قومیں عروج و زوال سے گذرتے ہیں ، زندہ قومیں اپنے زوال کے اسباب جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جن غلطیوں کی وجہ سے وہ زوا ل کاشکار ہوئے، انہیں دہرانے کے بجائے ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ، بقولِ ابن خلدون ’’عروج و زوال تمام اقوام پر آتے ہیں‘‘ تاریخ ہمیں عروج و زوال کے وجوہات بھی بتاتی ہے ۔ ہر عروج کے بعد زوال آتا ہے ، دوران عروج جب قوموں پر حکمرانی کرنے والے حاکم کی قانون اصولوں کے دائرے سے نکلتے ہوئے ، غیر منصفانہ فیصلے، سفاکی ، درندگی، طرفداری، عیش و عشرت ،آزاد خیالی اور اپنے لوگوں سے خود کو الگ سمجھنے کا رجحان ریاست و اقوام کی تباہی و بربادی اور زوال کا سبب بنتے ہیں ۔جبکہ زوال سے عروج کی طرف کا سفر اعتماد ، ایمانداری ، خلوص ، قوم و وطن کے ساتھ سچی وابستگی اور کمٹمنٹ اصول جس میں تعلق داری ، رشتہ داری ، ذاتی پسند و نا پسند کے بجائے اصولوں کی اہمیت، اپنے مقصد پر ڈٹے رہنا مطمع نظر ، منزل مقصود کے بجائے کسی اور چیز کو اہمیت نا دینا اور اس منزل کیلئے صحیح راستے کا چناو کرنا ، راستے میں آئے رکاوٹوں کی وجہ سے راستہ تبدیل کرنا لیکن منزل مقصود کو ناچھوڑنا یہ عوامل قوموں کو زوال سے عروج کی طرف لیجاسکتے ہیں اور قومیں بد حالی بھوک افلاس غربت پسماندگی ، بے تعلیمی جاہلیت سے نکل کر خوشحالی و ترقی کے شاہراہ پر قدم جما سکتے ہیں ۔ اسلئے پہلے سے متعین ٹارگٹ ومقصد دھندلا ہونے کے بجائے واضح ہو ، اگر مطمع نظر واضح ہو تو اسے حاصل کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے ، تب جاکر قومیں جدوجہد محنت قربانی سے اپنا وہ ٹارگٹ حاصل کرتے ہیں ۔جس طرح نیدرلینڈ 1581 سے پہلے اسپین اور ہابسبرگ سلطنت کے زیر تسلط تھا اور ان کے اپنے ملک کا کوئی وجود نا تھا لیکن نیدر لینڈ کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ملک کو الگ کریں گے اور آزاد ریاست کے طور پر اپنے ملک کے تقدیر کے مالک خود بنیں گے، انہوں نے ولیم آف اورنج کی قیادت میں قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت شروع کی ، انہوں نے اپنی آزادی کی جنگ 1581 تک لڑی اور آزاد ریپبلک آف نیدر لینڈ بنانے میں کامیاب ہوئے اور بالآخر 1648 میں اپنی آزادی کو دنیا میں تسلیم کروایا اور نیدر لینڈ ایک آزاد مملکت کے طور پر معرض وجود میں آیا ۔ ولیم آف اورنج کا مقصد واضح تھا کمٹمنٹ مضبوط تھا انہوں نے جنگ کے دوران مختلف ذرائع استعمال کیئے ، پمفلٹ تقسیم کیئے اور جنگی نغموں اور گانوں سے لوگوں کے جذبات بھڑکائے اور اپنے پروگرام و مقصد پر ڈٹے رہ کر اپنے ملک کو آزاد کیا اور پھر وہی نیدر لینڈ خوشحال اور دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرا کیونکہ ان کے پاس واضح روڈ میپ اور پروگرام تھا ، اسی پر چلتے ہوئے وہ خوشحالی کے معراج تک پہنچے ، اسی طرح سوئٹزر لینڈ کی آزادی میں ان کے قوم نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ غلامی سے آزادی حاصل کریں گے ان کے قومی لیجنڈ ولیم ٹیل جو برگنڈی سلطنت کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اجنہوں نے مصمم ارادہ کیا ہوا تھا کہ وہ سوئٹزرلینڈ کو آزاد کریں گے آزادی جور اسبتداد اورکدورت سختی کی عدم موجودگی کا نام ہے یعنی ایک ملک کی غلامی سے آزادی آدھا حل ہے اور باقی آدھا حل ایک محکم، پائیدار قیام پزیر پختہ orderہے جو تمام لوگوں کو یکساں مواقع اور حق فراہم کرتا ہو حقیقی اور مکمل آزادی برابری انصاف عدل کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ایک کے بغیر دوسرا نامکمل ہے قومی آزادی اس وقت تک مکمل نہیں جب تک عام لوگوں کو یکساں مواقع ،حق آزادی، اظہارخیال کی آزادی اور تمام لوگوں کی خوشحالی برابرنا ہوں کیونکہ آزادی کے بعد ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔یہ اصول تھے سویزرلینڈکی جہد کے سوئٹزر لینڈ نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے روڈ میپ پر عمل کرتے ہوئے اپنے ملک کو ترقی دی اور لوگوں کو یکساں مواقع فراہم کرتے ہوئے خوشحال کیا ۔آ ج سوئٹزر لینڈ دنیا کی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے جبکے دوسرے اقوام جنھوں نے آدھی آزادی پر زور دیاlong term مقاصد کو اہمیت نہیں دی آج وہ اقوام آزادی تو حاصل کرنے میں کامیاب ہو ے لیکن وہ حکمران اپنے عوام پر عذاب سے کم نہیں ہیں بلکہ وہاں غربت ،پسماندگی،ناخواندگی اور قتل وغارت گری کا راج ہے۔جیسے برما،لیبیا،شمالی کوریا،سوڈان ،ترکمانستان،ازبکستان وغیرہ ان ممالک نے آزادی حاصل کی ہے لیکن یہ آزادی آدھی تھی پختہ آرڈر اور نئی سوچ ،خیال و فکر کو فروغ دینے سے روکنے کے عمل نے انھیں مذید غربت اور پسماندگی کی دلدل میں ڈال دیا۔جبکہ نیدرلینڈ ،امریکہ اور سوئٹزر لینڈ وغیرہ جنھوں نے نئی سوچ،خیال و فکر کو فروغ دیتے ہوئے خوشحالی کی جانب گامزن ہوئے۔آج اگر ہم بلوچ قوم کی عروج وزوال کاجائزہ لیں تو بلوچ قوم کی اپنی ایک آزاد ریاست تھی جو میرو میروانی،عومر ،بجار،نصیر خان نوری سے مہراب خان تک پھر انگریزتک پھر انگریز کے بعد پاکستانی قبضہ تک اس دوران عروج کب آیا اور اسکے زوال کا سبب اگر سب ہی کا صحیح طریقہ سے تجزیہ کیا جاتا تو 1948،1962 اور1973میں پاکستانی قبضہ کے خلاف جدوجہدمیں ناکامی کا سامنا نہ ہوتا ۔اور آج اگر 1973اور1988کے جدوجہد کا صحیح تجزیہ نہ کیاجائے اور جدوجہد میں سب کچھ حسبِ سابقہ حالت رہنے دیا جائے تو وہی غلطی اور ناکامی ہوگی جو 1948,1962,1973اور1988میں ہوا۔جدوجہد میں عروج کی وجہ کیا تھی اور زوال کیسے ہوا اور آج 10 سال تک جو بلوچ قومی جدوجہد عروج پر تھا اور اسے عروج سے زوال کی طرف لے جانے کے اسباب جاننا انتہائی ضروری ہے۔جدوجہد عروج پر تھا لیکن قوم زوال پر تھی وجہ جاننا بے حد ضروری ہے۔ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ لوگ صحیح انداز میں نہیں سوچتے انکی فکری انداز واضح نہیں ہے اور انکی سوچ جذباتی ہے اگرآج ہم بلوچ قومی تحریک کی ناکامیابیوں کا ماضی اور حال کے تناظر میں دیکھیں اور جذباتی لگاؤ سے ہٹ کر فکری اندازمیں سوچیں تو کمزوریاں واضح دکھائی دینگے،کمزوریوں اور کوتاہیوں سے نجات کا واحد حل صحیح اور واضح فکر ہے۔بقول ایک دانشور کے کہ’’ جھوٹا خیال اطمینان بخش ہوسکتا ہے لیکن بالآخروہ دکھ ،درد اور تکالیف بڑھاتا ہے اسے قبو ل کئے رکھنے سے ہماری تحریک،ذات اور معاشرہ کو نقصان ہوگا‘‘۔جھوٹا خیال منشیات سے زیادہ خطرناک ہوتاہے کیونکہ منشیات سے بھی سکون ملتا ہے تو کیا اس طرح سے منشیات کے استعمال کو جائزثابت کیا جاسکتا ہے۔بلوچ قومی تحریک میں بھی ایک جھوٹا خیال تھا کہ تحریک صحیح ہے1962,1973اور1988 میں یہی کہا گیا اور1973میں نواب خیر بخش مری ،سردار عطااللہ مینگل،غوث بخش کے درمیان اختلافات شروع دن سے ہی تھے لیکن جھوٹے خیال سے معاملات چلاتے رہے لیکن بعد میں ہر ایک کا راستہ الگ ہوا اور تحریک کو بھی نقصان ہوا۔آج بھی اسی جھوٹے خیال کو اطمینان بخشتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ سب کچھ صحیح ہے۔لیکن اندرون خانہ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔بی این ایف جیسا اتحاد پارٹی بازی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا کیونکہ سب اپنے مقصد کو بھول کرپارٹیوں کو اپنا مقصد بنا چکے تھے ہر پارٹی اپنی پارٹی کو اوپر چڑھانے کے لیے بیساکھی کے طور پر بی این ایف کو استعمال کرتا رہا۔فکر و سوچ کو فروغ دینے کے بجائے پارلیمانی طرز سیاست کی طرح بڑی بڑی ریلیوں پر توجہ مرکوز کرتے رہے۔جیسے کہ بلوچستان اسمبلی میں میں کسی کو وزیراعلیٰ بنانا مقصد ہو۔پارلیمانی طرز سیاست میں ہجوم ،پارٹی بازی،نمودو نمائش اور شوشہ اسلیئے ہوتا ہے ، تاکہ ایک مخصوص پارٹی کو زیادہ سے زیادہ ووٹ ملیں اور وہ کامیاب ہو۔کیونکہ انکا مقصد ہی وزارت اور کرسی ہوتا ہے لیکن انقلابی پارٹی میں مقصد قومی آزادی ہوتا ہے قومی آزادی صرف ایک گروہ پارٹی یا علاقے کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہوتا ہے جس میں بی آر پی،بی این ایم،بی این ایف،بی ایس ایف،بی این ایم (جی ایم شہید)،بی ایس او وغیرہ سب کا مقصد قومی آزادی ہے تو پھرکیونکر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے یا ایک کے ممبر کو دوسرے سے الگ کرنے کے لیے دوڑ لگا ہوا ہے اور انقلابی فکری اور تبدیلی کی سیاست میں دغابازی کا سہارا لے رہے ہیں۔کبھی بھی انقلابی سیاست میں جھوٹ،فریب اور دھوکہ دہی سے مسائل کا حل نہیں ہوا کرتے۔انقلابی لوگ ایسے چیزوں سے دور رہتے ہوئے جدوجہد کرتے ہیں۔جبکہ بلوچ قومی جدوجہد میں جذباتی وابستگی بہت زیادہ رہا ہے اور ہر دررمیں لیڈر شپ نے قومی جذبات اور قومی تحریک کو صحیح رخ دینے کے بجائے اپنی راہ فراری کے بجا آوری کے لیے استعمال کرتا رہا ہے اور جدوجہد کو پارلیمانی سیاست سے پہاڑوں پھر پہاڑوں سے پارلیمانی سیاست کی طرف موڑ دیا۔کسی بھی قوم اور فرد کے لیے جذبات کے اثرات سے محفوظ رہناآسان نہیں ہے۔جب لوگوں کی وابستگی جذباتی بنیاد پر ہوں تو لیڈر شپ جدوجہد کو غلط رخ یا سمت دینے والے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہوئے جدوجہد کا رخ تبدیل کرتے ہیں۔بلوچ قومی تحریک کو ہی دیکھ لیں کہ 1948,1962,1973اور1988میں لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے بلوچ قوم کو عروج سے پہلے زوال کا شکار کیاگیا۔اب جب ماضی کی غلطیوں پر غور کرتے ہیں تو انھیں حال میں دہرانے کے بجائے انکا صحیح تجزیہ کرتے ہوئے اب غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔بقول ہائی رچلس’’ وقت کے ساتھ جب خیالات بدلتے ہیں تو اکثر تعریفیں بھی انکے ساتھ بدل دی جاتی ہیں‘‘۔کوپر نیکس کے نظریہ نے جب نظام شمسی کے بارے میں ہمارا سوچ بدل دیا تو لفظ سیارے کی ازسر نو تعرف کی گئی 1900میں نیوٹن کے قانون حرکت اور قانون کشش ثقل کو مکمل طور پر درست سمجھا جاتا تھا کیونکہ انکی تصدیق ہو چکی تھی اسکے باوجود 1905 میں آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت دیت نے اسے مزید بہتر کیا ۔اس طرح دیکھا جائے تو غوث بخش بزنجو،عطااللہ مینگل،رازق بگٹی،کہور،اخترمینگل،ایوب جتک،خیر جان ایک زمانے میں قومی ہیرو سمجھے جاتے تھے ان پر جذباتی لگاؤسے اندھا دھند اعتماد کیا جاتا تھا جب خیال بدلے تو تعریفیں بھی بدل گئی۔بعد میں یہ سب قومی سیاست سے پاکستانی سیاست کی طرف مائل ہوئے۔ آزادی کے چیمپئن سے بابائے مذاکرات اور پاکستانی مفادات کو تفظ دینے والے بن گہے یہ سلسلہ اس طرح چلتا رے گا جب تک مقصد سے ہٹ کر ہم گروہیت،پارٹی بازی،علاقیت اور شخصیت پرستی کے اثر سے نہیں نکلیں گے۔اب اس بارجدوجہد میں لوگوں نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اور جدوجہد نے چھوٹی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں لیکن پھر درمیان میں سرمچاروں نے اپنے طاقت کو دشمن کے بجائے عام عوام پر استعمال شروع کیا مکران میں مخبری کے نام پر قتل،ٹھیکہ داروں کو ٹارگٹ،منشیات کے نام پر عام لوگوں کو مارنا کیونکر ہوئیں لیویز جو پاکستا ن اور بلوچ جنگ میں غیر جانبدار تھے اور بلوچ قومی تحریک کے حمایتی بھی تھے انکو بلاوجہ نشانہ بنانا۔عام لوگوں کو سرمچاروں کے نام پر دھمکی دینے کے عمل نے لوگوں کو جہدکاروں سے الگ کیا جبکہ قابض بھی چاہتا تھا کہ مچھلی کو پانی سے دور کریں اور دشمن کسی حد تک کامیاب ہواہے۔ gw۴ ایک جنگی اصلاح ہے جو سیاسی اور جنگی تکمیل نچوڑ یا کہ جنگ کا روپ صورت و شکل ہے یہ اصلاح کوسوو میں بھی کامیاب ہوا بلوچ جہد میں یہ عمل 4 gw کی کھلم خلاف ورزی ہے لوگوں کو خوف کی واجہ سے خود سے دور کرنا gw 4کی قومی آزادی کی جہد کے عین مطابق نہیں ہے4gwکی تصوریا کہ طرز فکر میں انسرجنسی وہاں جڑ پکڑنا شرو ع کرسکتا ہے عروج پر ہوتا ہے جہاں انکو عوام کی مکمل مدد کمک حاصل ہو یہاں تو ہدف ہی عوام اور لوگوں کو بنا دیا گیا ہے شخصیت،پارٹیاں سارے مقصد بن گئے کسی پر سوال اٹھانا کفر بننے لگا۔یہ تمام آج کی جدوجہد کی کم وبیش مسائل ہیں۔اب یہ مسئلے کیسے حل ہونگے ماضی کی طرح اس بار جدوجہد کو نقصان سے بچانے کے لئے کوئی چیز ضروری ہے۔سب سے پہلے مسئلے کا تعین ہونا ضروری ہے۔مسئلے کی حقیقی نوعیت کو بخوبی سمجھا جائے کوئی بھی آدمی جب نشے کاعادی ہوتا ہے تو وہ اسے تسلیم ہی نہیں کرتا کہ نشے کا عادی ہے جب کوئی اسے کہے کہ وہ نشے کا عادی ہے تو وہ یہ اعتراف کرنے کے بجائے غصہ میں آتا ہے الزام تراشی پر اتر آتا ہے ۔قوموں کا بھی یہ حال ہے پیچیدہ حالات قومی تحریک اور سیاسی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔آج بلوچ قومی تحریک میں ایسا ہی ہورہا ہے اور سیاسی مسائل کو کمزوریاں و کوتاہیاں مشکلات قومی تحریک میں ہیں انھیں تسلیم کرنے کے بجائے الزام تراشی ،گالم گلوچ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے حالانکہ قومی تحریک کو جو درپیش مسائل ہیں ان پر غور و فکر کرتے ہوئے انکا تجزیہ کیا جانا چاہیے تھاان پرلکھنا چاہئے تھا تنقید برائے تعمیر کا عمل شروع کیا جانا چاہئے تھا جو ماضی کے بجائے آج ہورہا ہے ، تنقید برائے تعمیر کی مثال ڈاکٹر کی طرح ہے جو مریض کو ان چیزوں سے روکتا ہے جو اس کے جسم و صحت کے لیے نقصان دہ ہوں اسے تنقید برائے تعمیر سے ترغیب و ترتیب کے زریعے نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔پارلیمانی سیاست دھوکہ بازی کی سیاست میں ہر چیز قوم اورلوگوں سے چھپایاجاتا ہے لیکن انقلابی اور تبدیلی کی سیاست میں جھوٹ انتہائی خراب اور نقصان دہ ہے۔بقول کانٹ،’’جھوٹ ہمیشہ خراب ہے جھوٹ ایک فرد کا اپنے فرض منصبی کے ساتھ خلل اندازی ہے‘ جھوٹ کے بہت سے اقسام ہیں ان میں ایک حکمت عملی سے متعلق ہے جو قومی مفادات کی خاطر دوسرے ممالک یا کہ دشمن کو دھوکہ دینے کے لیئے بتایا جاتا ہے۔دوسراselfishجھوٹ ہے ، یہ جھوٹ لیڈر قومی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی مفادات اور گروہی مفادات اور ذاتی قد کاٹ اور شخصیت کو بچانے کے لے بولتے ہیں۔تیسرابین القوامی جھوٹ جو لیڈر اچھی حکمت عملی کے لیئے بولتے ہیں تا کہ اپنے ملک کو دوسرے دشمن ملک سے بچائیں یہاں بھی قومی مفادات کو مدِ نظر رکھ کر اس جھوٹ کو بولا جاتا ہے اسےNoble Lieیعنی عالی شان جھوٹ کہا جاتا ہے۔جیسے کہ1941میں امریکی صدر روزویلٹ نے اپنے قوم کے ساتھ جھوٹ بولا اور نازی جرمنی کے خلاف جنگ کے لیئے تیار کیااسنے کہا کہ نازی تمام یورپ کو قبضہ کرلینا چاہتے ہیں اور انکو روکناضروری ہے۔لیکن یہ جھوٹ اپنے قومی مفادات کے تحفظ دینے کے لیئے اسنے بولا ۔چوتھی جھوٹ ہے strategic cover upجھوٹ یہ جھوٹ لیڈر اپنی ناکامی چھپانے کے لیئے بولتے ہیںیا اپنے متنازعہ پالیسی چھپانے کے لیئے بولتے ہیں۔ایک اور جھوٹ nationalist myth makingہے۔اس میں لیڈر تاریخ دان ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم ہمیشہ صحیح تھے اور ہمارے مخالف غلط تھے۔آخری جھوٹ Ignoble cover upجھوٹ ہے یا کہ کم ظرف ناکارہ یا رزیل جھوٹ ہے جو لیڈر اپنے فاش غلطی بغیر پیش رفت اور ناکامیاب،نامراد پالیسی کو چھپانے کے لیئے بولتا ہے، اسکا مقدم اور فراخ مقصد خود کو اور اپنے گروہ کو بچانا ہوتا ہے۔یہ جھوٹ سماج اور ملک اور تحریک کوبہت زیادہ نقصان سے دو چار کر سکتا ہے اس جھوٹ سے ہمیشہ نالائق نا اہل لوگوں کو تحفظ دیا جاتا ہے ان تمام جھوٹوں میں صرف اور صرف قومی مفادات کو تحفظ دینے اور حکمت عملی والے جھوٹ کے علاوہ باقی سب جھوٹ قومی سیاست پر تباہ کن اثراب مرتب کرتے ہیں۔انقلابی اورتبدیلی کی سیاست میں اپنے لوگوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولا جاتا ہے بلکہ جہدکار کردار کے حوالے سے اعلی نمونہ ہوتے ہیں۔آج بلوچ جہد میں ہر جگہ جھوٹ بولا جا رہا ہے اور اتنا جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ اگر کوئی حقیقت بھی ہو اسے جھوٹ تصور کیا جاتا ہے۔جہدکاروں پر اعتبار کم ہوتا جا رہا ہے رزیل جھوٹ بول کر نا اہل جہدکاروں کو بچایا جا رہا ہے جو انقلابی سیاست کے نام پرجدوجہد کررہے ہیں اور قوم کے نام پر جدوجہد کر رہے ہیں اپنے ذاتی اور گروہوئی مفادات کے لیئے پوری جدوجہد کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں انکو تحفظ دینے کے لیئے بھی تواتر کے ساتھ جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔حالانکہ یہ جھوٹ ان جہدکاروں کے ساتھ ساتھ پوری تحریک کو نقصان سے دو چار کر رہا ہے۔حکمت عملی اور عالی شان جھوٹ کوکم ظرف رزیل جھوٹ کیساتھ خلط ملط کردیا گیا ہے۔کمزوریوں کوتاہیوں کو ماننے کے بجائے جھوٹ کا سہارا لیکر اپنے ہی لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ بلوچ تحریک میں ماضی میں قوم کے ساتھ سب کچھ چھپانے کی وجہ سے تحریک ٹہراو کا شکار ہوا۔لیڈر شپ نے قوم کے ساتھ کفر کیا اور آج بہت سے لوگ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کے لیے ایک بار پھر کفر کی تبلیغ کر رہے ہیں۔کہ وہ رزیل جھوٹ کا سہارا لیکر خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ سب کچھ صحیح ہے اور اندرون خانہ اختلافات ایک دوسرے کے خلاف کام کرنا اور قوم کے سامنے کہنا کہ سب کچھ صحیح ہے قوم کے ساتھ اس سے بڑاکفر اور کیا ہوسکتا ہے۔کافر کے بھی لغوی معنی چھپانے والا ہے اسلیئے رات کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپاتا ہے،کاشت کار کو بھی کافر کہا جاتا ہے کہ وہ غلے کو چھپاتا ہے۔رزیل جھوٹ کا سہارالینے والے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپاتے ہیں اسلیے جدوجہد کا تقاضہ ہے کہ اس کفر سے ہم کو نکلنا ہوگا اور گر ہم قوم کے نام پر جدوجہد کر رہے ہیں تو قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے انکے مستقبل کے بارے میں بتانا ہوگا کہ آنے والا بلوچستان سوئٹزر لینڈ،ہالینڈ کی طرح ہوگا یا کیوبا،شمالی کوریا،سوڈان ،ترکمانستان ،ازبکستان یا انگولا کی طرح ہوگا۔آدھی آزادی والی پالیسی بھی سوڈان والی ہے جبکہ مکمل آزادی خوشحالی اور ترقی یافتہ بلوچستان کے لیے ہے۔اب ہمیں پاکستانی سیاست کی طرح غداری و کفر کے فتوے دینے کے بجائے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے جذباتی پن سے نکلتے ہوئے عقلی،فکری اور شعوری حوالے سے اپنی جدوجہد میں موجود مسائل کمزوریوں کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انکے حل کے لیئے تجاویز دیتے ہوئے اسے صحیح انقلابی سمت دینا چاہئے تا کہ بلوچ قومی جدوجہد ناکامیابی اور آدھی آزادی کے بجائے مکمل آزادی کے لیئے ہو جہاں اظہار خیال کی آزادی ہو،برابری،انصاف،قانون کی بالادستی اور خوشحالی کا بول بالا ہو۔ چیتا انسان سے تیز بھاگ سکتا ہے شیر انسان سے بہتر لڑسکتا ہے ہاتھی مگر مچھ انسان سے زیادہ طاقتور ہے لیکن انسان کو ان تمام مخلوق پر واضع برتری حاصل ہے کہ انسان کے پاس دماغ کی صلاحیت ہے وہ سوچ سکتا ہے غور کرسکتا ہے اپنی دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوے اپنی بہتر رائے قائم کرسکتا ہے اندھی اتباع یا تعاقب کرنے سے نہیں بلکہ لوگ سوچ بچار سے شعوری رائے قائم کرتے ہوے جدوجہد کا ہمگام بن جاتے ہیں ا سکے لیئے اگر آج لکھنے اور تنقید برائے تعمیر پر قدغن ہو کل تو حامد میر جیسے واقعات بلوچستان میں بھی ہوسکتے ہیں اور سرمچاربے فکر نہ ہوں کہ ان پر کوئی تنقید نہیں کر سکتاکیونکہ وہ بارڈر پر قربانی دے رہے ہیں اب ان چیزوں سے بچنے کے لیئے آدھی آزادی کے بجائے سوئٹزرلینڈ کی طرح مکمل قومی آزادی کا روڈ میپ ضروری ہے اور ساتھ ہی ساتھ بحث و مباحثہ اور تعمیری تنقید کا ماحول بلوچ قومی جہد کے لیئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔تنقید برائے تعمیر جو اصلاح کے لیئے ہو تحریک کو نقصان سے بچانے کے لیئے تنقید برائے تعمیر اور کردار کشی کے فرق کو بھی جاننا ضروری ہے۔تنقید کے معنی ہے کہ کسی کی غلطی کمزوری خامی کو تاہی پر اپنی نامنظوری،ناخوشی کا اظہار کرنا۔کسی کی ذات کو ٹارگٹ کرنا بھی تنقید کے زمرے میں نہیں آتا ہے بلکہ وہ ضد اور انا اور جہالت یا بگاڑ کے دائرے میں آتا ہے۔تنقید برائے تعمیر غلطی اور کمزوری جو جدوجہد کے دوران کسی لیڈر یا شخص سے سرزد ہو اسے بتلانا ظاہر کرنا نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔اب بلوچ قومی تحریک میں موجود غلطیوں اور کمزوریوں کا ظاہر کرناضروری ہے لیکن اسکی آڑ میں کردار کشی ،گالی گلوچ ، عامیانہ و سوقیانہ اور ابتذال سے خیال کا اظہار قطعاََ قوم دوستی نہیں اور قومی جدوجہد اور اصلاح کے حق میں نہیں ہے بلکہ تنقید برائے تعمیر کے عمل کوسبوتاژ کرنے کا حربہ ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد کے ساتھ ساتھ پوری بلوچ قوم کو اگر عروج کی طرف لے جاناہے تو اسکے لئیے پارٹی بازی،گروہیت،شخصیت پرستی،علاقایت پرستی اور قبائلیت پرستی کے غار سے نکلتے ہوئے بلوچستان لبریشن چارٹر کی طرح واضع روڈ میپ کے تحت مکمل قومی آزادی کے واضع اور جامع پروگرام کے تحت اپنی قومی پالیسی ترتیب دینا ہوگی تحریک میں موجود غلطیوں،کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کے لیئے مباحثہ قائل کرو یا قائل ہوجاؤ والی پالیسی کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔تب جاکر بلوچ قوم بھی نیدرلینڈ اور یورپ کی طرح ترقی یافتہ اقوام کے صف میں ایک ذمہ دار ویلفیر جمہوری ریاست کی طرح کھڑی ہوگی۔پولینڈ 1918سے پہلے تین حصوں میں تقسیم تھا جسے ہسٹریا ،ہنگری،جرمنی اور روس نے تقسیم کیا ہوا تھا۔اور پولینڈ کے لوگوں کو پروشیا نے مجبور کیا ہوا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے نام بھی پروشیا کی حکومت کی منظوری سے لیں۔پولش 123سال تک زوال میں رہے لیکن انھوں نے اپنے کمٹمنٹ سے مقصدیت کو نہیں چھوڑا بلکہ ساری توجہ اپنی مقصد کو حاصل کرنے پر دی اور آخر کار پولینڈ کے حصے یکجا ہوئے اور پولینڈ پھر سے آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔اسی طرح یہودی بھی روس،ہٹلر اور یورپی ظلم وجبر اور استحصال کا ہزاورں سال شکار رہے اور آخر کار اپنی مقصد پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے زوال سے عروج کی طرف آئے۔لیکن بلوچستان میں لوگوں اور کارکنوں،جہدکاروں کا رخ مقصد سے ہٹا کر زرائع پر لگا دیا گیا ۔بی این ایم،بی آر پی او بی این ایف بی ایس ایف و غیرہ مقصد بنائے گئے اور حتیٰ کے مسلح تنظیمیں بھی اس بیماری سے نہیں بچ سکے۔کوئی بلوچ جہدکار کتنا ہی بڑا کام کرے لیکن اگر وہ بی این ایم میں نہیں تو اسکی کارکردگی بی این ایم کی لیڈر شپ کی نظر میں نا ہونے کے برابر ہے۔اگر بی این ایم میں ہے تو بی آر پی ،بی این ایف وغیرہ کے لئے اسکا عمل قابلِ قبول نہیں۔پارٹی بازی میں مقصد کو چھوڑ کر ساری پارٹیاں چوں چوں کا مربہ بنے ہوئے ہیں ہر پارٹی اپنی اکثریت ثابت کرنے کے دوڑ میں دوسرے پارٹیوں کے ممبران کو توڑنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم اپنے رویے بدلنے کو تیار نہیں ہیں رویے انقلابی نہیں ہیں سوچ محدود ہے اور مقصد سے توجہ ہٹانے کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔اگر مقصد باقی سب کچھ چھوڑ کر صرف قومی آزادی ہوتا اور رویے انقلابی ہوتے تو اگر بی این ایم جو اس فکر اور سوچ کو پروان چڑھانے کے لیئے کوئی اچھا کام کررہا ہوتا تو بی آر پی،بی ایس او،بی ایس ایف ،بی این ایم( ایم ش) اسکی مدد کرتے ، کیونکہ تمام کا مقصد ایک ہے اور اسی مقصد کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے مقصد کے بجائے زرائع کو جو مقصد بنائے گئے ہیں۔جب تک آزادی کے نام پر جہدکاروں کے روئے تبدیل نہیں ہونگے یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔اور یہ رویئے ہمیں تقسیم در تقسیم اور انتشار کی طرف لے جائیں گے۔ ر ویوں کو تبدیل صرف اورصرف صحیح مباحثہ اور تحریر کر سکتا ہے۔اسلئے تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں پر بحث مباحثہ ہونا چاہئے،تنقید برائے تعمیر کی حوصلہ افزئی کرنا چاہیے۔اسطرح سے ہمارے رویوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔اب زیادہ تر رویے مسخ ہوچکے ہیں جب تک سب کے رویے انقلابی نہیں ہونگے سوچ قومی نہیں ہوگی فکر قومی نہیں ہوگا مقصد کو اہمیت نہیں دینگے ہزار بار اتحاد و یکتائی قائم کریں نتیجہ پھر تقسیم در تقسیم اور انتشار ہوگا۔اگر واقعی سب لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم زوال سے عروج کی طرف جائے تو یہودی قوم پولش اورسوئٹزرلینڈ کی طرح گروہیت،پارٹی بازی،شخصیت پرستی کے بند گلی سے نکلتے ہوئے اجتماعیت قومی سوچ اور مقصدیدت کو اہمیت دینا ہوگا۔اسکے لیئے پہلی اور آخری شرط رویوں میں تبدیلی ہے۔