رزاک بلوچ
ھمگام آرٹیکلز
ایک نتیجہ خیز سرگرمی کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ اسے ایک مسلسل اور ہمہ گیر حکمتِ عملی کے تحت آگے لے جایا جائے۔ ایک ایسی حکمت عملی ایک ایسا منصووبہ جو خالص زمینی حقائق اور معروضی چیلنجز کا بھرپور طریقے سے آحاطہ کرسکے، لیکن ایک ہمہ گیر حکمتِ عملی کتنا اور کس درجے کا ہمہ گیر ہوسکتا ہے یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اس حکمتِ عملی پر سر جوڑنے والے کون ہیں، انکے نفسیات، انکے مفادات اور انکے نظریات اور سیاسی حوالے سے انکی نظریاتی وابستگی کیا ہے۔ زمینی حقائق کیا ہیں اور بیرونی دنیا میں کیا مواقع موجود ہیں، یہ تمام نکات کسی حکمتِ عملی کی ساختی جزئیات اور نفاذ پر ہمیشہ اثر پذیر رہیں گی۔
انسانی عقل کی وسعتوں کے باوجود مسقبل بینی کے سیاق و سباق اور انکی ذاتی رائے اور سمجھ بوجھ کو لے کر کچھ نہ کچھ، کہیں نہ کہیں باقی رہ ہی جاتا ہے اور اسی رہ جانے والی “باقی” کے خلا کو پر کرنے کے واسطے انسان ہمہ وقت بہتری لانے کے لیئے کوششیں کرتا رہتا ہے۔ دوسروں سے سیکھنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے، ماضی کی نظیروں سے اپنے لئیے راہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور خود اپنے اور دوسروں کے تجربات سے نئے تجربات کرنے کے لئیے مشق کرتا رہتا ہے۔ پالیسیوں کے نفاذ میں ماضی کو بطور نظیر سامنے رکھنا، دشمن اور اپنے اندر موجود طاقت اور کمزوریوں کو سمجھ کر انہیں تسلیم کرنا اوراسکے بعد کسی بھی پالیسی کو عمل کے میدان میں گزارنا تاکہ عملی بنیادوں پر نتیجہ خیز کوئی ایسا تصویر سامنے آئے جہاں پالیسی ساز بتا سکیں کہ آیا یہ پالیسی موثر یا غیر موثر ہے، خود پالیسی میں سقم موجود ہیں، پالیسی کے نفاذ میں مسائل ہیں یا پھر پالیسی اور نفاذ دونوں ہی میں سقم موجود نہیں البتہ پالیسی اور اسکے نفاذ از خود قبل از وقت ہیں اور معروضی حقیقتوں سے فی الحال میل نہیں کھاتے۔
اب اس گھتی کو کیسے سلجھایا جائے کہ کونسی پالیسی کامیاب اورکونسی ناکام ہے، کونسی بروقت یا بے وقت ہے اور کونسی پالیسی کیسے بے وقعت ہے۔اس میں سب سے جو بہترین طریقہ رہا ہے دنیا کے اندر کامیاب پالیسی نفاذ کے سلسلے میں وہ جامع تجزیہ، اپنی اور دشمن کی قوت، کمزوریوں، مواقع و خطرات کو ممکنہ حد تک اچھی طرح سے سمجھنا اور آخر میں ان تمام کو موجود مخصوص زمان و مکان کے دائرے میں پرکھ کر جو شئے قابلِ عمل ہواسکو ٹرائل اینڈ ایرر” کی بنیاد پر تجربے کی کسوٹی پر سے گزارنا ہے اوراس دوارن خدا جانے کتنی بار پالیسی نفاذ کیے آزمائشی تجربات کے دوران ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کتنی بار اس پالیسی نفاذ میں آزمائشی منصوبے کے نوک پلک سنوارنے پڑتے ہیں، کئی ایک عناصر کو آگے پیچھے اوپر نیچے کرنا پڑتا ہے، اس میں کتنے لوگوں کی ذہنی یا جسمانی توانائیاں خرچی جائیں گی اور کتنا وقت اور اسباب کا زیاں ہوگا تب جاکر کہیں کوئی پالیسی نافذالعمل ہوجانے کی قابل بن جائیگی۔
پروبیبیلٹی یا امکانیات کے اس راہِ کار زار میں رات کو سوچا اور صبح آزمایا جیسی بچگانہ پن کبھی بھی کارگر نہیں رہا ہے اور نہ آئندہ ایسا کوئی معجزہ در آنے کے امکانات ہیں، شماریاتی مضامنین کے طالبعلم اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ منصوبہ سازی یا تحقیق و جستجو میں ٹرائل اور ایررکے دوران معنی خیزیت کی بہت بڑی یا یوں کہہ لیجئے کہ بنیادی اہمیت ہے، معاشی اشاریوں پر تحقیق و تفتیش اور انسانی صحت کے بہتری کے واسطے دواسازی کے لیئے ہونے والی تحقیق و تفتیش میں خود معنی خیزیت کے اندر بہت نمایاں فرق پایا جاتا ہے اسکی بنیادی وجہ یہی ہے معاشی اشاریوں کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں غلطیاں زیادہ اس لیئے برداشت کی جاتی ہیں کیونکہ اگر کوئی معاشی اشاریہ تحقیقی نتائج میں قدرے غلط ہو تو اس سے انسانی جانوں کے زیاں کا احتمال نہیں ہوتا اور بروقت اسکے نقصانات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے، لیکن دوسری طرف اگر دوا سازی کے لیئے ہونے والی تجربی تحقیق کو لے لیں تو اس میں امکانی طور پر سرزد ہونی والی غلطیوں کے لیئے بہت ہی کم حاشیہ رکھا جاتا ہے یعنی اسکے نتائج میں معنی خیزیت کا معیار کافی اوپر رکھی جاتی ہے کیونکہ اس شعبہ کا تعلق براہ راست انسانی زندگیوں اور صحت کے ساتھ ہے۔
تسلسل زندگی ہے، پالیسی پلاننگ اور حکمت عملیوں کے نفاذ کا تسلسل ہی کوئی معنی خیز نتیجے تک پہنچنے کا وسیلہ ہے، پالیسیوں سے ابھرنے والے حالات میں تناؤ اور اسکے نتیجے میں دشمن کی طرف سے تبدیل ہوتی ہوئی تشددد کی نفسیات بہت کچھ سوچنے سمجھنے اور بدلنے پر مجبور کرتا ہے، ثبات بس ایک تغیر کو ہے زمانے میں” اور نتیجہ خیز تغیرپزیری پالسیوں کی تسلسل کا ہی حصہ ہے لیکن بنیادیں نہیں بکھرنی چاہئیں، بنیادیں تب بکھر جاتی ہیں جب آپ تغیر پزیر حالات سے کہیں نہ کہیں تنگ آجاتے ہیں اور گھبرا کر موجودہ حکمت عملیوں کی تسلسل سے نکل کر اپنے لیئے ایک الگ میدان میں نئی پالیسی پلاننگ کی بنیادیں بنانے لگ پڑتے ہیں، اجتماعیت کو تقسیم کی طرف لے جاکر نہ صرف موجودہ پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں بلکہ نئی حکمت عملیوں کی بنیادوں میں بھی علمیت و عقلیت پسندی کے بجائے زاتی ضد، گروہی عناد اور شہرت پسند فیصلوں پر انحصار کرتے ہیں اور اجتماعی جد و جہد کے لیئے کثیرالبنیاد نقصان کا اسباب پیدا کرتے ہیں۔
اگر پالیسی سازی اور پالیسی نفاذ کے دوران جہد میں شامل لوگوں میں سے ہر کوئی اپنی طرف سے اپنی پیش کردہ منصوبے کو لے کر اس بات پر بضد رہے کہ میں نے جو کہا ہے ہا جو ہم نے کہا ہے تجویز کیا ہے چیزیں ویسے ہی چلیں گی تو پھر پالیسی پلاننگ اور حکمت عملیوں کے نفاذ کا بحران ہی سر اٹھائے گا، مرکزیت کا شیرازہ بکھرکر نقصانات کا پلڑا بھاری ہوجائے گا، حکمت عملیوں کے نفاذ کے لئیے ایک تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ہر منصوبہ ہاتھوں سے ہاتھ بدلتا رہتا ہے اور اس تبدیلی کے دوران منصوبے کی تسلسل کو روکنے اور بدلنے کے بجائے منصوبوں پر کام کرنے والے لوگ بدلتے جائیں گے اور حکمت عملیوں کی مرکزیت و اساس و کو برقرار رکھتے ہوئے ان میں موجود سقم اور کمزوریوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، کیونکہ انسانی زندگی کو دوام نہیں، اور ایک پالیسی ساز کسی پالیسی کے کامل نفاذ تک شاید اس پر کام نہ کر سکے لیکن ایک خود پالیسی کو انکے اختتامی نفاذ تک دوام حاصل ہوتا ہے تاکہ مختلف حکمت عملیوں کے نفاذ کے اختتامی تسلسل تک اجتماعی عمل کو کامیاب کیا جاسکے، یہ اجتماعی مفادات کی خاطر کی جانے والی عمل ہے کہ جس کے لیئے مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق لوگ سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور حکمت عملیوں کی ساخت و نفاذ کے لیئے انتھک محنت کرتے ہیں، اگر حکمت عملیوں کے نفاذ کو تسلسل حاصل نہ ہو تو کوئی بہتر سے بہترین حمکت عملی بھی اجتماعی عمل کو فائدہ دیئے بغیر آدھے رستے گروہی، انفرادی اور ذاتی عناد کا شکار ہوکر جمود کے دبیز تہوں میں دب کر غائب ہوجائے گا اور پھر ہر کوئی اپنی طرف سے ایک پالیسی پلاننگ میں جت جائے گا۔
بلوچ قومی تحریک میں جو موجودہ دور ہے اسکو ہم جہدِ مسلسل کے پانچویں دور اور ہمہ گیریت کے حساب سے وسیع ترین جہد کہتے ہیں۔اسکی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہی ہے کہ ماضی کی تحریکیں انتظامی و سیاسی حوالے سے محدود تھے یا پھر ابلاغی ذرائع کی کمیوں کی وجہ سے اتنے تعداد میں لوگوں کو جوڑ نہ پائے جوآج ہم دیکھ رہے ہیں۔ لیکن بلوچ کا سیاسی نفسیات کہیں یا پھر بدقسمتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچ اب تک اتنی نقصان اور دشمنوں کی ظلم و جبر سہنے کے باوجود ایک منظم و متحد سیاسی محاذ تخلیق کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسی ناکامی کی وجہ سے بلوچ آجوئی تحریک گوناگوں مسائل سے دوچارہے ،اب دشمن بھی اس تحریک سے ایک ہی بار نمٹ کر اسکی جڑیں ختم کرنے کے درپے ہے، اس ناکام منظرنامے کا سب سے اہم وجہ پالیسیوں کی ترتیب کاری اور حکمت عملیوں کی نفاذ کے اندر در آنےوالے مختلف چیلنجز ہیں۔
سیاسی و عسکری دونوں محاذوں پر بلوچ اجتماعی تحریک آزادی کی تسلسل کے سامنے کئی بار رکاوٹیں آئیں، عسکری و سیاسی تنظیموں کو توڑا گیا، گروہی و ذاتی پسند و ناپسند کو مسلط کرنے کی کوششیں ہوئیں، جوابدہی سے انکار کیا گیا، تحریک اصولوں سے انحراف کیاگیا، قومی اجتماعی طاقت کو ذاتی اور گروہی مفادات کے لیئے دشمن کے بجائے خود بلوچ کے خلاف استعمال کیا گیا، پاپولر فیصلوں اور سطحی و وقتی پذیرائی پر انحصار کیا گیا، بیرون ملک بلوچ جہد آزادی کی سفارتی محاذ پر کام کرنے والے لوگوں کو متنازع بنایا گیا، سب سے بڑی اور تشویشناک نظریاتی انحراف کا عمل یہی کہ بلوچ گل زمین کے ایک مقبوضہ حصے سے محض اپنی ذاتی مفادات و گروہیت کی دوام کے واسطے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے گولڈاسمتھ لائن کے اس پار ہونے والی بلوچ نسل کشی کا مذاق اڑایا گیا علاوہ ازیں بلوچ کو ایرانی و پاکستانی قابض و مقبوض کے سادہ و سہل ترین تشریح سے ہٹاکر اسے قبائلیت، سرداریت اور مڈل کلاسی چورن سمیت گروہیت و پارٹی بازی میں الجھایا گیا۔ حکمت عملیوں کے نفاذ کے راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی بہت ساری ایسی سرگرمیاں ہیں جنکی اگر باریکی سے نقطہ بہ نقطہ احاطہ کیا جائے تو کتابوں کی کتابیں بھرجائیں۔
مگر ہماری نظریں ان پر ہیں جو اس کاروان کی آبیاری کے معمار تھے اور اب اسی کاروان کے بکھرے حصوں کو جوڑنے کی عمل میں خاموشی سے مگر استقامت کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، شومئی قسمت کا ماجرا نہ ہوتا اور تسلسل کی روانی میں رکاوٹیں نہ ڈالی جاتیں، حکمت عملیوں کی نفاذ میں روز نئی من مانیاں اور ذاتی و گروہی عناد و مفاد رکاوٹ نہ بنتے تو آج برسرزمین اور عالمی سطح پر بلوچ جہد آجوئی کی شناخت اور پذیرائی کا معیار و گراف الگ ہی مقام پر ہوتے لیکن یہاں ہر کوئی لیڈر ہے، ہر کوئی منصوبہ ساز ہے، ہر کوئی تحریک میں شامل ہونے کے بعد اپنے پسینے اور لہو کی بوندوں کا حساب رکھ کر احسان جتانے میں لگ جاتے ہیں، تحریکی راہِ کارزار میں کندن بن جانے کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ کر حکمت عملیوں کو تسلسل دینے والے لیڈرشپ سے یہ کہہ کر راہیں جدا کرتے ہیں کہ قربانی ہم دے رہے ہیں تو حکمت عملیاں بھی ہم ہی بنائیں گے اور فیصلے بھی ہمارے ہی ہونگے، کہتے ہیں کہ بہتی لہو ہماری اور جسم سے نکلتے پسینے اور آنکھوں سے ٹپکتے آنسو، جب درد کا یہ ورثہ کامل ہمارا تو تحریکی وراثت اور رہنمائی کی خواہش کیوں نہ ہم کریں۔روز کی بنتی بگڑتی یہی کہانی بلوچ اجتماعی دکھوں اور دردوں کا بھرپور آئینہ دار ہے، لہو کے دھار سے زیادہ اہم ہے بہتی ہوئی لہو کا سمت، لہو کی قربانیاں پیمانے سے نہیں سمتوں کے اعتبار سے معتبر ٹھہرتی ہیں۔