بلوچستان میں پاکستان نے 1948میں دھوکہ فریب اور طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کیا اور اس قبضہ کے خلاف آغاعبدلکریم ،نے آزادی کا مقدس نعرہ بلند کرتے ہوئے مسلع جدجہد کیا اس کے بعد یکے تحریکات چلے ،نواب نوروز خان ،اور 74کی مسلع جدوجہد بھی ہوئے پاکستان نے طاقت اور سازش کے بل بوتے پر ان تحریکات کو دبانے کی کوشش کی لیکن 1999میں بلوچ سیاہ دور اور غلامی کی گہری نیندسے سو رے تھے کہ جنھیں حیربیار مری نے ایک نئی طریقہ سے اکسویں صدی کے عین جدوجہد کے تقاضوں کے مطابق نئی جہد کی بنیاد ڈال کر جگایا اور اس جہد نے پاکستانی قبضہ کی دیواریں ہلانا شروع کیا ۔بلوچ قومی جہد کی باز گشت پوری دنیا میں سنایا گیا اور اس جہد نے پورے بلوچستان میں لوگوں کو متاثر کیا ،سارے بلوچستان میں لوگ ایک ہی آواز میں قبضہ گیریت کے خلاف صف بند ہوگئے اور قابض کی فوج جو مکران اور نوشکی دالبندن سے کالین قمبل اور قیمتی سامان پنجاب بیجتا تھا وہاں انھیں پوسٹ کے لیے خود کشیاں کرنی پڑی اور یہ جدوجہد تامل کے بعد دنیا کی قومی جہد میں تھرڑ پوزیشن لے چکا تھا اور دنیا بھی بلوچ قومی کاز سے آشنا ہوا اور لوگوں کی ہمدردیاں مکمل قومی جہدکاروں کے ساتھ تھی ،بلوچ دوچ کے نام بھی سرمچاروں کے نام پر ہونے لگے اور مائیں اور بنئیں اپنی بھائیوں اور بیٹوں کی لاشین بلوچی سوت اور نازینک کے ساتھ خود قبر میں دفنانے لگے ماں اپنے بچوں کی شہادت پر ناز کرتے تھے ،سرمچاری ایک طرف سے فخر کی نشانی بن چکی تھی لیکن پھر آچانک کیا ہوا کہ وہ ہمدردی کم ہوا اور لوگوں کا اعتماد پر نہ رہا ،ان سب کا ذمدار کون تھا یہ وہ سوال ہیں جو ہر جہدکار کو خود اور اپنے پارٹیوں اور تنظیموں کے باقی ممبران سے پوچنا چایئے ،کیونکہ یہ ایک مسملہ حقیقت ہے کہ یہ بلوچ قوم کی آخری جنگ ہے اور اس جنگ میں وقت کی بڈی اہمیت ہے اور بلوچ قوم کا مقابلہ وقت اور قابض دونوں کے ساتھ ہے اور اگر مقرارا وقت پر قوم نے کچھ نہیں کیا تو بلوچ وجود شناخت اور کلچر تاریخ ملیا میٹ ہوکر تاریخ کے عجائب گھروں میں آنے والے نسلوں کو ملے گی مگر زمین پر اسکا نام و نشان ہی نہیں ہوگا اس چلینج کا مقابلہ اور اپنی کمزوریوں کا ادراک کرتے ہوئے ایک نئی طاقت اور قوت بنانے کے لیے آزادی پسندوں کو ایک صف میں ہونا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ فکری نظریاتی ،کمنٹمنٹ ،ایمانداری میں مظبوط جہدکاروں کو ایک صف میں ہوکر ایک مشترکہ نئی قوت تشکیل دینا ہوگا وہ قوت قوم کی اعتماد کی بحالی کا کام سرانجام دیکر قومی حمایت سے دشمن کے خلاف ایک طاقت کے طور پر اندرونی اور بیرونی سطع پر ابھر کر سامنے آجائے تب جاکر بلوچ قوم اس بربریت اور پاکستانی مظالم سے چٹکارہ پاہ سکتا ہے اگر تمام آزادی پسند آصولی اور دیرپا اتحاد ڈسپلین کے تحت نہیں کریں گے اسی طرح علیحدہ علیحدہ طور پر چھوٹے چھوٹے گروپ میں کام کرکے اپنی الگ الگ دوکانوں کو بند نہیں کریں گے اور ایک مشترکہ ڈسپلین کے تحت کام پر راضی نہیں ہونگے تو یہ رجہاں مزید نیچے چلتے ہوئے قومیت سے گروئیت اور گروئیت سے پھر انفرادی وجودیت کی طرف منتقل ہوگا اور اسکے اثار بھی دیکھائی دینے لگے ہیں اور بلوچ تحریک قومی سفر سے انفرادیت کی طرف مائل ہوتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے اور یہ طرز جدوجہد قومی آفت انگیزری سے بھی زیادہ خطرناک شکل اختیار کرے گا ۔اور ہماری اجتماعی نفسیات بھی اسی طرح ہے کہ کوئی فرد الگ سے کسی بھی ڈسپلین سے ہٹ کر کوئی بھی کام کرے اور اپنی الگ سے دوکان کی مشہوری کے لیے اشتہار بازی کرتے ہوئے خود کو انفرادی حوالے متعارف کروانے کی کوشش کرے تو ہم اسے منڈیلا ،گاندھی،لیلی خالد ،سارتر،سمیت کیا سے کیا لقب دینے لگتے ہیں اور پھر وائی لوگ کسی بھی ادارے اور قوم کو جوابدہ ہونے کے بجائے الٹا قوم کے خلاف کام کرنے لگتے ہیں اور اجتماعی قومی مفادات کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ،انکی مثالیں آج بھی ہیں منیر مینگل ،ملک سراج، وحید بلوچ اب نصیر بلوچ ،نائلہ قادری اور بہت سے لوگ الگ سے اپنی دوکانداری کے لیے قومی جہد کا نام لیکر اشتیار بازیاں کررے ہیں کیا یہ لوگ حیربیار مری ،بی این ایم ،بی ار پی کے ساتھ کام کررے ہیں انکے ادروں کو جوابدہ ہیں ،حالانکہ ان اداروں میں موجود لوگ جو بھی کام کررے ہیں کمزوری کوتائیاں اپنی جگہ کسی نہ کسی جگہ جوابدہ تو ہیں لیکن میرا سوال انفرادیت پسند لوگوں سے ہے کہ یہ انفرادی حوالے سے اپنی پروجیکشن کرنے والے کل کو اپنی غلط یا صیع عمل کے لیے کس کو جوابدہ ہیں اور یہ رجہانات گروہیت اور پارٹی بازی کی وجہ سے مزید بڈھتا جائے گا دنیا میں جہان بھی جس تحریک میں اس طرح کے حالات ہوئے وہاں ان رجہانات نے تحریکوں کے لیے مشکلات پیداکی اور وہ جدجہد ناکامیاب ہوگئے ہیں اور بقول سنگت حیربیار مری کسی بھی جدوجہد کی کامیابی کا دار ومدار اسکی جوابدہی اور سخت ڈسپلین پر ہے جس طرح ملک بغیر قانوں کے نہیں چلتے ہیں اور وہ banana republic کی طرح ہوتے ہیں جہاں جنگل کا قانوں ہوتا ہے اسی طرح جب قومیں غلام ہیں تو انکی قانوں انکا سخت ڈسپلین ہوا کرتا ہے اور اس ڈسپلین کے تحت چلتے ہوئے جدجہد بھی اپنی منزل مقصود تک پنچ جاتے ہیں،کوئی بھی ادرہ صرف آئین اور چند افراد کے نام دینے سے ادرہ نہیں بن سکتا ہے ملک اگر آزاد ہے تو قانوں کی حکمرانی سے اگر آزاد نہیں ہے تو ڈسپلین سے وہ ادرہ مظبوط اور منظم ہوسکتا ہے جس طرح پاکستان ہے جسکا آئین تو کمال کا ہے مگر عملی طور پر وہاں کوئی جمال دیکھائی نہیں دیتا ہے برطانیہ کا تحریر کردہ کوئی آئین نہیں ہے لیکن عملی طور پر قانوں کی حکمرانی سے وہ بہترین اور مثالی جموری ممالک میں شمار ہوتا ہے مقصد سب سے ہم چیز قانوں اور ڈسپلین ہوتا ہے جہاں ڈسپلین ہے وہ ادرے مظبوط اور منظم ہوکر اپنے ہداف کو ضرور حاصل کرسکتے ہیں جہاں ڈسپلین نہیں ہے وہاں الفاظ کے لکھنے سے اچھے سے اچھا آئین بھی پاکستان صومالیہ اور برما کی طرح زوال پزیر اور تنزل کا شکار ہوسکتا ہے اس لئے بلوچ قومی تحریک کو کامیاب کروانے کے لیے گروہ پرستی اور انفرادیت پرستی کی روکاتھام کرتے ہوئے تمام آزادی پسند یکجہتی کرتے ہوئے نئے سرئے سے سخت ڈسپلین کے تحت ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر کر اندرونی اور بیرونی طور پر قومی ادارہ کے سامنے جوابدہ ہوتے ہوئے اسی کے مطابق کام کرکے جدوجہد کو منظم کریں اور انفرادی دوکانداری کی اشتیار بازی اور گروئیت پرستی اور شوشا بازی کی سیاست سے نکل کر حقیقی جدجہد اور مشن کی کامیابی کے لیے کام کریں کیونکہ بلوچ قوم کا مقابلہ چین ،پاکستان ،ایران اور وقت کے ساتھ ہے اور اس کے لیے بلوچوں کو بھی مزید دنیا میں دوستوں اور ہمدردوں کو تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر کوئی نئی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی تب جاکر بلوچ قوم اس چلینج کا صیح طور پر مقابلہ کرسکتا ہے