سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ قومی تحریک اور ایر یٹریا کی جہد آزادی کا موازنہ :شبیر...

بلوچ قومی تحریک اور ایر یٹریا کی جہد آزادی کا موازنہ :شبیر بلوچ

دنیا میں جب حرص ، لالچ اور ظلم نے جنم لیا تو اسکے ساتھ ہی مزاحمت کا بھی ظہور ہوا ۔ تاریخ کے پرنوں کو کھنگال کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ ظلم خود۔ یہ مزاحمت ہمیں کہیں فرسودہ روائتوں کے خلاف ملتی ہے تو کہیں طبقاتی نا انصافی کے خلاف اور کہیں قومی محکومی کے خلاف۔ لیکن ان تمام مزاحمتوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان سے حاصل تجربات صرف ایک علاقہ فرد یا قوم کی ملکیت نہیں بلکہ یہ دنیا کے تمام مظلوموں اور محکوموں کا مشترکہ اثاثہ ہیں ۔یہ حاصل تجربات ہمارا اجتماعی شعور ہیں۔ ظلم کے خلاف ہونے والی ہر مزاحمت دنیا کے مختلف خطوں میں ہونے والے مزاحمتی تحریکوں سے سیکھتے ہوئے آگے قدم بڑھاتی ہے ، ماضی کے مزاحمتی تحریکوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا اپنے معروضی حالات کے مطابق تشریح کرکے اپنا آگے کا لائحہ عمل ترتیب دیتی ہے کیونکہ زمان ومکان میں اختلاف کے باوجود یہ اپنے بنیادی فلسفے اور ہیت میں ایک ہوتے ہیں ، سب ظلم کے خاتمے کی سعی ہیں ، سب ایک انسان کو دوسرے انسان کے برابر لانے کا جتن ہیں ، سب حرص اور لالچ کے خلاف للکار ہیں ، سب انسانیت کو آزاد کرنے کی کوششیں ہیں جو دنیا کے مختلف کونوں میں مختلف ناموں اور مختلف مقاصد کے ساتھ ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ روس ، چین ، کیوبا ، الجزائر ، کوسوو ، ویت نام ، ایسٹ تیمور وغیرہ کی کامیاب تحریکوں سے حاصل تجربات ہوں یا پھر تامل ،چیچن وغیرہ جیسے ناکام تحریکوں سے حاصل سبق ہوں یہ صرف ان قوموں کی ملکیت نہیں بلکہ یہ ہمارے جیسے مظلوم اور قبضہ کا شکار ہر قوم کی بھی ملکیت ہیں تاکہ ان سے سیکھ کر ، ان سے حاصل تجربات کو اپنے معروضی و موضوعی حالات کے مطابق ڈھال کر ہم کامیاب راہوں کا ادراک و تعین کرکے ان پر گامزن ہوسکیں۔
بحرہ احمر کے ساحل پر واقع افریقی ملک ا یر یٹیریا ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر 1993 میں آزاد ہوگیا ، طویل غلامی اور ایک قبضہ گیر کے ہاتھوں سے دوسرے قابض کے ہاتھوں منتقلی کی غلامانہ تاریخ اسے بلوچستان سے کافی حد تک مماثل بناتاہے ،ا یر یٹیریاپر پہلے اٹلی نے قبضہ کیا اور اسکے بعد جنگ عظیم دوئم کے دوران 1941 میں برطانیہ نے اٹلی کو شکست دے کر علاقے کا کنٹرول اپنی فوجی انتطامیہ کے حوالے کیا اور برطانوی انخلاء کے بعد 1952 میں ایتھوپیا نے باقاعدہ ایر یٹریا پر قبضہ جما کر اسے اپنا کالونی بنایا۔ایتھوپیا ایک لینڈ لاک ملک ہے جس کو ایر یٹریا کی بہت ضرورت تھی کیونکہ ایر یٹریا کے پاس بحرہ احمر سے منسلک ایک وسیع ساحل تھا جو اسے اسٹریٹیجک حوالے سے بھی کافی اہمیت کا حامل بناتاتھا ۔ایتھوپیا کے بادشاہ ہیل سیلسی نے جون 1942میں ایر یٹریا پر حق جتانا شروع کردیا تھا دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات نسلی و لسانی قرابت اور بحر ہ احمر کو ایتھوپیا کاخدائی حق قرار دیتے ہوئے ایر یٹریا پر حق جتانے کی کوشش کی اور 1946 میں ایتھوپیا کے بادشاہ نے کرنلNegga Haile Selassie کو ایر یٹیریا پر قبضہ مستحکم کرنے کے لیے تعینات کیا۔ جو اپنے غرور وتکبراور بے رحمی کے لیے مشہور تھا وہ غیر مہذب طریقہ سے ا یر یٹیریا کے ان لوگوں پر مظالم ڈھاتا رہا جو ایتھوپیاکی غلامی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے.
ایتھوپیا نے ایر یٹریا کی ثقافتی ،سماجی اور مذہبی خلیج کا بھر پور فائدہ اٹھایا تا کہ آزادی کی تحریک کو کمزور کرسکے۔ ایر یٹریا ایک کثیرلسانی اور نو نسلی گروہ پر مشتمل ملک ہونے کے ساتھ ساتھ عیسائیت اور اسلام مذہب کو ماننے والوں میں بٹا ہوا تھا۔جہاں تگرینا زبان بولنے والے زیادہ تر عیسائی تھے جبکہ تگرے زبان بولنے والے مسلمان تھے۔ ان تمام اندرونی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ایتھوپیا نے تین رخی حکمت عملی اپنائی،پہلے ،مذہب کے کارڈ کو استعمال کیا گیا ۔ ا یر یٹیریا کے تمام چرچوں کے ذریعے ان تمام عیسائیوں کو دھمکی دی گئی کہ جنہوں نے یونین کی مخالفت کی کہ انھیں مذہب سے excommunicate کیا جائے گا یعنی انھیں مذہب سے باہر کیا جائیگا۔دوسرا تگر ے زبان بولنے والے ایر یٹریائی غلام تھے جنہوں نے حاکموں سے آزادی حاصل کی تھی تو حاکموں اور لارڈز کے ساتھ وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ ایتھوپیا کی حمایت کریں تو انکی پرانی حیثیت بحال کی جائیگی،تیسرا مسلم لیگ اور لبرل پروگریسیو پارٹی کی اتحاد اور اٹلی سے مدد لینے کے عمل کو بھی سبوتاژ کیاگیا۔ اسی طرح بلوچستان کی تاریخ بھی ا یریٹیریا سے قدرے مماثلت رکھتی ہے ،بلوچستان 1666 سے لیکر انگریز کے آنے تک کسی نہ کسی حد تک اپنی آزاد خودمختار حیثیت کا مالک تھا جس طرح اٹالوی سامراج نے ایر یٹریا پر قبضہ جمایا اسی طرح انگریزوں نے بھی بلوچستان پر قبضہ کیا، جسکے خلاف خان محراب خان نے ہماری آزادی کی دفاع میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ا او ر اس کے بعد بلوچ مسلسل مزاحمت کرتے رہے
انگریز کے جانے کے بعد ایتھوپیا کے طرز پر پاکستان مذہب کا لبادہ اوڑھے بلوچستان پر حملہ آور ہوا اور بلوچستان پر اپنے قبضے کو دوام و جواز بخشنے کیلئے مذہب کے ساتھ نوابوں اور سرداروں کو مراعات نواز کر اپنے ساتھ ملا لیا ، مڈل کلاس کا شوشہ بھی چھوڑا گیا اور ا یریٹیریا کی طرح یہاں رنگ ، نسل زبان وغیرہ کو استعمال کرکے تفرقات ڈالے گئے ، ابتداء میں بلوچستان نیشنل مومنٹ نے سرداروں اور نوابوں کے خلاف بولنا شروع کیا لیکن وہ اسے بلوچ قومی مفادات کے بجائے اپنے پارلیمانی مفادات کیلئے استعمال کرتا رہا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے علاقائیت اور قبائلیت کے جذبات بھڑکا کر خوب ووٹ بٹورے لیکن انکے اس گورکھ دھندے کے نقصانات کا خمیازہ صرف قوم ہی بھگتتا رہا ۔بلوچستان بھی ایر یٹریا کی طرح کثیرالسانی سماج ہے یہاں بلوچی کے علاوہ بھی بلوچوں کی اور زبانیں ہیں قابض نے اپنے پے رول پر لیئے ہوئے نوابوں ،سرداروں اور مڈل کلاس کے ذر یعے بلوچ قوم کے اندر پائے گئے ان خلیجوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا تا کہ قوم کو زبان ،مذہب اور طبقوں کے نام پہ ایر یٹریا کی طرح تقسیم در تقسیم کریں۔مڈل کلاس کا نعرہ لگانے والے نیشنل پارٹی نے سرداری اور نوابی کے خلاف کئی سال تک پروپگنڈہ کیا اور نعرہ لگایا لیکن آخر کار قابض کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیئے انہیں نوابوں اور سرداروں کے ساتھ مل کر بلوچ قومی تحریک آزادی کو کاوئنٹر کرنے لگے۔ بلوچستان میں شروع سے قابض کی حکمتِ عملی تھی کہ لڑاؤ اورحکومت کرویعنی بلوچوں کو قبائیلی جھگڑوں ،مذہبی اور زبان کے مسئلے میں الجھا کر قابض نے اپنے لوٹ مار ،ظلم و جبر اور استحصال کو جاری و ساری رکھا۔پھر قابض نے پروپگنڈے کو عام کیا کہ بلوچ نا اہل ہیں ،ناقابل ہیں ،بے تعلیم ہیں اپنی غلامی کا ذمہ دار خود ہیں کئی مدت تک کچھ لوگ انہیں لغویات پر یقین کرتے رہے یعنی ا یر یٹیریا اور بلوچستان کی ابتدائی تاریخ قبضہ در قبضہ اور دھوکے کی تاریخ ہے ، قابض کے چھتر چھاوں میں پلنے والی تفرقات اور تقسیم در تقسیم کی تاریخ ہے۔
ایتھوپیا نے جب ایر یٹریاپر اپنا قبضہ مستحکم کیا تو سب سے پہلے انکی دفتری یا سرکاری زبان تگرینا اور عربی کی جگہ ایتھوپیا کی قومی زبان Amharic کو رائج کیا۔انکے پریس کو بند کیاگیا، سپریم کورٹ کو بے اختیار کیاگیا،انکے جھنڈے کو اتار کر اپنا جھنڈا لگایا گیا اور ساتھ ہی ساتھ تشدد ،ظلم و جبر کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ایتھوپیا نے کوشش کی کہ ستم گیری اور جابرانہ طرز اپنا کر ایر یٹریا کے لوگوں کو زیر اثر لانے میں وہ کامیاب ہونگے اور اس طرح انکی جداگانہ شناخت ختم کرکے انہیں ایتھوپیا میں مدغم کرکے انکے وسائل اور محل وقوع کو اپنے قومی بقا و ترقی میں استعمال کریں گے۔جب اس ظلم وجبر اور ناجائز قبضہ کے خلاف ایر یٹریاکے لوگوں نے آزادی کی جدوجہد شروع کی تو ایتھوپیا نے الزام لگایا کہ انھیں بیرونی دشمن نے اکسا یا جو ایر یٹریا کو اپنی مادر وطن ایتھوپیا سے جداکرنے کی سازش ہے ، ایتھوپیا ابتدائی تحریکِ آزادی کا ذمہ دار اور معاون عرب ملکوں کو گردانتا رہا اور ہر قابض کی طرح یہ ظاہر کرنے کی سعی کی کہ ایر یٹریا اسکا اٹوٹ انگ ہے اوروہاں کے لوگ قابض کے وفادار ہیں ، قابض نجات دہندہ و ترقی دہندہ ہے ۔
اسے غلامی کی مماثلت کہیں یا پھر قابضوں کی مشترکہ نفسیات اور یا پھر مخصوص مشترک جغرافیائی ساخت کا حاصل نفسیات یہی پینترے عرصہ دراز سے قابض پاکستان بلوچستان میں بھی آزماتا آیا ہے ،اسی طرح اغیار نے جب بلوچستان پر یلغار کیا تو بلوچ قومی ترانہ،جھنڈا ،زبان،تاریخ،ہیروز اور سارے علاقوں کے نام تبدیل کرتے ہوئے نومولود،نوزائدہ پاکستان نے اپنے چرائے ہوئے تاریخ کو بلوچوں پر لاگو کیا۔نصیر خان نوری، بیورغ،حمل،مہراب خان،بلوچ خان کی جگہ لٹیروں اور برصغیر پر یلغارکرنے والے لوگوں کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا۔کوئٹہ کے تمام جگہوں کے نام انگریز قابض کے نام سے تبدیل کرتے ہوئے پاکستانی قابض کے نام کردیئے گئے۔جناح روڈ،فاطمہ جناح روڈ، شارہ اقبال وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں ، بلوچی اور براہوئی زبان کے بجائے اردو اورانگریزی کو بلوچوں پر مسلط کیا گیا۔یہاں پر جب لوگوں نے قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد کی تو کبھی افغانستان کا ایجنٹ تو کبھی عراق تو کبھی انڈیا اور آجکل اسرائیل،امریکہ سازش قرار دیکر بلوچوں کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
اٹلی نے جس وقت ایر یٹریاپر قبضہ کیا تو اٹلی نے ایک کمیونیکیشن اسٹیشن (ریڈیو مرینہ)تعمیر کیا تھا، جب ایریٹریا اور ایتھوپیا اٹلی سے آزاد ہوئے تو امریکہ نے برطانیہ سے اجازت مانگی کہ وہ اس ریڈیو کو استعمال کرینگے کیونکہ اسٹیشن جنگی حکمت عملی کے حوالے سے اہمیت کا حامل تھا۔امریکہ نے ابتداء میں تو ایر یٹریاکی آزادی کی حمایت اس بنیاد پر نہیں کی کہ یہ بہت چھوٹا ملک ہے اور آزاد ہوکر الگ شناخت کے ساتھ نہیں چل سکے گا۔پھر ایتھوپیا کی منصوبہ بندی اور امریکہ کے مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی پر امریکہ ایر یٹریاکی ایتھوپیا کے قبضے کے منصوبہ کی حمایت کے بدلے بحرہ احمر اور کمیونیکیشن پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ، جس کے عوض قابض ایتھوپیا نے امریکہ سے حمایت کے ساتھ ساتھ ہتھیار اور ملٹری ٹریننگ کا بھی مطالبہ کیا جو امریکہ نے مان لیا۔پھر ایتھوپیا امریکہ سے ایر یٹریا کی اسٹریٹیجک اہمیت اور کمیونیکیشن کی وجہ سے مطالبات کرتا رہا اور اسطرح انہوں نے آخر کار امریکہ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی جب امریکہ نے مزید فنڈز دینا بند کردیا تو ایتھوپیا امداد کیلئے روس کے پاس چلا گیااور وہاں ایک معاہدہ کیا حالانکہ روس بحیرہ احمر میں پہلے سے ہی موجود تھا اور اگر ایتھوپیا بھی اسکے کیمپ میں چلا جاتا تو بحیرہ احمر مکمل طور پر روس کے زیر اثر چلا جاتا ۔اس دوران آئل ٹینکر بحیرہ احمر کو تیل کے رسد گاہ کی حیثیت سے استعمال کرتے تھے ، بعد ازاں امریکہ ایتھوپیا کے دھمکی سے مجبور ہوگیا اور بڑے پیمانے پر مالی مد د کے ساتھ ساتھ جنگی مدد دی اسکے فوج کو بہت مضبوط کردیا۔ جس سے ایتھوپیا نے اپنے طاقت میں بے تحاشہ اضافہ کرتے ہوئے ایر یٹریا پر اپنے تسلط کو مزید استحکام بخشا۔ یہی بلیک میلنگ کی تاریخ ہمیں غیر فطری ریاست پاکستان میں بھی ملتی ہے ،اسی طرح جب بلوچستان پر قبضہ کیا گیا تو یہ برطانیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ بلوچوں کی آزادی کی حمایت کرتے لیکن برطانیہ نے بھی اپنے کٹ پتلی جناح کے ذریعے ہندوستان کو تقسیم کروانے بعد بلوچستان پر پاکستانی ناجائزقبضے کی غیر اعلانیہ حمایت کی۔ پاکستان نے ایتھوپیا کی طرح کمیونزم سے خوب فائدہ اٹھایا اور امریکہ ، فرانس ، برطانیہ وغیرہ کے اتحاد سیٹو میں شامل ہوگیا اور امریکہ سے مالی اور عسکری مدد حاصل کی بعد میں اپنے مذہب کے کارڈ کو بھی خوب استعمال کیا ، سعودی اور امریکہ کے ساتھ جہادی گروپ تیار کیئے تا کہ وہ روس کو افغانستان سے باہر نکالیں اور ساتھ ہی ساتھ بلوچ قومی جدوجہد کے اثر کو کم کرنے کیلئے اپنی کوشش کی جبکہ بلوچ روس اور کمیونزم کے حمایتی ہوتے ہوئے بھی عملی حوالے سے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل ناکرسکے۔ اس وقت بھی گوادر پورٹ ایر یٹریاکے بحیرہ احمر اور کمیونکیشن کی طرح بڑ ی اہمیت کا حامل تھا یعنی پاکستان بھی اپنے علاقائی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بالکل ایتھوپیا کی طرح اپنے قبضے کو دوام بخش رہا ہے اور اپنے عسکری قوت میں اضافہ کررہا ہے۔ اسی دوران بلوچ بھی روس اور افغانستان گئے تھے تا کہ بلوچ قومی آزادی کی خاطر کام کرسکیں لیکن عملی طور پر اس وقت کوئی بھی فائدہ مند کام نہیں ہوا بلکہ واپس جو آئے تو آزادی کجا دست و گریبان ہوکر لوٹے ۔ کیا وہ ناکامی لیڈر کی تھی قوم کی تھی یا حالات کے نزاکت کو نا سمجھنے کی تھی ،یا پھر رومانسزمیں گرفتار ہوکر زمینی حقائق کو جانچے بغیر ہم سویت بلاک کے شیدائی بن کر امریکی سامراج کو موت کی دہائیاں دیتے رہے؟ اس پر آج کے باشعور نوجوان ضرور سوچیں غور و فکر کریں ۔
ایر یٹریا کے لوگوں نے قبضہ گیریت اور ظلم و جبر و استحصال کو دیکھتے ہوئے گوریلہ جنگ آزادی کیلئے سوچنا شروع کیا انکے نزدیک گوریلہ جنگ دو دھاری یعنی سیاسی و عسکری تلوار کے مانند تھی ۔ لوگوں کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو منظم کرنا گوریلا جنگ کی کامیابی کا پہلا قدم ہے کیونکہ گوریلا جنگ بنیادی طور پر عوام سے وجود پاتا ہے انکی کامیابی کیلئے عوامی حمایت بے حد ضروری ہے ۔ یہ عوام کی حمایت اور تعاون کے بغیر نا آگے جاسکتا ہے اور نا ہی قائم و دائم رہ سکتا ہے ، ماؤکہتا ہے کہ’’ گوریلہ جنگ کا ہمیشہ عوام کے آرزوں کے مطابق سیاسی ایجنڈا ہونا چاہئے‘‘ ، بیسل ڈیوڈسن کہتا ہے کہ ’’ ایک مزاحمتی تحریک صرف نظریہ کو پروان چڑھانے کی صورت میں ہی کامیاب ہوسکتی ہے اور ایسا نا کرنے کی صورت میں ناکامی اسکا مقدر بنتا ہے یہ نظریہ اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب مقصد ، حکمت عملی ، طریقہ کار لوگوں کی حالت زار ، انکے شعور کے باہم ایک ربط و ہم آہنگی قائم کی جائے اور پھر اسی ہم آہنگی کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے شعوری سطح کو مزید بلند کیا جائے‘‘ ۔ ایر یٹریا میں مزدورں نے 1958 میں اسماراء میں Haile Selassie کی پالیسی کے خلاف ایک ہڑتال سے اپنے تحریک کاآغاز کیا ۔ یہ ہڑتال پر امن تھا لیکن ایتھوپیا نے بڑی بے رحمی سے انہیں دبانے کی کوشش کی تب انہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ انہیں ایک منظم قوت اور جدید طریقہ کار کی ضرورت ہے ۔محمد سعید نوید نے سوڈان میں نوجوانوں کے گروپ کے ساتھ ELM (ا ایر یٹرین لبریشن موومنٹ) بنائی تاکہ قومی آزادی حاصل کرسکیں ۔ انکا نعرہ ، مقصد اور اصول تھا کہ مسلم اور عیسائی بھائی بھائی ہیں اور انکی یکجہتی اور سیکیولر ایر یٹریا کے ذریعے ہی حقیقی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ۔ 1959 میں ELM نے خفیہ مہم کا بتداء کیا انہوں نے سوڈانی کمیونسٹ پارٹی کے ماڈل کو اپنے لیئے

بہتر سمجھا اور اسی کے مطابق اپنی ساخت ترتیب دی ۔ اسکا ہر ایک بانی ممبر اپنے ساتھ چھ ممبر ملا کر ایک سیل بناتے تھے اور پھر ہر سیل کے ممبر دوسرے سیل کے ممبر سے الگ ہوتے تھے ۔ ہر ایک اپنے بھرتی کرنے والے چھ ممبران کے ساتھ منسلک ہوتا تھا اسطرح یہ سلسلہ وسعت اختیار کرتا رہا اور یہ بعد میں گروپ سیون کہلایا جانے لگا ۔ تنظیم پہلے سیاسی اور جمہوری انداز میں اپنا مہم چلا رہا تھا لیکن آخر میں مسلح جدوجہد کی جانب گامزن ہو ا۔ تنظیم کا نعرہ اتحاد ، آزادی اور جمہوری ایر یٹریاتھا ، ایر یٹریاکے طلبا نے مسلم لیگ کے بانی ابراہیم سلطان علی اور ادریس محمد آدم کو کہا کہ ایک مسلح تنظیم بنائیں پھر 1960 میں ادریس محمد آدم نے ان طلباء کے ساتھ مل کر ELF بنائی اور اعلان کیا کہ بیرونی قبضہ کو ختم کرنے کا راستہ صرف اور صرف مسلح جہد ہے ، ادریس خفیہ طریقے سے ایر یٹریامیں داخل ہوئے اور اپنے آبائی علاقے اکورڈٹ میں دوسرے نامی گرامی لوگوں سے ملے تاکہ وہ بھی قومی آزادی کی حمایت کریں بہت سی بڑی شخصیات نے ELF کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ۔جبELF بنی تو ایر یٹریامیں بحث چلی کہ ایک تنظیم کے ہوتے ہوئے دوسرے تنظیم کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ Nawid کے مطابق ELM نے ELF کو اتحاد و انضمام اور یکجہتی کیلئے تجویز دی تھی کہ دونوں تنظیموں کو یکجا ہوکر کام کرنا چاہئے ، لیکن ELF نے انکی تجویز ماننے سے انکار کردیا اور اسکے بعد مسلح تنظیموں میں آپسی رسہ کشی کا دوڑ اور تصادم شروع ہوگیا ۔ ELM نے پر تصادم ماحول کو جنم دینے کا الزام ELF پرلگایا جبکہ ELFنے جواب دیتے ہوئے کہا ELM نے غیر حقیقی حکمت عملی اپنا ی ہے ۔ الزام در الزام کے بعد دونوں گروپوں میں تصادم شروع ہوگئی ، اسی دوران ELFنے ELM پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ، وہ کمیونزم کو شعار بناکر قومی تحریک کا رخ موڑ رہے ہیں اور دوسری طرف علاقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں کیونکہ اس وقت ELM کا زیادہ تر اثر Keren اور Sahel کے علاقوں تک تھی ، جبکہ ELF کے لیڈر Barker کے علاقے سے تھے اور اسی تضاد کی وجہ سے دونوں میں ایک خلیج پیدا ہوگیا ۔ ELMکی تنظیم میں عیسایوں کی بھرتی کو بھی ELF تحریک کے لیئے نقصان دہ سمجھتا تھا انکا کہنا تھا کہ عیسائیوں کی وجہ سے وہ غلام ہوئے کیونکہ انہوں نے ایر یٹریا کو ایتھوپیا کے حوالے کرتے ہوئے انھیں غلام بنایا جبکہELMکا تواتر کے ساتھ الزام تھا کہ ELF باقی تنظیموں کے وجود کو برداشت نہیں کرسکتا ہے ۔جبکہ انکے زیادہ تر لوگوں کی رائے تھی کہ فیلڈ صرف ایک مسلح تنظیم کے لیئے عمدہ ہوتی ہے۔آخر کار ELFکی سپریم کونسل نے باقی تنظیموں کے خلاف بھی کاروائی شروع کی۔انہوں نے ELM کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ہمدردوں کے خلاف بھی ایکشن لیا۔پھر بعد کے تمام حالات اندرونی جنگوں کا نمونہ رہے۔
بلوچستان کے ابتدائی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ آج تک یہی صورتحال کا سامنا ہے ، بلا جواز پارٹیوں کی تقسیم اپنے پروگرام سے باہر باقی سب کو غدار و نقصاندہ قرار دینا ، اپنے ڈیڑھ اینٹ کے مسجدوں کی تعمیر پھر انہی گروہوں کو ہی مقصد بنانا جیسے کہ ہمارا وطیرہ بن چکا ہے ،بلوچستان میں بھی شروع میں آزادی کے سلوگن پر بنے مختلف پارٹیاں مبہم اور کنفیوزتھے کچھ واضح انداز میں آزادی کا اعلان کرنے سے کتراتے تھے 1984،1958,1962اور1973 کے دوران مسلح جدوجہد بھی ہوا لیکن مقصد،مراد اور مدعا ا واضح نہیں تھا بہت سے لوگوں نے قربانیاں دیں کئی لوگ شہید بھی ہوئے حالانکہ 1973 کی جنگ نیب حکومت کے خاتمے کے بجائے اگر 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کے جنگ کے دوران شروع کیا جاتاتو اس وقت تحریک کی کامیابی کے واضح امکانات تھے لیکن اسکے بجائے 1973 میں تحریک کا آغاز کیا گیا اور بغیر قومی جہد کو کامیاب کیئے ختم بھی کیا گیا لیکن جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اس وقت جدوجہد میں ٹہراؤ کیوں لایا گیا۔وجوہات کیا تھے ناکامیوں کا زمہ دار کون تھا۔اس کا تعین صحیح معنوں میں نہیں ہوا۔پھر روس،کیوبا،سوشلزم اور کمیونزم کا عروج تھابلوچ بغیر کسی واضح یقین دہانی کے اور بغیرکوئی ہوم ورک کیئے اور ان سے رسمی تعلقات پیدا کیئے بغیران کو اپنا حمایتی و اتحادی سمجھتے تھے حالانکہ انکے سلوگن کے تحت اپنے آپ کو انقلابی ثابت کرنے اور شوشہ کرنے کی غرض سے مذہب سمیت معاشرے کے دوسرے حساس معاملوں میں الجھاتے تھے ۔بیکار کے مذہبی الجھنوں میں پڑچکے تھے انکو پتہ بھی نہیں تھا کہ کس کے ایجنڈے پروگرام کو آگے لے جارہے تھے ایریٹیریا میں بلوچوں کی طرح idealist لوگ تھے لیکن انہیں حقیقت پسندوں نے کاونٹر کیا اور اپنی جدوجہد کے خلاف ہر سازش اور کمزوری و کوتاہیوں کو منکشف کرتے ہوئے اصلاح اور تعمیر پر نئے سرے سے توجہ دی ، پہلے ELMسے اختلافات اور اسکی غلط پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانا پھر اسکے زیادہ تر باصلاحیت حقیقی اور ایماندار و مخلص دوستوں کا اسے چھوڑ کر ای ایل ایف میں جانے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔۔
ایریٹیریا کے جہد کار جب اپنے جہد کا آغاز کرچکے تھے تو وہ پھر ایریٹیریا کے گلی کوچوں اور گاؤں میں جاکر یہ پیغام پھیلانے لگے کہ ’’ ہم لٹیرے نہیں ہم انقلابی ہیں ، ہم آپ کے آزادی کیلئے نکلے ہیں اور آپ کے آزادی کیلئے مریں گے ، ہم اس وقت ایتھوپیائی تسلط میں ہیں ، ہم سوڈان کی طرح آزاد ہونا چاہتے ہیں ‘‘ لیکن اس وقت بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ ELF اپنے حالات، لوگوں کی نفسیات اور ماحول کو سمجھے بغیر صرف جذباتی بنیادوں پر جدوجہد کررہی تھی ، ایک دانشور کہتا ہے کہ ’’ اس وقت ELF میں ایریٹیریا کی سماجی ، معاشی اور معروضی حالات کوسمجھنے کی صلاحیت نہیں تھی جو کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے لازم ہوتا ہے ‘‘ ان میں مخلصی اور حب الوطنی تو بہت زیادہ تھی لیکن حالات کو نا سمجھنے کی وجہ سے وہ بہت سے غلط فیصلے بھی کرتے تھے ، ان کی تعداد بھی وافر تھی وہ کاروائیاں بھی کرتے تھے ، انہوں نے قربانیاں بھی د یں لیکن ELF اور ELMدونوں میں وژن کی واضح کمی تھی ۔ وہ بغیر کسی طویل المدتی منصوبہ بندی کے ایتھوپیا کے مظالم و تشدد کے خلاف صرف اور صرف ردعمل کے بنیاد پر جہد کررہے تھے ، اسی حوالے سےHamid Idris Awateکہتا ہے کہ ’’تحریک کو کامیاب کرنے کیلئے اس شعلے کی طرح ہونا چاہئے جس کی لو بجھائی نہیں جاسکے ، کیونکہ اگر ایک بار یہ شعلہ بجھادیا گیا پھر اسے دوبارہ جلانا بہت مشکل ہوجاتا ہے ‘‘ ۔ اسی دوران ایک واقعے میں ELF نے پولیس کانوائے پر حملہ کرتے ہوئے ایریٹیریا کے مقامی سترہ پولیس افسران کو مارڈالا اور انکے ہتھیار چھین لیئے جسکے بعد مقامی پولیس انکے خلاف حرکت میں آگئی اور اپنے اسلحہ ان سے واپس لے لیئے ، ELF نے اپنی کاروائیاں باہر کے ممالک میں بھی ایتھوپیا کے خلاف جاری رکھا ۔ ایتھوپیا کے جہازوں پر روم اور فرینکفرٹ میں حملہ کیے ، ELF کے ممبران کی تعداد سات ہزار تک تھی لیکن وہ اس کثرت کوقومی اثاثہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ، ایک تحقیق کار نے کہا کہ ’’انکے وژن میں موافقت اور یکسانیت کی کمی اور بے حد بلند نظری اور غیر حقیقی حکمت عملی نے انہیں ناکام کیا ‘‘اسی طرح ELF کے سیاسی معاملات کے وائس چیئرمین ہیروی ٹیڈلا بیرو نے اپنے ناکامیوں کا ذکر کچھ یوں کیا کہ ’’ہم اپنے حالات کا بہتر اندازہ نہیں لگاپائے ، ہم ایتھوپیا کے بھی حقیقی حالات کا جائزہ لینے سے قاصر رہے ، ہم اندرونی طور پر بھی اپنے معاملات کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہے کہ آیا ایک نوخیز جہدکار ہماری تنظیم کیلئے ایک نعمت ہے ؟ یا خطرہ ؟‘‘۔ اسی طرح ELF کی غلط پالیسیوں پر Awet Tewelde Weldemichael
اپنی کتاب Third world colonolism and strategy of liberation میں لکھا ہے کہ ’’لیڈرشپ میں سیاسی عزم کی کمی، فرقوں کی بنیاد پر تقسیم جیسے مسئلوں کی وجہ سے جنگجوں اور لیڈرشب میں موجود بداعتمادی، اور جنگجوں کے آپسی بداعتمادی کو دور نہ کیا جاسکا، ز ونوں کے در میان عدم تعاون نے سپلا ئی کے مسلے کو مذید پیچیدہ کیا، علاقائی تعصبات ، صلاحیت کے فقدان اور طویل المدتی پالیسی کی عدم موجودگی نے بالآخر تنظیم میں موجود نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے حالات پر غور کرکے انہیں تبدیل کردیں اس دوران ELF کے اندر سے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بہت کوشش کی کہ وہ حالات کو تبدیل کردیں اور موثر حکمت عملیاں اپنائیں لیکن ELF کے ذمہ دار کسی بھی تبدیلی کے آگے رکاوٹ بن گئے ، اس دوران ELF پڑھے لکھے طبقے کے ہر اس شخص کو نشانہ بناکر قتل کرنے لگا جو انکے پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے یا سوال اٹھاتے تھے ‘‘۔ ELF میں قائدے ، اصول اور ڈسپلن کا فقدان تھا ۔انہی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پھر ایریٹیریا میں آ زادی پسند حلقوں میں تحریک کو بہتر کرنے کیلئے صلاح و مشورے ہوے اور کامیاب تحریکوں سے استفادہ کرنے کی کوشش کی گئی، دنیا کے مختلف تحریکوں کے جائزہ کے بعد انہوں نے تحریک آزادی الجزائر کو اپنے لیئے رول ماڈل چنا ، دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کیلئے انہوں نے اپنے معروضی حالات کے مطابق تشریح کرکے اپنی پالیسیاں بنائیں ۔اس اندرونی اصلاح میں ناکامی کے بعدانکے کچھ لوگوں نے پارٹی سے الگ ہوکرEPLFبنائی ۔ Eritrean People\’s Liberation Front (EPLF ) کے اصلاح کاروں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ باہر الگ رہتے ہوئے تحریک کی اصلاح کرینگے اور حقیقی انقلابی پارٹی بناتے ہوئے اپنی قوت بصیرت اور وژن کو حقیقت میں تبدیل کرینگے ، پھر آہستہ آہستہ باقی تنظیموں کے اصلاح پسند ممبران نے بھی EPLF میں شمولیت اختیار کی ، اس دوران نا صرف قابض ایتھوپیا بلکہ ELF بھی انکے سرکوبی میں لگ گئے لیکن وہ اپنے کامیاب پالیسوں کی وجہ سے لوگوں کے دل و دماغ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے ناصرف داخلی تضادات بلکہ قابض قوت کا بھی جانفشانی سے مقابلہ کیا ، انہوں نے اپنی پوری حکمت عملی تبدیل کرتے ہوے اپنے ذرائع اور طریقہ کار پر غور کرکے انہیں از سر نو ترتیب دی ، اسی لیئے بہت جلد ہی EPLFلوگوں کے توجہ کا مرکز بن گیا ۔انہوں نے عوامی حمایت کے ذریعے طاقت حاصل کی ، عوامی حمایت حاصل کرکے ایتھوپیا کی فوج پر بڑے سے بڑے حملے کرتے رہے اوریہ عوامی حمایت ایتھوپیا کیلئے سر درد اور تکلیف بن گیا ، اس لیئے پھر قابض نے اس محاورے کے مصداق کہ ’’ مچھلی کو مارنے کیلئے اسے پانی سے الگ کردو ‘‘ کے تحت تمام حمایتی گاؤں اور علاقوں پر حملہ کیا تاکہ گوریلوں کو عوام سے دور دھکیل کر انہیں نقصان پہنچایا جائے ۔اس عمل سے کئی بے گناہ لوگ شہید ہوئے جس کی وجہ سے مزید حادثاتی ،ناگہانی گوریلہ پیدا ہوتے گئے اور وہ EPLF میں شمولیت کرتے گئے ، یہ وہ لوگ تھے کہ جن کے والد، رشتدار قابض کے ہاتھوں مارئے گئے اور یہ اپنا بدلہ لینے کے لیے تنظیم میں گئے پھر تنظیم نے انکی تربیت کرکے ان کو معیاری گوریلہ بناکر ان سے معیاری کام لیا ۔ پوری کی پوری آبادیاں ایتھوپیا کے خلاف ہونے لگیں۔ EPLF کے ان پالسیوں کی وجہ سے تحریکِ ایریٹیریا طفلانہ سطح سے نکل کر بلوغت تک پہنچ گیا ۔ اسی صورتحال پر مذکورہ بالا کتاب میں ELF کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ دنیا میں کوئی بھی تحریک ہو وہ اپنے جہد کاروں کے اندر ڈسپلن کی عدم موجودگی کا متحمل نہیں ہوسکتا ، ELF نا اپنے لیڈروں کے اندروں مخاصمت کو مٹانے میں کامیاب ہوسکا ا ور نا ہی اپنے جہد کاروں کو قابو کرسکا ‘‘۔جب کہ ایک اور کتاب African Guerillas میں لکھا ہے کہ ’’ EPLF نے ثابت کیا کہ وہ تیسری دنیا کی کامیاب اور مستحکم ترین تنظیم ہے ۔وہ حکمت عملی اور سفارتی و فوجی طاقت کے بل بوتے پر 1993 میں اریٹیریا کو آزادکرانے میں کامیاب ہوئے ، یہ اپنے اولین روز سے لیکر آخر تک مختلف مراحل اور اندرونی و انقلابی پیچیدگیوں اور بحرانوں سے گذرے، ا یتھوپیا جسے روس اور کیوبا کی بھی حمایت حاصل تھی ، اس کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ELF کا بھی سامنا کیا ‘‘ EPLF کی سیاسی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ محاذ ایتھوپیا کے خلاف کھولے جس کے تحت اس نے دوسرے حکومت مخالفین اور ایتھوپیا کی ریاست کے خلاف نبرد آزما تمام طاقتوں کے ساتھ نزدیکی کی ، انہوں نےPLF T ( ٹیگرے پیپلز لبریشن فرنٹ )کے ساتھ بھی اتحاد کیا جو ایک الگ علاقے کیلئے جدوجہد کررہے تھے لیکن اپنے علاقوں کے تقسیم پرEPLF نے PLF T کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کیا لیکن انہیں ایتھوپیا کے خلاف معاونت فراہم کرتے رہے ۔ لوگ حیران تھے کہ ایریٹیریاجیسا سماج جو قبائلی ، مذہبی ، نسلی اور لسانی حوالے سے تقسیم در تقسیم کا شکا تھا آخر وہ کیسے EPLF کے نظم و نسق اور فوجی ڈسپلن کے تحت یکجا اور متحد ہوگئے۔ EPLF نے ماضی کے تمام غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی از سرنو ترتیب کی ۔اپنی ماضی کے ناکامیوں کو تول کر انہوں نے مستقبل کا خاکہ کھینچا تھا ، انہوں نے اپنے انہی تجربات کے بنیاد پر اپنے کارکنوں کو سیاسی تعلیم دینا شروع کیا ،EPLF جو کہ بنیادی طور پر مارکسزم اور سوشلزم پر یقین رکھتا تھا ، بعد میں انہوں نے ان پیچیدہ قائدوں اور نظریوں کے بجائے اپنی قومی آزادی اور مفادات کو realpolitik کے تحت دیکھنا شروع کیا اور اپنے لوگوں کو ایریٹیریاکی تاریخ اور قوم پرستی کے بارے میں آگاہی دی ، انہی خطوط پر انکی سیاسی تربیت جاری رکھی ۔ EPLF زیادہ تر شروع میں دیہاتوں میں سرگرم تھا پھر پھیلتے ہوئے شہروں میں داخل ہوا ۔ 1977 میں EPLF نے Keren پرقبضہ کیا انہوں نے کہا کہ وہ اس کو آزاد ایریٹیریاکا دارلحکومت بنائیں گے۔اس دوران ELPF کے باقی مسلح تنظیموں سے اصولی اختلافی لڑائیاں جھگڑے ہوتے رہے۔کیونکہ EPLF کے زیادہ ترممبر تعلیم یافتہ اور حالات کا ادراک رکھنے والے اور عوامی حمایت، بین الاقوامی حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے ELFکی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دونوں میں شدید اختلاف پائے جاتے تھے لیکن EPLF اور ELFکے درمیان اتحاد قائم ہوا کچھ وقت کے لیئے ایک ساتھ لڑے پھر اتحاد قائم نہ رہ سکا پھر سے اختلافات ابھرے اور دونوں میں لڑائی شروع ہوئی۔اس وقت تک لڑائی جاری رہی جب تک EPLFنے مکمل طور پر ELF کو1981 میں شکست دی اور پھر EPLF کے ممبروں کی تعداد 8ہزار کے قریب ہوگئی۔1987 میں اسیاس ابی ورک پارٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔1991 میں EPLF نے اسمارا پر قبضہ کیا اور عارضی حکومت قائم کی پھر 1993 میں ریفرینڈم کروایا جس میں لوگوں نے مکمل آزادی کے حق میں رائے دی۔
کتاب The A to Z Civil Wars in Africa اور دوسری کتاب Conversation with Eritrean Political Prisonersمیں بھی لکھا ہے کہ EPLF کے لوگ کارِ منصبی کی بجا آوری انتہائی فرمانبرداری،نظم وضبط، پختگی اور مضبوطی سے
کرتے تھے۔انکے خبررساں اور خفیہ نویس اپنے مخالفین اور عوام میں عام آدمی کی طرح رہتے ہوئے معلومات فراہم کرتے تھے اور انکا عوام کے ساتھ ہمدردی،لگاؤ اور رشتہ مضبوط تھا۔ اس لیئے وہ مخبر ی کے معاملے میں بہت حساس تھے۔اس معاملے میں زمہ دار ریاست کی مانندمکمل معلومات اور ثبوت کے ساتھ ہی کسی مخبر کو جزا و سزا کے مراحل سے گزارتے تھے۔معمولی غلطی پر وارننگ دے کر چھوڑ دیتے تھے ان کی کوشش تھی کہ لوگ قابض کے کیمپ میں جانے کے بجائے انکی حمایت کریں۔جبکہ ELF اس معاملے میں بہت ہی لاپرواہی کا مظاھرہ کرتی تھی، انکی پالیسیاں عوام دشمن تھیں اور ڈسپلن ،نظم و ضبط کا وہاں فقدان تھا۔EPLF کو سیاسی اور ملٹری دونوں شعبہ ہائے جات پر مکمل عبو ر حاصل تھا اسکا اپنا ایک تربیتی سیریز General education for fighters تھا جہاں وہ بحث و مباحثہ کرتے تھے جس میں انکا اپنا الگ سلیبس تھا۔جس میں ایریڑیا کی تاریخ،ثقافت،قومی ہیروزکے بارے میں ٹاپک ہوتے تھے جس کا مقصد جہد کاروں کی تعلیم اور آگاہی تھی۔انقلابی حکمت عملی ،سیاست ،معیشت وغیرہ کے بارے میں مکمل شعور دیا جاتا تھا۔ان کی تربیتی کتاب کے آ خر میں درج تھا کہ ’’ ایک فوج بغیر قومی آزادی کی نظریہ کے عقل و دماغ کے بغیر انسان کی طرح ہے ۔ ایک فوج جس کے پاس ذ ہن و دماغ نہ ہو وہ کھبی دشمن کو شکست نہیں دے سکتا۔ ‘‘ EPLF کے کیڈٹ اسکول میں تمام بھرتی کیئے گیئے ممبران کو مکمل تعلیم دی جاتی تھی کہ وہ اپنے علم کے ذریعے ایریڑیا کی ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں۔ELM اور ELF کی خاش،بدنام اور سنگین غلطیوں نے جدوجہد کو جو نقصان دیا تھا ان سے سیکھتے ہوئے EPLF نے تربیت، تعلیم ،بحث و مباحثہ اور اصلاحات پر زور دیا تا کہ انکی تنظیم اور تحریک نقصان سے دوچار نہ ہوسکے۔انکے بحث اندرونی سطح پر ہوتے تھے ، EPLF کا سیاسی ونگ پیپلز پارٹی تھاجس کے رہنماEstifanos Bruno Afeworki نے ایک دفعہ کہا کہ پیپلز پارٹی ایک جمہوریEgalitarian پارٹی تھا ایک پلیٹ فارم جہاں سے EPLFکے کیڈر آسانی سے کسی بھی مسئلے پر بحث اور اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے تھے جہاں بحث میں بہت تلخی بھی ہوتی تھی اور یہ سلسلہ ہفتوں تک چلتا تھا اسی تلخی وسختی اور چیک اینڈ بیلنس نے انکے جہد کو کامیاب کیا انہوں نے مزید کہا کہ انکے کچھ طویل ا لمدتی اور کچھ مختصر المدتی پالیسیاں تھیں۔ELF کی لیبر پارٹی EPLF کی پیپلز پارٹی کے سامنے ماند پڑگیا اور اسکا مقابلہ نہ کرسکا ، اسکی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ELF کے جنگی فیلڈ کے ممبر بھی لیبر پارٹی کے ممبر تھے پھر دونوں میں کوئی فرق، نا پوشیدگی رہی جہاں تربیت کی کمی اور سیاسی عمل سے بیگانگی نےELF کے مرکزی لیڈر شپ اور کارکنان میں نظم و ضبط، یکسانیت اور ہم آہنگی ختم کردی، لیبر پارٹی کے زیادہ تر ممبر بھڑک بازی اور دکھاوے والے تھے اس کے برعکس پیپلز پارٹی اصولوں پر چلتا تھا بقول Dan Connell ’’پیپلز پارٹی کے اندر جو بھی اختلاف جنم لیتا اسے ایک دوسرے کے سامنے لایا جاتا تھا، وہ کارکن جو مسلح جہد کار تھے انہیں سیاسی محاذ سے الگ رکھا گیا اوران کو چھوٹے چھوٹے یونٹوں میں تشکیل دیا گیا اور انہیں خفیہ طور و طریقوں سے کنٹرول میں رکھا گیا ‘‘ ان کے ایک رہنما الامین محمد نے کہا تھا کہ ’’ یہاں ہر چیز کا فیصلہ صرف پارٹی کرتی تھی‘‘جبکہ بلوچ آزادی کی جنگ لڑنے والے عسکری تنظیموں نے شاز و نادر ہی کوئی ایسی منظم کوشش کی ہے کہ جہاں باقاعدگی ایسے لٹریچر کو شائع کیا جاتا کہ جن کا بنیادی مقصد ان جنگجووں کی زہنی و عسکری صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہو، ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی پمفلٹ آیا یا پھر کوئی بیان آیا مگر ان کا زیادہ تر مرکز عام لوگوں کو آزادی کی بارے بتانا تھا، لیکن آزادی کے لیئے شعور،قربانی کا جذبہ اور جنگی حربوں پر عبور حاصل کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں اور اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ جذبہ ہے اور کسی حد تک شعور بھی ہے مگر معیار کی شاید فقدان ہے اور اس طرف ابھی تک کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے
جب ا پنی عروج کے دوران EPLF کے پولیٹ بیورو کے ممبران کی تعداد دگنی ہوگئی تب پیپلزپارٹی کے سینڑل کمیٹی اور EPLF نے مل کر EPLF کی سینڑل کمیٹی کا چنا و کیا بعد میں دونوں نے مل کر EPLF کے پولیٹ بیورو کا انتخاب کیا۔ جس میں تمام کارکن اپنے راہنما ’’ ایسا یاس آفورکی‘‘ کو جوابدہ ہوتے تھے ، ہر ایک ممبر اپنے مہارت کے مطابق ذمہ داری سنبھالتاتھا جو جہاں زیادہ بہتر مہارت کے ساتھ کام کرتا اسے اسی مناسبت سے ذمہ داری دی جاتی تھی اسطرح و ہ ایک ہی وقت میں مشترکہ سیاسی اور فوجی کمانڈ کے تحت کام کرنے لگے جہاں پر فوجی محارت رکھنے والے آزمودہ تجربہ کار سیاست دان اور سیاسی حوالے سے واقف کار ماہر مسلح کمانڈرذمہ دار تھے ۔
EPLFپر ایریٹریا کے لوگ زیادہ اعتبار کرتے تھے اور انکی اخلاقی اتھارٹی پر سوال کم اٹھتے تھے جبکہ انکے برعکسELF کا تنظیمی ڈھانچہ بہت کمزور تھا۔شروع میں ELF کے ممبر حامد ادریس کے ساتھ بارہ ممبر تھے جنکے پاس دس بندوقیں تھیں۔لیکن جب کارکنا ن کی تعداد بڑھنے لگی حالات کو نہ سمجھتے ہوئے تنظیمی ڈھانچہ اور ڈسپلن کی فقدان کی وجہ سے ممبران پر لیڈرشپ کی پکڑ کمزور پڑنے لگی۔عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان تعصب کو ہوا دینا اور اپنے لوگوں کو تنگ کرنا وغیرہ کی وجہ سے 1970میں تنظیم سے منسلک مخلص اور بے داغ لوگوں کو مجبوراََ تنظیم کو توڑ کر EPLF کی بنیاد رکھنی پڑی ۔ EPLF نے آئیڈیل ازم کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنی جدوجہد کواپنے حالات کے عین مطابق چلانے کی کوشش کی۔EPLF میں زیادہ تر عیسائی اور ELF میں مسلمان تھے اور EPLF نے ELFکے جرائم اور جدوجہد کو غلط رخ پر لیجانے کے خلاف سخت ایکشن لیا اور 1972-74 اور 1981 میں دونوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ ایر یٹیر یا جیسا سماج جو جنگی حوالے سے مختلف نسلی گروپ میں بٹا ہوا تھا جن میں ٹگرینیا ،ٹیگرے، ساھو ، کونما ، ہیڈارب ، خنامہ ، نارا ، بیلن ، راشایدا اور افار شامل تھے ، انکی آبادی کی پچاس فیصد ٹیگرینیا، اکتیس فیصد ٹیگر ے تھے باقی کی سترہ فیصد مختلف چھوٹی بڑی نسلیں تھیں۔ EPLF کی سب سے بڑی دور اندیشی یہی تھی کہ وہ ان تمام نسلی و مذہبی گروہوں سے یکساں رویہ رکھتے تھے ، ایک محقق لیسی کے بقول ’’EPLF مختلف نسل ، علاقے ، قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک بڑے دائرے میں جمع کرنے کے ساتھ ساتھ انکے صلاحیتوں کو قابض کے خلاف استعمال کرنا جانتا تھا ، EPLF انکے آپسی جھگڑوں ، رنجشوں کو ختم کرکے انکا رخ قابض کی طرف کرنا چاہتا تھا ، انکا بنیادی اصول تھا کہ کسی سے بھی نسلی ، جنسی اور مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک نہ برتا جائے اور سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر رویہ اپنایا جاتا تھا ‘‘۔ EPLF نے ان گروہوں کے مابین شادی کے رجحانات کی بھی حوصلہ افزائی کی تاکہ ان گروہوں کے بیچ تعصب اور رسہ کشی کم ہو، آپسی شادی کا مقصد ہی قوم کی تعمیر تھی ۔اسی طرح ایک اور محقق لکھتے ہیں کہ ایتھوپیا نے بھرپور کوشش کی کہ اریٹیریا میں نسلی تعصب اور علاقہ پرستی کو ہوا دیکر انکی تحریک کمزور کی جائے ، اس میں ELF کی غلط پالیسیوں اور دانستہ یا غیر دانستہ غلط حکمت عملیاں قابض کے ایجنڈے کو تقویت دیتے تھے لیکن EPLF کے بروقت فیصلوں نے قابض کے ایجنڈے کو ناکام کرتے ہوئے فتح حاصل کی ‘‘۔ وہ نظم و ضبط کے بہت پابند تھے اور پارٹی کے اس اصولوں کے پابند رئے ۔ EPLF کے ایک علاقائی لیڈر نے اپنے ایک انٹریومیں کہا تھاکہ ’’ ہم زیادہ تر لوگوں کے فیصلے منصفانہ انداز میں کرتے تھے ، جس سے لوگوں میں EPLF کی ساکھ اور اس پر اعتبار بڑھتا گیا ، EPLF ایمانداری ، دیانتداری اور عدل و انصاف سے فیصلے کرتا تھا ‘‘ ۔ کتاب Third world colonialism and strategies of liberation میں لکھا ہے کہ’’ EPLF اپنے نظریات اور اصول کی وجہ سے اس سیاہ دور میں اپنے لوگوں کیلئے امید کی کرن بن گئی ، اس نے لوگوں کو یہ سکھایا کہ وہ تحریک کے ساتھ مخلص ہوجائیں۔ 1977 میں صومالیہ کے ساتھ تصادم میں روس نے اتھوپیا کی بہت زیادہ عسکری معاونت کی جو کہ قا بض نے پوری قوت کے ساتھ ایریٹیریا کے خلاف استعمال کی ، جس طرح آج پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر حاصل امداد کو بلوچوں کے خلاف استعمال کررہا ہے ۔ اس دور میں ایتھوپیا نے Red star compaign شروع کی او ر ایریٹیر یا کے جہد کاروں پر حملہ آور ہوا ، اسی اثناء میں ELF اور EPLF آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے لگے اور ELF کی پہلے سے لوگوں میں پوزیشن خراب تھی اور انکے فکری اور اصلاحات لانے والے لوگ انہیں چھوڑ کر EPLF میں جاچکے تھے ، ایک طرف ایتھوپیا کی طاقت اور دوسری طرف EPLF کے ساتھ تصادم میں ELF کیلئے یہ مشکل ہوگیا کہ وہ اپنے جہد کو مزید جاری رکھ سکیں کیونکہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ عوامی ہمدردی سے محروم ہوچکے تھے اسی لیئے انہیں بھاگ کر سوڈان جانا پڑا ۔1988 میں EPLF کی قابض کے ساتھ نکفا کی کی مشہور لڑائی ہوئی جسے محقق بیسل ڈیوڈسن ویت نام کی ڈین بین پھو سے تشبیہ دیتے ہیں ، اسکے بعد EPLF کی عوامی پذیرائی میں بے حد اضافہ ہوا اور وہ ایک قومی فوج کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ، اسکے بعد ایریٹیریا کے لوگوں نے کوشش کی کہ عالمی برادری کی توجہ انکی جدوجہد پر مبذول ہو اور وہ انکی مدد کریں ، اسکے بعد انہوں نے اپنی سفارتی کوششیں شروع کردیں ، EPLF کے ایک وفد نے اس وقت اقوام متحدہ میں امریکی سفیر جارج بش اول کو اقوام متحدہ کے کوریڈورز میں روکا اور کہا کہ ہماری مدد کریں تو بش نے ان کو جواب دیا کہ ’ ’ آپ لوگوں کو عالمی توجہ حاصل کرنے کے لیے افریقن انڈیا کی ضرورت ہے‘‘ یعنی ایسا ملک جو بنگلہ دیش کی آزادی کی طرع انکی حمایت کرسکیں اسی دوران انہیں آرگنائزیشن آف افریقین یونٹی کے سیکریٹری جنرل ڈیالو ٹیلی نے کہا کہ ’’ جب تک کہ آپ طاقتور نہیں ہوتے آپکو کوئی بھی نہیں سنے گا ‘‘۔ اس دوران علاقائی حالات تبدیلی ہوگئے اور ایریٹیریا کو امریکین حمایت مل گئی ، صومالیہ اور ایتھوپیا کے تعلقات خراب ہوئے اور صومالیہ نے سارے ایریٹیریا کے لوگوں کو پناہ دی ، صومالیہ نے انکی مکمل حمایت شروع کردی انہیں اپنے ملک کا پاسپورٹ تک دیا ، اسکے بعد اپنی آزادی تک ایریٹیریائی قیادت صومالیہ کا پاسپورٹ استعمال کرتے رہے ، جبکہ سوڈان نے بھی انکی تھوڑی بہت مدد کی لیکن جب سوڈان کے خلاف SPLM کی تحریک چلی تو سوڈان نے انہیں ایتھوپیا کے ساتھ ڈیل کے لیے گفت و شنید کے ذرائع کے طور پر استعمال کیا ۔ اسکے بعد پھر EPLF نے زیادہ تر زور امریکہ اور یورپ میں دیا تاکہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کریں ، EPLF نے بین الاقوامی سطح پر EPLF کے ماتحت پی پی کے سینٹرل کمانڈ کے لوگوں کو ذمہ داری دی کہ وہ بین الاقوامی سطح پر جدوجہد آزادی کیلئے رائے عامہ ہموار کریں اور ساتھ ہی ساتھ ای آر اے ، اریٹیرین ریلیف ایسوسیشن کے تحت ایریٹیریا میں امدادی اور انسانی ترقیاتی کام شروع کریں۔ای آر اے قابل اعتبار موثر تنظیم تھی ، وہ مقررہ وقت پر متاثرین کو ریلیف پہنچاتا تھا ،قحط اور جنگ میں لوگوں کی زیادہ تر مدد اسی تنظیم نے کی یہ انسانی ہمدردی کے بنیاد پر کام کرتی تھی ۔ انکے شفافیت کو دیکھ کر بہت سے عالمی اداروں نے انہیں عطیات مہیا کیئے ،(یہاں یہ بات واضح رہے کہ بلوچ سیاست کہ طفلانہ پن کی وجہ سے ابھی تک ہم مختلف زمہ داریوں کے درمیان خطِ تنسیخ نہیں کھینچ سکے ہمارے زہنوں یہ امر بہت زیادہ گھر کرچکی ہے کہ ہر چیز بندوق کی نوک اور نعروں کی بلند آواز سے ہی ممکن ہے،ہم ہر کام میں اپنی سیاسی یا عسکری مداخلت سے باز نہیں آتے جو کہ دشمن کے لیئے آسان ہدف پیدا کردیتا ہے ہم ابھی تک مندرجہ بالا مثالوں کے برعکس سماجی، معاشی اور دیگر ضروری کاموں اور عوام کوریلیف دینے والی کاموں کو اپنی سیاسی چھتری میں کوئی خاص جگہ مہیا نہیں کرسکے ہیں) اپنی آزادی اور خودمختاریت رکھنے کے باوجود یہ EPLF کا حصہ تھا ، امریکہ کی حکومت کی مخالفت کے باوجود ای آر اے امریکہ کے انسانی ہمدردی اور ترقی کے بنیاد پر امداد حاصل کرسکتے تھے ۔ ایتھوپیا میں بادشاہت کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی تو ایتھوپیائی تنظیم ای پی آر پی کے لوگوں نے EPLF سے تعلقات جوڑے اور مدد کی اپیل کی ، تو EPLF نے جواب دیا کہ ہم تمہاری مدد کرینگے لیکن ہمارا مسئلہ آزادی ہے بادشاہت نہیں ۔قابض کو کمزور کرنے کی خاطر EPLF نے انکی مدد کی اور ٹیگرے صوبے میں جاری تحریک کی اس شرط پر حمایت کی کہ وہ انکے علاقوں پر کوئی دعویٰ نہیں کرینگے ۔ PLF T نے بھی اپنے مسلح جنگ شروع کی توانہیں EPLF نے مکمل کمک کی ۔
ٹیگرے کے ایک مسلح جہد کار لیڈر نے کہا تھا کہ ’’ قومی مسئلہ کا حل صرف آزادی ہے ،اپنی آزادریاست تعمیر کرکے ، اپنی آزاد حکومت قائم کرکے ہی قومی مسئلہ حل ہوسکتا ہے ‘‘، حالانکہ ٹیگرے کے کھینچے ہوئے سرحد ایریٹیریا کو قبول نہیں تھے اور دونوں نے ملکر ان مسائل کا قابلِ قبول حل نکالا ۔ اس وقت دونوں کے بیچ بہت سے مسائل وجود رکھتے تھے ایک دفعہ ٹی پی ایل ایف PLF Tنے یہ الزام لگایا کہ EPLF کے لوگ ٹیگرے کے لوگوں کو کمتر سمجھتے ہیں جبکہ EPLF نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے انکا خود اعتمادی کا بحران ظاہر کیا لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود وہ قابض کے خلاف ایک ایجنڈے پر قائم رہے ۔ 1986 میں EPLF کے خفیہ پارٹی پیپلز پارٹی کا دوسرا کانگرس منعقد ہوا بحث مباحثہ اور حالات کا تجزیہ کرنے کیلئے انکی میٹنگ کئی ہفتے جاری رہی اور اجلاس میں سب اس رائے پر متفق ہوئے کہ ایتھوپیا کی فوج کمزوری اور زوال پذیری کی طرف جارہا ہے اس لیئے پی پی نے EPLF پر زور دیا کہ وہ فیلڈ کا صحیح استعمال کرے ۔ سیاسی پروپگینڈے کے ساتھ فوجی آپریشن کو ہم آہنگ کیا جائے اور اجلاس نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ای ایل ایف کے ساتھ بھی نزدیکی اور اتحاد کیلئے کوششیں کی جائیں تاکہ انکی قوت بھی دشمن کے خلاف استعمال ہو پھر ELFنے بھی اپنی غلطیاں مان کر اصلاحات کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ EPLF کی پالیسیاں اور حکمت عملی قومی آزادی کے حوالے سے بہتریں تھی ۔ دونوں نے اتحاد کو ضروری گردان کر بالآخر مختلف شرائط اور ضوابط کے تحت 1986 میں باقاعدہ اتحاد کا اعلان کردیا۔ 1987 میںEPLF کے سیکریٹری جنرل نے مغربی ممالک کا دورہ کیا اور دنیا کو یقین دلایا کہ قوم پرست تحریک نے ریڈیکل بائیں بازو سے ہٹ کر اعتدال پسندی کی راہ اپنالی ہے ۔ اب انکی تحریک بائیں بازو کے بجائے ایک اعتدال پسند تحریک ہے ۔ EPLFنے دنیا کو یقین دلایا کہ آزادی کے بعد ایریٹیریا میں ملٹی پارٹی سسٹم رائج ہوگا ۔ 1988 میں جمی کارٹر نے ثالثی کی پیشکش کی جسے EPLF نے قبول کرلیا ۔ EPLF نے امریکہ اور اقوام متحدہ ، عرب لیگ کو اپنے مذاکرات میں شامل کیا ۔ 1990 میں EPLFنے مساوا کے پورٹ پر قبضہ کرلیا جس سے ایتھوپیا کی نقل و حرکت بحر احمر سے کٹ گیا اسکے بعد آہستہ آہستہ پورا اریٹیریا آزادی پسندوں کے ہاتھ آگیا ۔عراق کویت جنگ کے بعد امریکہ کی کوشش تھی کہ خطے کے تنازعوں کو پر امن طور پر حل کریں ان تنازعات میں ایریٹیریا کا مسئلہ بھی شامل تھا ۔1990 میں امریکی نائب وزیر خارجہ نے حتی الامکان کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ ایتھوپیا نے کہا کہ وہ ایریٹیریا کو صرف اندرونی خودمختاری دے سکتے ہیں جبکہ ایریٹیریا کے لوگوں نے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا پھر ریفرینڈم پر بات ہوئی تو
PLFنے کہا کہ ریفرینڈم کیلئے ایتھوپیا کی فوج یہاں سے نکلے اور اقوام متحدہ کی فوج آجائے ۔ امریکہ نے بھی یہی موقف اختیار کی کہ ایریٹیریا کے لوگوں کو یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے قسمت کا فیصلہ خود کریں ۔ اسی دورانEPLF نے خو د کو ا یریٹیریا میں عبوری حکومت قرار دے دیا ۔ 1993 میں انہوں نے خود ہی ریفرنڈم کا انعقاد کیا تمام لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالا اس طرح وہ آزاد ہوگئے ۔ پھر ایک سال بعد ایریٹیریا اقوام متحدہ کا ممبر ملک بن گیا ۔
بلوچستان میں حالیہ تحریک باقی ماندہ تمام تحریکوں سے کافی مختلف ہے کیونکہ موجودہ تحریک محدود قبائلی دائرہ سے نکل پورے بلوچستان میں یکساں طور پر پھیل چکا ہے ، مرد خواتین ، بزرگ ، بچے سب اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔ بی ایل اے اس جدوجہد میں مادر آرگنائزیشن کی حیثیت رکھتی ہے ۔ایریٹیریا اور بلوچستان کے شروع اوقات میں کوئی فرق نہیں بلوچستان میں پہلی تنظیم بی ایل اے تھی جو ڈسپلن اور نظم وضبط کی پابند ہے اور قومی سوچ کو پروان چڑھانے کے نظریے پر کاربند تھی ۔ بی ایل اے واضح اصولوں پر چل کر عوامی حمایت کو مضبوط کرکے تحریک کو مستحکم کرنا چاہتا ہے جبکہ بی ایل ایف اور بی آر اے اور باقی تنظیموں میںELF کی طرح ڈسپلن اور نظم و ضبط کا فقدان ہے ۔ایتھوپیا نے جس طرح شروع میں ایریٹیریا میں مذہب ، زبان اور علاقے کے بنیاد پر لوگوں کو دست و گریبان کرکے اپنے قبضے کو طول دینے کی کوشش کی اسی طرح پاکستان بھی بلوچستان میں کبھی علاقائی تعصبات کو ہوا دیتا رہا ہے تو کبھی ذکری نمازی فساد کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی زبان کو مدعا بناکر بلوچوں میں کدورتیں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، آج کل تو ہمارے کچھ دانشوران بھی ارادی یا غیر ارادی طور پر لسانیت کو ہو ا دے رہے ہیں حالانکہ دنیا کا کوئی بھی ذی شعو ر شخص زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا لیکن جب تلوار گردن پر لٹکی ہوئی ہو تو پھر سر کو بچایا جاتا ہے ٹوپی کو نہیں ۔ فرانس جسکی اپنی کوئی زبان نہیں تھی بلکہ لاطینی زبان کے زیر اثر تھا جب ملک آزاد ہوا اقتدار اعلیٰ کے مالک عوام ہوئے تو انہوں نے اپنی زبان کو ترقی دی اور لاطینی کو چھوڑ کر فرنچ زبان پر زور دی ۔نورمن ڈیویز اپنی کتاب یورپ کی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ تین ادوار میں فرنچ زبان کی ترقی ممکن ہوی پہلے پرانی فرنچ،اس کے بعد درمیانی فرنچ او رآخر میں جدید فرنچ حاصل کی گئی ۔ ریاست نے زبان کے لیے الگ سے ادارہ Acad233mie fran231aise تشکیل دی تاکہ فرنچ زبان کو ترقی دی جاسکے۔ اس ادارے نے نئی گرامر اور الفاظ بنائے اور زبان میں سے لاطینی الفاظ کو آہستہ آہستہ نکال دیا بعد میں فرنچ پوری دنیا میں پھیل گئی کیونکہ ریاست کی طاقت انکے ساتھ تھی اس لیئے یہ ممکن ہوپایا اگر ریاست نا ہوتی تو آج فرنچ زبان بھی ایک جدید اور کامل صورت میں وجود نہیں رکھتا۔ ۔اریٹیریا نو لسانی گروہوں میں تقسیم تھی لیکن EPLF نے ان لسانی تفرقات کا خاتمہ کرکے انکو ایک قوم کے طور پر ابھارا ۔ لیکن ہم اتنی قربانیوں کے باوجود پھر واپس پارلیمانی دور کی طرف جارہے ہیں کبھی زبان ، کبھی فرقہ اور کبھی علاقے کو اپنے گروہی مفادات کیلئے استعمال کیا جارہا ہے قوم کو آگے کے بجائے پیچھے دھکیلا جارہا ہے لیکن دوسری طرف سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ سب کچھ تحریک کے فائدے کے لیے کر رہے ہیں ۔ کچھ بلوچ تنظیمیں وقتا بہ وقتا بلوچ اور پشتوں مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ دانستہ طور پر بلوچ قومی تحریک کی توجہ پاکستان سے ہٹا کر بلوچ اور پشتونوں کے درمیان ایک تنازع جنم دینا چاہتے ہیں ۔ایریٹیریا میں جس طرح ELFنے عوامی حمایت کو اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے نقصان پہنچایا جہاں انکے سرمچار بے لگام تھے نظم و ضبط کے پابند نہیں تھے اسی طرح بلوچستان خاص طور پر مکران میں بی ایل ایف اور بی آر اے عوامی حمایت کو شدیدنقصانات سے دوچار کررہے ہیں۔ ELFکی طرح تنظیمیں ڈسپلن سے مبرا ہوچکی ہیں ،بے گناہوں لوگوں کا بغیر تحقیق قتل ، معاشی عوامل کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کی و جہ سے عوام ان سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ ELF کا بھی رویہ اسی طرز کا تھا جس کی وجہ سے انکی اخلاقی اتھارٹی کو عام لوگوں کی طرف سے چیلنج کیا گیا تھا۔
اس تقابلی جائزے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ماضی کی کسی بھی تحریک کو آئیڈیلائز کرکے آنکھیں بند کرکے انکی روش اختیار کی جائے ، بلکہ آج اگر بلوچ سیاست اور اسٹیک ہولڈرز کے کردار پر باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ہمیں بہت ساری قدریں مشابہت رکھتی نظر آئینگی ۔ اس لیئے یہ ہمارے پاس ایک بہترین موقع ہے کہ خود کو اپنے وجود سے باہر کسی اور تحریک سے موازنہ کرکے دیکھیں۔آج بلوچ قومی تحریک اس نہج پر کھڑی ہے جہاں ایریٹیریائی تحریک ELF کے طاقت کے دور میں کھڑی تھی ۔ یعنی اس وقت بی ایل ایف اور بی آر اے بالخصوص مکران میں ایک معمولی قوت حاصل کرنے کے بعد خود کو نجات دہندہ ثابت کرنے کے بجائے وارلارڈز سی طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں ۔ بندوق کندھے پر سجائے اپنے زیر اثر علاقوں میں روب و دبدبہ قائم کرنے کی سعی ہو یا پھر ذاتی عناد اور معمولی چپقلش کے بنیاد پر بیگناہوں کا خون بہانایہ وہی وطیرہ ہے یہ وہی روش ہے جسے ELF نے اپنا یا ہوا تھا ۔ ذرا سوچیں پنجگور میں اصغر بلوچ کو شہید کیا جاتا ہے جسے بی آر پی قومی شہید قرار دیتی ہے لیکن کچھ دنوں بعد بی آراے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ ایک ہی قیادت کے تحت کام کرنے والے دو اداروں میں سے کس کے دعوے کو صیح مانا جائے شائد بلوچ محقق اس مسلے کو سلجھا سکیں لیکن اصغر بلوچ اگر بے گناہ تھا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا یا کس کو تنظیمی طور پر جوابدہ کرتے ہوئے سزادیا جائے گا؟
ایک دوسرا واقع بلیدہ میں پیش آتا ہے جہاں بی ایل ایف اکرم بلوچ کو نشانہ بناکر شہید کرتی ہے اور پھراسے غلطی قرار دیکراپنی تنظیم اورسرمچاروں کو بری الذمہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس واقع سے بھی بی ایل ایف کی قیادت اور ان کے سرمچاروں پر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ اول کہ کس طرح بی ایل ایف کسی بلوچ کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرتی ہے؟ کیا کوئی بھی سرمچار جب چاہیے کسی کی بھی جان لیے سکتا ہے؟ جس طرح بی ایل ایف نے بیان کی صورت میں اس ایک واقعے کو غلطی قرار دیا تو اس تناظر میں کیا بی ایل ایف نے کوئی تحقیق کی؟ اگر کی تو لاپروائی پر کسی سرمچار کو نااہل قرار دے کر اس کے خلاف تنظیمی کروائی کی گئی؟ اگر کسی سرمچار نے دانستہ طور پر ایک بے گناہ کو شہید کیا تب اس صورت میں کیا کسی سرمچارکی جرم کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سزا دی گئی یا پھر بی ایل ایف کی قیادت کے لیے یہ معاملہ ا تنی اہمیت نہیں رکھتا؟ بی ایل ایف اور بی آراے کی قیادت کے لیے شائد کسی بے گناہ بلوچ کا قتل ایک سنجیدہ مسلہ نہیں اسی لیے ایریٹیریا کی ELF کی طرح ان تنظیموں کی مورل اتھارٹی پر سوال اٹھ رہا ہے۔
آج بی ایل ایف اور بی آراے ایک معمولی سے طاقت پر نازاں ہیں ، یہ معمولی طاقت ابدی نہیں بلکہ یہ ایک گروہ سے دوسرے گروہ میں بدلتی رہتی ہے اصل طاقت و قوت عوام ہوتی ہے اگر عوام آپکے خلاف ہوجائیں تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا ۔ بی ایل ایف اور بی آر اے ، ای ایل ایف کی طرح جس درخت کی شاخ پر بیٹھے ہوئے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے سرکش سرمچاروں کی وجہ سے عوامی حمایت کو گزند پہنچا رہے ہیں ۔اگر انہوں نے اپنی روش نہیں بدلی تو انکی یہ طاقت یا تو پارلیمانی گروہوں کو بد قسمتی سے منتقل ہوجائے گی یا پھر ان کے بیچ موجود اچھے لوگ اٹھ کھڑے ہونگے ۔ جس طرح یہ اپنی قوت بلوچ عوام کے خلاف استعمال کررہے ہیں پھر قوم کی ہمدردی اور تعاون کیسے ان تنطیموں کے پاس ٹک سکتی ہے۔ حقیقی سرمچار اور جہد کار حق گوئی اور ذمہ داری کا فریضہ فراست اور حوصلے سے ادا کرتا ہے کیونکہ وہ عدل و انصاف پر مبنی فیصلہ کرتا ہے ۔ وہ اپنے عدل ، انصاف ، ایمانداری ، دیانت داری ، راسست بازی اور صداقت کی وجہ سے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہوتا ہے ۔ اسکے رسم و ریت اور عدالت میں سب برابر ہوتے ہیں ، جہد کار انصاف پر مبنی فیصلہ کرکے لوگوں میں اعلیٰ مقام پاتے ہیں اور لوگ قابض کے بجائے انکے سسٹم اور نظا م پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں انہیں آزادی پسندوں کے سسٹم اور ملک کیلئے پھرعام لوگ اپنا سب کچھ قربان کرنے پر راضی ہوتے ہیں ۔
جس طرح عدل و انصاف برابری کیلئے EPLF مشہور تھی اسی طرح بی ایل اے نے بھی بلوچستان میں عدل و انصاف سے کام لیا ہے ۔ بی ایل اے کے بولان کے جہدکاروں کے پاس 2005 میں مچھ کا ایک نوجوان آیا جو مری قبیلے کے ایک ذیلی شاخ سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس نے شکایت کی کہ انکے شاخ کا وڈیرہ خاندان اسے قتل کرنے کے درپے ہے انہوں نے اسی کے قبیلے کے ایک نوجوان کو پیسے بھی دیئے ہیں کہ وہ اسے قتل کردے ۔بی ایل اے نے پھر اس مسئلہ کی تفتیش شروع کردی جس شخص کو قتل کرنے کیلئے پیسے دیئے گئے تھے اسے بھی تفتیش کیلئے بلایا گیا اور اس سازش کے متعلق اس سے بازپرس کیا گیا ۔ بعد میں وڈیرہ خاندان کے نوجوان کو بلایا گیا اور سارا مدعا اسکے سامنے رکھا گیا اس نے صاف انکار کردیا اور دوسرے نوجوان پر الزام لگایا کہ وہ وڈیرہ خاندان کو بدنام کرنے کیلئے ایسا کررہا ہے لیکن تنطیم نے پھر اس کے سامنے ثبوت و گواہ پیش کیئے تو اس نے ا پنا جرم قبول کرلیا اور معافی مانگی جسکے بعد تنظیم نے اس پر جرمانہ عائد کیا اور جرمانہ کی رقم اس نوجوان کو دینے کو کہا اور اس سے معافی مانگنے کا بھی کہا لیکن اس پر اس نوجوان نے کہا کہ وہ وڈیرہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ اگر اس غریب سے معافی مانگے گا تو یہ اسکے خاندان کی بے عزتی ہوگی ۔ وہ بعد میں بی ایل اے کے کیمپ بلوچی میڑھ لیکر بھی آیا اور اپنے خاندان کے معتبروں کو بھی لایا کہ بی ایل اے جو بھی رقم کا مطالبہ کرے ہم دینگے لیکن اس شخص سے معافی نہیں مانگیں گے، تنظیم نے یہ تمام سفارشات اور لالچ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کے آگے سب بلوچ برابر ہیں کسی کو خاندانی برتری حاصل نہیں انہیں ہر حال میں اس غریب کے پاس معافی کیلئے جانا ہوگا ۔بی ایل اے میں EPLF کی نسبت بہت سی کمزوریاں ہیں، انھیں دور کرنے کی کوشش بھی ہونا چاہے لیکن بی ایل اے بلوچستان میں سرگرم باقیوں کی نسبت بہت زیادو ذمدارہے اور اپنے غلطیوں کو ماننے ، بہتری لانے کیلئے تیار نظر آتی ہے۔
دوسری طرف مکران میں بی ایل ایف اور بی آراے کی قانون اور پاکستان قانون میں کیا فرق ہے ؟ ان کی قانون قبضہ گیرریاست کی اندھی قانون سے بھی بد تر ہے یہاں فوجیوں کی طرح سرمچار وں کے رشتہ داروں کو استثنیٰ حاصل ہے اور عا م غریبوں کا جینا دو بھر کیا گیا ہے ۔ EPLF ان معاملات میں انتہائی سخت تھا انکا قبلہ دیانت داری تھی انہوں نے اپنے کئی ممبران کو جزا اور سزا کے مراحل سے گذارا اور حتیٰ کے دوکانوں میں بغیر پیسہ دیئے کوئی چیز بھی نہیں لیتے تھے تاکہ انکی اخلاقی اتھارٹی پر سوال اٹھ نہ سکے ، لیکن بلوچستان میں الٹی گنگا بہتی ہے ۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے عوام کے دل ودماغ جیتنا ضروری ہے جس دن جہد کار اس خوش فہمی میں مبتلا ہوا کہ وہ لوگوں کو ڈرا کر ایک آزاد ملک کی بنیاد رکھ سکتا ہے تو یہ ان کی نادانی وخام خیالی کا عروج ہو تا ہے ۔ ایریٹیریا کی تحریک دس سالوں تک نا عاقبت اندیشوں کے ہاتھوں بے راہ روی کا شکار رہا لیکن پھر آخر کار انکے زیرک ، عاقل ، فہمیدہ اور واقف کار لوگوں نے تحریک کو نیا رخ دے کر کامیابی کے راہ پر گامزن کردیا۔
کسی بھی مسئلے یا بحران کو حل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں، اول تو تصادم کی صورت جہاں فیصلہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ہوتا ہے ، دوم جہاں حقائق، مسائل اور قومی مفادات پر بحث ومباحثہ اور گفت و شنید کے ذریعے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس جدید دور میں ہمیں علم تک رسائی حاصل ہے جس کی وجہ سے ہمارے لیے آج یہ ممکن ہے کہ دوسرے قوموں کی تحریکِ آزادی اور ان کے تحریکی مسائل کو سمجھتے ہوئے اپنے مسائل کاحل تلاش کریں۔ ایریٹیریا کی تحریک میں ELF کی تنگ نظری، idealist policy، نسل،فرقے وغیرہ کے ذریعے قوی اجتماعیت کو نقصان دینے کے عمل نے پوری تحریک آزادی کو داو پر لگا دیا ، وہ مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے اسی لیے بحث ومباحثہ اور گفت و شنیدکے طریقے کو رد کیا گیا جس نے ایک تصادم کو جنم دیا۔آج بلوچستان میں بھی مسائل ہیں ، ان مسائل کی وجود سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے لیکن یہ دیکھا جارہا ہے کہ جو تنظیمیں قومی تحریک میں مسائل کا سبب ہیں وہ ان مسائل کے حل کے بجائے قلم کی اس آواز کو دبانا چاہتے ہیں، در حقیقت یہی قلم ہی ان مسائل کوتصادم کی شکل اختیار کرنے سے روک رہی ہے کیوں کہ کوئی ذی شعورشخص یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تحریک ان کے سامنے نقصان سے دوچار ہو۔ ELF ایک عرصے تک اپنی غلطیوں سے انکاری رہا ، اس نے تصادم کو جنم دیا ، اپنی تحریک کو نقصان پہنچایا اور اس کے بعد مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اگر وہ ان مسائل کو ابتدا ہی میں سنجیدگی سے سلجھاتے تو ایریٹیرین قوم اور ان کی تحریک کا وقت ضائع نہ ہوتا۔
تاحال بلوچستان میں یہ مسلح تنظیمیں مسائل قبول کرنے سے ہی انکاری ہیں تو ان کا حل بھلا کیسے نکل سکتا ہے؟؟ قومی تحریک کو بہتر اور اس کو پھر سے مظبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان تمام عوامل کی نشاندہی کریں جو قومی تحریک کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کسی بھی تحریک کو بہتر کرنے کے لیے یاقوم و ملک کی پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے دلائل اور حقائق کی بنیاد پر بحث ، مباحثہ، تحریر اور تحقیق، بہتریں و موثر ذریعہ ہے۔ یورپ میں روشن خیالی کا دور ہمارے سامنے ہے کہ کیسے مائل بہ تعمیر تنقیدی رواج نے پورے یورپ کی ہیت ہی بدل دی ۔ روشن خیالی کے دور میں بحث کا بنیاد یہ رہا کہ ’’ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ہم کیا جانتے ہیں‘‘ اور اس مباحثے میں جان لاک ، جارج برکلے اور ڈیوڈ ہیوم سمیت بہت سے محقیقن اور نقادوں نے شرکت کی تاکہ اپنے، معاشی، سماجی، سیاسی اور فلفسیانہ مسائل پر کھل کر بحث کرکے صحیح حل ڈھونڈ نکالیں اور اپنے سرزمین سمیت دنیا کو بہتر کرسکیں بالآخر دوسو سال کی اس علمی جدوجہد نے دو ہزا سال سے تاریکی میں ڈوبی یورپ کی قسمت بدل دی ۔
ہمیں یہ ادراک ہے کہ ہمارے اندر اور ہم سے باہر یعنی دیگر تنظیموں و لوگوں کے درمیان کمزوریاں موجود ہیں اور اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو بحث و مباحثہ ہی واحد حل ہے کہ جہاں سے ہم اپنی ان کوتاہیوں کو اپنے اندر سے نکال کر پھر دوسرے لوگوں یا تنظیموں کے لیئے ایک بنیاد فراہم کرسکتے ہیں، ہم بحث کرتے ہیں مگر عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے لوگ قدامت پسند رویوں پر اتر آتے ہیں اور انکی صبر کا پیمانہ بہت ہی جلد لبریز ہوجاتا ہے اور اکثر یہ بھی محسوس کیا گیا ہے کہ ہمارے دوست آپسی مباحثوں کچھ سوال، مشورے یا اختلافی نقاط سامنے رکھتے ہیں
تو وہ ان تمام نقطوں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ایک وجود کی طرح اس سوال یا مشورے سے جوڑ لیتے ہیں کہ یہ میرا سوال تھا یا یہ میرااختلافی نکتہ تھا لہذا اگر اس نکتے کو مسترد کیا جائے یا مدلل انداز میں اسے رد کرکے اسے غلاط ثابت کیا جائے تو ہمارے لوگوں کے احساسات مجروح ہوجاتے ہیں جو کہ ایک صحتمند عمل ہرگز نہیں ہے بلکہ ہمیں کچھ ایسے اصول وضع کرنے چاہیءں کہ جن کو بنیاد بنا کر ہم ایک صحتمند بحث کی ماحول پیدا کرسکیں اسکے لیئے سب سے لازمی شرط ہے کہ دوران مباحثہ تمام شامل لوگوں کو اپنے دل و دماغ کھلے رکھنے کے ساتھ اپنا سینہ بھی چوڑا کرنا چاہیے، اسکے علاوہ کچھ اصول ہیں مثلا بحث کرنے سے پہلے اس بات پہ سب کو متفق ہونا چاہیے کہ جس مسئلے پر بات کی جائیگی وہ مسئلہ وجود رکھتا ہے، یہ بھی لازمی ہے کہ بحث کے لیئے کوئی موزوں معیار متعین ہوں اور کسی بھی مباحثے میں شامل لوگوں کی تعداد کم ہونی چاہیئے تاکہ بات ایک دوسرے کی سمجھ میں باآسانی آسکے زیادہ سے زیادہ 5لوگ ایک وقت ایک مسئلے پر مباحثہ کریں ، یا تو کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جائے کہ مباحثے کے دوران چاہے 100لوگ بیٹھے ہوں مگر ایک وقت میں صرف پانچ افراد اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے اور اس دوران باقی لوگ خاموشی سے سنتے ہوئے اپنی باری کا انتظار کریں گے اور بحث کرنے والے لوگوں کی تمام اختلافی و اتفاقی نقاط کو اپنے پاس تحریر کریں گے تاکہ پھر آسانی سے اپنا نقطہ نظر بیان کرسکیں۔
بی ایل ایف اور بی آر اے میں آج بھی بہت سے اچھے لوگ ہیں انفرادی حوالے سے انکی پالیسیاں بھی بہتر ہیں لیکن تنظیم پر انکا اثر اور گرفت نہیں اسلئے وہ بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ ان تمام حالات سے نکلنے کیلئے مسلح تنظیموں کو چاہئے اپنے ممبران میں نظم و ضبط اور پابندی لائیں ، انکے غلط کاموں پر انکی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہیں سزا دیں ، عوامی حمایت کو بحال کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں ، گروہیت اور انفرادیت جیسے بیماریوں سے نجات حاصل کریں ۔ اپنی اپنی دکان کھولنے اور سیاست چمکانے کے بجائے بلوچستان کی آزادی کیلئے مشترکہ طور پر کام کریں ۔اگر یہ انفرادیت اور گروہیت کو نہ روکا گیا تو پھر بلوچستان میں تامل اور باقی ماندہ ناکامیاب تحر یکوں کی طرح المیہ جنم لے سکتا ہے ۔ارادی یا غیر ارادی طور پر زیادہ تر تنظیموں میں قابض کے بھیجے ہوئے لوگ بھی اریٹیریا کی طرح بلوچستان میں بھی قابض کے ایجنڈے کے تحت علاقہ پرستی ، نمازی ، ذکری ، براہوی ، بلوچی ، مکرانی جھالاوانی وغیرہ کا نعرہ اور سلوگن کے تحت کام کررہے ہیں ۔ شہروں کو بھی تقسیم کیا ہو اہے ۔ غلطیاں آزادی کی تحریکوں میں ضرور ہوتی ہیں لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بی ایل ایف اور بی آر اے اپنے غلطیوں کو ماننے پر راضی تک نہیں اور مسلسل وہی سنگین غلطیاں دہرا رہے ہیں۔جس طرح کہا جاتا ہے کہ جہد کار مچھلی اور عوام پانی ہوتا ہے آج بی ایل ایف اور بی آر اے اپنے غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس پانی کو ہی زھر آلود کررہے ہیں جس میں وہ سانس لے رہے ہیں۔ اگر ان تنظیموں کو بہتری لانی ہے تو پھر انہیں اپنے پالیسیاں بدل کر قومی مفادات کے عین مطابق بنانا چاہئے اور تنظیموں کے اندر جرائم پیشہ اور بے قابو لوگوں کو نکالتے ہوئے باقی ماندہ لوگو ں کو قواعد کے تحت منظم کرنا چاہئے ، ELF نے اصلاح کو مسترد کردیا تو وہ خود بھی تاریخ میں مسترد ہوگیا ، اس سے بی ایل ایف اور بی آر اے کو سبق سیکھ کر اپنے اوپر ہونے والے تنقید کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اصلاح کی کوششوں کو خوش آمدید کرنا چاہئے ۔
بلوچستان میں بھی اب تمام مسلح تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو ایریٹیریا کی تحریک سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں صحیح ترتیب دینی ہونگی خاص کر مکران میں بے لگام سرمچاروں کو نظم و ضبط کا پابند کرنے کے لیے سب سے پہلے جرائم پیشہ اور بے قابو لوگوں کو تنظیموں سے نہ صرف نکالنا ہوگا بلکہ سزا جزا کے لیئے انکا محاسبہ کرنا ہوگا اور اپنے رویئے تبدیل کرتے ہوئے کیسی بھی جدوجہد کے لیے عوامی حمایت کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ اگر یہ تنظیمیں اپنی مندرجہ بالا غلطیوں کو درست کرتی ہیں اور اپنے مثالی کردار سے بلوچ عوام کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تب ہی تحریک کے تمام تنظیمیں ایک حقیقی قومی یکجہتی کی جانب بڑھ سکیں گے۔ وہ تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں پر کھل کر بحث و مباحثہ کریں اور[ قوم کو اپنے اعمال کیلئے جوابدہ ہوں ۔ اگر تمام مسلح اور سیاسی پارٹیاں اپنے ذاتی و گروہی مفادات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قومی مفادات کی خاطر یکجا ہوئے تو ہماری قوت مشترکہ طور پر قابض کے خلاف استعمال ہوگی ۔
گوکہ ایریٹیریا کے آزادی کے تحریک میں EPLFکا بہت بڑا کردار تھا لیکن آزادی کے بعد کی تاریخ پر ہم نظر دوڑاتیں ہیں تو ہمیں انکا کردار اشاندار نہیں بلکہ مایوس کن نظر آتا ہے ، آج ایریٹریاکے حالات دوسرے افریقی ملکوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ اظہارِ رائے اور صحافت کیلئے بھی ایریٹیریا آزاد نہیں ہے ، اسکی وجوہات جاننا بھی ہمارے لیئے اٹل ہیں کیونکہ آزادی کی تحریک کا مقصد صرف نقشہ پر لکیریں کھینچ کر نیا ملک بنانا نہیں بلکہ اپنے قوم کو حقیقی آزادی اور خوشحالی دینا بھی ہوتا ہے، ایریٹیریا آزادی کے بعد اپنی قوم کو تر قی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں صرف اس لیئے ناکام ہوا کیونکہ بعد از آزادی ان کا کوئی واضح معاشی ، معاشرتی اور سیاسی روڈ میپ نہیں تھا آج وہاں جمہوریت کے بجائے آمریت ہے اور اس کی معاشی و سماجی ترقی دنیا میں کم ترین ممالک کے سطح پر ہے جس کا خمیازہ وہاں لوگ بھگت رہے ہیں۔ یہ صورتحال دوسرے ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جہاں پر تحریک کو اس کی منظقی انجام تک پہچانے والے رہنما جمہوریت لانے کے بجائے اقتدار پر براجمان رہے ۔ انہی عوامل کو دیکھ کر ہی بلوچ قومی تحریک میں پہلی بار بلوچستان لبریشن چارٹر کی صورت میں عوام کے ساتھ ایک کمٹمنٹ کیا گیا بعد از آزادی ایک کلیئر روڈ میپ دیا گیا تاکہ کل کو جب ہم اپنی آزاد حیثیت حاصل کرتے ہیں تو عوام حقیقی تبدیلی ، حقیقی آزادی اور حقیقی خوشحالی سے فیضیاب ہوسکیں، بلوچستان لبریشن چارٹر دینے والے لوگ یہ دعوہ بھی نہیں کرتے کہ یہ کوئی آسمانی صحیفہ ہے اور بدل نہیں سکتا بلکہ انہوں نے سب کو دعوت بھی دی تھی کہ آو مل کر اسے ایک حتمی شکل دیں مگر انا پرستی اور بدنیتی آڑے آگئی اور ستم ظریفی یہ کہ کوئی دوسرا ابھی تک کوئی ایسا واضح روڑ میپ نہیں دے سکا کہ جسے دیکھ کر کوئی یہ اندازہ لگا سکے بلوچوں کا آنے والے کل کے لیئے کس طرح کی واضح پروگرام موجود ہے،یہ ایک ایسی کمٹنٹ ہے جو کسی عام آدمی کو آج سے واشگاف الفاظ کہہ رہا ہے کہ تمھارے آج کے بہنے والے خون اور پسینہ پر بننے والی ملک کا تم ہی مالک ہوگے نہ کہ کوئی غیر؟
اگر بلوچ قومی تحریک میں نیک نیتی اور قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے گروہیت ، پارٹی بازی ، نمود و نمائش ، علاقہ پرستی ، ذاتی اور گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلح تنظیموں میں بدنظمی ، بے انتظامی ، نظم و ضبط کی کمی کو قابو میں کرتے ہوئے قومی مقاصد کے ایجنڈے کے حصول کیلئے تمام آزادی پسندوں کو یکجا کرتے ہوئے قابض کے خلاف اپنی مجموعی قوت استعمال کریں پھر نہ قابض کی دہشت اور ظلم جہد کاروں کو متذلزل کرسکتی ہے اور نا ہی تشدد اور دھمکیاں انہیں قومی جہد اور پروگرام سے دور کرسکتی ہے بلکہ بلوچ قومی جدوجہد بھی بین الاقوامی حالات اور علاقائی حالات سے بھر پور فائدہ اٹھا کر کامیاب ہوجائیگی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز