کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم قوم پرست اور زمین زاد ہیں اور ہم بلوچستان کی آزادی چاہتے ہیں، لیکن پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم صرف پاکستان کے زیرِ قبضہ بلوچستان کے حصے کو آزاد کرانا چاہتے ہیں اور ایران کے زیرقبضہ بلوچستان اور بلوچ قوم سے، ان کے تکالیف اور مصائب سے دستبردار ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ پاکستان کے زیرِ قبضہ صرف ایک حصہ ہے، پورا بلوچستان نہیں، تو وہ ہزاروں من گھڑت کہانیاں گھڑنے ہوئے ایسے عذر پیش کرنے لگ جاتے ہیں کہ جی ہم کمزور پوزیشن میں ہیں اور دو طاقتور ریاستوں سے نہیں لڑ سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ میں کون سی ایسی آزادی کی تحریک ہے جہاں جدوجہد کرنے والے ریاست سے زیادہ طاقتور تھے؟ اگر ہم واقعی طاقتور ہوتے تو ہمیں لڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی؟ مثال کے طور پر اگر روس سے حد درجہ کمزور یوکرین کی جگہ اس کا ہم پلہ امریکہ مقابل ہوتا تو کیا روس حملہ کرکے قبضہ کرنے کی حماقت کرتا؟ تو جواب نفی میں آتا ہے۔ تو کیا اب یوکرین اپنی زمین زمین سے دستبردار ہوا یا اسے ہونا چاہیے؟ اس کا خواب زلینسکی ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے اپنے تلخ مکالمے اور میڈیا ٹرائل میں دلیری کے ساتھ دے کر ثابت کرچکے ہیں کہ زندہ قومیں چاہے جس قدر کمزور پوزیشن میں کیوں نہ ہوں وہ اپنے قوم اور سرزمین سے دستبردار ہرگز نہیں ہوتی بلکہ اپنے سے سو گنا زیادہ طاقتور ریاستوں کے سامنے بھی قومی غیرت کے ساتھ ڈٹ جاتی ہیں۔

چلو اگر ایک لمحے کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ ہم واقعی کمزور ہیں اسی وجہ سے ہمیں ایرانی مقبوضہ بلوچستام سے دستبردار ہونا چاہیے تو کیا ہماری تحریک پاکستانی ریاست کے مقابلے میں کمزور نہیں ہے؟ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کل ہمیں اسی دلیل کو بنیاد بنا کر پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد بھی ترک کر دینی چاہیے؟

ایک اور عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم نے ایران کے زیرِ قبضہ بلوچستان میں پناہ لی ہے، اسی لیے ہم خاموش ہیں۔ یہ کیسی منطق ہے؟ اپنی سرزمین پر کوئی قوم پرست اور زمین زادہ خود کو پناہ گیر کیسے کہہ سکتا ہے؟ (خیر اس بات کو جانے دیجئے)۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم پناہ کی تلاش میں نکلے تھے یا قومی آزادی کی جنگ لڑنے؟ اگر ہمیں پناہ ہی چاہیے تھی تو ہمیں گھر بیٹھ کر بلوچی کہاوت کے مصداق “کاھوکے بور و راھوکے برو” کے فارمولے پر کاربند ہونا چاہیے تھا نہ کہ آزادی جیسی بڑی زمہ داری اٹھانی چاہیے تھی جو بقول ھیگل “زندگی کو گھروی رکھ کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے”

دراصل یہ سب ایسے بہانے اور کھوکلی دلیلیں ہیں جو قوم کو “گل خان” بنانے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں ایران کے زیرِ قبضہ بلوچستان بلوچ قومی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کا وطن ہے، تو کیوں نہ ہمیں انہیں تیار کرنا چاہیے اور انہیں جدوجہد کا حصہ بنانا چاہیے ہم بطور قوم پرست اور زمین زاد کیوں اپنی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے اور اپنی مادر وطن کو گروی رکھیں؟ جبکہ ان کی شمولیت ہماری تحریک کو مزید مضبوط کرے گی؟ وہ بھلا کیسا قوم پرست اور وطن زاد ہے جس کو اپنے قوم سے زیادہ قابض پر بھروسہ ہو اور اپنے وطن سے زیادہ کچھ وقتی اور گروہی مفادات عزیز ہوں؟

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نوٹ: مصنف کے خیالات کے ساتھ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)