دنیا میں قوموں نے قومی مذہبی اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مخلتف طرز کے جدوجہد کیے ہیں ۔ روس، کیوبا اور چین میں اقتصادی نابرابری کے لیے لینن، چی گویرا اور ماؤ زے نے سوشلسٹ جدوجہد کیا ۔ جن کا مقصد ملک کے اندر مزدوروں، کسانوں اور پیشہ ور متوسط طبقہ کی استحصال کو روکنا اور ملک کے اندر اقتصادی برابری کے لیے انقلاب لانا تھا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے گوریلا اور سیاسی طرز جدوجہد اپنائے ۔ جس میں صرف غریب، کسان اور مزدور طبقہ کو ساتھ لے کر جدوجہد کیا گیا ۔ اس طرح کے جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کہتے ہیں اس میں قوم کو طبقوں میں بانٹ دیا جاتا ہے سوشلسٹ نطریات کے حامی طبقہ جن کی اکثریت غریب اور مزودر طبقہ جسے سوشلسٹ پرولتاری طبقہ کہتے ہیں وہ صنعتکار ، زمیندار، جاگیرداراور امیروں یعنی بورژوازی طبقہ کو اپنا کٹر دشمن تصور کرتے ہے ۔ اسی طرح مذہبی انقلاب یا تھیوکریٹک طرز جدوجہد بھی اس طرح ایک مخصوص طبقے کے لیے ہوتاہے جس میں قوم کو مذہبی بنیادوں میں بانٹ دیا جااتا ہے اور مذہبی طبقے کو دوسرے مذہب یا غیر مذہبی طبقے کے مدمقابل لایا جاتا ہے جسے مذہبی انقلاب کہتے ہیں جیسے کہ ایران کا انقلاب جس نے ایران کے شاہی نظام کو تبدیل کرکے اس کی جگہ مذہبی نظام لایا یا طالبان کی افغانستان میں مذہبی انقلاب کی کوششیں۔ یہ دونوں قسم کے جدوجہد ملکوں کے اندر کے نظام کو تبدیل کر کنے کے لیے ایک خاص طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک طبقے کو دوسرے کے مد مقابل لایا جاتا ہے تیسری قسم کی جدوجہد جسے نیشلسٹ جدوجہد کہا جاتا ہے جو کہ دنیا نے قبضہ گیروں کے خلاف اپنایا جس کا مقصد قومی آزادی اور قومیت کے بنیادپر ملک کے سرحدوں کی تشکیل ہوتا ہے اس جدوجہد میں پوری قوم کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے جس میں ، زمیندار، جاگیردار، صنعت کار، امیر غریب سردار شوہانگ مذہبی سکالر ملا وغیرہ جس کا بھی تعلق نسلی لسانی کلچرل بنیاد پر اس قوم سے ہو وہ اس جدوجہد کا حصہ گردانا جاتا ہے اور بچے سے لے کر جوان بزرگ مرد و زن نیز پوری قوم کو شامل کیا جاتا ہے ا س کا مقصد سماجی تبدیلی یا ملک کے اندر انقلاب نہیں بلکہ قبضہ گیروں سے ا پنی قومی آزای اور قومیت کی بنیاد پر ملک کے سرحدوں کی تشکیل ہوتا ہے جس طرح کہ کوسوو، مشرقی تیمور ایری یٹریا میں ہوا جنہوں نے نیشلنزم طرز جدوجہد اپنا کر انڈونشیا، سربیا اور ایتھوپیا جیسے قبضہ گیروں کوشکست دے کر اپنی قومی آزادی لی نیشلسٹ جدوجہد قوم کے اندر بغیر اتحاد و اتفاق کے ممکن نہیں کیونکہ اس طرز جدجہد کا مقصد قبضہ گیر کو اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر دھکیلنا ا ہوتا ہے اور اس کو ایک گروہ یا پارٹی یا طبقہ منزل تک سر نہیں کرسکتا اس قسم کے جدوجہد میں کامیابی کے لیے پوری قومی قوت کو قابض کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ بلوچ قومی جدوجہد کو غلطی سے سوشلسٹ جدوجہد تصور کر رہے ہیں روس کے انقلاب کی وجہ سے اس خطے میں سوشلسٹ نظریات اور لٹریچر کی بہتات کی وجہ سے بلوچ کرد تامل اور کئی اور قومیں جو اپنی قومی آزادی کی جنگیں لڑ رہے تھے ان کی جدوجہد کو ان نظریات نے کافی حد تک نقصان دیا اور وہ اپنے قومی مقاصد کو سوشلسٹ نظریات سے گڈ مڈ کرکے ہزاروں سروں کی قربانیوں کے باوجود اپنے منزل حاصل کرنے میں ناکامیاب نظر آتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش، مشرقی تیمور، کوسوو، ایریٹریا نے اپنے آپ کو سوشلسٹ نطریات سے دور کر کے نیشلسٹ طریقہ جدوجہد اپنا یا جس میں پوری قوم کو قومیت کے بنیاد پر یکجا کر کے چند ہی سالوں میں اپنی آزادی حاصل کی بلوچ قومی جدوجہد اصل میں نشنلسٹ جدوجہد ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچ قومی جدوجہد کو بھی سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے ماضی میں کافی نقصان پہنچا اور بلوچ قوم نے بہت سے مواقع انہی نطریات کی وجہ سے ضائع کیئے ۔ بلوچستان میں ماضی کی آزادی کی جدوجہدوں کے تجربات اور ناکامیوں کو سامنے رکھ کر بلوچ رہنما حیربیار مری نے اس جدوجہد کی بنیاد خالص نیشنلزم پر رکھا تھا لیکن جیسے ہی بلوچ قومی جدوجہد کو دنیا میں پذیرائی ملی اتنی تیزی سے آزادی پسند قوتوں میں دوبارہ وہی سوشلسٹ سوچ نے سر اٹھانا شروع کیا جو ماضی کی قومی آزادی کی جدوجہد کار خ موڑنے اور ناکامی کی سبب بنے تھے ۔ اس سوچ کی وجہ سے نصرف قبضہ گیر نے فائدہ اٹھایا بلکہ یہ سوچ آزادی پسندوں کے درمیان دوریوں اور بلوچ قوم کے اندر بھی کافی حد تک مایوسی کا سبب بنا ۔ بلوچ قومی جدوجہد اس وقت ایک بہت ہی اہم اور نازک مراحل میں داخل ہوچکا ہے ا ، جہاں ایک طرف دنیا میں بلوچ قومی جدوجہد کے حوالے سے خاصا پذیرائی دیکھنے کو ملتاہے تو دوسری طرف پاکستان چین کے اشتراک سے بلوچ قومی جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف عمل ہے دوسری طرف پاکستان براہ راست اور اپنے حواریوں کے زریعے اندرونی حوالے سے بلوچ قوم کو سازشوں کے تحت منتشر کرنے کو ششیں کر رہا ہے۔ بی این پی اور نیشنل پارٹی کی بلوچ قومی جدوجہد کے خلاف سازشیں اور نیشنل پارٹی کا لوگوں کو سرنڈر کروانے کے لیے کردار اور دونوں پارٹیوں کا ساتھ ہی ساتھ آزادی پسندوں کے درمیاں دوریاں پیدا کرنے کے حوالے سے کردار بھی کسی سے ڈھکی چھہی نہیں ہے جب بھی پاکستانی قبضہ گیر پر بلوچستان میں زمیں تنگ کیا گیا تو بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی جیسے پاکستانی پارلیمان پرست پارٹیوں نے قبضہ گیر پاکستان کو نصرف بلوچ نفسیات کے حوالے سے آگاہ کیا بلکہ قبضہ گیر کی ہاتھوں کو مضبوط کرنے کے لیے بلوچ قوم میں آزادی پسند قوتوں کے درمیان مخلتف سازشوں کے زریعے دوریاں بھی پیدا کیے حیربیار مری کو جب بی این پی کی ان سازشوں کا علم ہوا تو انہوں نے بی این پی کی بلوچ قومی جہدکاروں کے خلاف سازشو کا پردہ پورے بلوچ قوم کے سامنے چاک کیا۔ حیربیار کی وہ بیانات اب بھی ریکارڈ پر ہیں کہ جس وقت پوری بلوچ قوم بی این پی مینگل کی سازشوں سے بے خبر انہیں آزادی پسند سمجھ رہے تھے ۔ ایک طرف بلوچ نوجوان بلوچ قومی آزادی کا بیرگ لےئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر ر ہے تھے تو دوسری جانب بی این پی بلوچ نوجوانوں کی قربانیوں کا آڑ لے کر اپنے لیے پاکستانی پارلیمان میں جانے کے لیے راہیں ہموار کر رہاتھا اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو وسائل اور صوبائی خودمختیاری کی جدوجہد کے طور پر عالمی برادری کے سامنے پیشں کر نے کی کوشش کر کے دنیا کو بلوچ قومی جدوجہد کے حوالے سے کنفیوژن میں ڈال رہا تھا جس کا فائدہ براہ راست قبضہ گیر ریاست پاکستان کو ہو رہا تھا جب بلو چ رہنما حیربیار مری نے بی این پی کی ان سازشوں کو بلوچ قوم کے سامنے لایا بی این اپی کے خلاف حیربیار مری کی بیانات کے بعد بی ایس او کا موقف بھی بی این پی کے حوالے سخت ہوا جھنوں نے بی این ایف میں رہ کر بی این پی کے خلاف حیربیار مری کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے بیانات دئے جس کے رد عمل میں ان بیانات کو جواز بنا کر بی ار پی نے بی این ایف کو توڑا جس سے دشمن نے فائدہ اٹھا کر بلوچ نوجوانوں کی سر عام قتل و غارتگری اور اغوا کے بعد ان پر تشدد اور دوران حراست قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دینا شروع کردیا۔ حیربیار مری کی طرف سے بلوچ قوم میں اتحاد وہ یکجہتی کے حوالسے سے 2012 میں ایک مرتبہ پھر کوششیں شروع ہوئے جس کے لیے حیربیار مری نے ساتھیوں سے مل کر بلوچ قومی آزادی کی روڈمیپ تشکیل دے کر بلوچ آزادی پسندوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم میں جدوجہد کرنے کی دعوت دیا۔ جس میں دونقاط قومی آزادی اور بعد از آزادی جمہوریت پر سمجھوتہ نہ کرنے باقی 98 فیصد چارٹر میں ردوبدل کرنے اور نقاط پربحث کرنے کی تمام آزادی پسندوں کو اجازت دی گئی تاکہ اس قومی چارٹر کو اپنے راہنما اصول بنا کر بلوچ ایک قوم کی حیثیت سے اپنا کھویا ہوا قومی آزادی کو قبضہ گیر سے حاصل کر کے قومی شناخت کا تحفظ کر سکے ۔ قومی یکجہتی کی خاطر حیربیار مری نے از خود جنیوا جا کر براہمدغ بگٹی کو قومی آزادی کی چارٹر پیش کیا جسے بعد میں برامدغ بگٹی نے وش نیوز میں ایک انٹرویو میں یہ کہہ کر مستر د کر دیا کہ اس چارٹر کی حمایت خیربخش مری نے نہیں کیا تو ہم کیسے کر سکتے ہیں۔لیکن خیربخش مری کا اس طرح کی نہ کوئی بیان اور نہ بات ہی ان دی ریکارڈ آیا ہو جہاں پر مرحوم نواب خیربخش مری نے بلوچستان لبریشن چارٹر کی مخالفت کیا ہو لیکن اس کو شش کو ناکام بنانے کے لیے بھی بی این پی کی سر توڑ کوششیں اور اس میں بی آر پی کی بی این پی کے ایجنڈے کو آگے لے جانے اور قومی چارٹر کو مستر د کرنے کے حوالسے سے بیانات اور جواز بھی ریکارڈ پر ہیں۔ اس کے بعد شیرمحمد بگٹی کا یک انٹرویو کے دوران ایک سوال پر کہ کیا براہمدغ کا رحمان ملک سے ملاقات ہوا اس کے جواب میں شیرمحمد بگٹی نے کہا کہ رحمان ملک بھلاکن ہے وہ حیریبار کی بات کر رہے ہیں حیربیار کا رحمان ملک سے ملاقات ہوا ہے ، اس جواب سے وہی محاورہ یاد آتا ہے کہ سوال گندم جواب چنا والی بات ہوئی ۔ حالانکہ رحمان ملک والی بات حیربیار مری خود قوم کے سامنے اسی وقت لا چکا تھا کہ رحمان ملک کس طرح حیربیار مری کے گھر آئے اور کیا باتیں ہوئے ۔ حیربیار نے کوئی بات قوم سے نہیں چھپایا تھا بلکہ براہمدغ بگٹی نے رحمان ملک سے اپنے رابطے کا انکشاف خود دوسال بعد 2015 کو بی بی سی کے انٹرویو میں کیا اور یہ رابطے براہمدغ اور رحمان ملک کے درمیان 2013 کو ہوئے اس بات کو دو سال تک چھپا کر حیربیار مری کے رحمان ملک والی ملاقات کے بات کو اچھالنا از خود کافی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے بی بی سی کو اپنے دیے گئے اس انٹرویو میں براہمدغ بگٹی بار بار یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کر رہا وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں جب ان سے مذاکرات کے ایجنڈے کے حوالے سے پوچھا گیا تو وہ کہتے ہیں کہ ایجنڈا پاکستانی فوج نے طے کرنا ہوگا براہمدغ کی ان باتوں اور کمزور موقف کا فائدہ براہ راست پاکستانی ریاست کو پہنچا جنہوں نے براہمدغ کے اس کمزور موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے براہمدغ کے پاس چنال اور مالک کو بھیج کر اس کمزور موقف کو مزید کمزور بنادیا اور دنیا کی تاریخ میں کسی بھی جدوجہد کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں کہ جب بھی کسی قابض سے بات چیت کا آغاز ہوا تو ایجنڈا ہمیشہ جدوجہد کرنے والے جہدکاروں نے طے کیا نہ کہ قابض نے ۔ اس کے بعد براہمدغ بگٹی کی باتوں اور موقف میں تواتر کے ساتھ ابہام اور کفیوژن نظر آنے لگا انہوں نے ایک اور نٹرویو میں کہا کہ بی این پی کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن حیربیار مر ی کے ساتھ نہیں اس سے تو بی آر پی کے پارٹی سربراہ کا بی این پی کے ساتھ رخت سفر باندھنے کا واضع اشارہ تھا اس کے بعد ڈاکٹر مالک اور عبدالقادر چنال سے ملاقات اور اس کے لیے یہ جواز کہ وہ بلوچ تھے اوتا ک آئے اس لئے انہوں نے ملنے سے انکار نہیں کیا وہ کس حثیت سے آئے ان کی پاکستان کے پارلیمان میں اس وقت کیا پوزیشن تھا۔یہ پوری بلوچ قوم جانتا ہے ۔ اور یہ بھی جانتا ہے کہ ان کو در اصل دعوت ہی براہمدغ کے بی بی سی میں دیئے گئے انٹرویو کے دوران کمزور موقف نے دیا اس کے بعد براہمدغ بگٹی کی اچانک سے نیشنل پارٹی اور ڈاکٹر مالک اور بی این پی کے لیے نرم گوشہ اور آزادی پسند پارٹیوں اور لیڈروں کے خلاف بیانات براہمدغ کی جدوجہد آزادی کے بارے میں کنفیوژن کو مزید واضع کیا اور پوری بلوچ قوم میں آزادی پسندوں کے حوالے سے مایوسی اور ابہام کی کیفیت پیدا کی گئی۔ بلوچ آزادی پسند قوتوں کی جابنب سے نئے اتحاد کوششوں کے خلاف ایک طرف ریاست اپنا زور لگارہا تھا تو دوسری طرف ملک کے اندر اور بیرون ملک بیٹھے ریاستی آلہ کاروں کے کانوں میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگے اور ریاست کے ایجنڈے کو آگے لے جانے کے لیے بیرون ملک میں بیٹھے چند عناصر ایک بار پھر سرگرم نظر آنے لگے۔ بلوچ قومی یکجہتی کی کوششوں کو سوبتاژ کرنے کے لیے کچھ ہفتے قبل بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کے چند عناصر نے ا مریکہ میں ایک تھنک ٹینک قائم کیا جس کا سربراہ ملک سراج اکبر اور بی این پی مینگل کے وحید بلوچ ہیں جن کا مقصد کسی ممکنہ بلوچ قومی اتحاد کو روکنا ہے ، حیربیار مری کے بلوچ قومی یکجہتی کے حوالے سے حالیہ بیان نے ریاست اور ریاستی ایجنڈے پر کام کرنے والوں کو مزید حواس باختہ کیا ہے کیونکہ انہیں علم ہے کہ کسی ممکنہ نئے اتحاد سے پرانے اتحادوں کو توڑنے والوں اور اتحادوں کے ٹوٹنے کے اسباب کی جانچ پڑتال میں سب سے زیادہ خطرہ بی آر پی اور بی این پی کو ہے یہ پوری بلوچ قوم کو معلوم ہے کہ بی این ایف کو توڑنے میں بی آر پی کا ہاتھ ہے اور بی آر پی نے یہ کام حیربیار مری کے بی این پی کے خلاف وہ بیانات جن کی حمایت بی ایس او آزاد نے بی این ایف کے پلیٹ فارم سے کیا تھا جس میں حیربیار مری نے بلو چ قوم کے سامنے بی این پی کے بلوچ قومی تحریک کے خلاف سازشوں کو سامنے لایا تھا۔ اس لیے بی این پی کے ایما پر بنے اس تھنک ٹئنک کا براہمدغ کی کمزور موقف کی وجہ سے ان کا انٹرویو کے لیے انتخاب اور وقت کا تعین در اصل پرانے اتحاد کو تڑوانے والوں کو بچانے اور نئے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر بی آر پی کو استعمال کر نا ہے اس ا انٹرویو میں بی آر پی کے سربراہ کا ایک بار پھر نیشنل پارٹی اور بی این پی کے ساتھ قربت کی جانب اشارہ براہمدغ کے بلوچ قومی تحریک بارے کمزور موقف کو مزید کمزور اور بی این پی اور نیشنل پارٹی کے ساتھ ساتھ ریاست کو فائدہ دے رہا ہے او ر اس طرح کے کمزور موقف کو بلوچ قوم اپنے جوان بیٹوں کی قربانیوں اور خون کے ساتھ دھوکہ تصور کرے گا چاہے وہ کسی بھی آزادی پسند یا پارٹی کی طرف سے ہو۔ براہمدغ بگٹی کو انٹریو کرنے والے وحید بلوچ جو کہ خود بلوچستان میں پاکستانی پارلیمنٹ میں سپیکر اور وزیر رہ چکے ہیں اور بلوچوں کو پاکستانی وفاداری کا حلف دیتے رہے ہیں انہوں نے حیربیار مری سے پارلیمنٹ کی رکنیت کا حلف لینے کے دوران بار بار حیربیار کو پاکستان کی خدمت کرنے کا قسم دلوانے کی کوشش کی لیکن حیربیار مری اس وقت خاموش رہے اوروحید بلوچ کے کوششوں کے باوجود بھی حیربیار مری نے حلف کے دوران پاکستان کی وفاداری کا حلف نہیں لیا۔ لیکن یہاں وحید بلوچ کے ساتھ انٹرویو کے دوران براہمدغ بگٹی ڈاکٹر مالک اور چنال کے ساتھ اپنے ملاقات کے جواز کے لیے حیربیار مری پر دومرتبہ رحمان ملک سے ملاقات کرنے الزام لگاتے ہیں حالانکہ رحمان ملک صرف ایک مرتبہ حیربیار مری کی جیل سے رہائی کے بعد ان سے ملاقات کے لیے گھر آئے اس ملاقات کے حوالے حیربیار مری نے پوری قوم کو آگاہ بھی کیا تھا لیکن دوسری بار ملاقات کا الزام صرف بلوچ قوم کو کنفیوژن میں ڈالنے کی ایک کوشش ہے ۔براہمدغ ا اس انٹرویو میں نااتفاقی اور عدم اتحاد کا الزام دوسروں پر ڈال کر کہتا ہے کہ پاکستان سے مزاکرات کے حوالے باقیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے آزادی پسند بلوچوں میں ہم آہنگی اوررابطہ نہیں ہے کیا برہمدگ قومی آزادی کا دعوی دار ہے اور وہ فوجی جنرل کیانی ،جنرل،قادر،ڈاکٹر مالک سے مزاکرات کے لیے رابطہ بحال کرسکتا ہے تو پھر باقی آزادی پسندوں میں رابطے کی بحالی واقعی اتنے مشکل ہے یا کہ بہانہ ہے اس وقت جب پاکستان نے چین کے اشتراک سے بلوچ قوم کو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی طور پر مفلوج کرنے بعد بلوچ قومی شناخت کو اب مٹانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے تو وقت کا تقاضا ہے کہ بلوچ آزادی پسند مل کر ایک دیرپا اور مضبوط اتحاد کے لیے کام کر یں اور اس اتحاد کی بنیادوں کو پرانی ٹوٹ پھوٹ کے شکار اتحادوں بی این ایف اور چار فریقی اتحاد کے کھنڈرات پر تعمیر کرنے کے بجائے نئے اور مضبوط بنیادوں پر قائم کیا جائے تاکہ پاکستان اور ایران جسیے قبضہ گیروں سے بلوچ کو نجات دلایا جاسکے اور بلوچ قوم کی شناخت کو پاکستان اور چین سے لاحق خطرات سے بچا سکیں ۔حالانکہ دنیا کی تمام محکوم اور قومی جہد میں مخالفانہ اورمعاندانہ عمل نیتا ،قصدایا کہ غیرارادی طور پر سرزد ہوئے جھنوں نے قومی جہد کو نقصان دیا تو وہ جہدکار ایک مقام پر بیٹھ کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک نئے سرے سے اپنی جہد کونئی حکمت عملی کے تحت آگئے لے گئے جس میں ہری ٹریا میں ELFاورEPLFجن کے اختلافات آپسی لڑائی تک گئے لیکن بعد میں وہ بیٹھ کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ایک نئی طاقت بنا کر قابض کے خلاف اپنی طاقت اور قوت استعمال کرنے لگے ۔اب بلوچ قوم کے لیے بھی حالات قابض اور اس کے حواریوں نے مشکل بنائے ہیں اور لوگوں کا بے دردی سے قتل عام کررہا ہے اور دوسری طرف پاکستان چین کے ساتھ بلوچ قومی وجود اور شناخت کو مٹانے کی کوشش کرہا ہے اس لیے حیربیار مری نے نیک نیتی اور قومی مفادات میں تمام آزادی پسندوں کو اتحاد اور یکجتی کی پیش کش کی تاکہ ہم اپنی ماضی کی کمزوریوں کا ادراک کرتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی اور قوت کے ساتھ اپنی تمام انرجی دشمن پر لگائیں ،تاکہ بلوچ قومی تحریک بھی باقی ماندہ تحریکوں کی طرح کامیاب ہوسکے