شال(ہمگام نیوز) بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5182 دن ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے چیرمین جہانگیر منظور بلوچ، سی سی ممبر صمند بلوچ مقبول بلوچ اور کابینہ کے لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں کہا ہے کہ نام نہاد جمہوری دور نے بھی خوب کی، لیکن مجموعی طور پر خوشامد خوف اور دہشت کے جو انداز پاکستانی سامراج کے دور میں ہماری سیاسی زندگی میں در آئے اور اس سے پہلے ہمارے ہاں اتنے واضع اور نمایاں نہ تھے چنانچہ آج بھی پارلیمانی سیاست کے اندر وہی انداز رواں رکھے جا رہے ہیں۔ اب زرا غور کیجئے یہ ہمارے نام نہاد دانشور حضرات بلوچ پارلیمانی سیاسی اور ووٹ و الیکشن کے لئے دن رات ایک کرکے مقاصد کو سروے کررہے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ اج بھی بلوچوں کو اٹھانے جبری لاپتہ کرنے کے بعد انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ اسی شد و مد سے جاری ہے اور نام نہاد پارلیمانی وزرا بھی اس قاتل ریاست اور اسکے آئین کے تحت ایک بار پھر حلف اٹھا لیا۔ آج کے حالات 2008 کے حالات سے بدتر ہیں۔ ان چار پانچ سالوں میں حالات کہیں سے کہیں جا پہنچے ہیں اور سماجی مفادات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ریاست کی بچائی ہوئی شترنج بےمعنی لگتی ہے۔ اور پورا ریاستی وجود اور اس کی رٹ بلوچستان میں ڈاواں ڈول ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اقتدار میں آنے کا نشہ اور اس کے لئے بےتابی اپتری طبقے کی قیادت کو یک رخ بنا دیتی ہے۔ یہ ریاست انہیں دائیں بائیں بھی دیکھنے نہیں دیتی اور نہ سوچنے دیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستانی سیاست کو فوج کی حکمرانی نے بالاخر ایک بند گلی میں پھنسا دیا ہے 2024 بھی ردانقلابی قوتوں کے پارلیمانی سیاست میں منتخب ہونے کا سال ہوگا اور ان کی یہ انتخابات خون خرابے کا نہ ختم ہونے والا نیا سلسلہ اپنے ساتھ لائے گا۔