ہمگام رپورٹ
یکم جنوری 2022 سے لیکر 10 فروری 2023 تک بی ایل اے کی جانب سے 50 سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے، جن کے نتیجے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ و فوج کے افسران، اہلکار و کارندوں اور ڈیتھ سکواڈ کے ایجنٹوں پر مشتمل 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اس بابت ہمگام ادارے نے مقبوضہ بلوچستان میں گزشتہ سال کی مسلح کارروائیوں کے متعلق تحقیق کیا۔ اس حوالے سے قومی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی اپنی تنظیمی نظم و ضبط اور رازداری کو برقرار رکھنے پر دیگر تمام تنظیموں سے منفرد اور نمایا رہی۔ گزشتہ سال بی ایل اے کے تمام حملے کامیاب رہے اور کاہان آپریشن سے قطع نظر پورے سال میں تنظیم کی طرف جانی و مالی نقصان کی شرح صفر رہا۔
بی ایل اے نے اپنے حملوں اور سپیشل ٹارگٹڈ آپریشنز میں متعدد اہم اہداف حاصل کیے۔ بی ایل اے کے سرمچاروں کے ہاتھوں مارے گئے متعدد فوجی اہلکاروں و پاکستانی جاسوسوں کے علاوہ ایف سی، انٹیلیجنس، سی ٹی ڈی و دیگر اداروں سے جڑے وہ افسران بھی شامل تھے جو گزشتہ کہیں سالوں سے تنظیم کے نشانے پر تھے۔
بلخصوص خاران میں قابض ریاست کا اہم مُہرہ سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی اور ڈیتھ سکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل کے دستِ راست شیخ سلیم، جیونی میں ملٹری انٹیلیجنس کا کارندہ خاص نصیر مانسہرہ والا جبکہ 30 ستمبر کو کوہلو میں سرمچاروں کے ہاتھوں مارے گئے دو ایف سی افسران سمیت ایم آئی کے تین افسروں کی ہلاکت مذکورہ علاقوں میں قابض کے فوجی اثر ورسوخ کو کنٹرول کرنے میں سنگ میل ثابت ہوئے۔
اس کے علاوہ رواں سال کے جنوری اور فروری کے مہینوں میں اہم ترین حملے بھی قومی تنظیم بی ایل اے کی جانب سے قبول کیے گئے۔
خاص کرکے 20 جنوری کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے بی ایل اے کے سرمچاروں نے پاکستانی فوجیوں کو کوئٹہ سے پنجاب اور پشاور کینٹ جانے والی جعفر ایکسپریس کو بولان کے علاقے مشکاف میں پنیر سٹیشن کے قریب ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں انجن سمیت ٹرین کی 15 بوگیاں پٹری سے اُتر گئیں۔ ترجمان آزاد بلوچ کے مطابق ہمارے سرمچاروں نے انٹیلیجنس بیسڈ معلومات پر ٹرین کی تیسری بوگی کو اس وقت نشانہ بنایا جب جعفر ایکسپریس کی پہلی 5 بوگیوں میں فرنٹیئر کور (ایف سی) اور پاکستانی فوج کے متعدد اہلکار سفر کررہے تھے۔ حملے کے نتیجے میں 10 اہلکار ہلاک اور 25 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔
رواں ماہ کے 3 تاریخ کو قومی تنظیم بی ایل اے نے گوادر کے علاقے جیوانی میں پاکستانی کوسٹ گارڈ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کم از کم 6 اہلکار ہلاک دو زخمی ہوئے۔
جبکہ گزشتہ دنوں کوہلو کے علاقے باریلی میں بی ایل اے نے پاکستانی فورسز کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے دو افسران (میجر جواد اور کیپٹن صغیر) سمیت 9 اہلکار ہلاک ہوگئے۔
ان تمام اہم اہداف کے علاوہ قومی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے نوشکی، خاران، کوئٹہ، کوہلو، کیچ، گوادر، بولان سمیت مقبوضہ بلوچستان کے تمام علاقوں میں متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کیے۔
ماڈرن وارفیئر کے تقاضوں پر اُترنے کیلئے گزشتہ سال قومی تنظیم بی ایل اے کے جنگی ڈاکٹرائن اور تنظیمی نظم و ضبط میں سائنسی بنیادوں پر کہیں مثبت پیش رفت نظر آئے، خاص کر کہ کاہان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں ایرانی ڈرون طیاروں کے اچانک استعمال میں 8 سرمچاروں کی شہادت کے بعد کیمپ و علاقہ مکمل طور پر محاصرے میں رہنے کے باوجود بی ایل اے کے جنگجووں نے اپنی بہترین حربی صلاحیتوں سے قریب ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ایک پوری فوج کے گھیراو اور فضائی حصار کے اندر ہوتے ہوئے نا صرف تنظیمی اساسوں اور ساتھیوں کو مزید نقصان سے بچایا گیا بلکہ موثر دفاعی حکمت عملی کے تحت پاکستانی فوج کو پسپا کردیا۔
*سال 2022 میں بی ایل اے کی جانب سے قبول کیے گئے حملوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہیں:*
گزشتہ سال 2022 اور رواں سال کے پہلے دو مہینوں میں بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ کی جانب سے کل 55 سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کیے گئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں قابض کے 70 سے زائد کارندے ہلاک ہوئے جبکہ 30 سے زائد زخمی ہوئے۔
اس دوران بی ایل اے کے کیمپ پر بڑے پیمانے پر 2 فوجی آپریشن ہوئے، پہلے آپریشن میں بی ایل اے نے دشمن کو شکست دیا جبکہ دوسرے آپریشن میں ڈرون طیارے استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں بی ایل اے کے 8 سرمچار شہید ہوگئے۔
*گزشتہ سال بی ایل اے کی کاروائیوں میں سب سے زیادہ کس طرز کے حملے شامل تھے*
قومی تنظیم بی ایل اے کی جانب سے گھات لگا کر کیے گئے 20 سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ اس کے علاوہ استحصالی منصوبوں پر 10, 4 جاسوس ٹاورز اڑائے گئے، 6 ٹارگٹڈ آپریشنز کیے گئے، 3 جوابی حملے کیے گئے، 2 حملوں میں BM-12 میزائل استعمال کیے گئے، 3 گرینیڈ حملے کیے گئے، اور 10 سے زائد حملوں میں دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
*بی ایل اے کے ہاتھوں مارے گئے اور زخمی ہونے والے افراد کون تھے؟*
بی ایل اے کے ہاتھوں مارے گئے افراد میں کم از کم 40 سے زائد فوجی اہلکار، 5 ڈیتھ سکواڈ کے کارندے، 3 خفیہ اداروں کے جاسوس، 3 ایم آئی افسران، 4 ایف سی افسران (بشمول میجر اور کیپٹن)، 1 سی ٹی ڈی افسر، 3 ایف ڈبلیو او اہلکار اور ایک پاکستانی کٹھ پتلی چیف جسٹس شامل تھے۔
اس کے علاوہ زخمی افراد میں کم از کم 30 سے زائد فوجی اہلکار تھے جن میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔