ہمگام کالم : اسے ہم جہالت کہیں یا قومی بے حسی، بدقسمتی کہیں یا لا پروائی، لیکن بلوچ قومی سیاست میں جتنے بھی رہنما گُزرے ہیں یا اِس وقت دستیاب ہیں سب کے سب بے لوث، بے داغ ، بے عیب و بے گناہ نکلے ہیں۔ کوئی کسی پارلیمانی پارٹی کا ہیرو ہے، تو کوئی قبائلی رہنما یا مذہبی پیشوا ہے یا کوئی آزادی پسند لیڈر ، کوئی ادبی مینار ہے تو کوئی سماجی مدرٹریسا، اگر کوئی جاہل، غدار، قوم دشمن و بدمعاش ہے، ڈاکو چور لٹیرا ہے اور قابل_سزا و احتساب ہے تو وہ بلوچ قوم ہے۔ جی ہاں آج تک تمام بُرائی و بدکاریاں، کمزوری و غلطیاں صرف اور صرف قوم ہی سے سرزد ہوتی رہی ہیں، وگرنہ ہمارے سیاسی، ادبی و سماجی لیڈر صاحبان بلکل فرشتوں سے کم نہیں۔ مجھے وہ حیرت انگیز دن آج بھی یاد ہے جب نواب خیر بخش مری پاکستان آرمی کے ایک جہاز کے ذریعے افغانستان سے اسلام آباد تشریف لائے، بقول نواب مری وہ سمجھتے تھے کہ اُنکا اس طرح افغانستان سے خالی ہاتھ واپس لوٹنے پر بلوچ قوم انڈوں اور سڑے ہوئے گندھے ٹماٹروں کیساتھ اُنکا استقبال کریگی، لیکن اُن کو ادھورے مشن کے ساتھ لوٹنے کے بعد بھی پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ اسی طرح سردار عطااللہ خان خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے لندن سے واپس ہوئے تو اُنکی بھی جے جے کار ہوئی، خیر اِن دونوں قدآور سیاسی و قبائلی شخصیات کو اِس لیئے بلوچ قوم سے کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا کہ سّتر کی دہائی میں مری مینگل قبائل اور اُنکے چند رشتے داروں کے علاوہ کوئی بھی بلوچ بھٹو حکومت اور فوج کے خلاف لڑائی میں شامل نہ تھا اِس لیئے اُنکے خلاف قومی حوالے سے کسی بھی احتسابی عمل کا جواز نہ بنتا تھا۔ اُسکے بعد بی ایس او سے فارغ التحصیل متوسط طبقے کی ایک قیادت ابھر کر سامنے آگئی جو بیس برس سے خونی انقلاب اور جنگ_آزادی کے نعرے بلند کرتے ہوئے سیاسی گراؤنڈ پر چھا گئے اور بلوچ قوم کو شعور دیئے بغیر جذباتی انداز میں کیش کرنے کے در پے تھے۔ بلوچ قوم جاہل ہی سہی مگر قومی آزادی کے نعرے کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی۔ چونکہ نواب مری اور سردار مینگل اپنی واپسی کے بعد خاموشی اختیار کیے بیٹھے تھے، اِسی لیئے ڈاکٹر حئی اینڈ کمپنی نے موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بی این وائی ایم نامی تنظیم کی بنیاد ڈال دی۔ چونکہ یہی گروپ پچھلے بیس سال سے آزادی کی فلک شگاف نعروں کے ساتھ میدان_کارزار میں موجود ہوتے ہوئے وزارتوں کے لیئے بے چین تھے، اِسی لیئے اِنکو بی این وائی ایم کے پلیٹ فارم کے ذریعے قومی آزادی کی سیاست کو پارلیمانی سیاست کی طرف موڑنے کے لیئے ایک نایاب موقعہ ہاتھ آگیا جسے وہ کسی طرح ضائع ہونے نہ دینا چاہتے تھے۔ لیکن متوسط طبقے کے کچھ اور شاطر کھلاڑی رازق ، جالب ، کہورخان کی شکل میں میدان میں اُتر گئے اور انکی راہ روکنے کی کوشش کرنے لگے۔ اتنے میں متوسط بلکہ غریب طبقے کی نماہندگی کے نام پر ایک اور تنظیم پی وائی ایم کے نام سے متعارف کرائی گئی۔ جس سے نوجوان قیادت اور خصوصاََ بی ایس او میں محاذ آرائی اور تصادم کی ایک لہر اُٹھی، کالجوں کے ہاسٹل تقسیم ہونے لگے، قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جن میں بی این وائی ایم رہنما فدا احمد اور اسلم بلوچ اپنوں کی گولیوں کے شکار ہو گئے۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں خوف اور بے اطمینانی کے بادل منڈلانے لگے۔ بڑی تعداد میں طلباء و طالبات پڑھائی سے محروم رہ گئے۔ درس و تدریس خوف کی علامت بن گئی،؟نفرتیں عروج تک پہنچ گئیں۔ بی این وائی ایم کے مڈل کلاس لیڈروں کو ایک بار پھر نواب و سرداروں کی ضرورت پڑ گئی ۔ اِس لیئے وہ اپنی تنظیم کی بنیاد ڈالنے سے پہلے اُس وقت بی ایس او کے اپنے گروپ کے چئیرمین ڈاکٹر یاسین کے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے نواب مری اور سردار مینگل کی رضا کے بغیر اُنکی حمایت حاصل ہونے کا اظہار کیا جو بی این وائی ایم کے قیام کے بعد سردار اختر مینگل کی شمولیت پر منتج ہوا اور 1988 میں خونی انقلاب اور آزادی کے متوالے آزاد بلوچستان کی بجائے پاکستان اور اس کی آئین سے وفاداری کا حلف اُٹھا کر مقبوضہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن بن گئے،؟کوئی قیامت نہیں آئی ہم سب ہنسی خوشی نئی قیادت کی توصیف و تعریف میں مگن رہے۔ نقصان تو جاہل، غدار اور ایجنٹ قوم نے اُٹھائے۔ پڑھائی و تعلیم بھی یہی جاہل اور ناسمجھ قوم کے بچوں کی متاثر ہوئی، خونی انقلاب اور آزادی کے پرچم بھی یہی ناسمجھ قوم نے اُٹھائے اور متوسط طبقے کو وزارتوں پر براجمان کرنے اور ووٹ دینے کے قطار میں بھی یہی غدار اور جاہل بلوچ دکھائی دینے لگے، لیکن اُس وقت غداری و وفاداری کے معیار کچھ اور تھے۔ ڈاکٹر مالک ، اخترمینگل ، شہید بالاچ مری ، حیر بیار مری اور بہت سے نئے پرانے آزادی کے نعرے لگانے والے لیڈروں کو ووٹ دینا غداری کے زمرے میں نہیں آتا تھا بلکہ پی پی، مسلم لیگ اور کسی مُلا کو ووٹ دینا غداری سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی ووٹ دینے کے قطار میں جو بلوچ دکھائی دیتے ہیں یہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں بلکہ وہی بے بس و مجبور بلوچ ہیں جو کبھی آزادی پسند رہنماؤں کیلئے پولنگ کے لائنوں میں کھڑے دکھائی دیا کرتے تھے، مگر بلوچ وہ بد نصیب قوم ہے جسے اپنے لیڈوروں کا احتساب کرنے کے بجائے لیڈروں کے احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہی بد نصیب قوم ہے جو اپنے لیڈروں کی گالیاں سہہ سہہ کر اُنکے ساتھ چلنے کیلئے پھر بھی تیار ہوتی ہے۔ یہ وہی بدقسمت قوم ہے جو روز روز دشمن اور دوستوں کے ہاتھوں اپنے غدار ایجنٹ اور مخبر بچوں کی لاشیں اُٹھاتی رہی ہے۔ اِس قوم نے آج تک کسی ایک لیڈر کا گریباں پکڑ کر اُن سے اپنے جانی و مالی نقصانات کا حساب نہیں مانگا ۔ مگر ہر دور میں اپنے لیڈروں کی گالیاں ضرور سنی ہیں اب تو ماشااللہ نئے لیڈر کمانڈروں کی گولیاں بھی سر و سینوں میں پیوست ہوتی جا رہی ہیں۔مگر لیڈر اپنے اپنے دور میں شاہ و سلطان کی طرح کسی کے جوابدہ نہیں، اگر کوئی ان لیڈروں سے حساب مانگے یا سوال اُٹھانے کی گستاخی کرے تو مجرم و غدار ٹہرا کر قتل کیا جائیگا یا الزامات کی دیوار میں چُن لیا جائیگا۔ آخر اِس قوم کیلئے وہ دن کب آئیگا جب عدالت اِس قوم کی ہوگی اور سزا و جزا کیلئے لیڈر پیش ہونگے کیونکہ تمام لیڈر، نواب، سردار، کماندار اور واکدار اسی قوم کے دم پر قائم ہیں، سبھی اسی قوم کی پیداوار ہیں۔ قوم اِنکی تابعدار نہیں اور نہ ہی کوئی لیڈر و اختیار دار قوم کی تنقید و احتساب سے مبرا و بالا تر ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایک ایک سیاسی، عسکری، سماجی و ادبی رہنما کو عوامی کٹہرے میں لاکر ایک ایک خطا و گناہ کا حساب لیا جائے۔۔ بغیر احتساب تو ایک گھر چلانا بھی ممکن نہیں، تو ایک تحریک جس میں ایک قوم کی اجتماعی ذیست و مرگ شامل ہو بغیر حساب کتاب کے کیسے چل سکتی ہے؟ کچھ دوست نما نادانوں نے بلوچ قومی تحریک میں پاکستانی فوج کے فکر و فلسفے کو اپنا کر تحریک کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ ایسے لوگوں کو قومی تحریک میں مزید بے لگام چھوڑنا نا صرف تحریک کیلئے نقصاندہ ہے بلکہ ایسے لوگوں کو مزید بے لگام چھوڑ کر کھلی چھوٹ و آزادی دینا شہدا کے لہو سے غداری کے مرتکب ہوگا۔ پاکستانی فوج پچھلے سّتر سالوں سے اپنے بیانیے کے مطابق نامنہاد شہیدوں کے خون اور قربانی کے نام پر پاکستان کے صدر، وزراء ، وزیراعظم، عدلیہ اور میڈیا سمیت جسکو بھی چاہے غدار ٹہراتی ہے۔ لیکن سرحدوں کی حفاظت اور قربانیوں کے نام پر اپنے ہر ظلم و جبر اور قانون و آئین شکنی کو جائز و حلال قرار دیتی ہے۔ کیا بلوچ قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ اسکے پانچ چھ سو جنگجو آزادی کی جنگ کے نام پر ہر بدی و برائی کی راہ اپنا کر من مانی کریں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو؟ کیا بلوچ مسلح تنظیمیں، خواہ کوئی بھی ہو ( بی ایل اے، بی آر اے، بی ایل ایف، یو بی اے یا ایل بی )کو ایسے جرائم و ظلم و جبر کی چھوٹ ملنی چاییے ؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو مسلح تنظیموں میں شامل جرائم پیشہ افراد ، منشیات فروش، قومی قاتل اور تنظیم شکن عناصر کو محض شہدا کے لہو اور قربانیوں کے نام پر چھوڑنا جائز ہے یا اُنکے خلاف آواز اُٹھانا جرم ہے؟ کوئی جاہل و احمق ہی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک میں مسلح جدو جہد دم توڑنے کےقریب پہنچ چکی ہے۔ سن دو ہزار سے جاری مزاحمتی تحریک میں جنگ کی جو شِدّت مکران میں دکھائی دے رہی تھی اسکی عشر_عشیر یہاں پر باقی نہیں رہی، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس جنگی جنون کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؟ کیا وہی مکران جہاں فوج کے قافلے کو دن کے وقت چلنے میں قدم قدم پر خوف و دِقت طاری تھی وہاں کی تنگ و تاریک گلیوں میں رات کے وقت دو دو فوجی گشت کرتے ہوئے کوئی خوف کیوں محسوس نہیں کرتے؟ اگر اب بھی اِس سوال کے جواب میں آپ کہیں کہ غداروں کی وجہ سے یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ نے ابھی تک اپنی ہٹ دھرمی، بیوقوفی، نالائقی و حماقت سے کچھ نہیں سیکھا کیونکہ آپ کی جیت اور پزیرائی عوامی تائید و حمایت سے وابسطہ ہے۔ اگر قوم آپ کے ساتھ ہوتی تو آج بھی آپ مکران سمیت بلوچستان کے ہر کونے میں 2006 ۔ 2007 کی پوزیشن پر ہوتے۔ مگر آپ یہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ آپ کی شاہانہ سوچ اور بچگانہ حرکتوں نے قومی حمایت آپ سے چین لی ہے وگرنہ یہ فوج تو آج بھی بلوچ کیلئے نفرت کی علامت ہے۔ کس بھی غیرت مند بلوچ کو اس فوج کے ساتھ ہمدردی نہیں یہ تو پاکستانی فوج کو بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ بلوچ قوم اُس سے شدید نفرت کرتی ہے مگر آپ کے اندر باہر ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے آپ کو اپنوں سے الجھا کر قومی حمایت سے محروم کر دیا ہے۔ کسی بھی تنظیم کو مورد_الزام ٹہرانا درست عمل نہیں لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ بی ایل ایف میں موجود چند افراد کی ناعاقبت اندیشانہ حکمت عملیوں اور سماج دشمن رویوں سے بلوچ قومی تحریک کو ناقابل_تلافی نقصان پہنچا ہے۔ بی ایل اے کی دو بار تقسیم کے عمل میں بی ایل ایف قیادت خود کو بے قصور ثابت نہیں کر سکتی۔ بی ایل اے کے زیر تفتیش اور تنظیمی فریم ورک کو کراس کرنے والے منحرف و بے لگام کمانڈر بشیر زیب اور بی آر اے سے بیدخل و منحرف کمانڈر گلزار امام کیساتھ اتحاد کابڈھونگ اور بی آر اے کی تقسیم میں بی ایل ایف کی قیادت براہ راست ملوث ہے کیونکہ کسی تنظیم کے زیر تفتیش یا منحرف شخص کے ساتھ اتحاد یا انضمام تنظیمی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کےمترادف ہے۔ ووٹ و الیکشن میں حصہ لینے والے لوگ ہوں یا سرکاری ملازم پیشہ افراد، فوج کے سوا سرکاری اداروں کیلئے ٹرانسپورٹ یا محنت مشقت کرنے والے لوگ ہوں یا اسکول ہسپتال کے تعمیراتی کاموں کے ٹھیکدار کس طرح غدار یا قومی مجرم ہو سکتے ہیں۔اگر ایک ووٹ کاسٹ کرنے والا یا ورک کرنے والا شخص قومی مجرم ہو سکتا ہے تو ایران کیلئے مخبری کرنا، مخبر کے نام پر اپنےلوگوں کو قتل کرنا اپنے سپاہیوں کو منشیات لوٹنے کیلئے مروانا تو اس سے کئی زیادہ قومی مجرم کے زمرے میں آتا ہے۔ قومی قوت کو یکجا کرکے دشمن سے مقابلے کی باتیں بلکل قومی امنگوں کے مطابق اور وقت و حالات کے متقاضی ہیں مگر کیا کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ کونسی قومی قوت کی بات ہو رہی ہے اگر قومی قوت سے مطلب مسلح تنظیموں کا اتحاد ہے تو ماشااللہ برائے نام پر سب سے متحرک و سب سے بہادر ترین اتحاد قائم ہے جس میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لیکر میجر و جنرل تک موجود ہیں۔ جو نواب و سرداروں کے سائے سے بھی دُور ہیں۔ جو قبائلی ذہنیت سے بھی آزاد ہیں پھر سے کسی سردار زادہ نواب زادہ جنگی منافع خور کو شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر قومی قوت سے مراد بلوچ قوم کو پھر سے تحریک کے طرف لیجانے کیلئے متحد کرنا یا قومی حمایت حاصل کرنا ہے تو وہ لاکھوں پارلیمان پرست غداروں ، ایجنٹوں اور جنگ سے خوفزدہ بلوچوں کی کیا ضرورت ہے۔ جب فیسبُک میں دشمن کو شکست دینے کیلئے ایماندار و وفادار بلوچوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔۔ لیکن اگر واقعی آپ نے تسلیم کرلیا ہے کہ آپ کی زیادہ تر سیاسی پالیسیاں اور جنگی حکمت عملیاں غلط اور نقصان دہ تھیں اور فی الحال ہیں تو اِس سے بڑھ کر کوئی بڑی بات نہیں، اِس سے بہتر کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ لیکن بات پھر وہاں جاکر رُکتی ہے کہ آپ ایک ایسا قومی ادارہ تشکیل دینے میں راضی ہیں جس میں کوئی پارلیمانی لیڈر، قبائلی شخصیت اور پاکستان نواز دانشور نہیں بلکہ آپ کے آزادی پسند سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل ہے جو آپ سب کا محاسبہ کر سکے۔ اور اگر کسی پر کوئی بھی قومی خیانت اور تحریک دشمن الزام ثابت ہو تواس کو مان کر معافی مانگ لینگے۔۔ اگر آپ سابقہ تمام ظلم ، جرم اور قوم دشمن و تحریک دشمن خطاؤں کو ماننے کیلئے تیار رہینگے تو اس قوم کو قائل کرنے کا ایک اور موقع مل سکتا ہے۔ مگر آپ اپنی تمام تر غلطیوں اور حکمت عملیوں کو جاری رکھتے ہوئے کوئی قومی قوت و قومی اتحاد کا منافقانہ نعرہ لگاتے ہو تو سمجھ لینا کہ بلوچ قوم سب کچھ بھول سکتی ہے مگر اپنے شہید بچوں کا خون نہیں بھول سکتی چاہے وہ خون دشمن نے گرایا ہے چاہے کسی اپنے نے، آپ کی تمام خطاہوں کی بخشش ممکن ہے لیکن بے گناہ بلوچوں کا خون صرف اُسی صورت میں معاف ہو سکتا ہے اگر آپ نے جرم مان کر مقررہ قومی ادارے کے سامنے معافی مانگ لی۔ کیونکہ بلوچ قومی تحریک میں پاکستانی آرمی کی سوچ والا بیانیہ اب کسی کو بھی قبول نہیں اب شہدا کے لہو اور قربانیوں کے نام پر بڑے سے بڑے بلنڈرز اپنی جگہ چھوٹی سی خطا بھی معاف نہیں ہو سکتی۔ قومی قوت صرف قوم کے پاس ہے، کسی پارٹی، تنظیم اور شخص کے پاس نہیں قومی قوت کو یکجا کرنے کیلئے قومی حمایت درکار ہے، اور قومی حمایت پھر سے حاصل کرنے کیلئے قومی اعتماد و بھروسے کی بحالی اولین شرط ہے ۔ قوم کو بہت زیادہ مایوس کیا گیا ہے قومی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے جسکی بحالی کیلئے وقت درکار ہے اور وقت کو سمیٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔ اسکے لیئے عسکری تنظیموں سے پہلے آزادی پسند سیاسی تنظیموں کآ اتحاد ضروری ہے اور سیاسی اتحاد قائم ہونے کے بعد عسکری تنظیموں کو سیاسی قیادت کا پابند بنانا ضروری ہے۔ سیاست یا قلم آگے آگے چلیں اور عسکریت و بندوق پیچھے پیچھے رہے تو تب جا کر ایک منظم و متحد اور طاقتور قومی قوت بن سکتی ہے۔ جس میں آئین و قانون کی بالادستی اور نظم و ضبط اور اصولوں کی پابندی ضروری ہوگی۔ اللہ ہم سب کو اتحاد و اتفاق اور عدل و انصاف کا پابند بنا دے آمین