی ہے وہ اسی طرح برقرار رہے گی کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ جن شرائط پر وہ بات کرنا چاہتے ہیں اِسلام آباد وہ شرائط پورا نہیں کرے گا۔گوکہ بین القوامی حالات کسی طرح بھی پاکستان کے حق میں نہیں اور پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان سینڈوچ بن گیا ہے جسکی وجہ سے آئندہ تین چار سال بہت دشوار ہوسکتے ہیں اور یہ دشواری شاید طول پکڑ کر اُس وقت تک جاری رہے جب سقوط یوکرائن ہواور نیا ورلڈآڈر تشکیل پائے۔

یہ درمیانی دورانیہ بلوچ قوم کیلئے بہت اہم ہے اگر وہ اتحاد کی طرف گئے ایک فرنٹ سے جدوجہد کی راہیں تلاش کرنے کامیاب ہوئے تو اپنی جدوجہد کو نئی وسعتیں دینے اور کسی نتیجے پر پہنچانے کامیاب ہوں گے بصورت دیگر جس طرح پہلے مواقع کارآمد ثابت نہیں ہوئے ہیں یہ سنہرا موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔

اگر حالات ایسے آگے بڑھے تو پاکستانی حکمران آزادی پسندوں سے بات چیت کی کوششیں ترک کرنے پربہت پچھتائیں گے۔یہاں بابا مری کا یہ قول دونوں اطراف کیلئے قابل توجہ ہے ” بلوچ جتنی تاخیر سے اُٹھے گا اتنا ہی زیادہ دشواریوں کا سامنا کرے گا ” یہ بات پاکستانی حکمرانوں کیلئے بھی کی جاسکتی ہے کہ آپ بلوچ مسلے کو جتنی تاخیر سے الجھا کر رکھنے کی کوشش کرو گے اتنا ہی پشیمانی کا سامنا کروگے جس زور و زبردستی سے بنگالیوں کو ساتھ نہ رکھ سکے عین اُس رویے سے بلوچ قوم کو بھی نہیں رکھ سکوگے بہتر یہی ہے کہ اپنا روش بدلیں کیونکہ آپ کسی بھی صورت وقت کا سفر نہیں روک سکتے البتہ دونوں اطراف سے کم نقصانات و کم تلخیوں سے راہوں کے تعین کرنے اپنے اور فریق ثانی کیلئے آسانی پیدا کرسکیں گے جو مستقبل میں بہترین ہمسایوں کے تعلقات کوبنیاد فراہم کرنے معاون ہوں گے۔

(ختم شُد)