لوگوں کو تباہ کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ان کی تاریخ کے بارے میں ان کی اپنی سمجھ کو جھٹلایا جائے۔

یہ قول جارج آرویل کے فلسفیانہ نقطہ نظربند کو بیان کرتا ہے کہ کسی قوم کی تباہی کے لیے اس کی تاریخ، شناخت، اور ثقافت کو مسخ کرنا یا مٹا دینا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ بلوچستان کی تاریخ اس قول کی زندہ مثال ہے، جہاں قابض ریاستوں ایران اور پاکستان نے منظم طریقے سے بلوچ قوم کی تاریخ کو جھٹلانے اور ان کے تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

بلوچستان کی مختصر تاریخی جھلک:

بلوچستان ایک قدیم اور خودمختار ریاست تھی، جہاں بلوچ قبائل اپنی تہذیب، زبان، اور روایات کے ساتھ آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ 1839 میں برطانوی استعمار نے قلات (بلوچستان کا دارالحکومت) پر حملہ کرکے اس خطے کی خودمختاری کو ختم کرنے کی پہلی کوشش کی۔ بعدازاں، برطانوی سامراج نے بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔

مغربی بلوچستان (ایران کے قبضے میں) مشرقی بلوچستان (پاکستان کے قبضے میں) شمالی بلوچستان (افغانستان کے زیرِ اثر)

ایرانی قبضہ:

ایران نے 1928 میں رضا شاہ پہلوی کے دور میں مغربی بلوچستان پر قبضہ کیا اور بلوچوں کو دبانے کے لیے سخت پالیسیاں اپنائیں۔ بلوچوں کی زبان، ثقافت، اور تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ فارسی کو زبردستی تھوپ دیا گیا اور بلوچوں کو ترقی سے دور رکھا گیا۔

پاکستانی قبضہ:

پاکستان نے 1948 میں بلوچستان پر قبضہ کیا۔ خانِ قلات، احمد یار خان نے آزادی کا اعلان کیا تھا، لیکن پاکستانی فوج نے طاقت کے زور پر اس آزاد ریاست کو اپنے زیرِ تسلط کر لیا۔ اس کے بعد سے بلوچ عوام کے ساتھ جبر، استحصال، اور ان کی ثقافت کو مٹانے کی منظم کوششیں کی گئیں۔

بلوچ قوم کی تاریخ کو جھٹلانے کی سازشیں:

ایران نے مغربی بلوچستان میں بلوچوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے بلوچ تاریخ کو “ایرانی ثقافت کا حصہ” قرار دینے کی کوشش کی۔ بلوچوں کو شیعہ اسلام میں زبردستی تبدیل کرنے کی پالیسی اپنائی۔ بلوچ نوجوانوں کو ان کی اصل تاریخ سے محروم کرنے کے لیے تعلیمی نظام میں فارسی ثقافت کو نمایاں کیا۔

پاکستان میں مظالم:

پاکستان نے بلوچستان کی تاریخ کو جھٹلانے کے لیے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کیں، بلوچ تاریخ کو یا تو حذف کیا گیا یا اسے غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ بلوچستان کے معدنی وسائل سے فائدہ اٹھایا، مگر بلوچ عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ ہزاروں بلوچ کارکن، صحافی، اور دانشور جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تاکہ ان کی آواز کو خاموش کیا جا سکے۔

ثقافتی نسل کشی:

بلوچستان میں تہذیبی نسل کشی کے طور پر زبان پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ روایتی لباس اور تہواروں کو غیر اہم قرار دیا گیا۔ بلوچوں کی قبائلی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔

تاریخی حقائق اور مزاحمت:

بلوچ قوم نے ہر دور میں قابض ریاستوں کے ظلم کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ نواب نوروز خان، نواب اکبر بگٹی، اور رحیم زرد کوئی بلوچ جیسے رہنما اس جدوجہد کی روشن مثالیں ہیں۔ ایران اور پاکستان کے خلاف بلوچوں کی مزاحمت ان کی تاریخ، زبان، اور ثقافت کے تحفظ کے لیے ہے۔

جارج آرویل کا قول بلوچستان کے حالات کی درست عکاسی کرتا ہے۔ قابض ریاستوں نے بلوچ تاریخ کو جھٹلا کر ان کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن بلوچ قوم کی مزاحمت اس بات کی گواہی ہے کہ ظلم اور جبر کے ذریعے کسی قوم کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان کی تاریخ صرف ایک خطے کی کہانی نہیں بلکہ یہ مظلوم اقوام کے لیے آزادی، شناخت، اور حقوق کی جدوجہد کا استعارہ ہے۔