تحریر: آرچن بلوچ

ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں ملا رجیم نے اپنے کنگرو کورٹوں کے زریعے گزشتہ 114 دنوں میں  70  سے زیادہ بلوچ شہروں کو مختلف الزامات کے تحت پھانسی پرچھڑیا ہے جن کے بیشتر نام ھمگام نیوز شائع ہوچکے ہیں۔ ایران ایک ملٹی نسشنل ملک ہے جہاں بلوچ، فارسی، کرد، عرب، ازربائجانی اور لر اقوام رہتے ہیں، ایران میں دوسرے اقوام کے نسبت بلوچوں کی پھانسیوں کی تعداد حد سے زیادہ ہے۔

جن الزامات کے تحت ایران میں لوگوں کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے ان میں نمایاں سزائوں میں محاربہ، یعنی خدا کے ساتھ لڑائی جس کی سزاء موت ہے، انقلاب اور اس نظام کے خلاف سیاسی اختلاف رکھنے پر سزاء موت دی جاتی ہے، مشیات کی اسمگلنگ کرنے پر سزاء موت سرعام پھانسی پر چھڑایا جاتا ہے، اسرائیل عرب اور مغربی ممالک کیلئے  جاسوسی کرنے کے الزام پر بھی سزاء موت دینے کی واقعات عام معمول کی روٹین ہیں۔

ایک خود ساختہ “اسلامی جمہوریہ” ہونے کے باوجود ایران کے تمام وحدتوں کے انتظامی امور  پر ایک ہی قوم یعنی پارسیوں کی domination اجارہ داریت ہے، فارسیوں کی یہ اجارہ داریت کٹر قوم پرستی پر مبنی ہے، البتہ مزھب اور ملک کے لبادے میں اس کٹر قوم پرستی کو چھپایا گیا ہے۔ بلوچ، کرد، عرب اور آذربائیجانی بہت بڑے اقوام ہونے کے باوجود انہیں احمقانہ طور پر ethnic minority جیسے اصطلاح سے شناخت کیا جاتا ہے، اس بے وقوفی میں بین الاقوامی میڈیا بھی نادانستہ طور پر شامل ہے۔

پرشئن ملا رجیم کی اس اجارہ داریت کے اسلحہ خانے میں وہ تمام اوزار شامل ہیں جن کے استعمال سے ملا رجیم کے مخصوص نظام، جن میں پارسی بانی کی اجارہ داریت بھی شامل ہے کو دوام حاصل ہوچکی ہے، مزھبی کٹرپن، سنگل پارٹی کی استبدادیت و غیر جمہوری نظام، غیرفارسی قومیتوں کے شناخت کو مٹانے کی دائمی سازش، مختلف زبانوں اور کلچر پر سرکاری قدغن، مختلف قومیتوں کے وحدتوں کی جغرافائی حدود میں غیر فطری تبدیلی، عورتوں پر اسلام کے نام پرعائد سخت پابندیاں، مختلف قومیتوں کے وسائل سے پیدا شدہ ملکی آمدنی پر کرپشن اور اسی وسائل سے دوسرے ہمسایہ ممالک میں شعیہ ازم کو ایکسپورٹ کرنا، مڈل ایسٹ کے اکثر عرب ممالک لبنان، سوریا، یمن، عراق، کویت، سعودی عرب اور بحرین میں بے جا مداخلت جیسے بے شمار منفی رویوں سے عوام تنگ آ چکی ہے۔

تنگ آمد بجنگ آمد کے مصادق، گزشتہ قریب 4 ماھ سے بلوچ ، کرد، عرب اور آرزی عوام سڑکوں پر مسلسل احتجاج کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ 16 دسمبر سے لیکرآج تک سارے ایران میں مظاہرے جاری ہیں۔ لیکن جمہوریت کے حق میں ان مظاہروں میں بلوچوں کردوں عربوں نے بہت بھاری جانی قیمت ادا کی ہے۔

ایرانی حکمران اپنی مکروح افعال کی وجہ سے نفسیاسی طور پراس تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ مبادا بلوچستان، کردستان، احواز العربی، جنوبی آزربائیجان میں جاری احتجاج انکے قابوسے باہر نہ ہوجائیں اور یہ چاروں اقوام ان سے الگ نہ ہوجائیں۔

ملا رجیم اپنی استبدادی نظام کو بچانے کی خاط اسرائیل، سعودی، عرب امریکہ اور مغربی ممالک پر الزام لگا رہا ہے کہ وہ جدائی طلب قوتوں کو ایران کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، ایران کو یہ بھی تشویش ہے کہ جاری عوامی مظاہرے اور عوام کا کھل کرسڑکوں پر آنے سے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی قوتوں کو مداخلت کا موقع مل جائے گا، ایسے میں بین الاقوامی مداخلت کی صورت میں محکوم اقوام اپنے آزادی کا مظالبہ بھی کر بیٹھیں گے اور ایران کا وجود تحلیل ہوجائے گا۔ اسلئے ملا رجیم نے بلوچوں کو دبانے کیلئے ننگی جارحیت اور سخت سزائیں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

تصور کیجئے کہ اس سے ننگی جارحیت اور کیا ہوسکتی ہے کہ 30 دسمبر کی black Friday سیاہ جمعہ کے دن ایک ہی وار میں ایرانی مسلح افواج نے اپنی بھاری ہتھیاروں سے دو گھنٹے کے اندر 101 پرامن بلوچ نوجوانوں کو شھید کردیا، اور تین سو سے زیادہ بلوچوں کو زخمی اور مستقل اپاہچ بنا ڈالا، جن میں کئی لوگ زخموں کا تاب نہ لاکر موت کی آغوش میں چلے گئے۔ بلوچ میڈیا زرائع سے جمع شدہ مصدقہ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ 114 دنوں کے اندر 70 بلوچوں کو پھانسی پر چھڑایا  گیا ہے۔ لیکن بلوچ مبصرین اور سیاسی ورکروں کے مطابق ان پھانسیوں کی تعداد بہت کہیں زیادہ ہے۔