تحریر: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

         ہمگام آرٹیکل

ہم “بلوچ” نہ دنیا کی پہلی قوم ہیں اور نہ ہی آخری جو اپنی قومی شناخت کی بنیاد پر نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا میں طاقتور گروہ، طبقات، ریاستیں اور حکومت ہزاروں سالوں سے کمزور معاشروں، مذہبی اور نسلی اقلیتوں اور قوموں کا استحصال وقتل عام کرتے آرہے ہیں۔ آج بھی اس کرہ ارض پر ہم بلوچوں جیسے متعدد اقوام بستے ہیں، جنہیں اپنی ہی سرزمین پر بدترین جبر اور مظالم کا سامنا ہے۔ وہ تمام اقوام جو نسل کشی کا سامنا کر رہی ہیں، ان میں سب میں یہ امر مشترک ہے کہ وہ اس دنیا کے سیاسی آرڈر میں انتہائی کمزور حیثیت رکھتے ہیں اور فاشسٹ و جابر قوتیں جو نسل کشی کر رہی ہیں، وہ ایک طاقت اور مضبوط حیثیت رکھتے ہیں۔ مظلوم اقوام اپنی نسل کشی کو صرف اس بنیاد پر روک یا ختم کر سکتی ہیں، جب وہ اپنی کمزور حیثیت کو تبدیل کرنے پر آمادہ ہوں۔ اس کے علاوہ نہ انہیں کوئی غیبی طاقت مدد کر سکتی ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی دوسرا قوم، ملک، قانون یا ادارہ انہیں تحفظ دے سکتا ہے۔

شاید یہ انسانی سماج کی فطرت ہے کہ یہاں طاقتور اور کمزور آپس میں دو انتہاؤں کے تضاد کی صورت میں وجود رکھتے ہیں اور چونکہ یہ دونوں عناصر آپس میں انتہاء کے تضاد ہیں، اس لیے دونوں میں سے ایک کا ختم ہونا فطری ہے۔ اس لیے ہر وقت یہ دونوں تضاد ایک دوسرے کے خلاف آپس میں انتہائی درجے تک ٹکراتے رہتے ہیں اور اس ٹکراؤ کے سبب ان دونوں میں سے ایک اپنی فطری توازن کھو بیٹھے گا اور ختم ہو جائے گا جبکہ دوسرا ایک نئی حقیقت کے طور پر ازسر نو وجود میں آئے گا۔

آج ہم بلوچ بحیثیت قوم اس تضاد سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی کمزور حیثیت کے سبب ایک خطرناک نسل کشی کا سامنا ہے اور اپنی ہی دھرتی پر انتہائی ذلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک بزرگ بلوچ ماں کا جوان بیٹا گزشتہ ۱۵ سالوں سے ریاست کے ٹارچر سیلوں میں بلوچ ہونے کی جرم پر سزا کاٹ رہا ہے اور اس ماں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ان درندوں کے ٹارچر سیلوں میں انسانوں کے ساتھ وہ سلوک برتا جاتا ہے جس سے انسانیت شرمسار ہو جائے۔ پھر گھر میں موجود اس اکیلی ماں کی حالت کیا ہو گی، جو دن رات اپنے بیٹے کے بارے میں سوچتی رہتی ہے، ان پندرہ سالوں کے سینکڑوں دن اور رات اس نے تاریک تنہائی میں کیسے گزارے ہوں گے، یہ درد، تکلیف، اذیت اپنی جگہ جب وہ اپنے اس نوجوان بیٹے کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہے، آواز اٹھاتی ہے، احتجاج کرتی ہے تو ریاست پاکستان کے سپاہی اس ماں کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے لے جاتے ہیں، اس کی سر کی چادر کھینچ کر زمین پر پھینکی جاتی ہے اور درد کے آنسو سیلاب کی طرح بہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ صرف اس ماں کی نہیں بلکہ

 بلوچوں کی اجتماعی تذلیل ہے۔

شاید ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم انسان ہیں، محسوس کرتے ہیں، احساسات رکھتے ہیں، اس لیے جب ہم اپنی اجتماعی تذلیل کو دیکھتے ہیں تو ہماری روح کانپ جاتی ہے۔ ایک معصوم سا بچہ جس کے پیدا ہوتے ہی اس کے والد کو جبری گمشدہ کیا گیا اور اس کی ذہن اور تصور میں بھی اس کے والد کی کوئی یاداشت محفوظ نہیں ہے، وہی بچہ ایک بھیڑ میں بندوق بردار وردی والوں کو اپنی والدہ پر تشدد کرتے دیکھ رہا ہوتا ہے، اس معصوم بچے کی بے بسی ہمارے انسانی وجود کو چیر دیتی ہے اور بلوچوں کی بے بس ہونے کا شدید احساس دلاتی ہے۔

جب بے بس بلوچ مائیں اپنے لخت جگروں کی یاد میں عرش کو ہلا دینے والی فریاد کرتی ہیں تو یہ اذیت ناک لمحے ایک زندہ انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ جب اس نوجوان لڑکی کی کہانی سنتے ہیں جسکے منگیتر کو 10 سال قبل جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور وہ آج تک اپنی زندگی میں نہ ایک قدم آگے جا سکتی ہے اور نہ ایک قدم پیچھے، اس کی زندگی اس مقام پر رکی ہوئی ہے جس لمحے اس کے منگیتر کو اس کی آنکھوں کے سامنے محافظوں کے نام پر موجود قاتل اغواء کرکےلے گئے، اس لڑکی کی زندگی ہمارے لیے وہ اجتماعی درد ہے جس کو ہم بیان بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

بلوچستان کے قصے اور کہانیاں صرف جبری گمشدگیاں اور قتل عام تک محدود نہیں ہیں، بلکہ میں سوچتی ہوں ہمارے ہی سرزمین میں ہمارے لیے کیا محفوظ رکھا گیا ہے؟ چاغی سے لے کر پروم تک کے ڈرائیور شدید اذیت، گرم اور انتہائی مشکل حالت میں بارڈر پر گاڑیاں چلاتے ہیں، تاکہ گھر میں ان کے بچے دو وقت عزت کی روٹی کھا سکیں، لیکن ان ڈرائیوروں کو گرم سلاسنر پر سزا کے طور پر پاؤں رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تپتی دھوپ میں پیدل چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے، ریگستان میں گاڑیوں کے انجن میں مٹی ڈالی جاتی ہے اور سینکڑوں کلومیٹر کے اس ریگستان میں بلوچ ڈرائیور پیاس سے مر جاتے ہیں، یہ کونسی زندگی ہے جسے ہم جی رہے ہیں؟

ڈی جی خان میں کینسر کے سبب ہمارے لوگ ایسے مر رہے ہیں جیسے کوئی وباء پھیلی ہوئی ہو، ہر دوسرے روز ایک خبر سامنے آتی ہے کہ ڈی جی خان میں فلاں بلوچ کینسر کے سبب انتقال کر چکا ہے۔ روڈ ایکسیڈنٹ میں ہر سال ہزاروں لوگ قتل ہو رہے ہیں، جی ہاں! قتل ہو رہے ہیں، یہ کوئی قدرتی موت یا حادثے نہیں ہیں بلکہ باقاعدہ قتل ہیں جس میں ہمارے سماج کے انتہائی پڑھے لکھے اور قابل لوگ مارے جا رہے ہیں۔

کراچی میں ہزاروں بلوچ نوجوان گینگ وار اور منشیات کے نام پر قتل کیے جا چکے ہیں اور لیاری، ملیر سمیت دیگر بلوچ علاقوں میں ریاستی فوج کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی نے ہمارے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ گوادر میں ترقی کے نام پر ہمارے ماہی گیروں سے ان کا سمندر چھینا گیا، پدی زِر کو میرین ڈرائیو کا نام دے کر ہزاروں سالوں سے وہاں رہنے والے ماہی گیروں کے لیے اسے ریڈ زون بنا دیا، بلوچ ماہی گیروں کی معاشی قتل عام کے لیے ٹرالر مافیا کو کُھلی چھوٹ دی گئی ہے، جو بحر بلوچ میں آبی حیات کی نسل کشی کر رہے ہیں۔

اس درد، تکلیف، مشکلات، اذیت اور تذلیل سے بھری زندگی میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمارے پاس ایک راستہ خاموشی اور درگزر کا ہے جس کے لیے ہمیں اپنی انسانیت، بلوچیت، احساسات اور ادراک سب کچھ ختم کرنا ہو گا، اپنے ضمیر کا مردہ ہونے کا اعلان کرنا ہو گا، اس ذلت آمیز زندگی کو قبول کرنا ہو گا۔ دوسرا راستہ بغیر کسی اگر مگر کے مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ ہے، ظلم اور جبر کے خلاف بولنے کا راستہ ہے، زندہ ضمیر ہونے کا راستہ ہے، اپنی قومی ذلت کے خلاف جدوجہد کرنے کا راستہ ہے، اپنی قوم کے لیے کھڑے ہونے کا راستہ ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

بلوچ راجی مچی ہمارا اجتماعی قومی حوالے سے دوسرا راستہ ہے۔ بلوچ راجی مچی پاکستان کے انسانیت کش ٹارچر سیلوں میں بند ہمارے نوجوانوں کی بازیابی کے لیے ہے، بلوچ راجی مچی پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہمارے ہزاروں لوگوں کو انصاف دلانے کی ایک جدوجہد کا آغاز ہے، بلوچ راجی مچی زامران سے لے کر ماشکیل تک ہمارے ڈرائیوروں کے حقوق کے لیے ہے، بلوچ راجی مچی بلوچ ماہی گیروں کے معاشی حقوق کے لیے ہے، بلوچ راجی مچی نصیر آباد کے بلوچ کسانوں کے لیے ہے، بلوچ راجی کراچی میں ہزاروں بلوچوں کے قتل کے خلاف ایک تحریک ہے، بلوچ راجی مچی ڈی جی خان میں دانستہ پھیلائے گئے کینسر کے خلاف ایک جنگ ہے، بلوچ راجی مچی مغربی بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کو پھانسی پر لٹکانے کے خلاف ایک آواز ہے، بلوچ راجی مچی بولان کے سرمئی پہاڑوں سے لے کر مکران دشت کے میدان تک بلوچوں کے لیے ایک امید ہے۔ بلوچ راجی مچی بلوچوں کی کمزور حیثیت کو وقت کے جابر اور ظالم کے خلاف ایک طاقت اور قوت میں بدلنے کے لئے ایک عوامی جدوجہد کا آغاز ہے۔ اس لیے بلوچ راجی مچی ضروری ہے اور اب ہر بلوچ کے لیے کوہ سلیمان سے لے کر کرمان تک راجی مچی میں شمولیت فرض ہو چکا ہے۔