میرغوث بخش بزنجو نے اپنے دور میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا ،کہ پاکستان کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں ان کے ساتھ اقتصادی وجوہات کے بنا پر بلوچستان کو ان کے ساتھ شمولیت اختیار کرنا چاہئے۔جبکہ ہماری سرزمین قدرتی وسائل سے مالامال ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہمارے بغیر کیا ہوگا؟
پاکستانی پنجابی اکثر بلوچستان کے صحراؤں اور پہاڑوں کو بڑی مکاری سے اقتصادی بوجھ کے طور پر پیش کرتا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان نہ صرف ہر لحاظ سے خود کفیل و امیر وطن ہے بلکہ درحقیقت پنجابیوں کے قابض پاکستانی ریاست کو مسلسل وسائل فراہم کرتا چلا آرہا ہے۔
ایسے معدنی دولت سے مال دار خطے کو “اقتصادی بوجھ اور پسماندہ کہنا نہ صرف نوآبادیاتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مقبوضہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کو اسلام آباد راولپنڈی (GHQ)پنجاب کے سول اسٹیبلشمنٹ کی نہ صرف ضروریات کو پورا کرتا رہا ہے بلکہ پنجاب کی لوگوں کے روزمرہ ضروریات زندگی کو بھی پورا کرتا آ رہا ہے۔
قابض پاکستانی ریاست دنیا کے سب سے معیاری گیس استعمال کرنے والے ممالک کی شمار میں ہوتا ہیں۔ اس اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد سے زیادہ توانائی ضروریات بلوچستان کے گیس سے پورا ہوتا آرہا ہے اور یہ گیس بلوچستان سے ہوکر 1000 کلو میٹر دور پنچاب کی ضروریات کو 1952 سے پورا کرتا آ رہا ہے۔
کوئی بجا طور پر پوچھ سکتا ہے کہ اس وسائل سے بلوچ قوم نے خود کیا حاصل کیا ہے؟
بلوچستان کی اس قدرتی وسائل کی بے دریغ استعمال سے بلوچ بچوں کی تعلیم ،صحت غریب اور پسماندگی واضح طور پر دنیا کے سامنے واضع ہیں.یہاں زندگی کا معیار اب بھی نہایت ہی پسماندہ ہے اور جدید زندگی کی آسائشوں اور نعمتوں کا شدید فقدان ہے۔یہ دیکھ کر افسوس ہوتا کہ بلوچ قوم آج بھی اپنے قومی وسائل سے فیض یاب ہونے والوں میں شامل نہیں۔
آج بھی بلوچ کے ہر بچے کے زبان پر یہ بات زبان زد عام ہے کہ وسائل کا بے رحمانہ استحصال کیا جارہا ہے اور بدلے میں بلوچستان میں ترقی تو صرف قبرستانوں کی حد تک محدود ہے۔
اسی طرح ملٹی بلین ڈالر گولڈ کاپر سیندک کا منصوبہ ہے جس نے آج تک بلوچستان کو ایک پرائمری اسکول بھی نہیں دے سکا البتہ چین اور پاکستان کے مابین فوجی طاقت اور ضروریات کو ضرور قوت بخشی ہے۔ جیسے کہ 1993 میں پاکستان اور چین کے مابین M-9 اور M-11 میزائلوں کی فروخت کے لیے پاکستان نے چین کو معدنیات سے مالا مال علاقہ(سیاھین ڈک) سیندک کو 20 سال کے لئے چین کو بلوچ کی مرضی کے خلاف لیز پر دے دیا بلوچ وسائل کے فروخت کے بدلے چین نے 84 میزائل پاکستانی فوج کو دیے دیئے۔
گوادر کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں البتہ پاکستانی ریاست گوادر کی عکس کشی اس طرح پیش کرتا رہا ہے کہ جیسے وہ گوادر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گی۔شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ گوادر دھرنے میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ جمع ہوکر دودھ اور شہد کے اس نہر پر ٹوٹ پڑے لیکن بدقسمتی سے دودھ اور شہد دور کی بات ہے گوادر کے مقامی رہائیشیوں کو پینے کا صاف پانی بھی حاصل نہ ہو سکا۔ اور ان کے ہاتھ سے نان شبینہ بھی چھین لیا گیا۔البتہ یہ دودھ اور شہد کی نہریں شاید بلوچ کے لئے نہیں پنجابی و چینی آبادکاروں کے لئے بنائے جارہے ہیں۔
یوں بھی ہو سکتا ہے بقول بلوچ بزرگ رہنما شہید نواب اکبر خان بگٹی بلوچ کے “اگرچہ حکومت نے مقامی لوگوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن غیر ہنر مند مزدور بھی دوسرے علاقوں سے لائے گئے اورماڑہ نیول بیس میں مشکل سے آپ کو بلوچ نظر آئیں گے”
سوئی اور سیندک کے اربوں ڈالرز کے بلوچ وسائل کے ریاستی استعمال کے باوجود یہ جاننا ضروری ہے کہ کیوں بلوچوں کا شمار دنیا کے غریب اور معاشی طور پر سب سے کم ترقی یافتہ قوموں میں ہوتا ہیں۔
اس وقت بلوچستان نہ صرف انتہا درجے کی غربت اور پسماندگی کا تصویر پیش کر رہی ہے۔بلکہ سماجی اور اقتصادی حوالے سے بدترین حالات پیش کر رہا ہے۔
2015 اور 2016 کے حکومتی اعدادوشمار کا وائٹ پیپر جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ پچھلے پندرہ سالوں میں بلوچستان کا مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)4 فیصد پر رہا جس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے پندرہ سالوں میں بلوچستان کو اقتصادی طور پر ترقی نہیں کر پایا اور ایسے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں بسنے والی دوسرے اقوام پشتون، سندھی ہزارہ کمیونٹی اور پنجابی مقامی بلوچ سے دگنا سماجی اور اقتصادی طور پر ترقی کرچکے ہیں۔
واضح رہے کہ 2000 سے پہلے بلوچستان میں ریاستی آمدنی 4.5 فیصد پر تھی جو کہ 2000 میں گرکر 4 فصید پر آگئی تھی اور تاحال یہ برقرار ہے۔
مجموعی ریاستی پیداوار جی ڈی پی کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 2000-11 کی دہائی کے دوران ترقی کی شرح 2.8 فیصد سے بھی کم تھی جس کا مطلب ہے کہ بلوچستان کی مجموعی سماجی و معاشی ترقی پاکستان کے دوسرے علاقوں سے 60 فصید سے بھی کم ہیں۔
اب حالیہ ریکوڈک منصوبے کے ایک اعداد وشمار کے مطابق جس کی مالیت 260 بلین امریکی ڈالر ہے کی نیلامی اور بلوچ عوام کو اپنے ہی ملکیت سے بے خبر رکھنا ہزاروں شکوک و شبہات پیدا کرچکا ہے اب ایک طرف حکومت نااہل ٹولہ اور دوسری جانب بلوچ سیاسی کارکن ،دانشور صحافی طبقہ ریکوڈک بارے حکومتی در پردہ اجلاس کے متعلق بہت سے شکوک و شبہات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ریکوڈک بھی سوئی اور سیندک کی طرح فروخت تو نہیں ہوا؟
کہی ایسا تو نہیں کہ پنجاب ایک بار پھر نام نہاد ”قومی مفاد“ کا سہارا لے کر مکاریوں چالاکیوں سے عوام الناس کو بیوقوف بنانے کیلئے ڈرامے رچاکے بلوچ قومی قیمتی اثاثہ کو ان کے مرضی کے خلاف نیلام کردیا گیا۔
تو یقین مانوں ایسا ہی ہے بس فرق صرف اتنا ہے پہلے فیصلہ اسلام آباد میں ہو جاتے تھے اور اب بلوچستان میں پنجاب حمایت یافتہ قدوس بزنجو و جام کمال جیسے حکومتوں کے زریعئے ایسا کیا جارہاہے۔
لیکن اب وہاں فیصلہ ہو چکا ہیں فرق صرف یہ ہے 18ویں ترمیم کی آڑ میں یہ فیصلہ خانہ پوری کے لئے بلوچستان میں درپردہ زیر بحث لایا گیا ہے تاکہ عوام کو یہ بتایا جاسکے کہ فیصلہ بلوچ کے نام نہاد پارلیمنٹ کی رضامندی سے کیا گیا۔ہم سب یہ بخوبی جانتے ہے کہ اس پارلیمنٹ کی حیثیت ربڑ اسٹیمپ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔