تحریر: پروفیسر حسن جانان

روئے زمین پر مختلف اقوام آباد ہیں جو تاریخی، تہذیبی و تقافتی حوالے سے ایک دوسرے سے جداگانہ شناخت رکھتے ہیں ہر قوم کی اپنی ایک علیحدہ تاریخی تمدنی و تہذیبی ساخت ہوتی ہے جو اسے دوسرے قوموں سے جدا کرتی ہے کچھ خوبیوں و خامیوں کے ساتھ وہ قوم اس دنیا میں اپنی علیحدہ و جداگانہ ساخت کے ساتھ ساتھ اپنی علیحدہ پہچان رکھتی ہے، مختلف تاریخ و پہچان کے ساتھ بھی وہ ایک طاقتور قوم کے زیرعتاب رہتے ہیں اسکی وجہ انکی وہ کمزوریاں ہوتی ہیں جو انھیں دوسروں سے کمتر کرکے ان کا زیر عتاب بناتے ہیں اس روئے زمین پر بہت سے ایسے اقوام رہے ہیں جو اپنی کمزوریوں پر قابو نہ پا سکے اور وقت کے تپیڑے میں آکر اپنی ثقافت سے بے بہرہ ہو کر کسی دوسرے قوم میں جذب ہوگئے اگر قبولیت کا بول بالا رہے گا تو حکمران قوم میں جذب ہونا لازمی امر ٹھہرتا ہے اگر مزاحمت کا دامن پکڑ کر اپنی شناخت بچانے کا جذبہ رہے گا تو یہ یقینی امر ہے کہ وقت کتنا ہی بے رحم کیوں نہ ہو اس قوم کی سلامتی و ہستی قائم رہے گی اس روئے زمین پر بلوچ قوم بھی آباد ہے نصف صدی سے زیادہ غلامی کے خلاف بلوچ آواز اٹھاتا رہا ہے اپنی کمزور مگر پرجوش طاقت کے ساتھ مزاحمت کرتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان و بلوچ کی پہچان برقرار ہے اگر لوگ وطن کے لئے خون نہ بہاتے تو شاہد اس وقت اس پہچان سے بے بہرہ ہوتے جو آج قربانیوں کی بدولت ہمیں ملی ہے دلیر، بہادر، مہمان نواز، سچے، قول پر برقرار، ایمانداری، دوستی، بلوچ قوم کی خاصیتیں رہی ہیں اور یہی چیزیں بحیثیت قوم ابھی تک برقرار ہیں آج ہماری جو پہچان بچی ہے وہ پہچان ان شہیدوں کی مرحوم منت ہے جو وطن کی دفاع و آزاد وطن کے قیام کے لئے قربان ہوئے ان کے خون سے ایک سیدھی سی سرخ لکیر کھینچی گئی جو وطن کی آبیاری کرتا رہا ہے انگریز کالونیلزم سے لیکر آج تک بلوچ اپنی بساط کے مطابق ہر ظالم کے خلاف ڈٹا رہا ہے اور اپنی وطن کی بحالی کے لئے مرتا رہا ہے یہ لوگ جو آج بلوچ سرزمین میں دفن ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے قوم کو زندگی دی ہے جنکی قربانیوں کی بدولت ہر بلوچ کا سر فخر سے اونچا ہیں انھوں نے اپنے بال بچے اپنی زندگی وطن کی دفاع و آنے والے نسل کی روشن مستقبل کے لئے قربان کرکے تاریخ رقم کر دی اور انھی وطن کے سورماؤں کی وجہ سے ہر بلوچ، بلوچ ہونے پر ناز کرتا ہے بلوچ کو بلوچی پہچان دینے میں انھی سورماؤں کا کردار رہا ہے جو ہر میدان میں دشمن کے خلاف سینہ سپر ہو کر اپنی جان قربان کرتے رہے ہیں حمل کی پرتگیزیوں کی لڑائی سے لیکر خان محراب خان بلوچ خان نوشیروانی نورا مینگل و موجودہ صدیوں میں شہداء کے قربانیوں کی بدولت آج بلوچستان بلوچوں کے وطن کے طور پر جانا جاتا ہے جو لوگ اپنی زندگی قربان کرتے ہیں اصل میں وہ کسی دوسرے کی زندگی بچانا چاہتے ہیں وہ ایک قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر قربان گاہوں میں پیش کرتے ہیں تاکہ آنے والی نسل ایک آزاد وطن کے مالک بن سکے دنیا کے دیگر اقوام کی طرح بلوچ بھی اسی روئے زمین پر آزادی کا خواب دیکھ رہا ہے اور بلوچ کا یہ خواب خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کیونکہ بلوچ غلامی سے پہلے ایک آزاد وطن کے مالک تھے وہ اب اپنی اسی ریاست کی بحالی کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور اسی کوشش میں بلوچ وطن کے ہزاروں بزرگ جوان وطن کے لئے اپنا لہو دیکر آزادی کی سوچ کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں انھی کرداروں کی قربانی کی بدولت بلوچ ایک بہادر قوم کی وجہ سے اپنی ایک پہچان بنا لی ہے اور یہی پہچان ہمیں ہمارے قبرستانوں میں ملتی ہے وہ شہداء کی قبرستان ہوتے ہیں جو طبعی موت کے بدلے جنگ و ظلم جبر و بربریت کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں اور ان سے عقیدت کا ایک دن انکی یادآوری ہمارے مردہ روح میں جان ڈالنے کی ایک کمزور کوشش ہوگی تاکہ ہم اپنے آپکو پہچان سکے اپنے وطن پر قربان ہونے والے ان شہیدوں سے عہد کر سکے کہ وہ ہماری بہتر مستقبل بنانے کے لئے شہید ہوئے اور ہم ان سے عہد وفا کرکے ان کے فکر کو زندہ رکھنے کا عزم کر کے انکی بھٹکتی روحوں کو تسکین دے سکیں یہی ایک دن جو تیرہ نومبر کو بلوچ وطن کی شہیدوں سے عہد و پیمان کا دن مانا جاتا ہے اس دن کی مناسب سے ہم اپنے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرکے قوم کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ شہیدوں کی خون رائیگاں نہ ہوگی ان کی قربانیوں کے تسلسل کو وطن کی آزادی تک برقرار رکھا جائے گا یہ دن ہر ایک بلوچ کے لیے ایک مقدس دن کے طور پر جانا جائے گا کیونکہ اسی دن ہم اپنے تمام شہداء کو بلاامتیاز بلوچ قوم کی شناخت بچانے کے خطاب سے نوازتے ہیں جو اپنی جان وطن پر قربان کرکے آزادی کے سوچ و فکر کی لاج رکھی ہے ہر وہ بلوچ جو آزادی کی راہ میں فکری طور پر جُڑ کر شہید ہوئے یا کہ کسی بھی ریاستی ظلم و جبر کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں وہ وطن کے شہید شمار ہوتے ہیں خان مہراب خان کی شہادت سے لیکر ہڑب، گنمبد، نفسک، گوک پروش، خاش کے شہداء کے علاوہ وہ لوگ جو انگریز غلامی کی بربریت کا شکار بنے، اور بلوچ وطن کی تقسیم کے بعد بلوچ قوم جس بربریت کا نشانہ بنا اور جو لوگ وطن پر اپنی جان نچاور کر گئے وہ سبھی بلوچ وطن کے شہید ہیں، شہیدوں سے عقیدت ہی ہمیں ان کے فکر سے مربوط کر سکتا ہے اور ہم قدم بہ قدم انکی قربانیوں کی بدولت اپنے منزل سے قریب تر ہو سکتے ہیں. اور انکے فکر پر ثابت قدم رہ کر ہی ہم اپنے منزل کو پا سکتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے اقوام ہیں جہاں اجتماعی حوالے سے کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں پر ریاستی بربریت کی وجہ سے سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ہیں وہ اس دن کو بطور شہداء کے دن کی مناسبت سے مناتے ہیں بلوچ قوم بھی شہیدوں کے دن پر بلا تفریق ایک ہو کر منائیں گے تو اس سے یکجہتی کا تاثر پیدا ہو کر سیاسی دوریوں کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ یہ تمام شہداء جو وطن پر اپنی جان نچاور کر گئے وہ بلوچ وطن کی آزادی کے لیے شہید ہوئے وہ کسی پارٹی سے ضرور وابستہ رہے ہونگے لیکن انکی شہادت کا سبب انکی آزاد وطن کے قیام کی خاطر وہ مزاحمت تھی جس پر وہ عمل پھیرا تھے وہ تنظیموں و پارٹیوں کے سوچ و فکر سے اس وجہ سے وابستہ رہے تھے کہ وہ آزاد وطن کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے تھے اسی وجہ وہ مختلف پارٹیوں سے جڑ کر آزاد وطن کے قیام میں اپنے فرائض سرانجام دے کر شہید ہوئے انکا مقصد ایک ہی تھا آزاد وطن کا قیام، جب سب کا مقصد ایک ہی آزاد وطن کا قیام ہے تو پھر شہید کسی پارٹی کے نہیں بلکہ وہ قوم کے شہید ہیں پارٹی بکھر سکتے ہیں ٹوٹ سکتے ہیں تحلیل ہوسکتے ہیں لیکن فکر نہیں، اسی سوچ و فکر کے تحت شہید پارٹیوں سے بالاتر ہو کر قومی وراثت بنتے ہیں انھیں قومی شناخت کے تحت یاد رکھا جائے اور انکے کردار و عمل کے پرچار کی جائے تاکہ ان قومی وراثتوں کی اصل پہچان و انکی قربانیاں قوم کے سامنے ظاہر ہو تاکہ ہر ایک یہ جان سکے کہ جو باندھے کفن سرپر وہی قربان ہوئے وطن پر، اور وطن سے انکی عقیدت نے ہی انھیں انتہاء تک پہنچایا جہاں سے وہ اپنے لیے موت کا راستہ چن کر قوم کو غلامی سے چھٹکارا دلانے کی اپنی ہر ممکن کوششیں کی تھی انکی قربانیوں سے ایک شمع ضرور جلی جو وطن کی آزادی تک جلتی رہے گی اور اس شمع کو جلاتے رہنا ہی ہماری ذمہ داری بنتی ہے اور ہم اپنے شہیدوں سے عقیدت کے دن تیرہ نومبر کو بلاامتیاز شہیدوں کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے فکر و سوچ پر قائم رہنے کا عہد کریں کہ انکی قربانیوں کا صلہ آزاد وطن کے قیام پر ہی منتنج ہوگا۔