تحریر: صوبدار بلوچ
عارف بلوچ اور ساجد کی سویڈن میں پراسرار شہادت، کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں ناگہانی موت، یہ اتفاق نہیں ، بلوچ قوم و بلوچستان کی تحریک کے خلاف دیدہ دانستہ منظم سازش ہے، ان شہادتوں کی چانچ پڑتال کے لئے بلوچ سیاسی پارٹیوں کو قومی بیانیہ متعارف کرتے ہوئے، اجتماعی طور پر اس طوفان کے آگے بند باندھنے کے لئے ابھی سے تیاری کرنی پڑیگی۔
سویڈن یا کینیڈا کی پولیس میں آئی ایس ائی کی اثر رسوخ کو کون چیلنج کریگا؟
کیا ہم چھپ کرکے بیٹھ جائیں کیونکہ وہاں کی مقامی پولیس نے تحقیقات کرکے کہہ دیا ہے کہ ان واقعات میں پاکستان کا ہاتھ نہیں، یا رپورٹ میں درج ہے کہ ان واقعات میں جرائم کے شواہد نہیں ملے ہیں؟
ہمیں پتہ ہے کہ چین بلوچستان میں اربوں ڈالر کی خطیر رقم خرچ کررہی ہے ، تاکہ یہاں کے سونا اگلتا بلوچستان کو بے دردی سے لوٹ سکے، گوادر میں باڑ لگانے کا کام شروع ہوچکا ہے، سی پیک جیسے استحصالی منصوبے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے چین پاکستان اور ایران کے ساتھ مل کر بلوچوں کو ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ کررہے ہیں، بوگس مقدمات میں نامزد بے گناہ اور نہتے بلوچوں کو ایرانی قابض فوج پھانسیوں پر لٹکاکرشہید کررہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں پکڑ کو زندانوں، قلی کیمپ میں جسمانی و ذہنی طور پر اذیت دے کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کیا چین، پاکستان اور ایران چاہیں گے کہ اس قتل و غارت گری کے خلاف کسی بلوچ کو زندہ ہونا چاہیے؟ نہیں وہ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ کوئی بھی بلوچ چاہے وہ بلوچستان کے اندر ہے یا باہر، وہ لب کشائی کرے۔
تو ہم سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ان تمام مظالم سے پردہ ہٹانے کےلئے بلوچستان سے باہر سیاسی پارٹیاں اور قیادت اپنی اپنی بساط کے مطابق آواز بلند کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر چین اور ایران پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچستان کی لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھنے کےلئے بلوچوں کو ماورائے عدالت نسل کشی، اور ان پر انسانیت سوچ مظالم ڈھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا اور بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ہر حربہ آزمایا جارہا ہے تو چین کیونکر کینیڈا اور سویڈن کے اداروں کے اندر penetrate پینی ٹریٹ کرکے وہاں بلوچوں کی قتل پر تحقیات میں اثر انداز نہیں ہوگا؟
چین اور پاکستان کی مشترکہ کوشش ہے کہ بیرون ممالک اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا جائے، اور سیاسی میدان میں کام کرنے والے بلوچوں کو منتشر رکھا جائے، یہی وجہ ہے کہ بلوچ قیادت جس میں براہمدغ بگٹی، مہران مری، جاوید مینگل، حمل حیدر، اور فری بلوچستان موومنٹ کے قائدین جب سوئٹزرلینڈ میں اتحاد اور اشتراک عمل کے حوالے سے ملنے کا عندیہ دے چکے تھے تو آئی ایس آئی اور چین نے سوئس حکومت پر دباو ڈالا جس کی وجہ سے سوئس امیگریشن نے مہران مری کو ایئرپورٹ پر روک کر ان کی سوئٹزرلینڈ میں داخلے پر تاحیات پابندی عائد کردی کیا یہ چین اور آئی ایس آئی کی دباو کے تحت نہیں ہوئی؟ اگر چین اور پاکستان سوئس جیسے آزاد ملک کی پالیسی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں تو پھر کینیڈا اور سوئیڈن کی پولیس اور ایک علاقے کے تحقیقاتی ٹیم کو گمراہ کرنا یا انہیں پیسے، دے کر چھپ کرانے اور من مرضی رپورٹ پیش کرنے میں کیا مشکل ہے؟
بلوچ قوم کی کونسی پارٹی عالمی عدالت سے رجوع کرنے کی سکت اور اہلیت رکھتا ہے؟
کیا ہمیں ہر واقعہ کو حادثہ قرار دے کر چھپ رہنا چاہیے؟
کیا ہم سوئیڈن، اور کینیڈا میں وقوع پزیر عارف بلوچ ، ساجد حسین اور کریمہ بلوچ کی شہادتوں کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسران کے رپورٹس پر جراح کرسکتے ہیں، ایسا کوئی بلوچ وکیل، یا غیر بلوچ وکیل دستیاب نہیں جو ان شہادتوں کی شفاف تحقیقات کے لئے مقامی عدالتوں میں چیلنج کرے یا اقوام متحدہ و انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے استدعا کرے تاکہ وہ ان پے در پے شہادتوں کی تحقیقات کے لئے براہ راست مداخلت کرے؟
چین اور پاکستان اگر اقوام متحدہ اور سیکورٹی کونسل میں کشمیری جہادی رہنماوں کے خلاف قرار دادوں کو ویٹو کرکے ضائل کرسکتا ہے تو سویڈن اور کینیڈا کے چھوٹے سے ادارے میں گھس کر قاتل آئی ایس ائی کے وردی پرلگے بلوچ خون کے چینٹو اور ہاتھوں کے نشانوں اور ثبوتوں کو کیسے ضائع نہیں کرسکتا؟
چین اگر بلوچستان کو لوٹنے کے لئے ساٹھ بلین ڈالر خرچ کرنے میں خزانے کا منہ کھول سکتا ہے تو کینیڈا اور سویڈن کی پولیس کے تفتیشی ادارے کو خریدنے اور رام کرنے کے لئے چند ایک بلین ڈالر خرچ کرنے میں کونسی ہرج ہے؟
کیا بلوچ سیاسی کارکنوں کی شہادتوں میں ملوث پاکستانی سابقہ فوجی جرنیلوں، اور ریٹائرڈ آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی لسٹ کا کھوج لگا کر ان سب کو ان کیسز میں نامزد نہیں کیا جاسکتا؟
ہمیں تو چین اور پاکستان کی چالاکیوں پر اتنا چوکنا ہونا چاہیے کہ بیرون ممالک بلوچ رہنماوں کے خلاف آخری حد تک جاسکتے ہیں ،جس کا برملا اظہار پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوا نے کیا تھا کہ ان کا فوکس اب بلوچستان پر ہے۔ اس سے کیا مراد لیا جائے؟ یہی کہ اب بلوچستان میں جاری استحصالی منصوبوں کے خلاف بولنے والےبلوچ آوازوں کو باری باری چھپ کرایا جائے۔
میں سمجھتا ہوں، ساجد حسین، اور کریمہ بلوچ کے ورثا کو چاہیے کہ وہ مقتول رہنماوں کے پوسٹ مارٹم کے رپورٹوں پر بھی اعتراض کرے اور ان کی جانچ کے لئے عالمی صحت کے اداروں کو شریک کرنے کا مطالبہ کرے کیونکہ چین اور پاکستان قتل کرنے کے بعدہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گے، وہ قتل کی جگہ شواہد مٹانے کے ساتھ ساتھ ہسپتال میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تیاری میں بھی مداخلت کرکے ان اموات کو حادثات یا طبعی موت قرار دینے میں بھاری رقوم خرچ کرنے سے گریز نہیں کرینگے۔
لہذا بلوچ پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ بیرون ممالک قابل بھروسہ وکلا کا ایک ٹیم تیار کرے جو بلوچوں کی ہر طرح کے مشکلات اور کیسز کی پیروی کرنے میں ہمہ وقت دستیاب ہو۔
کیا جنرل پرویز مشرف کے دبئی سے سما ٹی وی کے وجاہت حسین کے ساتھ انٹرویو میں بیرون ممالک بلوچ رہنماوں کی طرف اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی پاکستان کے خلاف بولتا ہے آئی ایس آئی کو چاہے کہ ان کو مار دے ، اور پاکستان یہ موقف اختیار کرے کہ انہیں کیا پتہ کس نے ماردیا؟
مشرف بلوچوں کے پیران سال رہنما نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت میں براہ راست ملوث ہے، لیکن دبئی کی حکومت اور ادارے مشرف سے باز پرس کرنے کی بجائے، بلوچ کارکن راشد حسین کو چین کی ایما پر اغوا کرکے پاکستان آئی ایس آئی جیسے وحشی درندوں کے حوالے کردیتا ہے۔
ماضی میں لندن پولیس نے بلوچ رہنما حیربیار مری کو محض اخباری بیانات دینے کے تناظر میں گرفتار کرکے ٹرائیل کیا تھا کہ وہ تشدد پر اکساتے ہیں، تو ہمارا بھی سوال ہے کہ سوئیڈن، اور کینیڈین پولیس اور اداروں سے کہ جنرل مشرف، سمیت تمام پاکستانی فوجی اہلکار اور کٹر ریڈیکل پنجابی قابض اداروں سے وابسطہ لوگ بلوچوں کی شہادت کے بارے میں واشگاف الفاظ میں دھمکیاں دیتے رہے ہیں اور پھر ان دھمکیوں پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے تو کیا ان سب مذکورہ پنجابی پاکستانیوں کو کٹہرے میں لانا انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیئے جاسکتے؟
یاد رہے گذشتہ ماہ ایران کے خفیہ اداروں کے بدمعاش لوگوں نے ایران سے نبرد آزما Arab Struggle Movement for the Liberation of Ahvaz ASMLA کا سویڈن میں پناہ گزین عرب ال احوازی حبیب جعب جلاوطن رہنما کو ترکی سے اغوا کرکے ہزاروں کلو میٹر مسافت طے کرکے ایران میں سمگل کیا گیا اور وہاں ان پر تشدد کے بعد اعتراف جرم پر مبنی ویڈیو ریکارڈنگ کرکے انہیں پھنسایا گیا۔ اس کے علاوہ ایرانی خفیہ ادارے یورپی ممالک میں ایران مخالف رہنماوں کی قتل میں ملوث رہا ہے، یورپی ممالک نے ایران کے بہت سے خفیہ آپریشنز کو انجام دہی سے قبل ناکام بھی بنایا ہے۔
مختصر بات یہ ہے کہ دنیا ہر وقت اپنے مفادات کو دیکھتی ہے، بلوچستان امیر ہے۔ اور دنیا بھی اگر پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں تو انہیں بلوچستان کے معدنی دولت میں حصہ چاہیے، اب بلوچ قوم پر منحصر ہے کہ وہ اپنی بکھری ہوئی طاقت کو یکجا کرنے کے لئے سنجیدگی سے سوچے، اگر بلوچ طاقتور و منظم ہو کر متحدہ ہوا یک زبان ہو، تو دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں نظر انداز کرکے پاکستان جیسے بھکاری کے پاس نہیں جائے گا۔ لیکن اگر بلوچ اپنی مادی عارضی مجبوریوں کا شکار ہوکر تحریک اور قومی بیانیہ متعارف کرانے میں ناکام ہوا تو پھر پاکستان ، چین اور ایران کے خون خوار بھیڑیوں کے ہاتھوں یونہی کٹتے جائیں گے اور خدا نہ کرے ایک دن بلوچ دنیا کی نایاب ترین مخلوقات میں شمار نہ ہو ۔