یکشنبه, سپتمبر 29, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ قومی بقاء کو لائق خطرات اور علاقائی طاقتوں کی رسہ کشی...

بلوچ قومی بقاء کو لائق خطرات اور علاقائی طاقتوں کی رسہ کشی تحریر رستم بلوچ

انگلولا تحریک آزادی ۱۹۶۱سے لیکر ۱۹۷۵تک جاری وساری رہی،جو بلوچ تحریک سے کسی حد تک مطابقت رکھتی ہے ،یہ تحریک پرتگال کیخلاف چلی اور یہ تحریک اس طرح کے بہت سے نشیب وفراز سے گزارا جس طرح آج کل بلوچ تحریک گزر رہا ہے۔یہ تحریک بلوچ قومی تحریک کی طرح دشمن کے خلاف لڑتے لڑتے گروئیت ،علاقیت،چند اشخاص اور علاقائی ،و بین الوقوامی مفادات کے گرد گمایا گیا باہر کے کھلاڑی ، ان کو ڈمی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انکی ڈوریاں ہلاتے گئے ،یہ کچھ نادان بلوچوں کی طرح بھی سوشلزم ،کمیونیزم ،سرمایہ دارانہ نظام اور باقی ماندہ اقوام کے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کا خون پانی کی طرح بہاتے گئے popular movement for the liberation of angola[mpla]جسکی قیادت اگیسٹینو نیٹو کررہا تھا جو لونڈا کے مختلف نسلی لوگوں کے علاقے Kimbunduکو اپنا مظبوط کمپ بناکر کمیونسٹ نظریہ سے منسلک تھے ،جبکہBakongo ریجن کے ہولڈن روبارٹو کی پارٹی (FNLA) National Front for the Liberation of Angola جو کہ امریکہ نواز تھی اور اسکی حمایت کرتی تھی اسی کے بلاک میں تھا National Union for the Total Independence of Angola (UNITA)جسکی قیادت جونس ملاریوسوامبی کررہا تھا Ovimbunuعلاقے سے تعلق رکھتے تھے جسکی وابستگی جنوبی افریقہ اور چین کے ساتھ تھے یہ گروپس دوسروں کی مفادات کی خاطر ایسے استعمال ہوئے کہ اپنے قومی مفادات کے بجائے انکے لیے آلہ اور وسیلہ بن گئے ،آج بلوچ تحریک بھی کسی حد تک اس طرح کے حالات سے گزر رہا ہے اور یہاں بھی مختلف اقوام ،طاقتوں ،اور کھلاڑیوں کے مفادات وابستہ ہیں ،ایک طرف امریکہ یورپ،جاپان، جنوبی کوریا،سنگاپور،انڈیا،ہیں تو دوسری طرف ،چین،شمالی کوریا،ایران،روس ،جسے علاقائی طاقتیں ہیں ،

اب یمن میں ایران سعودی جنگ بالکل باقاعدہ رخ اختیار کر چکا ہے کیونکہ ایران پورے خطے میں چھوٹے چھوٹے گروپس کو اپنی گماشتہ گیری کی خاطر استعمال کر رہا ہے لبنان ، شام،یمن ،جسے ممالک میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کیلئے ا نکو استعمال کر رہا ہے ۔بلوچستان اور سارے خطے میں بھی ایک طرح سے طاقت کی رسہ کشی کا علاقائی اور بین القوامی دوڑ شروع ہوچکا ہے ،سعودی ،ایران ،جیسے ممالک کو تو اپنے مفادات کی خاطر پروکسی کی ضرورت ہوگی تاکہ یہ انھیں اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر استعمال کر سکیں ،اس میں زیادہ تر یہ لوگ تھوڑے سے منظم گروپس کو اپنے لیے مناسب سمجھتے ہونگے تاکہ انھیں پیسہ کچھ مراعات کا لالچ دیکر اپنے ساتھ شامل بھی کروا سکیں ،اس میں تقسیم درتقسیم کا شکار اور علاقائی اور گروہی کے حصار میں بند آزادی پسند انگولا کی طرح بھی استعمال ہو سکتے ہیں ،اور یہ کھلاڑی کوشش بھی کرینگے کہ اسے کمزور اور وقتی مفادت کو مقدم سمجھنے والوں کو لالچ ،مراعات، دینے کے ساتھ ساتھ تھوڑی طاقت کے نشے میں مست کرکے انھیں اپنے کمان کا تیر بنا لیں ،پھر وہ اپنے قومی پروگرام ،مقاصد،منزل،کے بجائے دوسروں کے آلہ کے طور پر استعمال ہوکر دوسروں کو طاقتور بنانے کے لیے اپنی قوم کو کمزور اور تباہ کریں ،اس وقت مغربی بلوچستان میں ایران کے خلاف سرگرم بلوچوں کو ہمدردی اور کمک ضرور سعودی کی طرف سے مل سکتا ہے ،اگر پاکستان سعودی جنگ میں کسی بھی طرح شامل ہو تو یقیناًایران کا اسکے خلاف علاقے میں پراکسی نہ ڈھونڈنا خارج العقل ہوگی ،اگر ایسی صورت میں ایران کسی بلوچ تنظیم سے کوئی معاہدہ کر لیں تو کیا انھیں صرف پاکستان کے خلاف مدد دیگا اگر صرف پاکستان کے خلاف کمک کریں تو اس کمک کو لینے میں کوئی ممانعت نہیں ہونا چاہیے لیکن ضرور ایران کی پھر کوشش ہوگی کہ سعودی کے ایما پر کام کرنے والوں کے خلاف باقی بلوچوں اور ایران کے حمایتی ہزاروں کو استعمال کر سکیں لیکن ہزارے تفتان ،ماشکیل ،مند،پروم،اور جیونی میں نہیں ہیں کہ ایران انھیں استعمال کر سکے اس لیے ایران کے لیے موزوں مسلح بلوچ تنظیم بھی ہو
سکتے ہیں ،امکانات ہیں کہ ایران انھیں کام میں لانے کی کوشش کرے گا اور ایران اس گروپ کی بھی مدد نہیں کرے گا جس سے اسے یقین ہو کہ وہ مکمل قومی سوچ رکھتا ہو ،کیونکہ ایران بلوچستان کے معاملے میں پاکستان سے بھی زیادہ احساس ہے وہ ایسی ڈوری چاے گا جو وہ اسے اپنے ایران کے مفادات کی خاطر ہلاسکے ۔اسکے بعد روس اور چین بھی بلوچستان میں پاکستان کی مدد اور کمک سے مختلف زرئع سے اپنے لیے گماشتے ڈھونڈنے کی بھی کوشش کریں گے ،اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی اور بلوچ انگولا کی طرح استعمال ہوتے گئے اور اپنے قومی مفادات کو اہمیت نہیں دی تو یہ بلوچ بقا اور سالمیت ،تشخص،اور اسکی وجود کو ختم کرے گا پھر اسکی وجہ جھتہ ،گروہ،علاقائیت،اور لیڈرشپ کی غیر زمہداری ہی ہوگی ،انگولا پھر بھی پرتگال کی ۵۰۰ سال کی غلاموں کی ابگیری اور گڑاگیری سے آزاد ہوا اور پھر آزادی کے بعد خانہ جنگی کا شکار ہوا لیکن بلوچستان کی بقا کو قوی ہیکل اور ہاتھی کے مشابہ قبضہ گیریت سے خطرہ ہے ،اس وقت چیچن ،باسک ،کیوبک،کرد،تامل ،کیتولینیا،اسکوٹلینڈ،فلیمش،وینس،ائرش،بانگسامورو،کی قوم اور ملک کو صرف قبضہ گیریت سے خطرہ لائق ہے جس طرح انگولا ،ویت نام ،الجزائر،کنیا،بوسنیا،وغیرہ کو قبضہ گیریت سے لائق تھا اور انھون نے اس سے نجات حاصل کیا ،انگولا نے ۵۰۰ سال کی غلامی سے نجات حاصل کیا اور ائرش تقربا ۲۰۰ سال سے غلامی کے خلاف نمرد ازما ہے ایسی طرح اسکاٹ لینڈ بھی ہے لیکن انکی وجود اور شناخت خطرے میں نہیں ہے لیکن بلوچ قوم کا خطرہ ان تمام محکوم اقوام سے بڈا ہے کہ بلوچ قوم کی وجود شناخت،یکسایت ،یکسانی ،تماثل اور نام ونشان خطرے میں ہے ،بلوچ قوم کے لیے وقت بہت کم ہے ،وہ خطرہ بلوچ قوم کو لائق ہے جو دنیا کے کم قومیتوں کو لائق ہوا ہے جہاں کئی اس خطرے نے ریڈ نشان کو کراس کیا تو وہاں ان قوموں کی یکسانی ،وجود ،اور تماثل ختم ہوا اور وہ اقوام تباہ ہوئے انکی ثقافت ،تاریخ،وجود عجائب گھروں میں مل سکتی ہے لیکن انکے اپنے آبائی وطن میں انکا نام ونشان مٹ چکا

ہے جس طرح امریکہ کے اصل مقامی باشندے ریڈ انڈیں ، او ر اسٹریلیا کے سکونت پزیر ابور جینیز،اپنے ہی دیش میں اجنبی بنائے گئے اور انکی شناخت مٹ گہی بلکل گوادر کی تعمیر سے بلوچ وجود اور یکسانیت اور تماثل کو شدید خطرہ لائق ہوچکا ہے ،بلوچ کی وجود ،یکسانیت،شناخت اس وقت تک ہے جب تک پورٹ تیار نہیں ہے جوں ہی پورٹ تیار ہوا پھر بلوچ جو کرے اس تباہ کن سیلاب سے اپنی وجود اور تاریخی حیثیت کو نہیں بچا سکے گا ۔بین جامن فرینکلن کے بقول کھویا اور ضائع کیا ہوا وقت دوبارہ حاصل نہیں کیا جاسکتاہے ،اس سمہے وقت اور ایام کے ساتھ پوری بلوچ قوم کا بقاء ،شناخت،اور وجود باندھا ہوا ہے ،اگر اس وقت اور موقع کو قوم نے انگولا ،کی طرح گروئیت ،علاقیت ،شخصیت ،چھوٹی چھوٹی ذاتی مفادات کی نظر کی تو آنے والی نسلوں کی لعن تعن سے بھی نہیں بچ پایں گے ،اور آنے والا خطرہ ایسا بیانک اور خوفناک ہے کہ آنے والی نسلون کو اپنی آواز نکالنے کے لیے حرف گیری کا بھی موقع بھی نہیں مل سکتا ہے کیونکہ ریڈ انڈیں ،ابورجنیز،کی طرح چینی،پنجابی،سنٹرل ایشین،کے نوآبادکاری کا سونامی بحر بلوچ میں بلوچ کی تاریخ ،شناخت،وجود ،بقاء کو غرق کرے گا ،قابض بلوچ قوم اسکی شناخت ،وجود کے خاتمے کا قبر گوادر کی تعمیر کی شکل میں کود رہا ہے اور بلوچ پارٹیاں ،صرف اپنی جہد کی لاش سے لپٹ کر روزانہ ماتم اور گرایہ زاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے اپیلیں کر رے ہیں ،ہان گوادر پورٹ کو ناکامیاب کروانے کے لیے حالیہ مکران میں واقع بہتریں تھا ،۔اگر بلوچ قوم اپنے قومی مفادت کو مدنظر رکھیں جس طرح ایسی خطے میں تین اسلامی طاقتین مذہب کے حوالے ایک ہیں لیکن اپنے قومی مفادات کی خاطر اپنی طاقت اور اثر و روسوخ بڈھانے کے لیے خطے میں دوڈ شروع کرچکے ہیں ایک طرف ترک ،دوسری طرف عرب،تیسری جانب فارس ہیں یہ اپنے قومی مفادات کے لیے باقی ماندہ اقوام کو استعمال کررے ہیں ،اگر بلوچ ہوش اور شعوری حوالے سے اپنے قومی مفادات کو مقدم سمجھ کر اس

گوادر کی تعمیر کی شکل میں سونامی سے نمبرد آزما ہونے اور علاقائی حالات میں صرف اور صرف ایک قوم بن کر مشترکہ حوالے اپنے قومی آزادی کے ایجنڈے کے تحت عالمی اور علاقائی طاقتوں سے دوستی اور دشمنی کا پیمانہ تیار کریں تو وقت کا تقاضہ ہے کہ حالات کو بلوچ قوم اپنے حق میں بہتر انداز میں کر سکتا ہے ۔ایک دوست نے لکھا ہے کہ بلوچ طول پکڑنے والی جنگ لڑ رے ہیں اسی کو جاری رکھیں اسکی یہ رائے آج کے دور کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا ،low level insurgency آج کے دور میں کم کامیاب ہوتے ہیں ،انڈیا میں اس طرح کے کئی انسرجنسی چل ری ہیں ،باسک ،ائرش،پتنی ،سمیت ۱۰۰ سے زیادہ اس طرح کے انسرجنسی اس وقت دنیا میں چل رہی ہیں ،انکے کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں ،بلوچ تحریک بھی اس وقت تک low level insurgency ہے یہ جنگ جتنے کے لیے ایسے conventional جنگ کا رخ اختیار کرنا ہوگا ،وقت اور حالات کے مناسب علاقائی اور بین القوامی حالات سے مکمل ہم اہنگ جنگی اور سفارتی مہارت کے ساتھ رسمی جنگ لڑکر قوم کو آزاد کیا جاسکتا ہے کیونکہ ۱۹۹۹ سے پہلے جتنی بھی تحریکں چلی زیادہ تر طول پکڑنے والی protracted تھی لیکن اسکے بعد جدید دور میں جتنی تحریکں چلی سب رسمی conventional جنگیں تھی جسے کہ کوسوو ،ہری ٹیریا،جنوبی سوڈان اور مشرقی تعیمور کی جنگ تھی جبکہ مشرقی تعیمور کی جنگ زیادہ تر سفارتخاری کی وجہ سے جیتی گئی ، جبکہ باقیوں میں ملٹری جنگ کو علاقائی حالات اور بین القوامی حالت کے ساتھ ہم اہنگ کرتے ہوئے رسمی جنگ سے جیتا گیا ۔ یہ قومی جنگ وقت و حالات کو قوم کے لیے ساز گار بناتے ہوئے لڑی جاتی ہے جدید تمام تحریکں تمام علاقائی اور بین القوامی حالت کو اپنے حوالے ساز گار بنانے میں کامیاب ہوئے اور مدت ،وقت،کی اہمیت کو سمجھ کر منطقی ،شعوری ،عقلی حوالے قومی مفادات سے ہم اہنگ پالسی بنانے کے بعد کامیاب ہوئے ، ، جنوبی سوڈان میں اپسی رسہ کشی تھی لیکن اسکے باوجود وہ اپنے علاقائی حالات ،مسلہ،مسائل کو بین القوامی مسلہ بنانے میں بھی ماہر تھے انھیں
جدید سیاسی ،جنگی سیاست پر عبور حاصل تھا ،عین وقت پر اپنا کام کیا اور اسی سے فائدہ اٹھا کر اپنے لوگوں کو آزادی کی دہلیز تک پنچایا ۔روس کے ٹوٹنے کے بعد تمام اقوام کی آزادی میں مغرب اور امریکہ نے کلیدی کردار ادا کیا یہ محکوم اقوام اپنے مفادات کو ایک مزہبی حوالے دوسرے انسانی حقوق کے حوالے اور اپنے مفادات کو مغرب اور آمریکہ کے مفادات سے ہم اہنگ کرکے اپنی غلامی کو آزادی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے ،سب نے اپنی جنگ کو بین ا لقوامی سفارتخاری سے منسلک کیا ،ایسی کے مطابق حکمت عملی بنائی کے انکا ایشو بین القوامی مسلہ بن جائے اپنے مسلے کو دنیا کا مسلہ بنانے کے بعد جنگ اور سفارتخاری سے قبضہ گیر سے سب نے یکے بعد آزادی حاصل کی ۔بلوچ بھی وقت کو ضیائع نہ کریں کم مدت میں بلوچ قومی تحریک کا مقابلہ پاکستان ،چین ،ایران ،اور انکے گماشتوں کے ساتھ ساتھ وقت کے ساتھ بھی ہے ،اور وقت کی اہمیت سب سے زیادہ ہم ہے ،خدا نہ کرے اگر پا کستان ،ایران،چین وقت کی مدد سے جیت گئے تو بلوچ وجود ،شناخت،تاریخ،ثقافت،ریڈانڈین اور ابورجیز کی طرح ختم ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچ کا اس خطے سے نام نشان مٹ جائے گا اور اگر بلوچ جیت گئے تو بلوچ بھی خطے میں عرب ،فارس،اور ترک کی طرح ایک طاقتور قوم کی شکل میں نمودار ہوگا

یہ بھی پڑھیں

فیچرز