دوشنبه, اکتوبر 7, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ دانشور اور ریاستی حربے تحریر:زبیر بلوچ

بلوچ دانشور اور ریاستی حربے تحریر:زبیر بلوچ

ہمگام کالم : دنیا کے جس تحریک کو بھی جانچ کر دیکھا جائے اس پر قابض ریاستی اداروں کا کردار ہمیشہ سے ظالمانہ رہے ہیں۔ دنیا کی بے شمار کامیاب تحریکیں ایسی بے شمار ادوار سے گزری ہیں جہاں قابضین نے ظالمانہ حربے برو اے کار لاکر بےدردی سے قوموں کی نسل کشی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہیں۔ان سامراجی قوتوں کو قوموں کی فلاح وبہبود سے کوئی سروکار نہیں ہوتی، یہ صرف اور صرف اپنے مزموم عزائم کی تکمیل اور مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے محکوم اقوام کو جبراً اپنا غلام بنا کر
مادی استحصال سے لیکر انہیں زہنی غلام تک بنانے میں مختلف ہھتکنڈے بروئے کار لاتے ہیں۔ تاریخ ِ عالم سامراجی قوتوں کی ایسی انسانیت سوز حرکات سے بھری پڑی ہے، جہاں قابضین نے محکوم اقوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی اس جرائم کو دنیا کے سامنے آب زم زم سے زیادہ پاک و صاف ظاہر کرنے کی سعی کی ہے۔

حالیہ دنوں میں خاران میں فوج کی جانب سے ایک سنٹر کا قیام وجود میں لایا گیا ہے، اور باقاعدہ اس کا افتتاح آئی جی ایف سی، کمانڈنٹ خاران، کرنل اور پولیس کے کچھ چاپلوسوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔ بقول ِ ان کے جسکا بنیادی مقصد یہاں معذور لوگوں کیلئے ایک ٹرینینگ سینٹر، اور تربیت گاہ کا قیام وجود میں لانا ہے۔ مزید یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہاں ان کی زہنی نشوونما سے لیکر جسمانی تربیت تک کے عمل کو پورا کیا جائیگا، لیکن یہ سب پروپیگنڈے اور بے بنیاد مفروضے ہیں۔ جو یہاں سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔ ایک طرف دانشور، اسٹوڈنٹس، ادیبوں اور اساتذہ کو غائب کیا جارہا ہے ان کو مختلف ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بناکر بےرحمی سے شہید کیا جارہا ہے اور دوسری جانب لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے معذوروں کے نام پر سنٹر و نت نئے سازش رچھایا جارہا ہے کہ جی ہم یہاں معذوروں کی فلاح وبہبود کیلئے کوشاں ہیں۔ اس منطق کو سمجھنے میں کسی الجبرا یا راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ جب اسی فوج کے جانب سے بلوچ قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے تو دوسری جانب کیونکر اسی فوج کی جانب سے معزور بلوچوں کے لیے علاج و معالجہ کی بندوبست کی جاتی ہے۔ بلوچ قوم اب ریاست کے حربوں کو سمجھ چکی ہے۔ اب مزید اس طرز کے ڈرامہ بازی سے کام نہیں چلنے والا۔ یہ ڈرامے صرف اور صرف حقیقت کو چھپانے اور لوگوں کو اپنے ساتھ ضم کرنے کیلئے کی جارہی ہیں اس طرح کے سینٹرز کے قیام کا مقصد لوگوں کی نفرت، جو قابض پاکستان کے خلاف بلوچ سماج میں پھنپ چکی ہے، کا خاتمہ کرنا ہے۔ اور
اس طرح کے سنٹر لوگوں کی آمد ورفت کو بڑھانے کیلئے بھی استعمال کی جارہی ہیں تاکہ قابض فورسز مزید ایسے آلہ کار پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکے جس سے
جہد کاروں کو آسانی سے کاؤنٹر کیا جاسکے۔ جو اس وقت جنگ میں کمربستہ ہوکر قومی ننگ وناموس کی خاطر اپنے سرزمین کے سنگلاخ پہاڑوں میں اپنی قومی زمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں۔

اس طرح کے ریاستی حربوں کو مدنظر رکھ کر اب بلوچ قلمکاروں اور ادیبوں کے سامنے ایک اہم سوال ابھر کر عیاں ہوتی ہے کہ وہ کس طرح استحصالی قوتوں کی جانب سے اس طرز کے ہتھکنڈوں سے قوم کو بیدار کرینگے، تاکہ سماج کے ہر طبقے کو قابض ریاست کے مزموم عزائم سے شعور و آگاہی دی جاسکے۔ اس طرح کے حربوں کو بے نقاب کرنا بلوچ نوجوان ادیب و لکھاریوں کی زمہ داری بنتی ہے، جو اس وقت قلم اٹھانے سے کتراتے ہیں اور جس کی خاموشی سامراجی قوتوں کی ظلم کو دوام بخشنے کی مترادف ہے ، یہ جنگ سب باسیوں کی جنگ ہے اس لیے اس کو قومی جنگ کہا جاتا ہے۔ اس قومی جنگ میں نوجوانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بساط کے مطابق تحریک میں اپنا کنٹروبیوشن ڈالیں تاکہ یہ لہریں تیزی سے اپنے منزل مقصود کی جانب رواں دواں رہیں۔

سماج میں قلمکاروں ، ادیب، زی شعور افراد ہی وہ طبقے ہوتے ہیں جنکی وجہ سے قومی تحریک میں ایک خاص توانائی پیدا ہوتی ہے۔ انقلاب فرانس اور اس کے بعد دنیا میں نمودار ہونے والے انقلاب میں دانشور اور قلمکاروں کی مثبت کردار ہی انقلابات کی آکسیجن تھیں۔ فرانس میں والٹیر سے لیکر روسو تک ایسے بے شمار دانشور مل جائینگے جنہوں نے قوم کو بیدار کرنے کیلئے اپنی پوری زندگیاں وقف کی تھی اور ہمیشہ کیلئے تاریخ کی سرخ اور رنگین پلکوں میں امر ہوگئے۔

انقلاب کو پروان چڑھانے کی زمہ داری صرف سرمچاروں کے کندھوں تک محدود نہیں رکھنی چاہیے، ہمیں اس تحریک کو وسعت دینا ہوگا اور سماج میں رہنے والے ہر طبقے کی کنٹروبیوشن ہونا ضروری ہے، لازمی نہیں کہ سب ایک راہ پر گامزن رہیں بلکہ ہر ایک اپنے صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر تحریک میں اپنا حصہ ڈالیں تب جاکر تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوجائیگی۔

ًمحکوم قوم کے سرزمین پر قابض کی طرف سے بنائی گئی جتنی بھی پالیسیز ہوتے ہیں وہ ان کی قبضے کو دوام بخشنے کے لیے ہوتے ہیں، اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ہوتے ہیں، اکثر اس طرح کی قوتیں اپنے اپکو گرگٹ کی شکل میں رکھتے ہیں تاکہ حالات کا جائزہ لیکر اپنے اپکو تبدیل کردے۔ یعنی یہ کبھی بھی ایک ڈائریکشن میں نہیں ہوتے اپنے تسلط کو دوام بخشنے کیلئے یہ کچھ بھی کرگزرتے ہیں۔

ریاست پاکستان کا اب ایک انوکھا حربہ ملٹری اسکولز، ملٹری کالجز، ملٹری ہسپتال اور معذوروں کیلئے ایک ملٹری اسکول کے قیام کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ جو یقیناً بلوچ قومی غلامی کو مزید مستحکم بنانے کی نیا ہھتکنڈا ہے۔بلوچستان کے طول وعرض میں اس وقت ایسی بےشمار چیزوں پر کام تیزی سے جاری ہے، جس کا خاص مقصد یہی ہے کہ کس طرح بلوچ قوم کی دل و دماغ پر غلبہ حاص کرکے جہد کاروں کو کاؤنٹر کیا جاسکے اور کس طرح پوری دنیا کے آنکھوں میں دھول ڈال کر انھیں اندھیرے میں رکھ کر بلوچستان کی حالات سے غافل رکھا جاہے۔ لیکن بلوچستان اب دنیا کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جو ایک جنگ زدہ علاقہ ڈکلیئر ہوچکا ہے۔ جہاں انسانی حقوق کی پامالیوں سے لیکر جنگی قوانین کی خلاف ورزیاں روز کی معمول بن چکی ہیں۔ پاکستان ہائے دن بین الااقومی قوانین کو پاؤں تلے روند رہا ہے۔

مسنگ پرسنز جیسے مسائل تقریبا اب پوری دنیا میں نہیں ہے، جتنی بار تاریخ کی اوراق کو پلٹنا شروع کریں تب بھی ایسے سوز ناک واقعات کا وجود نہیں مل پاہیگا، جس طرح بلوچوں کو لاپتہ کرکے ان پر غیرانسانی تشدد کی جاتی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے بلوچستام میں مقیم غیر سیاسی بلوچ یہ سمجھ لیں کہ یہ ہماری قومی بقاہ کیلئے قابض ہیں یا ننگ وناموس کو تار تار کرنے کیلئے؟ اب کس جواز کے بنیاد پر آنکھوں میں پھٹی باندھ لیں کہ فوج ہماری فلاح وبہبود چاہتی ہے۔؟ انہیں فوج کے ہاتھوں پورے ایک قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے بلوچ نوجوان، جنہوں نے دن رات ایک کرکے اس تحریک کو توانائی بخشی ، جو اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ٹارچر سیلوں میں بند ہیں، جنکی پکار ہر صبح لاپتہ افراد کے لواحقین کی شکل میں کانوں میں گھونجتی رہتی ہیں۔

اس ضمن بلوچ ادیب، دانشوار ،قلمکاروں کے کندوں پر بڑی زمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔ پاکستانی قبضے اور ان کے حربوں کو لیکر بلوچ سماج میں شعور و بیداری کے آبیاری کرنا انہیں طبقے کی اولین فرائض میں شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز