بلوچ معاشرے میں عورت کا مقام مرد کے برابر لیکن ایک کمزور حیثیت کی مالک ہے بلوچ لے کبھی عورت کی حکمرانی کے بارے میں بھی مخاصمانہ رویہ نہیں اپنایا قلات بیلہ اور دیگر قبائلی علاقوں میں ماضی کی تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں جہاں عورتوں نے حکمرانی کی اپنے دربار لگائے انتظامیہ چلائی اور جنگ کے میدان میں فوجوں کی قیادت کی جسٹس رحمان کے بیٹے اسد رحمان جنہوں نے 1970ء کے دوران لندن گروپ کے دیگر ارکان کے ساتھ بلوچ مزاحمتی تحریک کے دوران حصہ لیا اپنے ایک حال میں شائع ہونے والے مضمون میں ایک ایسی بلوچ عورت کا ذکر کیا جو اپنے کیمپ میں تنہا تھی اس عورت نے جب ایک فوجی پلاٹون کو آتے دیکھا اسلحہ اُٹھا کر کے مقابلے پر ڈٹ گئی اور کئی گھنٹوں تک اس پلاٹون کو روکے رکھا جب تک قرب و جوار کے لوگ وہاں نہیں پہنچ گئے وہ عورت اس دوران شدید زخمی ہوگئی اور بعد میں فوت ہوگئی۔
بلوچ متھیالوجی سماجی زندگی اور تاریخ میں بھی عورت کی حکمرانی اور سربراہی کا نمایاں ذکر ملتا ہے۔ بلیلی جو بال کی بیوی تھی دیوی اور حکمران بن گئی اور پہلی بار بال نے اپنی بیوی کے خلاف بغاوت کی بال سے بالس کا لفظ نکلا ہے (ایم ایس خان بلوچ 1958ء) عورت سے نسل کا چلنا آج بھی رائج ہے جانے پہنچانے جنرل شیرمحمد مری سابق چیف جسٹس بلوچستان میر خدا بخش مری اور راقم زیندوزئی کہلاتے ہیں زیندو ہماری پردادی تھی ان کے نام پر کوئٹہ میں ایک سڑک زیندو سٹریٹ بھی ہے۔
بلوچ کلاسیکی شاعری میں شاعرہ سیمک اپنے مرحوم شوہر کو کسی اور خطاب سے پکارنے کے بجائے ساتھی کے لفظ کا استعمال کرتی تھی جوکہ بذات خود جسنی مساوات کی علامت ہے یہ سیمک کی طرف سے اس بات کا اظہار تھا کہ اسے گھر میں محدود رہتے ہوئے جمود کا شکار ہونا منظور نہیں وہ دیگر آزادیوں تک رسائی حاصل کرکے آزادیوں تک رسائی حاصل کرکے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھی (حکیم بلوچ 2000ء)۔
ایک ایرانی رزمیہ کے مطابق سیمک اور سیامیکی سے پندرہ نسلیں چلیں (کلیمنٹ ہورٹ 192) بلوچ رزمیہ شاعری کی ایک اور مزاحمت کا نمونہ بی بی مہناز ہے جسے میر چاکر کے بیٹے میر شہداد نے طلاق دے دی تھی تاریخ فرشتہ کے مطابق شہداد برِصغیر میں شیعہ مذہب کا پہلا مبلغ تھا مہناز نے شہداد سے طلاق کے بعد ایک عام بلوچ سے شادی کی تھی جو جسمانی طور پر کچھ معذور بھی تھا یہ رزمیہ نظم میں بتاتی ہے کہ شہداد نے ایک مرتبہ مہناز پر شوہر کے انتخاب پر طنز کیا تو مہناز نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہ اومر سے شادی کرکے اسے ہر طرح سے فخر محسوس ہوتا ہے اور اگر تجھے مزید دولت کی خواہش ہے تو سخی رند تجھے بہت کچھ دے سکتا ہے اور اگر تو بے اولاد ہے اور بیٹے کی خواہش رکھتا ہے تو اومر کی رضامندی سے میں تجھے ایک دیوتا کی طرح کا بیٹا سونے کے جھولے میں ڈال کر دے سکتی ہوں اسی طرح بلوچی شاعری کا ایک اور نسوانی کردار ہانی ہے جسے میر چاکر اس کے محبوب شاہ مرید سے جدا کر دیتا ہے تو قوہ میر چاکر سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ میں تسلیم کرتی ہوں کہ تو تمام رند حکمرانوں میں سب سے طاقتور حکمران ہے مگر تو شاہ مرید کی ہمسری نہیں کر سکتا۔
پاکستانی معاشرے کے حوالے سے دو بنیادی اور حساس نوعیت کے مسائل جو مختلف سطح پر اٹھائے جاتے ہیں اگرچہ غیرواضح انداز میں عزت کی خاطر قتل اور عورت کی حیثیت بطور مرد کی ملکیت لیکن جب ہم بلوچ معاشرے کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ہمیں خود کو بلوچ روایات آئیڈیل اور اقدار تک محدود رکھنا ہوگا جو پاکستان کی دیگر برادریوں کے بالکل الٹ ہیں جہاں تک عورت کی حیثیت کا تعلق ہے بلوچ کا آئیڈیل رویہ اور اس کی اقدار کا تعین عزت کے تصور سے ہوتا ہے جو ایک اخلاقی برادری اور مورل کمیونٹی کی تشکیل کے لئے ضروری ہے یہاں ایک اخلاقی برادری محققین بلوچ معاشرہ کو اخلاقی برادری یا مورل کمیونٹی قرار دیتے ہیں اس سے مراد افراد کا ایسا گروہ جو دولت اور رتبے کے لحاظ سے ایک الگ خصوصیت رکھا جانے اور پہچان کے اور ایک دوسرے سے بے نیاز ہونے کے باوجود یکساں معیار اور اقدار کی پابندی انہیں ایک ہی سطح پر رکھتی ہے ان مضمون میں اخلاقی برادری ان عوامی ماڈل اقدار اور رویوں سے تشکیل پاتی ہے جن سے افراد باہمی طور پر ایک دوسرے کو اپنا ہمسر تسلیم کرتے ہین بالفاظ دیگر بلوچ شناخت ایسی مشترکہ اقدار اور قابل تقلید رویے سے ابھرتی ہے جس کی بنیاد ایک ایسے کوڈ (زبان) پر ہے جس کی مدد سے ان اظہارات کی نقل کی جا سکتی ہے۔
(Ugo Fabieti-1996, P-5, Marginality and Modernity-Balochistan)
بلوچ زبان جنس کی تخصیص نہیں کرتی بلوچ پس منظر میں عزت کی مرد اور عورت کے تعلقات کے حوالے سے بالخصوص عزت کے لئے سیاہ کاری اور کاروکاری کے ضمن مین غلط توضیح کی جاتی ہے یہاں ایک اور اہم اکیڈمک نکتہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے جیساکہ ایک معروف سکالرڈرخیم نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مسائل آئیڈیلز اور حقیقت کے درمیان براہِ راست تصادم سے نہیں بلکہ مختلف آئیڈیلز کے درمیان محاذ آرائی سے جنم لیتے ہیں جو لوگوں کو اپنے معاشرے کا ادراک کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
بلوچ روایات و اقدار میں مرد عورت کے لئے عزت کا مفہوم الگ الگ نہیں اور یہ کہ شادی رضامندی کا بندھن ہے اور اختلافات کی صورت میں طلاق کا حق دونوں کے لئے مساوی ہے (ڈسٹرکٹ گزیٹرز) طلاق بلوچوں میں خال خال ہے لیکن شوہر اور بیوی دونوں کو اس کا مساوی حق ہے (بلوچستان ڈسٹرکٹ گزیٹر مکران صفحہ 74) ناجائز تعلق بلوچ معاشرے میں محض بیوی کی بے وفائی نہیں بلکہ شوہر بھی اس کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ فریقین میں سے کسی کے بھی قتل کا سبب صرف ناجائز تعلق ہی نہیں بلکہ دغابازی اور دھوکہ دہی بھی ہو سکتا ہے مدینہ کے یہودی دغابازی اور دھوکہ دہی پر سزائیں دیتے تھے بلوچ معاشرے میں عورت بھی بلوچ ہوتی ہے اور عزت، غیرت اور وقار کی خاطر مرد کی طرح ردِعمل دکھانے کا حق رکھتی ہے پچاس سال قبل ایک عورت نے ایک دوسری عورت کے ساتھ اپنے شوہر کے ناجائز تعلقات کو ثابت کرنے کے بعد دونوں کو قتل کر ڈالا تھا یہ مقدمہ ایک بڑے بلوچ جرگہ کے سامنے پیش ہوا تھا وہ عورت ذاتی طور پر جرگے میں پیش ہوئی اور یہ موقف اختیار کیا کہ مرد ناجائز تعلق کی بناء پر عورت کو بلوچ غیرت کی خاطر قتل کر دیتے ہیں اور وہ خود بھی ایسی ہی بلوچ ہے اور اسی طرح کی غیرت رکھتی ہے اس لئے اس نے اپنے شوہر کو قتل کر دیا ہے جرگے نے اس عورت کو باعزت بری کردیا۔
پاکستان کے دوسرے معاشروں میں تو ہو سکتا ہے کہ عورت کو مرد کی ذاتی ملکیت تصور کیا جاتا ہو اور شادی کے بعد وہ زندگی بھر مرد اور اس کے خاندان کی ملکیت قرار پاتی ہے لیکن بلوچوں مین ایسا نہیں۔ بلوچی زبان میں لڑکی کو “باہنہ” بمعنی “بازو” کہا جاتا ہے رشتہ مانگنے کو “اپنا بازو دینے” کے لئے کہا جاتا ہے اور اگر منگنی طے پائے تو کہتے ہیں کہ “بچی کو گھر دیا ہے” تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل بلوچ زرتشت مذہب کے مزدک فرقے سے تعلق رکھتے تھے ایران کے مشرق میں واقع میڈیا زرتشت کی جائے پیدائش ہے۔
زرتشت پیغمبر نے ایرانی حدود کے باہر توران اور ساکاسیتو موجودہ سیستان و بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں تبلیغ کی۔ زرتشت مذہب میں مزدک نے مرد اور عورت کے درمیان مساوات کی تعلیم دی گرچہ بعد میں بلوچوں کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا لیکن بلوچ زرتشت پیروکار آج بھی ایران میں آباد ہیں اگرچہ وہ اپنے عقیدے کا کھلے عام اظہار نہیں کرتے (ایران افشار سیستانی 1371ء)
بلوچ روایات سندھ اور پنجاب میں ہندی تہذیب و روایت سے متاثر ہوئی ہیں جبکہ براہوئی اور مری علاقے میں پشتون کلچر سے جہاں لب اور ولور جو ڈھیلے ڈھالے مفہوم میں جہیز کے قریب ہے پشتون اثر کا نتیجہ ہے ورنہ جہاں تک بلوچ معاشرے میں عورت کو مرد کی ذاتی ملکیت سمجھنے کا تعلق ہے یہ دعویٰ غلط ہے۔ وہ قابل فروخت جنس نہیں ہے جس کا مرزا طاہر بین الاقوامی سیمیناروں میں کھلے عام پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ بلوچ قابلِ فروخت جنس ہے جتنا چاہے خرید لو (کھٹمنڈو کانفرنس جس میں نائلہ قادری، ثناء بلوچ، ڈاکٹر گچکی وغیرہ شامل تھے) قدیم عہد میں دلہن کی قیمت (لب) نہ تو کبھی طلب کی گئی اور نہ ہی ادا کی گئی اور آج بھی ایک باعزت قبائلی کے لئے لڑکی کی قیمت پوچھنا گھٹیا بات ہے (بلوچستان ڈسٹرکٹ گزیٹر جھالاوان صفحہ 67) ان لوگوں میں جہیز نے جو لب یا دلہن کی قیمت کی جگہ لے چکی ہے زمین (میراث) زیورات (سوھر) وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے یہ جہیز دلہن کی ملکیت بن جاتا ہے یہی بلوچ آئیڈیل اور روایت ہے کہ لب یا زیورات کی شکل میں دلہن کی قیمت اس کا باپ یا بھائی وصول نہیں کرتا بلکہ دلہن کو جاتا ہے تاہم پشتونوں کے زیرِاثر بعض علاقوں میں جس میں مری کے کچھ فرقے شامل ہیں نقد یا جنس کی صورت میں جو لب طلب کیا جاتا ہے وہ دلہن کےباپ یا بھائی وصول کر لیتا ہے تاہم اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا (ڈسٹرکٹ گزیٹر) کچھ علاقوں میں لب کا مطالبہ یا وراثت سے انکار جزوی طور پر ساراوان کے علاقے میں بھی رائج ہے جہاں خان قلات میر نصیر خان سے منسوب ایک مثال پیش کی جاتی ہے کہ بلوچ روایات اور شریعت کے خلاف عورت کو وراثت میں اس کا حصہ نہیں دیا گیا یہ رسم کہا جاتا ہے کہ نصیر خان اول نے شروع کی جس کی سات بیٹیاں تھیں جو اس نے مختلف سرداروں سے بیاہی تھیں لباس اور زیورات کے سوا جائیداد سے انہیں کوئی حصہ نہیں دیا (ڈسٹرکٹ گزیٹر جھالاوان صفحہ 69) بعد میں ریاست میں شرعی وراثت کا نظام رائج کیا گیا جو آج بھی بیشتر بلوچ علاقوں میں جاری ہے۔
تاہم وسطی بلوچستان میں بلوچ رند اور دیگر بلوچ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو مساوی حصہ دیتے ہیں بیٹیوں کو برابر کا حصہ دینے کا جواز بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ بیٹے کی یہ طاقت کہ وہ ڈاکہ زنی، رسہ گیری اور اس طرح کے دیگر کام کر کے اپنا گزارا کر سکتا ہے۔ ایک کمزور عورت کو حاصل نہیں اس رسم کی وجہ بیان کی جاتی ہے (ڈسٹرکٹ گزیٹر مکران صفحہ 76)
ساحلی علاقوں کے میدوں میں بیٹیوں کو کشتیوں اور ماہی گیری کے ساز و سامان میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا ہے بلکہ ان کے برابر حصے کی مساوی نقد رقم ادا کی جاتی ہے اگر بلوچ معاشرے میں بیوی اور شوہر کی دولت شمار کی جائے اور اس کا موازنہ وراثت میں بیوی کے حصے اور لب میں اس کے پورے حصے سے کیا جائے تو ڈسٹرکٹ گزیٹر یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اگر شوہر کے تعلقات اپنی بیوی سے اچھے نہ ہوں تو اسے اپنے اور اپنے متعلقین کا گزارا چلانے میں بہت دشواری پیش آئے گی اس لئے اپنی بیوی کی بالادستی کو تسلیم کئے بغیر ان کے لئے کوئی اور چارہ نہیں۔
ایک بلوچ عورت وراثت میں اپنے حصے اور لب کی مالک ہونے کے علاوہ اپنے شوہر کی موجودگی میں آزادانہ طور پر کاروبار بھی کر سکتی ہے جبکہ شوہر روزمرہ کے اخراجات اٹھاتا ہے کیونکہ یہ اس کا فرض ہے۔
تاریخ میں بہت سی مالدار بلوچ عورتوں کا ذکر ملتا ہے مثلاً گوہر، ہیری، سمی وغیرہ جبکہ آج بھی بہت سی ہیں۔ عورت کو اپنی دولت کو اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق استعمال کرنے کا پورا اختیار ہے اس کی موت کے بعد عام طور پر اس کا ورثہ شرعی قوانین کے مطابق تقسیم ہوتا ہے البتہ زیورات بیٹیوں کو ملتے ہیں۔
مذہبی رسومات خصوصاً ذکری رسومات جوکہ بلوچی زبان میں ادا کی جاتی ہیں اور بلوچی اقدار و روایات پر قائم ہیں مشترکہ طور پر ادا کی جاتی ہیں۔ (ڈاکٹر عنایت بلوچ Marginality and Modernity صفحہ 229 راسخ العقیدہ مسلمانوں کے برعکس بلوچ معاشرے میں شرکت کر سکتی ہیں کوئی سریلی آواز والی عورت یا لڑکی چوگان کی رسم کی قیادت کر سکتی ہے (غفار ندیم 19) مذہبی رسم چاپ کے ساتھ گائے جانے والے روحانی نغمات پر مبنی ہوتی ہے بلوچی چاپ میں جو برِصغیر کے ناچوں سے مختلف ہوتا ہے عورتیں اور لڑکیاں بھی مردوں کے ساتھ شامل ہو سکتی ہیں۔
رواج کے طور پر دولہا اور دلہن سے شادی اور منگنی کے بارے میں ان کی رضامندی حاصل کی جاتی ہے “ہونے والے دولہا کی مرضی یا تو بالکل ہی نہیں پوچھی جاتی یا پھر اگر پوچھی جاتی ہے تو وہ اس معاملے میں اس کے والدین کی خواہش کے عین مطابق ہوتی ہے” دلہن اس بارے میں کچھ نہیں بولتی (مکران گزیٹر صفحہ 71) تاہم ماں کو ان تمام معاملات میں برابری کی سطح پر اپنی رائے دینے کا حق ہوتا ہے۔ تاہم جدید دور میں دولہا اور دلہن کی رضامندی کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر معلوم کی جاتی ہے۔
“مطلقہ عورت کی حیثیت ایک بیوہ کی سی ہوتی ہے اور اسے اپنے قبیلے میں دوبارہ شادی کرنے کا حق ہوتا ہے لیکن اگر اسے بدکرداری کی وجہ سے طلاق ہوتی ہے تو بہت سے قبائل کی رسم کے مطابق اسے اس بدراہی پر ڈالنے والے کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں ہوتی (بلوچستان گزیٹر صفحہ 68) اگر ناجائز تعلق ثابت ہوجائے اور اسے سیاہ کار قرار دیا جائے اور پھر وہ قتل ہونے سے بچ جائے تو اسے دوسری شادی کے حق سے محروم نہیں کیا جاتا لیکن وہ شادی صرف اپنے قبیلے سے باہر ہی کر سکتی ہے اسے اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے جلنے کا حق ہوتا ہے اب سیاہ کار عورتوں کے قبیلے کے اندر شادی پر پابندی ختم کر دی گئی ہے اور وہ اپنے قبیلے میں بھی شادی کر سکتی ہیں۔
اس طرح واقعات میں اگر مرد سیاہ کار قتل ہونے سے بچ جائے تو اسے “استاری” قرار دے کر معاملے کا فیصلہ ہونے تک قبیلے سے نکال دیا جاتا ہے بیوہ کو دوبارہ شادی کرنے یا بچوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دینے کے فیصلے کو اہمیت دی جاتی ہے۔
“ماضی میں باجائی کا رواج رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ مرحوم شوہر کے بھائی کے ساتھ شادی کو ترجیح دے لیکن 1903ء میں رواج ختم کر دیا گیا (مکران گزیٹر صفحہ 76) لیکن باجائی کا یہ رواج کوئی لازمی پابندی نہیں تھا بلکہ اگر کوئی اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تو وہ اپنی بیوہ بھابھی کو اس کی رضامندی سے یا جس سے وہ شادی کی خواہش مند ہو شادی کر دیتا تھا۔ (مکران گزیٹر صفحہ 69) دوسری شادی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں بیواہ اپنی خواہش کا اظہار ایک علامت کی صورت میں کرتی ہے بلوچ عورتیں ایسی کشیدہ کاری والی قمیض زیب تن کرتی ہیں جو سامنے کی طرف گلے کے نیچے کڑھی ہوتی ہے اس کڑھائی کو جیگ کہتے ہیں اگر عورت اپنے شوہر کی موت کے بعد جیگ کو صحیح سالم چھوڑ دے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسری شادی نہیں کرنا چاہتی اور بیوگی کی زندگی گزارنا چاہتی ہے لیکن اگر وہ اُسے اتار دے تو وہ عقد ثانی کرکے دوسری جیگ سجانا چاہتی ہے بیوہ کی دوسری شادی پر کوئی دھوم دھام نہیں ہوتی بلکہ سادگی سے نکاح کر دیا جاتا ہے (ہم نے اپنی جیگ ایک ارادہ لے کر بندھا ہوا چھوڑا ہے سیمک کے اشعار۔ یعنی عقدثانی نہ کرنے کا اعلان)
ماضی میں بھی بلوچ روایات اور رسوم و رواج سے انحراف کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہوتا ہے جیسا کہ درخیم کی رائے کا شروع میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ معاشرہ مختلف آئیڈیلز اور حقیقت کے مابین تصادم کی وجہ سے مشکلات کا شکار نہیں ہوتا بلکہ مختلف آئیڈیلز کی باہمی محاذ آرائی معاشرے کو مسائل سے دوچار کرتی ہے بلوچ سوسائٹی کا آئیڈیل یہ ہے کہ عورت ایک کمزور حیثیت کے مرد کے مساوی درجہ رکھتی ہے بلوچ عورت کا استحصال اور اس پر ہونے والا ظلم اور جبر صرف اسی کی ذات تک محدودط نہیں بلکہ اس کا بھائی عام بلوچ محنت کش بھی ان آلام و مصائب کا شکار ہے حتیٰ کہ پوری بلوچ قوم کی حالت اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے بہتر نہیں یہاں ایک بہت بڑا سوال جواب طلب رہ جاتا ہے کہ بلوچ عورت سے پہلے کون آزاد ہے۔
بلوچ پرولتاریہ یا پوری بلوچ قوم ہمیں اس کا ایک جواب مشہور سکالر اور ایتھنولوجسٹ کیرول میک لیون فراہم کرتا ہے بلوچ قومیت میں مکمل شرکت کی چمک دمک اور اپنے لسانی شعور کی رجعتی ضروریات کے درمیان پھنسی ہوئی ہے بلوچ لسانی شعور کو اتھلی اور روایات کی سختی ایجاد نہیں (Fox 1992-13) بلکہ موجودہ ثقافتی ذخائر کی مدد سے دنیا میں اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش ہے بلوچ قومی شعور کے پس پردہ حقیقی اور محسوس ہونے والی کمزور پوزیشن ہے جو اسے جدید دور میں بلوچ عوام (مرد اور عورت دونوں) کو اپنی حیثیت منوانے کی جدوجہد کا عزم عطا کرتی ہے۔
حرف آخر: بلوچ قومی استحصال کے ساتھ ساتھ بچوں، خواتین، محنت کش کے استحصال سے انکار ممکن نہیں جس طرح پروپیگنڈہ کرکے بلوچ قوم اور روایتوں کو بدنام کرنے کا سامان کیا جاتا ہے وہ قابلِ مذمت ہے آج بلوچ قوم من حیث القوم محکوم ہے تمام فیصلے، قانون سازی اور قانون کے نفاذ کا ذمہ دار حاکم اور ریاستی ڈھانچے ہیں۔ ہم نے بلوچ علاقوں کا حوالہ دیا تھا جنہیں 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں شورش زدہ قرار دیا گیا تھا تو ان علاقوں میں رسمی طور پر جو رسم و رواج اور روایتوں کا اطلاق کیا گیا تھا تو مرد اور عورت چاہے وہ میر ہو، معتبر ہو، میراثی یا جت، سب کو برابر قرار دیا گیا اور کئی فیصلے ان برابریوں کی مثالیں موجود ہیں اب اگر بلوچ آئیڈیل یا روایتوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو آج پورا بلوچستان لاقانونیت، مزاجیت اور انارکی کا شکار ہے ایک چھوٹی مثال لے لیں جو ایک المیہ سے کم نہیں بلوچستان میں سرکاری کوئی ملازم نہ کام کرتا ہے نہ وجود رکھتا ہے سرکاری عمارتیں میر، معتبر اور سرکاری گماشتوں کے قبضہ میں ہیں چنانچہ کسی مطب میں کوئی ڈاکٹر، محکمہ صحت کا تربیت یافتہ عملہ نہیں چنانچہ ہر علاقے میں مقامی کچھ نسبتاً چالاک افراد نے انجکشن لے رکھے ہیں اور ہر مریض کو ایک سرنج سے ڈیکاڈران یا فوری عمومی آرام دینے والی دوائی کے ٹیکے لگاتے ہیں جس سے ہیپاٹائٹس بڑی تیزی سے اندرونِ بلوچستان پھیل چکا ہے کیا اس بدعت کی ذمہ دار بلوچ قوم ہے جو سمجھتے ہیں کہ اس ٹیکہ بازی کے خلاف جتنی گالیوں کی مہم چلائیں قانون سازیں کریں بے شک سزائیں دلوائیں این جی اوز کے سیمینار اور سیمیناروں کی رپورٹ مرتب کریں جب تک ریاستی سطح پر متبادل نہیں ہوگا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی عالم انسانی سوسائٹی کی معومی تبدیلیوں کا ہے یہ تبدیلی ایک فرد، ایک میر، معتبر، سردار یا قبیلہ کے بس کی نہیں اور نہ قومی تحریک کو گالی دینے یا بدنام کرنے کی مہم سے حاصل ہوگا اور اگر ذمہ داری کا تعین کرنا ہے تو ریاست ریاستی ڈھانچہ یا ریاستی حکمران پر تمام ذمہ داری آتی ہے اس سے انکار ممکن نہیں کہ رسم و رواج روایتیں یا قوانین دہائیوں صدیوں یکساں نہیں رہتیں وہ بدلتی ہیں ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق بدلی جاتی ہیں کون جانتا ہے کہ آج مری بگٹی علاقہ سے لے کر کاکڑخراساں تک بلوچ پشتون پندرہ بیس سال کی بچیاں جو آٹھ دس جماعتیں پڑھی ہوئی ہیں میلوں پیدل چل کر مرکزی محکمہ صحت کے “نیشنل پروگرام” کی ملازمت کے لئے کام کے لئے آتی ہیں اور تنخواہ تقریباً ڈیڑہ دو ہزار ماہانہ ہے ہر علاقہ میں درجوں بچیاں یہ ملازمت کر رہی ہیں جب مواقع حاصل ہوتے ہیں تو بچیاں سکول جاتی ہیں مرزا کے پروپیگنڈہ کے تحت وہ نہ رنڈیاں کہلائیں اور نہ ان کی خرید و فروخت کے لئے منڈیاں لگیں۔ چنانچہ بلوچ سوسائٹی میں “مواقع ملنے پر جنس و نسل یا مذہن” کی قید بلوچ آئیڈیل میں نہیں۔